أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاَجَآءَهَا الۡمَخَاضُ اِلٰى جِذۡعِ النَّخۡلَةِ‌ۚ قَالَتۡ يٰلَيۡتَنِىۡ مِتُّ قَبۡلَ هٰذَا وَكُنۡتُ نَسۡيًا مَّنۡسِيًّا ۞

ترجمہ:

پھر دردزہ ان کو ایک کھجور کے درخت کی طرف سے لے گیا انہوں نے کہا کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بسری ہوجاتی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر دردزہ ان کو ایک کھجور کے درخت کی طرف لے گیا۔ انہوں نے کہا کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھولی بسری ہوجاتی (مریم :23)

وضع حمل کے لئے حضرت مریم کے دور جانے کی وجوہ 

(١) جب حضرت مریم کے وضع حمل کا زمانہ قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں ڈالا کہ وہ اپنی قوم کے علاقہ سے باہر چلی جائیں تاکہ لوگ ان کے بچہ کو قتل نہ کردیں، تب یوسف نجار ان کو دراز گوش پر سوار کرا کے ارض مصر لے گئے، جب وہ اس شہر میں پہنچ گئیں تو وضع حمل کا وقت قریب آگیا، وہ موسم خزاں اور سردیوں کا زمانہ تھا وہ کھجور کے ایک سوکھے ہوئے درخت کی پناہ میں گئیں اور اس کے پاس ان کے ہاں ولادت ہوگئی۔

(٢) اپنے علاقہ سے دور جانے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ ان کو حضرت زکریا سے حیا آتی تھی وہ چاہتی تھیں کہ وضع حمل کا ان کو پتا نہ چلے۔

(٣) حضرت مریم نبی اسرائیل میں اپنے زہد وتقویٰ کی وجہ سے مشہور تھیں۔ کیونکہ ان کی والدہ نے ان کو بیت المقدس کی خدمت کے لئے وقف کرنے کینذر مانی تھی اور ان کی پر وشر کرنے کے لئے کئی انبیاء خواہش مند تھے اور حضرت زکریا نے ان کی کفالت کی تھی، ان کے پاس اللہ کی طرف سے بےموسمی پھل آتے تھے اور جب ان کی اس قدر نیک شہرت تھی تو ان کو حی آئی کہ اگر ان کو یہاں وضع حمل ہوگیا تو لوگوں کو بہت رنج بھی ہوگا اور وہ بہت باتیں بنائیں گے۔

یہ کہنے کی توجیہ کہ کاش میں اس سے پہلے مر جاتی 

حضرت مریم وضع حمل کے لئے کھجور کے ایسے درخت کے پاس گئیں جو اجاڑ تھا اور سوکھا ہوا تھا۔ زمخشری نے کہا وہ سردیوں کا موسم تھا وہ صحرا میں اس درخت کے پاس گئیں اس کا سر تھا نہ اس میں پھل اور نہ وہ سرسبز تھا وہاں انہوں نے یہ کہا کاش میں اس سے پہلے مرجاتی اور بھلوی بسری ہوجاتی۔ اس پر یہ اعتراض ہے کہ جب حضرت جبریل انہیں اس بچے کی بشارت دے چکے تھے تو پھر انہوں نے یہ کلمات کیوں کہے اور اس قدر حزن و ملال کا اظہار کیوں کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ان کو جو دردزہ لاحق ہوا تھا وہ اتنا شدید تھا کہ وہ حضرت جبریل کی بشارت کو بھول گئی تھیں اور قیامت کی ہلنا کی اور اللہ کے عذاب کا خوف جب حضرات صحابہ کرام پر طاری ہوتا تھا تو وہ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دی ہوئی بشارات کو بھول جاتے تھے اور خوف خدا کے غلبہ سے کہتے تھے :

مجاہد کہتے تھے حضرت ابوزر (رض) نے کہا کاش میں میں ایک درخت ہوتا جس کو کاٹ دیا جاتا۔ میری خواہش ہے کہ مجھ کو پیدا ہی نہ کیا جاتا۔ (کتاب الزھد للوکیع رقم الحدیث :159، المستدرک ج ٤ ص 579، مسند احمد ج ٥ ص 173) 

حضرت عائشہ (رض) فرماتی تھیں کاش میں بھلوی بسری ہوتی۔ (کتاب الزھد للوکیع رقم الحدیث :160، مصنف عبدالرزاق ج ١ ۃ ص 307، حلیۃ الاولیاء ج ٢ ص 45)

یعقوب بن زید کہتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ایک پرندہ کو درخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو کہا کاش میں اس پرندہ کی جگہ ہوتا۔ (کتاب الزھد للوکیع رقم الحدیث :165، مسند الحمیدی ج ١ ص 77، مسند حمد ج ٥ ص 157)

ضحاک بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابوبکر نے ایک پرندہ کو درخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو فرمایا اے پرندہ تمہارے لئے خوشی ہو، خدا کی قسم ! میری یہ خواشہ ہے کہ میں تمہاری مثل ایک پرندہ ہوتا، درخت پر بیٹھتا اس کے پھل کھاتا، تجھ سے حساب لیا جائے گا نہ تجھے عذاب ہوگا۔ (کتاب الزھد للھنا درقم الحدیث :437)

حضرت عمر نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا کاش میں اس طرح تنکا ہوتا، حضرت علی نے جنگ حمل کے دن کہا کاش میں اس دن کے آنے سے بیس سال پہلے فوت ہوچکا ہوتا، حضرت بلال نے کہا کاش بلال کو اس کی ماں نے نہ جنا ہوتا، اس سے معلوم ہوا کہ جب صالحین پر مصائب اور سختیاں آتی ہیں تو ان سے اس طرح کا کلام صادر ہوتا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٧ ص 526)

حضرت مریم کی طرف سے ایک اور جواب یہ ہے کہ انہوں نے یہ کلمات اس لئے کہے کہ ان کے متعلق جو ناگفتنی باتیں کی جائیں گی ان کی وجہ سے وہ کس گناہ میں مبتلا نہ ہوجائیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 23