أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ‌  ۚ فَمَنۡ كَانَ يَرۡجُوۡالِقَآءَ رَبِّهٖ فَلۡيَـعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًـاوَّلَايُشۡرِكۡ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۞

ترجمہ:

آپ کہیے میں (خدا نہ ہونے میں) تمہاری ہی مثل بشر ہوں، میر طرف یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے، سو جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہئے کہ میں (خدا نہ ہونے میں) تمہاری ہی مثل بشر ہوں میری طرف یہی وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا ایک خدا ہے، سو جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے (الکھف :110)

بشر کا معنی 

امام خلیل بن احمد فراہیدی متوفی 175 ھ لکھتے ہیں :

بشر کا معنی انسان ہے خواہ ایک مرد ہو یا ایک عورت ہو، اور چہیر، سر اور جسم کی اوپری کھال کو بشرۃ کہتے ہیں۔ (کتاب العین جۃ ص 164 مطبوعہ انتشارات اسوہ، ایران، 1414 ھ)

علاہم ابوالحسن علی بن اسماعیل بن سیدہ المرسی المتوفی 458 ھ لکھتے ہیں :

بشر کا مادہ ہے : ب ش ر، اس سے ایک لفظ بنا ہے الشرب جس کا معنی ہے پینا، اس کا مقلوب ہے الشبر اس کا معنی ہے بالشت اور اس کا ایک مقلوب الاربش ہے اس کا معنی ہے مختلف رنگوں والا، اور اس کا ایک مقلوب ہے البرش اس کا معنی ہے سرخ اور سیاہ مخلوط رنگ اور البشر کا معنی ہے انسان اس میں واحد، جمع اور مذکر اور مونث مساوی ہیں اور انسان کے چہرے سر اور جسم کی اوپر والی کھال کو البشرہ کہتے ہیں، جس چیز کی خوشخبری دی جائے اس کو بشارت کہتے ہیں اور جماع کو مباشرت کہتے ہیں، مسکراہٹ اور خوشی کے اظہار کوا لبشر کہتے ہیں۔ بارش برسانے والی ہوائوں کو المبشر ات کہتے ہیں۔ ہر چیز کے اول کو تباشیر کہتے ہیں خبوصورت چہرے والے کو البشیر کہتے ہیں۔ (المحکم والمحیط الاعظم ج ٨ ص 52-60 ملحضا، دارالکتب العلمیہ بیروت، 1421 ھ)

علامہ حسین محمد بن راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں :

انسان کے جسم کی کھال کے ظاہر کو البشرہ کہتے ہیں اور اس کھال کے باطن کو الادمتہ کہتے ہیں، انسان کو بشر اس لئے کہتے ہیں کہ اس کی کھال ظاہر ہوتی ہے اس کے برخلاف دیگر حیوانوں کی کھال کے اوپر بال ظاہر ہوتے ہیں اور عموماً کھال بالوں کے نیچے چھپی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لفظ میں واحد، جمع، مذکر اور مونث برابر ہیں۔ قرآن مجید میں ہر جگہ انسان کے جثہ اور اس کے ظاہر کو بشر کے ساتھ تعبیر کیا گیا ہے وھو الذی خلق من المآء بشراً (الفرقان :54) وہی ہے جس نے انسان کو پانی سے پیدا کیا۔

کفار انبیاء (علیہم السلام) کے مرتبہ کو کم اور پست کرنے کے لئے انہیں بشر کہتے تھے۔

ان ھذا الا قول البشر (المدثر :25) یہ صرف بشر کا قول ہے۔

ابشراً منا واحداً نتیعہ (القمر :24) کیا ہم اپنوں میں سے ایک بشر کی پر یوی کریں۔

ماانتم الا بشر مثلما (یٰسین :15) تم محض ہماری طرح بشر ہو۔

انومن لبشرین مثلنا (المئومنون :47) کیا ہم اپنی طرح دو بشروں پر ایمان لے آئیں۔

قالو ابشریھدوننا (التغابن :6) کافروں نے کہا کیا بشر ہم کو ہدایت دے گا۔

چونکہ لوگ بشریت میں ایک دور سے کو مساوی سمجھتے تھے اور علوم و معارف اور غیر معملوی صلاحیتوں اور قابل تحسین کاموں کی وجہ سے ایک کی دوسرے پر فضیلت سمجھتے تھے اس لئے پہلے فرمایا : قل انما انا بشر مثلکم پھر فرمایا، یوحی الی (الکھف :110، حم السجدۃ :6) یعنی پہلے فرمایا میں بشر ہونے میں تمہارے مساوی ہوں اور میری فضیلت اور تخصیص یہ ہے کہ مجھ پر وحی کی جاتی ہے اور میں وحی الٰہی کی وجہ سے تم سے ممیز اور ممتاز ہوں۔

مصر کی عورتوں نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کے متعلق کہا :

حاش للہ ماھذا بشراً ان ھذا الا ملک کریم (یوسف 31) حاشا للہ ! یہ بشر نہیں ہے یہ معزز فرشتہ کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔

ان عورتوں نے حضرت یوسف کی عظمت اور جلال کو ظاہر کرتے ہوئے کہا یہ اس سے بلند اور برتر ہیں کہ یہ کوئی انسان ہوں ان کی حقیقت اور جوہر ذات بشر ہونے سے منزہ ہے۔ جب کسی شخص کو کوئی خوشی کی خبر سنائی جائے تو اس کے چہرے پر خون کی سرخی پھیل جاتی ہے اور اس کے چہرے کی کھال سرخ ہو جای ہے اس لئے خوشخبری سنانے کو تبشیر اور خوشخبری سن کر خوش ہونے کو استبشار کہتے ہیں قرآن مجید میں ہے :

قالوالا یوجل انا نبشرک بغلام علیم (الحر :53) (فرشتوں نے) کہا آپ ڈریں نہیں ہم آپ کو علم والے لڑکے کی بشارت دے رہے ہیں۔

یستبرون بنعمۃ من اللہ وفضل (آل عمران :171) وہ اللہ کی نعمت اور فضل سے خوش ہوتے ہیں۔ (المرفدات ج ١ ص 60-61 مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

کفار انبیاء (علیہم السلام) کو کیوں بشر کہتے تھے اور ان کا رد 

کفار انبیاء علہیم السلام کو بشر اس لئے کہتے تھے کہ وہ بشریت کو نبوت کے منافی سمجھتے تھے وہ کہتے تھے کہ نبی کے لئے فرشتہ ہونا ضروری ہے۔ قرآن مجید نے کفار کا قول نقل فرمایا ہے :

(الانبیاء :3) اور ان ظالموں نے چپکے چپکے سرگوشی کی یہ تو تمہاری ہی مثل بشر ہے، کیا تم دیکھنے کے باوجود جادو میں جا رہے ہو۔

امام فخر الدین رازی متوفی 606 ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

ان کافروں نے دو وجہوں سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت میں طعن کیا تھا، ایک یہ کہ آپ ان کی مثل بشر ہیں۔ دوسری یہ کہ آپ نے جو دلیل پیش کی ہے وہ جادو ہے اور یہ دونوں وجہیں باطل ہیں۔ پہلی وجہ اس لئے باطل ہے کہ نبوت کا ثبوت دلائل اور معجزات پر موقوف ہے صورتوں پر موقوف نہیں۔ بالفرض اگر ان کے پاس فرشتہ کو نبی بنا کر بھیجا جاتا تو محض اس کی صورت دیکھ کر تو اس کے نبی ہونے پر یقین نہیں ہوسکتا تھا جب تک کہ اس کی نبوت پر دلائل نہ قائم ہوجاتے اور جب یہ واضح ہوگیا تو اگر بش نبوت پر معجزات اور دلائل قائم کر دے تو اس کا نبی ہونا بھی جائز ہے بلکہ واجب ہے، اور اولیٰ یہ ہے کہ بشر کی طرف بشر کو نبی بنا کر مبعوث کیا جائے کیونکہ انسان کے لئے اپنے ہم جنس اور ہم شکل کو نبی ماننا زیادہ قریب ہے کیونکہ ہر شخص اپنی جنس سے مانوس ہوتا ہے۔

اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کو جو جادو کہتے تھے یہ بھی باطل ہے کیونکہ آپ کا معجزہ قرآن ہے کیونکہ آپ اس میں کوئی تلبیس اور ملمع کاری نہیں کرتے تھے۔ آپ نے ان سب کو قرآن کریم کی ایک سورت کی مثل لانے کا چیلنج دیا اور وہ عرصہ دراز گزرنے کے بعد بھی اس کی مثل نہیں لاسکے اور اب تک نہیں لاسکے پس اس معجزہ کو جادو کہنا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٨ ص 120 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، 1415 ھ)

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 685 ھ لکھتے ہیں :

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بشر کہہ کر وہ آپ کے دعویٰ رسالت کی تکذیب کا قصد کرتے تھے کیونکہ ان کا قصد صرف شرتہ ہی ہوسکتا ہے اور قرآن مجید اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دیگر معجزات کو وہ جادو کہتے تھے۔ (تفسیر بیضاوی مع عنایتہ القاضی ج ٦ ص 416، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1417 ھ)

کفار بشر کے رسول اور بنی ہونے کو جو مستبعد سمجھتے تھے اور اس کا انکار کرتے تھے اللہ تعالیٰ نے اس کا رد فرمایا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

(الانعام :9) اور اگر ہم رسول کو رفشتو بناتے تو اسے مرد ہی (کی صورت میں) بناتے اور ہم ان پر وہی شبہ ڈال دیتے جو شبہ وہ (اب) کر رہے ہیں۔

انبیاء کا بشر ہونا ہمارے لئے وجہ احسان ہے 

بلکہ انسانوں کے لئے انسان کو رسول بنا کر بھیجنا ان کے لئے زیادہ مفید ہے اور اس سے استفادہ کے لئے زیادہ سہل اور آسان ہے کیونکہ اگر فرشتہ، جن یا کسی اور جنس سے ان کے لئے رسول بھیجا جاتا تو وہ اس کو دیکھ سکتے نہ اس کی بات سن سکتے۔ اس کے اعمال کی اتباع اور اقتدار کرسکتے، یہ تو اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا امتنان اور امحسان ہے کہ اس نے انسانوں کے لئے ان کی جس سے انسان کو رسول بنا کر بھیجا اس لئے فرمایا : (آل عمران :164) بیشک اللہ نے مومنین پر بہت بڑا احسان فرمایا کہ اس نے ان میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا۔

(الجمعتہ : ٢) وہی ہے جس نے ان پڑھ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیجا۔

(التوبۃ :128 بیشک تمہارے پاس تم ہی میں سے ایک عظیم رسول آگئے۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہی دعا کی تھی کہ اہل مکہ میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیج دیا جائے۔

(البقرہ :129) اے ہمارے رب ! ان میں ان ہی میں سے ایک عظیم رسول بھیج دے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیھم (یوسف :109، النحل 43) اور) اور ہم نے آپ سے پہلے صرف مردوں کو رسول بنا کر بھیجا ہے جن کی طرف ہم وحی کرتے تھے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خود پر بشر کا اطلاق فرمانا 

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے خود اپنی ذات پر بشر کا اطلاق فرمایا ہے :

انما انا بشر مثلکم انسی کما تنسون فاذا نسیت قذکرونی۔ (میں صرف تمہاری مثل بشر ہوں (خدا نہیں ہوں) میں اس طرح بھول جاتا ہوں جس طرح تم بھول جاتے ہو۔ پس جب میں بھول جائوں تو مجھے یاد دلایا کرو۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث :401 صحیح مسلم رقم الحدیث :572، سنن ابو دائود رقم الحدیث :1020، سنن النسائی رقم الحدیث :1243، سنن ابن ماجہ رقم (الحدیث :1211)

انما انا بشر وانہ یاتینی الخصم فلعل یعضکم ان یکون ابلغ من بعض فاحسب انہ صدق قاقضی لہ بذالک فمن قضیت لہ بحق مسلم فانماھی قطعۃ من النار فلیا خذھا اور فلیشر کھا۔ میں محض بشر ہوں (خدا نہیں ہوں) میرے پاس متخالف فریق آتے ہیں۔ ہوسکتا ہے تم میں سے بعض دوسروں سے زیادہ چرب زبان ہوا اور میں (بظاہر) یہ گمان کرلوں کہ وہ سچا ہے اور میں اس کے حق میں فیصلہ کر دوں پس (بالفرض) اگر میں کسی مسلمان کا حق اس کو (ظاہری حجت کی بنا پر) دے دوں تو وہ آگ کا ٹکڑا ہے، خواہ وہ اس کو لے لے یا ترک کر دے۔ (صحیح البخاری رقم الدیث :2458, 2680, 6967، صحیح مسلم رقم الحدیث :1711، سنن ابودائود رقم الحدیث :3583، سن الترمذی رقم الحدیث 1339 سنن النسائی رقم الحدیث :5401 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :2317)

نبی اور رسول کا بشر ہونا 

متکلمین نے نبی اور رسول کی حسب ذیل تعریفیں کی ہیں :

علامہ سعد الدین معسود بن عمر تفتازانی متوفی 793 ھ لکھتے ہیں :

النبی انسان بمعثہ اللہ تتبلیغ ما اوحی الیہ وکذا الرسول نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ اس چیز کی تبلیغ کے لئے بھیجتا ہے جس کی اس کی طرف وحی کی جاتی ہے۔ اسی طرح رسول ہے۔ (شرح المقاصد ج ٥ ص ٥ مطبوعہ منشورات الرضی ایران 1409 ھ)

میر سید شریف علی بن ممد جرجانی متوفی 816 ھ لکھتے ہیں۔

الرسول انسان بعثہ اللہ الی الخلق لتبلیغ الاحکام۔ رسول وہ انسان ہے جسے اللہ احکام کی تبلیغ کے لئے مخلوق کی طرف بھیجتا ہے۔ (کتاب اتعریفات ص 81، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1418 ھ)

علامہ کمال الدین ابن ھمام متوفی 861 ھ لکھتے ہیں :

النبی انسان بعثہ لتبلیغ ما اوحی الیہ وکذا الرسول نبی وہ انسان ہے جس کو اللہ نے اس کی طرف کی ہوئی وحی کی تبلیغ کے لئے بھیجا ہو رسول کی بھی یہی تعریف ہے۔ (المسائرہ مع المسامرہ ص 207، مطبوعہ دائرۃ المعارف الاسلامیہ مکران)

مولانا عبدالعزیز پر ہاروی نے عالمہ ت فتازانی سے یہ تعریف نقل کی ہے :

والرسول انسان بعثہ اللہ تعالیٰ الی الخلق لتبلیغ الاحکام الشرعیۃ رسول وہ انسان ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے مخلوق کی طرف احکام شرعیہ پہنچانے کے لئے بھیجا ہے۔ (النبر اس ص 79، مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور، 1397 ھ)

علامہ محمد السفارینی حنبلی متوفی 1188 ھ لکھتے ہیں :

وھو انسان اوحی الیہ بشرع وان لم یومر یتبلیغہ فان امر بتبلیغہ فھو رسول ایضا علی المشھود۔ نبی وہ انسان ہے جس پر شریعت کی وحی کی جائے خواہ اس کو شریعت کی تبلیغ کا حکم نہ دیا جائے اور اگر اس کو شریعت کی تبلیغ کا حکم بھی دیا گیا ہو تو وہ مشہور مذہب کے مطابق رسول بھی ہے۔ (لوامع الانوار البھیہ ج ١ ص 48، مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت، 1411 ھ)

صدر الشریعت علامہ امجد علی متوفی 1376 ھ لکھتے ہیں۔

عقیدہ : نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدیات کے لئے وحی بھیجی ہو، اور رسول بشر کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ملائکہ بھی رسول ہیں۔

عقیدہ : انبیاء سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی جن، نبی ہوا نہ عورت۔ (بہار شریعت ج ١ ص 9 مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز لاہور)

صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی 1367 ھ لکھتے ہیں :

انبیاء وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے یہ وحی کبھی فرشتہ کی معرفت آتی ہے کبھی بےواسطہ (کتاب العقائد ص 8 مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہونے کے متعلق اعلیٰ حضرت کا نظریہ 

اعلیٰ حضرت امام حمد رضا فاضل بریلوی متوفی 1340 ھ سے سوال کیا گیا :

زید کا قول یہ ہے کہ حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری مثل ایک بشر تھے کیونکہ قرآن عظیم میں ارشاد ہے کہ قل انما انا بشرمثلکم اور خصائص بشریت بھی حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بلاشبہ موجود تھے۔ کیا کھانا پینا، جماع کرنا، بیٹا ہونا، باپ ہونا، کفو ہونا، سونا وغیرہ امور خواص بشریت سے نہیں ہیں ! جو حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں بلاشبہ موجود تھے، اگر کوئی بشریت کی بنا پر حضور انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مساوات کا دعویٰ کرنے لگے تو یہ نالائق حرکت ہے جیسا کہ عارف بسطامی سے منقول ہے کہ لوائی ارفع من لواء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (یعنی میرا جھنڈا، سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جھنڈے سے بلند ہے) اعلیٰ حضرت امام الشاہ احمد رضا قدس سرہ اس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :

الجواب 

مستقتی کو تعجیل اور فقیر بتیس روز سے علیل اور مسئلہ ظاہر و بین غیر محتاج دلیل، لہٰذا صرف ان اجمالی کلمات پر اقتصاد ہوتا ہے عمرو کا قول مسلمانوں کا قول ہے اور زید نے وہی کہا جو کافر کہا کرتے تھے قالوا ماانتم الا بشر مثلنا کافر ولے ! تم تو نہیں مگر ہم جیسے آدمی بلکہ زید مدعی اسلام کا قول ان کافروں کے قول سے بعید تر ہے، وہ جو انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو اپنا سابشر مانتے تھے اس لئے کہ ان کی رسالت سے منکر تھے کہ ماانتم الابشر مثلنا وما انزل الرحمٰن من شی ان انتم الا تکذبون تم تو نہیں مگر ہماریی مثل بشر اور رحمٰن نے کچھ نہیں اتارا تم نرا جھوٹ کہتے ہو، واقعی جب ان حبثا کے نزدیک وحی نبوت باطل تھی تو انہیں اپنی سی بشریت کے سوا کیا نظر آتا لیکن ان سے زیادہ دل کے اندھے وہ کہ وحی و نبوت کا اقرار کریں اور پھر انہیں اپنا ہی سا بشر جانیں، زید کو قل انما انا بشر مثلکم سوجھا اور یوحی الی نہ سوجھا جو غیر متناہی فرق ظاہر کرتا، زید نے اتنا ہی ٹکڑا لیا جو کافی لیتے تھے انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی بشریت جبریل (علیہ الصلوۃ والسلام) کی ملکیت سے اعلیٰ ہے وہ ظاہری صورت میں ظاہر بینوں کی آنکھوں میں بشریت رکھتے ہیں جس سے مقصود خلق کا ان سے انس حاصل کرنا اور ان سے فیض پانا و لہٰذا رشاد فرماتا ہے ولو جعلناہ ملکا لجعلنہ رجلا و للبسنا علیھم مایلبسون اور اگر ہم فرشتے کو رسول کر کے بھیجتے تو ضرور اسے مرد ہی کی شکل میں بھیجتے اور ضرور انہیں اسی شبہ میں رکھتے جس دھوکے میں اب ہیں، ظاہر ہوا کہ انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ظاہری صورت دیکھ کر انہیں اوروں کی مثل بشر سمجھنا ان کی بشریت کو اپنا سا جاننا ظاہر بینوں کو رباطنوں کا دھوکہ ہے۔ شیطان کے دھوکے میں پڑے ہیں۔

ہمسری با اولیا برداشتد انبیاء راہمچو خود پند اشتند 

ان کا کھانا پینا سونا یہ افعال بشری اس لئے نہیں کہ وہ ان کے محتاج ہیں حاشا لست کا حدکم انی ابیت عندر بی یطعمنی ویسفینی ان کے یہ افعال بھی اقامت سنت وتعلیم امت کے لئے تھے کہ ہر بات میں طریقہ محمودہ لوگوں کو عملی طور سے دکھائیں سکھائیں جیسے ان کا سہو و نسیان حدیث میں ہے انی لا انی ولکن انسی لیستن بی میں بھلوتا نہیں بھلایا جاتا ہوں تاکہ حالت سہو میں امت کو طریقہ سنت معلوم ہو، امام اجل محمد عبدری ابن الحاج مکی قدس سرہ مدخل میں فرماتے ہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احوال بشری کھانا پینا سونا جماع اپنے نفس کریم کے لئے نہ فماتے تھے بلکہ بشر کو انس دلانے کے لئے ان افعال میں حضور کی اقتدار کریں، کیا نہیں دیکھتا ہے کہ عمر (رض) سے فرمایا میں عورتوں سے نکاح کرتا ہوں اور مجھے ان کی کچھ حاجت نہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے تمہاری دنیا میں سے خوشبو اور عورتوں کی محبت دلائی گئی۔ یہ نہ فرمایا کہ میں نے انہیں دوست رکھا اور فرمایا تمہاری دنیا میں سے تو اسے اوروں کی طرف اضافت فرمایا نہ اپنے نفس کریم کی طرف (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) معلوم ہوا کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی محبت اپنے مولیٰ عزو جل کے ساتھ خاص ہے۔ جس پر یہ ارشاد کریم دلالت کرتا ہے کہ میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں رکھی گئی۔ تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ظاہر صورت بشری اور باطن ملکی ہے تو حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ افعال بشری محض اپنی امت کو انس دلانے اور ان کے لئے شریعت قائم فرمانے کے واسطے کرتے تھے نہ یہ کہ حضور کو ان میں سے کسی شے کی کچھ حاجت ہو جیسا کہ اوپر بیان ہوچکا ہے انہیں اوصاف جلیلیہ و فضائل حمیدہ سے جہل کے باعث بےچارے جاہل یعنی کافر نے کہا اس رسول کو کیا ہوا کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے، عمرو نے سچ کہا کہ یہ قول حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی طرف سے نہ فرمایا بلکہ اس کے فرمانے پر مامور ہوئے جس کی حکمت تعلیم تواضح وتانیس امت و سدغلو نصرانیت ہے۔ اول، دوم ظاہر اور سوم یہ کہ مسیح (علیہ الصلوۃ والسلام) کو ان کی امت نے ان کے فضائل پر خدا اور خدا کا بیٹا کہا پھر فضائل محمد یہ علی صاحبہا افضل الصلوۃ والتحیتہ کی عظمت شان کی اندازہ کون کرسکتا ہے۔ یہاں اس غلو کے سدباب کے لئے تعلیم فرمائی گئی کہ کہو کہ میں تم جیسا بشر ہوں خدا یا خدا کا بیٹا نہیں، ہاں یوحی الی رسول ہوں، دفع افراط نصرانیت کے لئے پہلا کلمہ تھا اور دفع تفریط ابلیسیت کے لئے دوسرا کلمہ، اسی کی نظیر ہے جو دوسری جگہ ارشاد ہو اقل سبحن ربی ھل کنت الابشرار رسولا تم فرما دو پاکی ہے میرے رب کو میں خدا نہیں میں تو انسان رسول ہوں انہیں رسول ہیں خدا سے جدا نہیں، شیطنت اس کی کہ دوسرا کلمہ امتیاز اعلیٰ چھوڑ کر پہلے کلمہ تواضح پر اقتصار کرے۔ اسی ضلالت کا اثر ہے کہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے دعویٰ مساوات کو صرف نالائق حرکت کہا نالائق حرکت تو یہ بھی ہے کہ کوئی بلا وجہ اس کا اولیاء (رض) کی طرف معاذ اللہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ارفعیت کا ادعا نسبت کرنا محض افترا اور کج فہمی ہے حاشا کوئی ولی کیسے ہی مرتبہ عظیمہ پر ہو سرکار کے دائرہ غلامی سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔ اکابر انبیاء تو دعویٰ مساوات کر نہیں سکتے۔ شیخ الانبیاء خلیل کبریا علیہ الصلوۃ والثناء نے شب معراج حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خطبہ فضائل سن کر تمام انبیاء ومرسلین علیہم الصلوۃ والتسلیم سے فرمایا بھذا فضلکم محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان وجود سے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم سب سے افضل ہوئے۔ و لی کس منہ سے دعویٰ ارفعیت کرے گا اور جو کرے حاشا ولی نہ ہوگا، شیطان ہوگا۔ حضرت سیدنا بایزید بسطامی اور ان کے امثال و نظائر (رض) وقت درود تجلی خاص شجرہ موسیٰ ہوتے ہیں۔ سیدنا موسیٰ کلیم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو درخت میں سے سنائی دیا یموسیٰ انی انا اللہ رب العلمین اپنے موسیٰ ! بیشک میں اللہ ہوں رب سارے جہان کا کیا یہ پڑ نے کہا تھا حاشا اللہ بلکہ واحد قہار نے جس نے درخت پر تجلی فرمائی اور وہ بات درخت سے سننے میں آئی۔ کیا رب العزت ایک درخت پر تجلی فرما سکتا ہے اور اپنے محبوب بایزید پر نہیں نہیں نہیں وہ ضرور تجلی ربانی تھی کلام بایزید کی زبان سے سنا جاتا تھا جیسے درخت سے سنا گیا اور متکلم اللہ عزو جل تھا، اسی نے وہاں فرمایا یموسی انی انا اللہ رب العلمین اسی نے یہاں بھی فرمایا سبحانی ما اعظم ثانی اور ثابت ہو تو یہ بھی کہ لوانی ارفع من لواء محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیشک لواء الٰہی لواء محمدی سے ارفع و اعلیٰ ہے۔

(اعلیٰ حضرت کا مطلب یہ ہے کہ جب حضرت بایزید نے یہ بظاہر لوانی ارفع من لواء محمد کہا تھا تو حقیقت میں یہ اللہ کا کلام تھا اور اللہ فرما رہا تھا میرا جھنڈا حمد کے جھنڈے سے بلند ہے۔ جیسے شجر موسیٰ سے اللہ کا کلام سنا گیا تھا اسی طرح یہاں بایزید سے اللہ کا کلام سنا گیا) فتاوی رضویہ ج ٦ ص 143-145، مطبوعہ دارالعلوم امجدیہ کراچی، 1412 ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہونے کے متعلق علماء دیوبند کا نظریہ 

شیخ خلیل احمد سہارنپوری متوفی 1346 ھ لکھتے ہیں :

کوئی ادنیٰ مسلمان بھی فخر عالم علیہ الصلوۃ کے تقرب و شرف کمالات میں کسی کو مماثل آپ کا نہیں جانتا البتہ نفس بشریت میں مماثل آپ کے جملہ بنی آدم ہیں کہ خود حق تعالیٰ فرماتا ہے قل انما انا بشرمثلکم اور بعد اس اس کے یوحی الی کی قید سے پھر وہی شرف تقریب بعد اثبات مماثلت بشریت فرمایا پس اگر کسی نے بوجہ بنی آدم ہونے کے آپ کو بھائی کہا تو کیا خلاف نص کے کہہ دیا وہ تو خود نص کے موافق ہی کہتا ہے۔

نیز لکھتے ہیں :

لاریب اخوت نفس بشریت میں اور اولاد آدم ہونے میں ہے اور اس میں مساوات بنص قرآن ثابت ہے اور کمالات تقرب میں نہ کوئی بھائی کہے نہ مثل جانے۔ (براہین قاطعہ ص ٣ مطبوعہ بلالی ڈھوک بند)

علماء دیوبند کے نظریہ پر مصنف کا تبصرہ 

شیخ سہارنپوری کے اس کلام کا حاصل یہ ہے کہ نفس بشریت میں تمام انسان آپ کے مماثل اور مساوی ہیں ہمارے نزدیک یہ کہنا صحیح نہیں ہے۔ انبیاء (علیہم السلام) میں عام انسانوں کی بہ نسبت ایک وصف زائدہ ہوتا ہے جو نبوت ہے وہ حامل وحی ہوتے ہیں، فرشتوں کو دیکھتے ہیں اور ان کا کلام سنتے ہیں اس لئے نبی کی بشریت اور عام انسانوں کی بشریت مماثل اور مساوی نہیں ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ نبوت سے قطع نظر تو نفس بشریت میں مساوات ہے تو میں کہوں گا کہ اس طرح تو نفس حیوانیت میں نطق سے قطع نظر انسان گدھوں، کتوں اور خنزیروں کے مماثل اور مساوی ہے اور ایسا کہنا انسان کی توہین ہے۔ اسی طرح نفس بشریت میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام انسانوں کے مماثل اور مساوی کہنا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی توہین ہے، اگر یہ کہا جائے کہ قرآن مجید میں ہے قل انما انا بشر مثلکم (الکھف :110) تو اس کے دو جواب ہیں ایک جواب یہ ہے کہ قرآن مجید میں ہے :

(الانعام :38) ہر وہ جاندار جو زمین پر چلتا ہے اور ہر وہ پرندہ جو اپنے پروں کے ساتھ اڑتا ہے وہ تمہاری ہی مثل گروہ ہیں۔

اس آیت کا تقاضا یہ ہے کہ زمین اور فضا کے تمام جاندار اور تمام پرندے انسانوں کی مثل ہیں تو اس طریقہ سے کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ انسان گدھ، چیل اور بندر اور خنزیر کی مثل ہے تو کیا یہ انسان کی توہین نہیں ہے۔ لہٰذا اگر یہ کہا جائے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انسانوں کے مساوی اور ان کی مثل ہیں تو یہ بھی آپ کی توہین ہے۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کس چیز میں عام انسانوں کی مثل ہیں ؟ کسی وجودی وصف میں کوئی انسان آپ کی مثل نہیں ہے بلکہ آپ کے ساتھ مماثلت عدی وصف میں ہے نہ ہم خدا ہیں نہ آپ خدا ہیں نہ ہم واجب اور قدیم ہیں نہ آپ واجب اور قدیم ہیں نہ ہم مستحق عبادت ہیں نہ آپ مستحق عبادت ہیں اور یہ آیت اسی معنی پر دلالت کرتی ہے۔

(آیت الکھف :110) آپ کہیے کہ میں (مستحق عبادت نہ ہونے میں) تمہاری ہی مثل بشر ہوں، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے۔

اس بحث کی مزید وضاحت کے لئے شرح صحیح مسلم ج ٥ ص 87-108 کا ضرور مطالعہ فرمائیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خصائص کے ذکر کے بغیر آپ کو صرف بشر کہنا جائز نہیں 

جس کسی معزز اور اہم شخص کا ذکر کیا جاتا ہے تو اس کے عام اوصاف کا ذکر نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے ان خصوصی اوصاف کا ذکر کیا جاتا ہے جن کی وجہ سے وہ دوسروں سے ممیز اور ممتاز ہوتا ہے مثلاً آپ ملک کے صدر اور وزیر اعظم کا ذکر کریں تو یوں نہیں کہیں گے کہ یہ انسان اور بشر ہیں یا مرد ہیں۔ آپ یوں نہیں کہیں گے کہ یہ ایک پاکستانی ہیں بلکہ کہیں گے یہ ملک کے صدر ہیں یا ملک کے وزیر اعظم ہیں، تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ کہنا کس طرح درست ہوگا کہ آپ انسان اور بشر ہیں یا مرد ہیں کیونکہ ان الفاظ میں آپ کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ انسان اور بشر ہونے میں مسلمانوں کی بھی کوئی تخصیص نہیں ہیں یہ اوصاف تو مومن، کافر، مرتد سب میں مشترک ہیں۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قبرستان میں گئے آپ نے فرمایا : السلام علیکم دارقوم مومنین ! بیشک ہم تمہارے ساتھ ملنے والے ہیں، میں چاہتا ہوں کہ ہم اپنے بھائیوں کو دیکھیں ! صحابہ نے کہا یا رسول اللہ ! کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں آپ نے فرمایا : انتم اصحابی تم میرے صحابہ ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے۔ الحدیث (صحیح مسلم رقم الحدیث :249، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4306 سنن ابودائود رقم الحدیث :4718، مسند احمد ج ٣ ص 119)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے اس سے آپ کی مراد دینی بھائی تھے اور دینی بھائی تو صحابہ بھی تھے پھر کیا وجہ ہے کہ جب صحابہ نے کہا کیا ہم آپ کے بھائی نہیں ہیں تو آپ نے فرمایا، تم میرے اصحاب ہو اور ہمارے بھائی وہ ہیں جو ابھی تک نہیں آئے، اس کی وجہ یہی ہے کہ دینی بھائی ہونے میں صحابہ کا کوئی امتیاز اور ان کی کوئی خصوصیت نہیں تھی کیونکہ قیامت تک کے تمام مسلمان آپ کے دینی بھائی ہیں، صحابہ کا امتیاز اور ان کی خصوصیت یہ تھی کہ وہ آپ کے اصحاب ہیں۔ اس وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ کا اس وصف کے ساتھ ذکر پسند نہیں کا یہ جو ان میں اور دوسرے مسلمانوں میں بھی مشترک تھا جس وصف میں صحابہ کی کوئی خصوصیت نہ تھی۔

قاضی عیاض مالکی متوفی 544 ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

علامہ باجی نے کہا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صحابہ سے دینی بھائی ہونے کی نفی نہیں کی بلکہ ان کا وہ مرتبہ ذکر کیا جو اس پر زائد ہے اور جو ان کے ساتھ مختص ہے اور جو بعد میں آنے والے مسلمانوں کو حاصل نہیں ہے۔ اس لئے ان کا ذکر دینی اخوت کے ساتھ کیا۔ علامہ ابن البر نے کہا تمام اہل ایمان آپ کے دینی بھائی ہیں اور آپ کے صحابہ وہ ہیں جو آپ کی صحبت میں رہے ہوں۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٢ ص 48، مطبوعہ دارالوفاء بیروت 1419 ھ)

علامہ یحییٰ بن شرف نووی متوفی 676 ھ اور علامہ ابی مالکی متوفی 828 ھ اور علامہ السعوسی مالکی متوفی 895 ھ نے بھی یہی تقریر ذکر کی ہے۔ (شرح مسلم للنووی ج ٢، ص 1194، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ، اکمال اکمال المعلم ج ٢ ص 49، معلم اکمال الا کمال ج ٢ ص 49، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1415 ھ)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوۃ پڑھو تو نہایت عمدہ طریقہ سے آپ پر صلوۃ پڑھو کیونکہ تم کو پتا نہیں ہے ہوسکتا ہے کہ یہ صلوۃ آپ پر پیش کی جائے تم یوں صلوۃ پڑھو اللھم اجعل صلوتک ورحمتک وبرکاتک علی سید المرسلین و امام المتقین و خاتم النبین محمد عبدک و رسولک امام الخیر و قائد الخیر و رسول الرحمۃ اللھم ابعثہ مقاما محموددا بغبطہ الاولون ولاخرون۔ اے اللہ ! اپنی صلوۃ اپنی رحمتیں اور برکتیں ان پر نازل فرما جو رسولوں کے سردار ہیں اور متقین کے امام ہیں، تمام نبیوں کے آخر ہیں سیدنا محمد جو تیرے بندے اور رسول ہیں خیر کے امام اور قائد ہیں، رسول رحمت ہیں اے اللہ ! ان کو ایسے مقام محمود پر فائز فرما جس پر تمام اولین اور آخرین رشک کریں۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :906)

ان احادیث سے یہ واضح ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذکر ان اوصاف کے ساتھ کرنا چاہیے جو آپ کے ساتھ مخصوص ہوں اور جن کی وجہ سے آپ دوسروں سے ممتاز اور ممیز ہوں، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو اپنے اصحاب کا ذکر ان اوصاف کے ساتھ بھی نہیں کیا (یعنی دینی بھائی) جن میں دوسرے مسلمان ان کے شریک ہیں تو پھر آپ کو صرف بشر کہنا کس طرح صحیح ہوگا جبکہ لفظ بشر میں تو مسلمانوں کی بھی تخصیص نہیں کیونکہ کافر مومن اور منافق سب بشر ہیں اور لفظ بشر میں کوئی تخصیص نہیں اس لفظ میں دینی بھائی سے بھی زیادہ عموم ہے، اس لئے اگر آپ کو خواہ مخواہ بشر کہنا ہی ہے تو آپ کو افضل البشر یا سید البشر کہا جائے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ کہلوانے کی توجیہ کہ میں تمہاری مثل بشر ہوں 

قرآن مجید میں کہیں یہ مذکور نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو بشر کہا ہو نہ کسی حدیث میں یہ ہے کہ کسی صحابی نے آپ کو صرف بشر کہا ہو اور سورة کہف کی اس آی میں بھی اللہ تعالیٰ نے خود آپ کو بشر نہیں کہا بلکہ یہ فرمایا ہے آپ کہیے کہ میں محض تمہاری طرح بشر ہوں (خدا نہیں ہوں) اس کی وجہ یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے علم اور قدرت کے چند معجزات دکھائے مثلاً یہ بتایا کہ تم کیا کھا کر آئے ہو اور گھر میں کیا رکھ کر آئے ہو اور چند مردے زندہ کئے اور مٹی سے پرندے بنا کر اڑا دیئے تو لوگوں نے ان کو خدا اور خدا کا بیٹا کہہ دیا، اور سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو مالکان ومایکون کی خبریں دی تھیں اور آپ کی توجہ سے درخت میں جان پڑگئی اور اس نے آپ کے پاس آ کر آپ کی رسالت کی گواہی دی اور کھجور کا سوتن آپ کے فراق میں رویا اور مکہ کے ایک پتھر نے کہا السلام علیکم یا رسول اللہ اور گوہ اور ہرنی نے آپ کا کلمہ پڑھا، اونٹ نے آپ سے کلام کیا اس طرح کے بےحد و حساب معجزات ہیں۔ اس لئے یہ خطرہ تھا کہ فرط عقیدت میں آپ کی امت بھی آپ کو خدا یا خدا کا بیٹا نہ کہہ دے اس لئے اللہ تعالیٰ نے کہا تم اپنی زبان سے خود کہہ دو کہ میں تو صرف تمہاری مثل بشر ہوں (خدا نہیں ہوں) اور اس کے بعد فرمایا : یوحی الی میری طرف وحی کی جاتی ہے یعنی نفس بشریت میں عموم اور اشتراک ہے لیکن آپ پر اللہ کی وحی کی جاتی ہے آپ اس وصف کے لحاظ سے عالم بشریت میں ممتاز اور ممیز ہیں، جس طرح چوپائے، درندے اور پرندے حیوان ہونے میں انسان کے شریک ہیں اور انسان نطق ادراک اور دریا بندہ معقولات ہونے کی وجہ سے ان سے ممتاز اور ممیز ہے اسی طرح دیگر انسان بشر ہونے میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مثل ہیں اور آپ پر جو وحی الٰہی کی جاتی ہے اس وجہ سے آپ دیگر انسانوں سے ممتاز اور ممیز ہیں۔ انسان اپنی عقل کی وجہ سے دوسرے حیوانوں سے ممیز ہے اور نطق اس کے لئے فصل ممیز ہے جس طرح انسان اپنی آنکھوں سے حیوانات کو دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ یہ فلاں حیوان ہے اور یہ فلاں حیوان ہے اور اپنی عقل سے معقولات اور کلیات کا ادراک کرتے ہیں اسی طرح نبی (علیہ السلام) خدا داد قوت سے عالم غیب کا ادراک کرتے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ یہ جن ہے یہ فرشتہ ہے یہ جبریل ہیں یہ میکائیل ہیں اور فرشتہ سے وحی حاصل کرتے ہیں، سو جس طرح نطق ہمارے لئے حیوانوں سے فصل ممیز ہے اسی طرح نبی کے لئے حامل وحی ہونا عام انسانوں اور بشر سے بہ منزلہ فصل ممیز ہے اور جس طرح عام کے بعد خاص کو ذکر کیا جاتا ہے اور انسان کو حیوان ناطق کہا جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ نے پہلے آپ کے بشر ہونے کا ذکر فرمایا پھر آپ کے حامل وحی ہونے کا ذکر فرمایا اور جس طرح انسان کو صرف حیوان کہنا درست نہیں ہے اسی طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صرف بشر کہنا صحیح نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ نیک عمل کرتا ہے اور اپنے سب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ (الکھف :110)

دکھانے اور سنانے کے لئے عبادت کرنے کی ممانعت میں احادیث اور آثار 

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص اپنے رب سے ملاقات کے دن سے ڈرتا ہے، اپنے گناہوں سے خوفزدہ رہتا ہے اور اپنی عبادات پر ثواب کی امید رکھتا ہے، اس کو چاہیے کہ وہ اخلاص کے ساتھ اپنے رب عزو جل کی عبادت کرے اور پانی عبادت میں شرک جلی کرے اور نہ شرک خفی کرے، دنیا کی کسی چیز کے عوض اللہ کی عبادت نہ کرے مثلاً اس نیت سے امامت، خطابت اور تعلیم دین نہ کرے کہ اس کے عوض اس کو مال دنیا حاصل ہوگا، نہ اس وجہ سے جہاد کرے کہ اس کے عوض اس کو مال دنیا حاصل ہوگا، صرف اللہ کی رضا کے لئے یہ عبادت کرے پھر اگر اس کو کچھ نذرانہ دیا جائے تو اس کو منع نہ کرے۔ پہلے سے معاوضہ مقرر نہ کرے اور اس کی گزر اوقات کے لئے اس کو جو مختانہ دیا جائے اس کو مسترد نہ کرے۔ اسی طرح اپنی تعریف اور مدح سرائی کے لئے کوئی عبادت نہ کرے۔

اس آیت کے شان نزول میں امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے :

طائوس باین کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص نے آ کر کہا اے اللہ کے نبی ! میں جہاد کرنے کی خواہش رکھتا ہوں اور میں یہ چاہتا ہوں کہ لوگوں کو میرے جہاد کا علم ہو تو یہ آیت نازل ہوئی : جو شخص اپنے رب سے ملاقات کی توقع رکھتا ہے اس کو چاہیے کہ وہ نیک عمل کرتا رہے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو صک بھی بھی) شریک نہ بنائے۔ (جامع البیان رقم الحدیث :17654، تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث، 13014)

شھر بن حوشب بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص حضرت عبادہ بن الصامت (رض) کے پاس گیا اور آپ سے سوال کیا کہ یہ بتائے کہ ایک شخص اللہ کے لئے نماز پڑھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ نماز پر اس کی تعریف کی جائے اور ایک شخص اللہ کے لئے روزے رکھتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ اس کی تعریف کی جائے، حضرت عبادہ نے کہا اسے کسی چیز کا اجر نہیں ملے گا۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے میں سب سے اچھا شریک ہوں، جس نے میرے ساتھ کسی کو شریک بنایا تو وہ کام اس کے لئے ہے مجھے اس کی کوئی حاجت نہیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث :17656، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ)

حضرت شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مجھے اپنی امت پر شرک اور شہوت خفیہ کا خطرہ ہے میں نے عرض کیا : کیا آپ کے بعد آپ کی امت شرک کرے گی ؟ آپ نے فرمایا : سنو وہ سورج، چاند، پتھروں اور بتوں کی عبادت نہیں کریں گے لیکن وہ لوگوں کو دکھانے کے لئے عمل کریں گے۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور شہوت خفیہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ایک شخص روزے کی حالت میں صبح اٹھے گا پھر اس کو شہوت ہوگی اور وہ روز چھوڑ کر جنسی عمل کرے گا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث :13020 مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1417 ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت جندب بن زھیر عامری کے متعلق نازل ہوئی ہے اس نے کہا میں ایک عمل اللہ کے لئے کرتا ہوں پھر کوئی اس پر مطلع ہوتا ہے تو مجھے خوشی ہوتی ہے۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ طیب ہے، وہ طیب کے سوا کوئی عمل قبول نہیں کرتا اور جس عمل میں کسی کو شریک کیا گیا ہو وہ اس عمل کو قبول نہیں فرماتا۔ (اسباب النزول للواحدی رقم الحدیث :604 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن جس شخص کا سب سے پہلے حساب لیا جائے گا وہ شخص شہید ہوگا، اس کو لایا جائے گا اور اس کو اللہ کی دی ہوئی نعمتیں بتائی جائیں گی وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا اس سے پوچھا جائے گا تو تو نے ان نعمتوں کے مقابلہ میں کیا عمل کیا وہ کہے گا میں نے تیری راہ میں جہاد کیا حتیٰ کہ میں شہید ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا لیکن تو نے اس لئے جہاد کیا تھا کہ یہ کہا جائے کہ یہ بہت دلیر ہے سو یہ کہا گیا، پھر حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر اس شخص کو لایا جائے گا جس نے علم پڑھا اور پڑھایا اور قرآن مجید پڑھا، اللہ اس کو اپنی نعمتیں یاد دلائے گا اور وہ ان کو پہچان لے گا۔ اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے لئے کیا عمل کیا وہ کیہ گا میں نے علم حاصل کیا اور پڑھایا اور میں نے تیرے لئے قرآن پڑھا۔ اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا لیکن تو نے اس لئے علم حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور تو نے اس لئے قرآن پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے سو یہ کہا گیا، پھر حکم دیا جائے گا اور اس کو منہ کے بل گھسیٹ کر دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔ ایک اور شخص کو لایا جائے گا جس پر اللہ تعالیٰ نے وسعت کی تھی اور اس کو تمام اقسام کے مال سے عطا کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کو اپنی نعمتیں بتائے گا وہ ان کو پہچان لے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے لئے کیا عمل کیا وہ کہے گا تجھے جن راستوں میں مال خرچ کرنا پنسد ہے میں نے ان راستوں میں سے ہر راستہ میں تیری رضا کے لئے اپنا مال خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ بولا لیکن تو نے مال اس لئے خرچ کیا تھا کہ یہ کہا جائے یہ بہت سخی ہے سو یہ کہا گیا۔ پھر اس کو گھسیٹ کر منہ کے بل دوزخ میں ڈال دیا جائے گا۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث :1905، سنن الترمذی رقم الحدیث :2382، سنن النسائی رقم الحدیث :3137 خلق افعال العباد للبخاری رقم الحدیث :42، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث :2482، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :408، شرح السنتہ رقم الحدیث :4143 المسند الجامع رقم الحدیث :15288 مسند احمد ج ہ ص 321 السنن الکبری للبیہقی ج ٩ ص 168، الترغیب و الترھیب رقم الحدیث :26)

اخلاص کا لغوی اور اصطلاحی معنی 

علامہ راغب اصفہانی متوفی 502 ھ لکھتے ہیں :

جس چیز میں کسی دوسری چیز کی ملاوٹ نہ ہو اس کو خالص کہتے ہیں، مسلمانوں کا اخلاص یہ ہے کہ وہ اس تشبیہ سے بری ہیں جس کا یہود دعویٰ کرتے تھے اس طرح وہ اس تثلیث سے بری ہیں جس کا عیسائی دعویٰ کرتے ہیں۔ اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ انسان اللہ کے ماسوا ہر چیز سے بری ہوجائے۔ (المفردات ج ١، ص 206، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

میر سید شریف علی بن محمد جرجانی متوفی 816 ھ لکھتے ہیں :

لغت میں اخلاص کا معنی ہے عبادات میں ریا کاری کو ترک کرنا۔

اصطلاح میں اخلاص کا معنی ہے دل کو اس ملاوٹ کے شائبہ سے خالی کرنا جو دل کی صفاء کو مکدر کرتی ہے۔

اس کی تحقیق یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس میں کسی چیز کی ملاوٹ متصور ہوسکتی ہے جب اس چیز کو اس ملاوٹ سے خالی کرلیا جائے تو اس چیز کو خالص کہتے ہیں اور اس فعل کو اخلاص کہتے ہیں۔

فضیل بن عیاض نے کہا لوگوں کی وجہ سے عمل ترک کرنا ریاء ہے اور لوگوں کی وجہ سے عمل کرنا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ ان دونوں کی نفی کرے اور اپنے عمل پر کسی کو شاہد (دیکھنے والا) نہ بنائے۔

ایک قول یہ ہے کہ اعمال کو تکدرات اور زنگ سے خالی کرنا اخلاص ہے۔

ایک قول یہ ہے کہ اخلاص اللہ تعالیٰ اور بندے کے درمیان پوشیدہ عمل ہے جس کا علم فرشتہ کو نہیں ہوتا کہ وہ اس کو لکھ لے، نہ شیطان کو اس کا علم ہوتا ہے کہ وہ اس کو فاسد کر دے، نہ خواہش کو اس کا پتا چلے کہ وہ اس کی طرف کسی کو مائل کرائے۔

صدق اور الخصا میں یہ فرق ہے کہ صدق اصل ہے اور اخلاص فرع ہے، صدق متبوع ہے اور الخصا تابع ہے، صدق مقدم ہے اور اخلاص موخر ہے۔ (التعریفات ص ١٥ مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1418 ھ)

صوفیاء کرام کے نزدیک اخلاص کی تعریفات 

امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیری متوفی 465 ھ لکھتے ہیں :

اساتذ نے کہا عبادت میں صرف حق سبحانہ کا قصد کرنا اخلاص ہے، یعنی اپنی اطاعت سے صرف اللہ سبحانہ کے تقرب کا قصد کرے نہ کہ کسی اور چیز کا مثلاً مخلوق کے لئے تصنع کا یا لوگوں کی تعریف حاصل کرنے کا یا مخلوق کی مدح اور ان کی محبت کا یا اللہ کے تقرب کے سوا کسی اور معنی کا۔

فعل کو مخلوق کے ملاحظہ سے خالی کرنا اخلاص ہے اور یہ کہنا بھی صحیح ہے کہ فعل کو مخلوق کے ملاحظہ سے بچاتا۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حضرت جبریل نے خبر دی کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اخلاص میرے اسرار میں سے ایک سر (راز) ہے میں اپنے بندوں میں سے جس کو محبوب رکھتا ہوں اس کے دل میں اس کو رکھ دیتا ہوں۔

حضرت حذیفہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا اخلصا کیا ہے ؟ آپ نے حضرت جبریل سے سوال کیا، اخلاص کیا ہے ؟ حضرت جبریل نے رب العزت سے اخلاص کے متعلق سوال کیا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا اخلاص میرے اسرار میں سے ایک سر ہے جس میں اپنے محبوب بندے کے دل میں رکھ دیتا ہوں۔ ذوالنون نے کہا اخلصا کی تین علامتیں ہیں اس کے نزدیک عام لوگوں کی مدح اور مذمت برابر ہو، وہ اپنے اعمال کو بھول جائے، آخرت میں ثواب کی طلب کو بھول جائے۔

حذیفہ المرعشی نے کہا الخصا یہ ہے کہ بندہ کے افعال ظاہر اور باطن میں برابر ہوں۔

ابو عثمان المغربی نے کہا عوام کا اخلاص یہ ہے کہ ان کے اعمال میں ان کے نفس کا کوئی حصہ نہ ہو اور خواص کا اخلاص یہ ہے کہ ان کے اعمال پر نہ کبھی ان کی نظر پڑے اور نہ کبھی وہ اپنے اعمال کا شمار کریں۔

ردیم نے کہا عمل میں اخلاص یہ ہے کہ وہ اس کے عوض دارین میں کسی صلہ کا طالب ہو نہ فرشتوں سے کسی حصہ کا ارادہ کرے۔ (الرسالتہ التفشیر یہ ص 242-242 ملحضاً و ملتقطاً مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)

اخلاص کے متعلق احادیث و آثار 

حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب انہیں یمن کی طرف بھیجا گیا تو انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے نصیحت کیجیے۔ آپ نے فرمایا : تم اخلاص کے ساتھ عبادت کرو، تمہیں عمل قلیل بھی کافی ہوگا۔ حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ (المستدرک ج ٤ ص 306 قدیم ۔ المستدرک رقم الحدیث :7314، جدید، الترغیب و الترھیب رقم الحدیث : ٤)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ اس شخص کو ترو تازہ رکھے جس نے میری حدیث کو سنا اور اس کو محفوظ اور یاد رکھا اور اس کو پہنچا دیا، کیونکہ بسا اوقات کوئی شخص اپنے سے زیادہ فقیہ تک حیدث پہنچاتا ہے۔ تین چیزوں پر مسلمان کے دل میں کھوٹ نہیں ہوتا، عمل میں اللہ کے لئے الخاص ہو، ائمہ مسلمین کے لئے خیر حدیث پہنچاتا ہے۔ تین چیزوں پر مسلمان کے دل میں کھوٹ نہیں ہوتا، عمل میں اللہ کے لئے اخلاص ہوا، ائمہ مسلمین کے لئے خیر خواہی کرے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ لازم رہے کیونکہ ان کی دعا ان کے علاوہ دوسروں کو بھی شامل ہوتی ہے۔

(سنن الترمذی رقم الدیث :2658 سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :232 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :68, 66 مسند ابویعلی رقم الحدی :5126 مسند احمد ج ١ ص 436)

حضرت ابوامامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا یہ بتائیے ایک شخص جہاد کرتا ہے اس میں اجرت بھی طلب کرتا ہے اور اپنی شہرت بھی، اس کو کیا ملے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین بار فرمایا اس کو کچھ نہیں ملے گا۔ پھر فرمایا اللہ تعالیٰ اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لئے کیا جائے اور اس عمل سے اس کی رضا کا ارادہ کیا جائے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث :3140)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تمہارے جسموں کی طرف نہیں دیکھتا اور نہ تمہاری صورتوں کی طرف دیکھتا ہے لیکن وہ تمہارے دلوں کی طرف دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2524، مسند احمد ج ٢ ص 484، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4143 المسند الجامع رقم الحدیث :15080)

حضرت ابی ابن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس امت کو دوسری امتوں پر اللہ کے نزدیک چند درجوں کی بشارت دے دو ، پس جس شخص نے آخرت کا عمل دنیا کے لئے کیا اس کے لئے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہوگا۔ (مسند احمد ج ٥ ص 143، صحیح ابن حبان رقم الحدیث :2501، شعب الایمان رقم الحدیث :6833 المستدرک ج ٤ ص 318 مجمع الزوائد ج 10 رقم الحدیث :220)

حضرت جندب (رض) باین کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے سنایا اللہ تعالیٰ اس کو سنائے گا اور جس نے دکھایا اللہ تعالیٰ اس کو دکھائے گا۔ یعنی جس نے لوگوں کو دکھا نے کے لئے عمل کیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ اس کی رسوائی لوگوں کو دکھائے گا اور جس نے لوگوں کو سنانے کے لئے عمل کیا اللہ تعالیٰ اس کی فضیحت قیامت کے دن لوگوں کو سنائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :6499، صحیح مسلم رقم الحدیث :2987، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4207)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے پاس تشریف لائے اس وقت ہم آپس میں مسیح الدجال کا ذکر رہے تھے آپ نے فرمایا : کیا میں تم کو یہ نہ بتائوں کہ مسیح الدجال سے زیادہ مجھ کو تم پر کس چیز کا خطرہ ہے، ہم نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا : شرک خفی (ریا کاری ایک شخص کھڑے ہو کر نماز پڑھتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس کی نماز کو دیکھ رہا ہے تو وہ نماز کو زیادہ مزین کر کے پڑھتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4204 شعب الایمان رقم الحدیث :6832، مسند الفردوس 8164)

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر (رض) مسجد کی طرف گئے تو دیکھا کہ حضرت معاذ (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر مبارک کے پاس بیٹھے ہوئے رو رہے ہیں، ان سے پوچھا تمہیں کیا چیز رلا رہی ہے۔ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ حدیث سنی ہے کہ تھوڑا سا ریا بھی شرک ہے اور جس نے اولیاء اللہ سے عداوت رکھی اس نے اللہ سے اعلان جنگ کردیا۔ اللہ تعالیٰ نیک اور متقی لوگوں سے محبت کرتا ہے جو چھپ کر رہتے ہیں اگر وہ غائب ہوجائیں تو ان کو تلاش نہیں کیا جاتا اور اگر وہ حاضر ہوں تو ان کو کوئی پہچانتا نہیں ہے، ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں وہ ہر گرد آلود اندھیرے سے نکل جاتے ہیں۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :3989، المستدرک ج ١ ص ٤ ج ٣ ص 270 یہ حدیث صحیح ہے۔ )

حضرت محمود بن لبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھجے تم پر شرک اصغر کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔ صحابہ نے پوچھا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) شرک اصغر کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : ریا، جب لوگوں کو ان کے اعمال کی جزا دی جائے گی تو اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا جائو ان سے جا کر اپنے اعمال کی جزا لو جن کو دکھانے کے لیے تم عمل کرتے تھے۔ پس دیکھو کیا تم کو ان سے جزا ملے گی۔ (مسند احمد ج ٥ ص 428، شعب الایمان رقم الحدیث :4831 مجمع الزوائد ج ١ ص 102)

حضرت ابوسعید بن ابی فضالہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن جب اللہ عزو جل اولین اور آخرین کو جمع کرے گا تو ایک منادی ندا کرے گا جس نے اللہ کے لئے عمل میں کسی کو شریک کیا تو وہ اسی سے اپنے ثواب کو طلب کرے کیونکہ اللہ شرکا کے شرک سے مستغنی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :3154، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4203 صحیح ابن حبان رقم الحدیث :7301، شعب الایمان رقم الحدیث :6817، مسند احمد ج ٣ ص 466)

نیک کاموں کے ظہور پر خوش ہونے سے اجر ملنے اور اجر نہ ملنے کے محامل 

حافظ سیوطی نے امام ابن مندہ، امام ابونعیم اور امام ابن عسا کر کے حوالوں سے یہ حدیث لکھی ہے حضرت ابن عباس (رض) عنما بیان کرتے ہیں کہ حضرت جندب بن زہیر جب نماز پڑھتے یا روزہ رکھتے یا صدقہ کرتے تو ان کا نیکی کے ساتھ ذکر کیا جاتا، وہ اس سے خوش ہوتے اور لوگوں کی تعریف کی وجہ سے ان نیک کاموں کو اور زیادہ کرتے تو اللہ عزوجل نے ان کو ملامت کی اور یہ آیت نازل فرمائی : فمن کان یرجوا لقآء ربہ فلیعمل عملاً صالحاً ولا یشرک بعبادۃ ربہ احدا۔ (الکھف :110) (الدار المنشور ج ٥ ص 469، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1414 ھ)

بعض علماء نے یہ ذکر کیا ہے کہ جب کسی شخص کے نیک عمل پر لوگ مطلع ہوں اور وہ اس سے خوش ہو پھر بھی اس کو اجر وثواب ملے گا۔ ان کا استدلال اس حدیث سے ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہ کا یا رسول اللہ ! ایک شخص کوئی نیک کام کرتا ہے جس کو وہ مخفی رکھتا ہے اور جب لوگ اس کام پر مطلع ہوتے ہیں تو وہ اس سے خوش ہوتا ہے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو دو اجربلیس کے ایک اس کام کو مخفی رکھنے کا اجر اور ایک اس کام کے ظاہر ہونے کا اجر۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث :2384، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :4226، الجامع رقم الحدیث :15098 مجمع الزوائد ج 10 ص 290)

امام ابو عیسیٰ ترمذی متوفی 279 ھ لکھتے ہیں :

بعض اہل علم نے اس حدیث کی یہ تفسیر کی ہے کہ جب اس شخص کو یہ علم ہوا کہ لوگ اس کی نیکیوں کی وجہ سے اس کو نیک کہہ رہے ہیں، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے تم زمین پر اللہ کے گواہ ہو تو وہ اس وجہ سے خوش ہو کہ لوگ اس کے نیک ہونے کی گواہی دیں گے اور جس کو لوگ نیک کہیں اس کے لئے جنت واجب ہوجاتی ہے۔ ہاں اگر وہ اس وجہ سے خوش ہوتا ہو کہ جب لوگوں کو اس کی نیکیوں کا علم ہوگا تو وہ اس کی زیادہ تعظیم اور توقیر کریں گے اور وہ تعظیم و تکریم کی طلب کے لئے نیکیاں کرے تو پھر یہ ریا ہے اور بعض اہل علم نے اس حدیث کی یہ توجیہ کی ہے کہ جب لوگوں کو اس کی نیکیوں کا علم ہو تو وہ اس وجہ سے خوش ہو کہ لوگ اب اس کی اقتداء میں اس کی طرح نیک عمل کریں گے تو اس کو اپنے نیک اعمال کا بھی اجر ملے گا اور لوگوں کے نیک اعمال کا بھی اجر ملے گا جو اس کی اقتداء میں نیک عمل کریں گے اور یہ بھی صحیح محمل ہے، علامہ آلوسی نے اضافہ کیا ہے یعنی اس کا خوش ہونا اپنے عمل کے ظہور کی وجہ سے نہ ہو بلکہ اس کا خوش ہونا اس وجہ سے ہو کہ اس کا نیک عمل دوسروں کے لئے نیک عمل کا باعث ہے اور اس کی اقتداء کرنے کا سبب ہے، اسی طرح اگر وہ اس لئے خوش ہو کہ جب لوگوں کو اس کے نیک عمل کا پتا چلے گا تو وہ اس کے متعلق بدگمانی اور غیب نہیں کریں گے۔ اسی وجہ سے کہا جاتا ہے کہ جس شخص کی اقتداء کی جاتی ہو اس کو چاہیے کہ وہ اپنے نیک اعمال کو ظاہر کرے اور زیادہ ظاہر یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس شخص کی نیت کا علم تھا کہ وہ کس وجہ سے خوش ہوتا ہے اور حضرت جندب نے جو اپنے متعلق سوال کیا تھا آپ کو ان کی نیت کا بھی علم تھا اس لئے آپ نے ہر ایک کے حسب حال جواب دیا۔ (سنن ترمذی ج ٤ ص 192-193، مبوعہ دارالجیل بیروت، روح المعانی ج 16 ص 79، دارالفکر بیروت 1417)

قربانی کے عمل میں مسلمان بہت زیادہ دکھاوا کرتے ہیں 

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک صاع (چار کلو گرام) طعام صدقہ فطر ادا کرتے تھے یا صاع جو یا ایک صاع پنیریا ایک صاع کشمکش (صحیح البخاری رقم الحدیث، 1506، صحیح مسلم رقم الحدیث :984)

حضرت ابن عباس (رض) نے کہا رضمان کے آخر میں اپنے روزوں کا صدقہ نکالو، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ صدقہ ایک صاع کھجوریں، یا ایک صاع جو یا نصف صاع گندم ہر آزاد یا مملوک، مرد یا عورت یا چھوٹے اور بڑے پر فرض کیا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث :1622، سنن النسائی رقم الحدیث :2507)

اس زمانہ میں نصف صاع گندم تقریباً 26 روپے کے ہیں اور ایک صاع کھجوریں تقریباً دو سو روپے کی اور ایک صاع کشمکش تقریباً 300 روپے کی ہیں، چونکہ مال و دولت کے حساب سے لوگ تقریباً تین طبقات پر منقسم ہیں، غریب، متوسط اور امیر، اس وجہ سے آپ نے صدقہ فطر کے بھی تین درجات رکھے غریب لو گندم کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں۔ متوسط لوگ کھجوروں کے حساب سے صدقہ فطر ادا کریں اور امیر لوگ کشمکش کے سحاب سے صدقہ فطر ادا کریں، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ جس کی آمدنی پانچ ہزار روپے مہینہ ہے وہ بھی گندم کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرتا ہے اور جس کی آمدنی پانچ لاکھ روپے ماہانہ ہے وہ بھی گندم کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرتا ہے اور جس کی آمدنی دس کروڑ روپے ماہانہ ہے وہ بھی گندم کے حساب سے صدقہ فطر ادا کرتا ہے۔

اسی طرح قربانی کے بھی تین درجات ہیں گائے کا ساتواں حصہ بھی قربانی ہے۔ سالم بکرے کی بھی قربانی ہے۔ سالم گائے اور اونٹ کی بھی قربانی لیکن یہاں ایسا نہیں ہوتا کہ سب لوگ گائے میں حصہ ڈالیں گے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اپنی حیثیت کے مطباق اسلم بکرا بھی خریدتے ہیں بلکہ کئی کئی بکرے اور دنبے خریدتے ہیں اور سالم گائے بھی خریدتے ہیں بلکہ کئی کئی گائے خریدتے ہیں اور ڈھونڈ ڈھونڈ کر قیمتی سے قیمتی بیل خرید کر اس کی قربانی کرتے ہیں حتیٰ کہ لاکھوں روپے کے بیل خریدے جاتے ہیں۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مالیت کے اعتبار سے صدقہ فطر میں درجات رکھے ہیں اور قربانی میں بھی مالیت کے اعتبار سے درجات رکھے ہیں، لیکن صدقہ فطر میں غریب، امیر اور متوسط سب لوگ کم سے کم مالیت کا صدقہ فطر ادا کرتے ہیں اور قربانی میں لوگ حسب حیثیت زیادہ سے زیادہ مالیت کے جانور کی قربانی کرتے ہیں، اگر غور کیا جائے تو اس کی صرف یہ وجہ معلوم ہوتی ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی میں لوگوں کو اس قدر نمود و نمائش کے مواقع نہیں ملتے جتنے نمود و نمائش کے مواقع قربانی میں ملتے ہیں لوگ مہنگے سے مہنگا قیمتی سے قیمتی اور خوب صورت ترین جانور خرید کر اپنے دوستوں اور عزیزوں کو دکھاتے ہیں اور اس جانور کا محلہ میں گشت کراتے ہیں، ہر ایک کو اس جانور کی اہمیت اور قیمت بتاتے ہیں اور اس جانور پر فخر کرتے ہیں لوگ اس جانور کی تعریف کرتے ہیں اور وہ اس کی تعریف و تحسین سن کر پھولے نہیں سماتے۔ اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ ایسی قربانی تعریف کرتے ہیں اور وہ اس کی تعریف و تحسین سن کر پھولے نہیں سماتے۔ اب ان لوگوں کو خود فیصلہ کرنا چاہیے کہ ایسی قربانی میں لہیت کا کتنا جذبہ کار فرما ہے اور دکھانے اور سنانے کا کتنا جذبہ ہے، اسی طرح ہماری دیگر مالی عبادتوں کا بھی یہی حال ہے کم ایسے لوگ ہیں جو صرف اللہ کی رضا کے لئے اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں، زیادہ تعداد ان ہی لوگوں کی ہے جو دکھانے اور سنانے کے لئے راہ خدا میں مال خرچ کرتے ہیں اور ایسے کاموں کا اللہ کے ہاں کیا انجام ہوگا یہ آپ ان احادیث میں پڑھ چکے ہیں جن کا ذکر ہم نے ابھی کیا ہے۔ میں آٹھ ذوالحجہ کو یہ سطور لکھ رہا ہوں اور آج کل قربانی کے جانوروں کی گہما گہمی ہے اور صدقہ فطر کے ایام بھی ابھی گزرے ہیں اور مسلمانوں کے غسل کا یہ تضاد ابھی ابھی میرے سامنے سے گزرا ہے کہ صدقہ فطر کی ادائیگی میں بہت کم خرچ کیا جائے اور قربانی میں بہت زیادہ خرچ کیا جائے اس لئے میں نے ان دونوں کا تجزیہ کیا۔

اختتامی کلمات 

الحمد للہ علی احسانہ آج بہ روز پیر مورخہ 9 ذوالحجہ (یوم عرفہ) 1421 ھ، 5 مارچ 2001 ء کو سورة الکھف کی تفسیر مکمل ہوگی۔ الہ العالمین ! جس طرح آپ نے کرم فرمایا ہے اور یہاں تک قرآن کریم کی تفسیر مکمل کرا دی ہے اسی طرح کرم فرماتے رہیں اور باقی قرآن مجید کی تفسیر بھی مکمل کرا دیں۔

اس تفسیر کو اپنی بارگاہ میں اور اپنے محبوب رسول سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں مقبول بنادیں اور قیامت تک کے مسلمانوں کے دلوں میں اس تفسیر کو مرغوب بنادیں۔ اس تفسیر کو عقائد کی صحت اور اعمال کی صالحیت میں اور برے اعمال سے اجتناب کرنے میں مفید اور مئوثر بنادیں۔ موافقین کے لئے اس تفسیر کو موجب استقامت بنادیں اور مخلافین کے لئے اس کو ذریعہ ہدایت بنادیں۔ منکرین اور معاندین کے شر سے اس کتاب کو محفوظ اور مامون رکھیں اور قیامت تک کے سملمانوں کے درمیان اس کتاب کو پڑھی جانے والی اور معمول بہ رکھیں۔

اے میرے رب کریم ! جس طرح آپ نے مجھے بہت نعمتوں سے نوازا ہے، بیماری اور بےچارگی سے نکال کر تصنیف اور تالیف کی راہ میں پھر سے لاکھڑا کیا ہے اسی طرح مجھے تاحین حیات اپنی نعمتوں کے سائے میں برقرار رکھیں۔ نیکی، عافیت اور تصنیف و تالیف کے ذریعے خدمت دین کے ساتھ اور ایمان پر میرا خاتمہ فرمائیں۔ مرتے وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت اور آپ کی شفاعت نصیب فرمائیں۔

میرے والدین کی میرے اساتذہ کی میرے اعزہ اور اقربا کی، احباب اور تلامذہ کی، اس تفسیر کے ناشر، اس کے کمپوزر، اس کے مصح اس کے معاونین اس کے قارئین اور جملہ مسلمین کی مغفرت فرمائیں۔ مجھے اور ان سب کو دنیا کی ہر بلا اور مصیبت اور آخرت کی ہر پریشانی اور عذاب سے محفوظ اور مامون رکھیں، دارین کی سب نعمتیں اور سعادتیں مرحمت فرمائیں، دوزخ کے عذاب سے نجات میں رکھیں اور جنت الفردوس، اپنا دیدار اور اپنی رضا عطا فرمائیں۔

واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی سیدنا محمد خاتم النبین سیدالمرسلین، قائد الغر المحجدین شفیع المذنبین و علی الہ الطییبین و اصنحابہ الراشدین وعلی ازواجہ الطاھرات امھات المومنین و علی علماء ملتہ واولیاء امتہ و علی سائر المسلمین اجمعین۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 18 الكهف آیت نمبر 110