أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلٰى عَبۡدِهِ الۡكِتٰبَ وَلَمۡ يَجۡعَلْ لَّهٗ عِوَجًا ؕ‏ ۞

ترجمہ:

تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے اپنے عبد (مکرم) پر الکتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی

تفسیر:

سورة الکھف مکی ہے اور اس کی ایک سو دس آیتیں ہیں اور اس کے بارہ رکوع ہیں 

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جس نے اپنے عبد (مکرم) پر الکتاب نازل فرمائی اور اس میں کوئی کجی نہیں رکھی۔ (الکھف : ١)

سورۃ بنی اسرائیل اور سورة الکھف کا ارتباط 

اس سے پہلی سورت بنی اسرائیل کو لفظ ” سبحان “ سے شروع فرمایا تھا اور اس سورت کو الحمد للہ سے شروع فرمایا ہے کیونکہ قرآن مجید اور احادیث میں سبحان اللہ کا لفظ الحمد للہ پر مقدم ہوتا ہے۔ نیز سبحان کا معنی ہے اللہ تعالیٰ نا مناسب صفات سے منزہ اور خالی ہے اور الحمد للہ کا معنی ہے کہ اللہ تعالیٰ تمام صفات کمالیہ سے متصف ہے۔ اس لئے دونوں لفظوں کا معنی ہے اللہ تعالیٰ ان تمام صفات سے منزہ اور خالی ہے جو اس کی شان کے لائق نہیں ہیں اور ان تمام صفات کمال سے متصف ہے جو اس کی شان کے لائق ہیں۔

اس کے بعد فرمایا : اس نے اپنے عبد مکرم پر الکتاب نازل فرمائی ہے۔ اس سے پہلے سورت میں واقعہ معراج کا ذکر فرمایا ہے اور واقعہ معراج سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اپنی ذات میں کمال حاصل ہوا، اور اس سورت میں آپ پر الکتاب نازل فرمانے کا ذکر فرمایا اور کتاب آپ پر اس لئے نازل فرمائی کہ آپ دوسروں کو کامل کریں اور ارواح بشریہ جو حیوانوں کی پستی میں گری ہوئی تھیں، انہیں اٹھا کر فرشتوں کی بلندی کی طرف لے جائیں۔ پس سورة بنی اسرائیل رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اپنے کامل ہونے پر دلالت کرتی ہے اور سورة الکھف آپ کے کامل گر ہونے پر دلالت کرتی ہے۔

سورة بنی اسرائیل میں یہ دلالت ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو نیچے سے اوپر لے گیا اور اس سورت میں یہ ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ پر کتاب نازل فرمائی اور اس کا معنی یہ ہے کہ اوپر سے نور وحی کو آپ پر نیچے کی طرف نازل فرمایا۔

معراج کے منافع صرف آپ کے لئے تھے کیونکہ فرمایا لنریہ من ایتنا (بنی اسرائیل :1) تاکہ ہم آپ کو اپنی نشانیاں (الکھف : ٢) تاکہ وہ عبدمکرم اللہ کی طرف سے عذاب شدید سے ڈرائیں، اور جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے، ان کو یہ بشارت دیں کہ ان کے لئے بہترین اجر ہے اور منافع کی ثانی الذکر قسم اول الذکر سے افضل ہے۔

اللہ کی حمد کرنے کا طریقہ 

ہم نے یہ ذکر کیا ہے کہ کتاب نازل کرنے کے منافع دوسروں کے لئے بھی ہیں، اس کا معنی یہ ہے کہ کتاب کو نازل کرنا آپ کے لئے بھی نعمت ہے اور دوسروں کے لئے بھی نعمت ہے۔

کتاب کو نازل کرنا آپ کے لئے اس وجہ سے نعمت ہے کہ اس کتاب کے واسطے سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنی توحید اور اپنی صفات کے اسرار سے مطلع فرمایا اور ملائکہ کے اسرار اور انبیاء سابقین کے احوال سے آگاہ فرمایا اور قضا و قدر کی حکمتوں سے مطلع کیا اور عالم دنیا اور عالم آخرت کے باہمی ربط اور عالم جسمانیات اور عالم روحانیات کے تعلق سے آگاہ فرمایا اور یہ بتایا کہ نفس ایک آئینہ کی طرح ہے جس میں عالم ملکوت کی تجلیات منعکس ہوتی ہیں اور عالم لاہوت کے اسرار منکشف ہوتے ہیں اور یہ بہت بڑی نعمت ہے۔

اور اس کتاب کا نازل کرنا ہم پر بھی نعمت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو جن احکام کا مکلف کیا ہے وہ تمام احکام اس کتاب میں ذکر فرما دیئے ہیں۔ اس کتاب میں وعد اور وعید اور ثواب اور عقاب سب کا ذکر ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ یہ کتاب انتہائی درجہ کی کامل کتاب ہے اور ہر شخص اپنی طاقت اور اپنی فہم کے اعتبار سے اس سے نفع حاصل کرتا ہے اور چونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کتاب کو نازل کرکے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی تمام امت کو اتنی عظیم نعمتیں عطا فرمائی ہیں اس لئے آپ پر اور آپ کی تمام امت پر لازم ہے کہ وہ ان نعمتوں پر اللہ تعالیٰ کی حمد کریں۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے خود ان کو حمد کرنے کا طریقہ تعلیم فرمایا کہ وہ یہ کہیں کہ تمام تعریفیں اللہ تعالیٰ کے لئے ہیں جس نے اپنے عبد مکرم پر الکتاب نازل فرمائی۔

قرآن مجید میں کجی نہ ہونے کا معنی 

قرآن کریم میں کجی نہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس کی آیات میں کوئی تناقض اور تضاد نہیں ہے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

ولوکان من عند غیر اللہ لوجداوا فیہ اختلافاً کثیراً (النساء :82)

اور اگر (یہ قرآن) اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو وہ ضرور اس میں بہت اختلاف پاتے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں جو توحید، رسالت، قضاء و قدر اور احکام شرعیہ بیان کئے گئے ہیں، یہ سب صحیح اور صادق ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی طریق مستقیم سے منحرف نہیں ہے۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ گویا کہ انسان عالم غیب سے عالم آخرت کی طرف متوجہ ہوا اور یہ دنیا ایک سرائے کی طرح ہے، انسان جب اس سرائے میں آیا تو وہ ان کاموں میں مشغول ہوگیا جن کی اس سفر میں ضرورت پڑتی ہے، پھر وہ عالم آخرت کی طرف متوجہ ہوا۔ پس ہر وہ چیز جو اس کو دنیا سے آخرت کی طرف راجع کرتی ہے اور جسمانیات سے روحانیات کی طرف اور خلق سے حق کی طرف اور شہوانی لذات سے عبادات کے نور کی طرف متوجہ کرتی ہے، وہ کجی، انحراف اور باطل سے مبرا اور منزہ ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف آیت نمبر 1