أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ سَلٰمٌ عَلَيۡكَ‌ۚ سَاَسۡتَغۡفِرُ لَـكَ رَبِّىۡؕ اِنَّهٗ كَانَ بِىۡ حَفِيًّا ۞

ترجمہ:

ابراہیم نے کہا تجھے سلام ہو میں عنقریب اپنے رب سے تیرے لئے استغفار کروں گا، بیشک وہ مجھ پر بہت مہربان ہے

تفسیر:

واھجرنی ملیا کا معنی ہے تم مجھ سے بات کرنا چھوڑ دو ، اور اس کا دوسرا معنی ہے تم مجھے چھوڑ دو یعنی اس شہر اور اس ملک پر بہت مہربان ہے (مریم :47)

سلام کی دو قسمیں سلام تحیت اور سلام متارکہ 

اس مقام پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ کفار کو سلام کرنا جائز نہیں ہے پھر حضرت ابراہیم نے آزر کو کیوں سلام کیا، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ تعظیم اور تحیت کا سل ام نہیں تھا بلکہ یہ متارکہ کا سلام تھا یعنی کسی کو چھوڑنے نے اور اس سے قطع تعلق کرنے کا سلام تھا، اللہ تعالیٰ نے مومنین اہل کتاب کی صفات میں فرمایا :

واذا سمعوا اللغو اعرضوا عنہ وقالوا لنا اعمالنا ولکم اعمالکم سلم علیکم لانبتغی الجھلین (القصص : ٥٥) اور جب وہ کوئی بےہودہ بات سنتے ہیں تو اس سے اعراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں ہمارے اعمال ہمارے لئے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لئے ہیں، بس تمہیں سلام ہو ہم جاہلوں سے بحث کرنا نہیں چاہتے۔

نیز اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کی صفات میں فرمایا :

وعبادالرحمن الذین یمشون علی الارض ھونا و اذا خاطبھم الجھلون قالوا سلاماً (الفرقان :63) اور رحمٰن کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرمی اور عاجزی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے بحث کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں بس تمہیں سلام ہو۔

خلاصہ یہ یہ کہ سلام کا حقیقی معنی تو دعا ہے یعنی اللہ تم کو سلامت رکھے، یا اللہ تم کو ہر آفت اور ہر مصیب سے محفوظ اور مامون رکھے، یا تم جس حال میں ہو اللہ تمہیں اس میں سلامت رکھے، اس معنی کے اعتبار سے کفار اور فساق کو سلام کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں کفر اور فسق پر سلامت رہنے کی دعا ہے اور کفار اور فساق کی تعظیم اور تحیت ہے اور یہ جائز نہیں ہے۔ حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) باین کرتے ہیں کہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہود اور نصاریٰ جکو سلام میں پہل نہ کرو جب وہ تم سے راستہ میں ملیں تو تم ان کو تنگ راستہ میں چلنے پر مجبور کرو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2167: سنن الترمذی رقم الحدیث :2700، سنن ابودائود رقم الحدیث :5205)

حضرت ابراہیم بن میسرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص نے کسی بدعتی کو تعظیم کی اس نے اسلام کے منہدم ہونے پر اعانت کی۔ (شعب الایمان رقم الحدیث :9464، مشکوۃ رقم الحدیث :189)

ان احادیث کی بنا پر کفار اور فساق کو تعظیماً سلام کرنا جائز نہیں ہے اور سلام کا التزامی اور مجازی معنی ہے کسی کو رخصت کرنا کیونکہ رخصت ہونے کے مقام پر سلام کیا جاتا ہے تو جب کفار اور فساق سے بحث کو ترک کرنا اور ان سے تعلق کو ترک کرنا مقصود ہو تو ان کو سلام کردیا جاتا ہے جیسا کہ مذکورہ الصدر آیتوں میں ہے۔

کفار اور فساق کو سلام کرنے کی تحقیق 

ابراہیم نخعی نے کہا ہے کہ جب تمہیں یہود و نصاریٰ سے کوئی کام ہو تو ان کو ابتداء سلام کرو اور حضرت ابوہریرہ کی حدیث میں جو ہے یہود و نصاری کو ابًتداء سلام نہ کرو وہ اس پر محمول ہے جب تمہیں ان سے کوئی کام یا غرض نہ ہو، لیکن جب تمہیں ان سے کوئی کام ہو یا کوئی ذمہ داری پوری کرنی ہو، یا صحبت یا سفر کا حق ادا کرنا ہو یا پڑوس کا حق ادا کرنا ہو تو پھر ان کو سلام کرلو۔ امام طبری نے کہا ہے کہ سلف سے منقول ہے کہ وہ اہل کتاب کو سلام کرتے تھے۔ ایک دہقان حضرت ابن مسعود کے راستہ میں ساتھ ہوگیا انہوں نے اس کو سلام کیا، علقمہ نے کہا اے ابو عبدالرحمان کیا ان کو ابتداء سلام کرنا مکروہ نہیں ہے ! فرمایا : ہاں ! لیکن یہ صحبت کا حق ہے اور ابو اسامہ جب اپنے گھر واپس جاتے تو راستہ میں ان کو جو بھی ملتا خواہ مسلمان ہو یا عیسائی یا چھوٹا یا بڑا وہ اس کو سلام کرتے جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے کہا ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ سلام کو پھیلائیں، امام اوزاعی سے یہ پوچھا گیا کہ جب کوئی مسلمان کسی کافر کے پاس سے گزرے تو آیا اس کو سلام کرے ؟ انہوں نے کہا اگر تم سلام کرو تو تم سے پہلے صالحین نے ان کو سلام کیا ہے اور اگر تم سلام نہ کرو تو تم سے پہلے صالحین نے ان کو سلام کرنا ترک کیا ہے، حسن بصری نے کہا جب تم ایسی مجلس کے پاس سے گزرو جس میں مسلمان اور کفار ہوں تو ان کو سلام کرو۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١ ۃ ص 37-38، مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

علامہ محمد علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :

مسلمان کو اگر ذمی سے کوئی کام ہے تو وہ اس کو سلام کرے ورنہ اس کو سلام کرنا مکروہ ہے، یہی قول صحیح ہے، علامہی شامی لکھتے ہیں کہ تاتار خانیہ میں مذکور ہے کہ کفار کو سلام کرنے کی ممانتع ان کی تعظیم اور توقیر کی بنا پر ہے اور جب کسی کام یا کسی غرض کی بنا پر ان کو سلام کیا جائے گا تو وہ ان کی تعظیم اور توقیر کی بنا پر نہیں ہوگا اور تاتار خانیہ میں مذکور ہے کہ جب اہل ذمہ سلام کریں تو ان کو جواب دینا چاہیے، ہم اسی قول پر عمل کرتے ہیں۔ علامہ حصکفی نے کہا اگر ذمی کو تعظیماً سلام کیا تو وہ کافر ہوجائے گا کیونکہ کافر کی تعظیم کفر ہے۔ علامہ شامی اس کی شرح میں فرماتے ہیں لیکن اگر کسی غرض صحیح کی بنا پر کافر کو سلام کیا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں اور نہ کفر ہے اور اگر بغیر کسی نیت کے سلام کیا ہے تو پھر یہ فعل مکروہ ہے، محیط میں اسی طرح مذکور ہے اور علامہ بیری نے کہا ہے کہ یہ مکرہ بھی نہیں ہے۔ (ردا المختار مع الدرا المختارح 9 ص 506، مطبوعہ احیاء التراث العربی بیروت 1419 ھ)

ہماری تحقیق یہ ہے کہ کسی کافر یا فاسق کو دعا کے معنی میں ابتداء سلام کیا جائے یعنی اللہ تم کو اسلام کی ہدایت دے یا اس کی تعظیم کی نیت نہ ہو اس کی پرورش کا حق ادا کرنے کی وجہ سے یا اس کے جوار کی وجہ سے یا اس کی مصاحبت کی وجہ سے اس کو سلام کرے، دیکھا گیا ہے کہ بعض لڑکے دیندار وضع اختیار کرلیتے ہیں اور ان کا باپ ڈاڑھی منڈواتا ہے تو وہ اپنے باپ کو فاسق معلن قرار دے کر اس کو سلام نہیں کرتے، یہ دین میں بہت تشدد اور افراط ہے کفار اور فساق کو ابتداء سلام کرنے کی بہت وجوہ صحیحہ موجود ہیں، بس ان کے کفر کی وجہ سے ان کی تعظیم کرنا کفر اور ممنوع ہے، ان کی پرورش کا حق ادا کرنے کی وجہ سے ان کو سلام کرنا جائز ہے۔ سو اس اعتبار سے ان کو سلام کرے یا اس دعا کی نیت سے کہ اللہ تعالیٰ ان کو سلام کی سلامتی میں لے آئے۔

کفار کے لئے مغفرت کی دعا 

کفار کے لئے مغفرت کی دعا کرنا جائز نہیں ہے اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنے عرفی باپ سے یہ کہا تھا کہ میں عنقریب تیرے لئے استغفار کروں گا یہ اس توقع کی بنا پر تھا کہ وہ اسلام لے آئے گا اور جب وہ اسلام نہیں لایا تو وہ اس سے بیزار ہوگئے اور پھر اس کے لئے دعا نہیں کی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وماکان استغفار ابراہیم لابیہ الا عن موعدۃ وعدھآ ایاہ فلما بین لہ انہ عدوللہ تبرا منہ ان ابراہیم لاواہ حلیم (التوبتہ :114) اور ابراہیم کا اپنے (عرفی) باپ کے لئے دعا کرنا صرف اس وعدہ کی وجہ سے تھا جو انہوں نے اس سے کرلیا تھا، جب ان پر منکشف ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے بیشک ابراہیم بہت نرم دل اور برد بار تھے۔ اس آیت کی پوری تفسیر اور تحقیق التوبہ 114میں ملاحظہ فرمائیں۔ (تبیان القرآن ج ٥ ص 275-276)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 47