أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَا يَمۡلِكُوۡنَ الشَّفَاعَةَ اِلَّا مَنِ اتَّخَذَ عِنۡدَ الرَّحۡمٰنِ عَهۡدًا‌ ۘ‏ ۞

ترجمہ:

وہی شفاعت کے مالک ہوں گے جو رحمٰن سے عہد دے چکے ہیں

تفسیر:

مومنوں کا رحمن سے لیا ہوا عہد 

مریم :87 میں ہے : وہی شفاعت کے مالک ہوں گے جو رحمٰن سے عہد لے چکے ہیں۔ امام ابن جریر نے کہا عہد سے مراد اللہ پر ایمان لانا، اس کے رسول کی تصدیق کرنا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس سے جو کچھ لے کر آئے اس کا اقرار کرنا اور جو کچھ آپ کے حکم دیا اس پر عمل کرنا ہے۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا عہد سے مراد ہے لا الہ الہ اللہ کی شہادت دینا اور اللہ کے سوا گناہوں سے پھرنے اور نیکیوں کی طاقت سے اظہار برأت کرنا اور اللہ کے سوا کسی سے امید نہ رکھنا، ابن جریج نے کہا عہد سے مراد اعمال صالحہ ہیں۔ (جامع البیان جز 16 ص 160، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ)

حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں میں نے نسا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا کیا تم میں سے کوئی شخص اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ہر صبح اور شام اللہ تعالیٰ سے عہد لے، پوچھا گیا یا رسول اللہ ! وہ کیسے ہے، آپ نے فرمایا : وہ ہر صبح اور شام کو یہ کہے اے اللہ آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کرنے والے، غیب اور شہادت کو جاننے والے میں تیری طرف اس دنیا کی زندگی میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں یہ شہادت دوں گا کہ تیرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے تو واحد ہے اور تیرا کوئی رشیک نہیں ہے اور بیشک محمد تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں تو مجھے میرے نفس کی طرف نہ سونپ دینا، کیونکہ اگر تو نے مجھے میرے نفس کی طرف سونپ دیا تو وہ مجھے خیر سے دور اور شر سے قریب کر دے گا اور میں تیری رحمت کے سوا اور کسی چیز پر اعتماد نہیں کرتا، پس تو میرے لئے اپنے پاس عہد کرلے جس کو تو قیامت کے دن پورا کرے گا بیشک تو وعدہ کے خلاف نہیں کرتا۔ پس جب وہ یہ کلمات پڑھ لے گا تو اللہ ان کلمات پر مہر لگا کر ان کو عرش کے نیچے رکھ دے گا اور جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی یہ ندا کرے گا، کہاں ہیں وہ لوگ جن کا اللہ کے پاس عہد ہے پھر وہ لوگ کھڑے ہوجائیں گے اور جنت میں داخل ہوجائیں گے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١١ ص 76، المعجم الکبیر رقم الحدیث :8917، المستدرک رقم الحدیث :3418)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 19 مريم آیت نمبر 87