أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاَتَتۡ بِهٖ قَوۡمَهَا تَحۡمِلُهٗ‌ؕ قَالُوۡا يٰمَرۡيَمُ لَقَدۡ جِئۡتِ شَيۡئًـا فَرِيًّا‏ ۞

ترجمہ:

پھر وہ اس بچے کو اٹھائے ہوئے لوگوں کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا اے مریم ! تم نے تو بہت سنگین کام کیا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر وہ اس بچہ کو اٹھائے ہوئے لوگوں کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا اے مریمچ تم نے تو بہت سنگین کام کیا ہے اے ہارون کی بہن نہ تمہارا باپ بدکار تھا اور نہ تمہاری ماں بدچلن تھی تو مریم نے اس بچہ کی طرف اشارہ کیا ان لوگوں نے کہا ہم گود کے بچے سے کیسے بات کریں (مریم :27-29)

حضرت مریم کو لوگوں کا ملامت کرنا 

حضرت ابن عباس (رض) نے بیان کیا ہے کہ یوسف نجار حضرت مریم کو غار تک پہنچا کر آیا وہ چالیس دن غار میں رہیں حتیٰ کہ نفاس سے پاک ہوگئیں پھر وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو گود میں اٹھا کر قوم کے پاس جانے لگیں راستہ میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت مریم سے کہا اے میری ماں آپ خوش ہوجائیں میں اللہ کا بندہ اور اس کا مسیح ہوں۔

” فری ‘ کا معنی ہے کسی کی طرف جھوٹی بات منسوب کرنا، بہتان گھڑ کر کسی کے ذمہ لگانا، کسی سنگنی بات کہنے کو بھی ’ دفری “ کہتے ہیں قرآن مجید میں ہے :

ولا یاتین ببھتان یفترینہ بین ایدیھن وارجلھن (المختتہ :12) اور کوئی ایسا بہتان نہیں باندھیں گی جو خود اپنے ہاتھ پیروں کے سامنے گھڑ لیں۔

اور جو بچہ ولد الزنا ہو وہ بھی اس چیز کی طرح ہے جس کو گھڑ لیا گیا ہو۔ جب حضرت مریم بچہ کو لے کر لوگوں کے پاس گئیں تو انہوں نے کہا اے مریم تم نے تو بہت سنگین کام کیا ہے، یعنی تم ایک ولد الزنالے آئی ہو۔ وھب بن منبہ نے کہا جب حضرت مریم بچہ کو قوم کے پاس لے کر آئیں تو بنو اسرائیل کے تمام مرد اور عورتیں جمع ہوگئیں، ایک عورت نے حضرت مریم کو مارنے کے لئے ہاتھ بڑھایا تو اس کا آدھا دھڑ سوکھ گیا، پھر اس کو اسی طرح اٹھا کرلے جایا گیا۔ ایک اور شخص نے کہا مجھ یقین ہے اس نے زنا ہی کیا ہے تو اللہ تعالیٰ نے اس کی گویائی سلب کرلی اور وہ گونگا ہوگیا، پھر لوگ سہم گئے اور ان کو مارنے اور ان کو کوئی تکلیف دہ بات کہنے سے باز رہے اور خوف زدہ ہوئے اور چپکے چپکے باتیں کرنے لگے اور کہنے لگے اے مریم تم نے بہت سنگین کام کیا ہے۔

یا اخت ہارون کی توجیہات 

پھر انہوں نے کہا اے ہارون کی بہن ! نہ تمہارا باپ بدکار تھا اور نہ تمہاری ماں بدچلن تھی۔ اس ہارون کے متعلق چار قول ہیں :

(١) یہ بنو اسرائیل کا ایک مرد صالح تھا جو نیکی کرنے میں بہت مشہور تھا، ان کا مطلب یہ تھا کہ تم تو زہد وتقویٰ میں ہارن کی بہن تھیں پھر کیا ہوا کہ تم نے اس قدر سنگین کام کیا کہ بغیر باپ کے بچہ لے آئیں۔

(٢) ہارون نام کا ایک شخ فسق و فجور اور برے کام میں بہت مشہور تھا تو انہوں نے بطور تشبیہ کے کہا اے ہارون کی بہن !

(٤) حضرت مریم کے ایک صلبی (سگے) بھائی تھے جن کا نام ہارون تھا تو انہوں نے اس کو عار دلانے کے لئے کہا اے ہارون کی بہن !

حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب میں نجران گیا تو وہاں کے لوگوں نے مجھ سے سوال کیا اور کہا تم قرآن میں پڑھتے ہو یا اخت ہارون ! حالانکہ موسیٰ (علیہ السلام) تو عیسیٰ (علیہ السلام) سے اتنا عرصہ پہلے تھے، پھر جب میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : وہ لوگ پہلے انبیاء اور صالحین کے ناموں پر نام رکھتے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : 2135، سنن الترمذی رقم الحدیث :3155، مسند احمد ج ٢ ص 423، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث :11315)

انبیاء (علیہم السلام) کے ناموں پر نام رکھنا مستحب ہے، خود ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے صاحبزادہ کا نام ابراہیم رکھا، لیکن آج کل لوگوں کو یہ شوق ہے کہ ایسا نام رکھیں جو نیا اور انوکھا ہو خواہ اس کا کوئی معنی اور طملب ہو یا نہ ہو۔ وہ نیلی، پیلی، گیلی اور ٹینا، شینا اور نینا ایسے نام رکھتا ہیں اور کئی ناموں کو غلط املاء اور تلفظ کرتے ہیں مثلاً شرح بیل کو شرجیل پڑھتے ہیں اور ثوبیہ کو ثوبیہ پڑھتے ہیں۔

زمخشری نے لکھا ہے کہ حضرت موسیٰ اور ہارون اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے درمیان ایک لمبا عرصہ ہے جو ایک ہزار سال سے زیادہ ہے اس لئے یہ وہم نہ کیا جائے کہ حضرت مریم حضرت ہارون (علیہ السلام) کی حقیقی بہن تھیں۔

حضرت مریم کا حضرت عیسیٰ کی طرف جواب کا اشارہ کرنا 

ان لوگوں نے حضرت مریم کو جب بہت زیادہ ملامت کی تو انہوں نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرف اشارہ کیا کہ تمہاری تہمت اور تمہارے الزام کا جواب یہ بچہ دے گا۔ انہوں نے کہا ہم گود کے بچے سے کیسے کلام کریں گے۔ مھد کا معنی ہے بستر اور گہوارہ اور یہاں مراد ہے ماں کی گود۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت مریم کو یک سے معلوم ہوا تھا کہ حضرت عیسیٰ کلام کریں گے اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے خود حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یا حضرت جبریل، حضرت مریم کو ندا کرچکے تھے کہ آپ غم نہ کریں اور اس معاملہ میں اور بچہ کے معاملہ میں پریشان نہوں یا حضرت زکریا پر اللہ تعالیٰ نے وحی کی تھی اور انہوں نے حضرت مریم سے کہا تھا کہ تم بچہ کی طرف اشارہ کرو وہ جواب دے گا، یا اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کے دل میں یہ بات ڈال دی تھی اور یہ الہام ان کی کرامت تھی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 27