أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّنِىۡۤ اَنَا اللّٰهُ لَاۤ اِلٰهَ اِلَّاۤ اَنَا فَاعۡبُدۡنِىۡ ۙ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكۡرِىۡ ۞

ترجمہ:

بیشک میں ہی اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے تو آپ میری عبادت کیجیے اور میری یاد کے لئے نماز قائم کیجیے

طہ : ١٤ میں فرمایا : پس جو وحی کی جائے اس کو بغور سنئے، ابو الفضل جوہری نے کہا جب حضرت موسیٰ سے کہا گیا جو وحی کی جائے اس کو بغور سنئے تو وہ ایک پتھر پر کھڑے ہوگئے اور انہوں نے ایک پتھر سے ٹیک لگا لی، اپنا دائیاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھ لیا اور تھوڑی سینہ پر ٹکالی اور اللہ تعالیٰ کا کلام سننے کے لئے بالکلیہ متوجہ ہوگئے۔ وھب بن منبہ نے کہا غور سے سننے کے آداب یہ ہیں کہ اعضاء پر سکون رہیں۔ نظر نیچی رہے، کان متوجہ ہوں، عقل حاضر ہو اور جو کچھ سنا جائے اس پر عمل کرنے کا عزم ہو۔

طہ : ١٤ میں فرمایا بیشک میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے تو آپ میری عبادت کیجیے اور میری یاد کے لئے نماز قائم کیجیے اللہ تعالیٰ کے مستحق عبادت ہونے کا تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی جائے، عبادت کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی ذلت اور عجز کو اختیار کرنا اور اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کرنے کے لئے تیار رہنا۔ اللہ تعالیٰ کی عبادات میں سے یہاں نماز کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا کیونکہ تمام عبادات میں نماز سب سے افضل عبادت ہے، کیونکہ اس میں قیام، رکوع اور سجدہ ہیں جو اللہ تعالیٰ کے سامنے انتہائی ادب اور تذلل پر دلالت کرتے ہیں اور فرمایا میری یاد کے لئے نماز قائم کیجیے یعنی آپ مجھے یاد کرنے والے ہوں بھولنے والے نہ ہوں جیسا کہ مخلصین کا طریقہ ہے کہ وہ اپنے رب کو یاد کرتے ہیں اور اس کی رضا پوری کرنے کی فکر میں رہتے ہیں اور ہر کام میں اسی پر توکل کرتے ہیں، خلاصہ یہ ہے کہ آپ دائما نماز پڑھیں تاکہ آپ دائما مجھے یاد کرتے رہیں اور اس کا یہ معنی بھی ہے کہ آپ خاص میرے لئے نماز پڑھیں اور نماز میں میرے سوا کسی اور کو یاد نہ کریں اور اخلاص کے ساتھ میری یاد کے لئے اور میری رضا کی طلب کے لئے نماز پڑھیں اور میر ییاد کے سوا نماز میں کوئی اور قصد نہ کریں۔

” لذکری “ کا ایک معنی یہ ہے کہ تم مجھے یاد کرنے کے لئے نماز پڑھو اور اس کا ایک معنی یہ ہے کہ تم اس لئے نماز پڑھو کہ میں تمہیں یاد کروں اور تمہارا ذکر کروں کیونکہ جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو اللہ اس سے بہتر مجلس میں اس کا ذکر فرماتا ہے۔

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص نماز پڑھنا بھول گیا یا نماز کے وقت سویا رہا اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب اس کو نماز یاد آجائے اس وقت نماز پڑھ لے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اقم الصلوۃ لذکری میری یاد کے لئے نماز قائم کیجیے۔ (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ 315، رقم بلا تکرار 684، رقم مسلسل :1540)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص سونے کی وج ہ سے نماز نہ پڑھے یا کسی کام میں مشغولیت کی وجہ سے نماز نہ پڑھے یا غفلت کی وجہ سے نماز نہ پڑھے اس پر اس نماز کی قضا کرنا واجب ہے۔

عمداً نماز ترک کرنے والے پر نماز کی قضاء کا واجب ہونا۔

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

جس شخص نے عمداً نماز کو ترک کردیا جمہور فقہاء کے نزدیک اس پر بھی نماز کو قضا کرنا واجب ہے اور وہ عمداً نماز قضا کرنے کی وجہ سے گنہگار ہوگا اور دائود ظاہری نے یہ کہا ہے کہ اس پر نماز قضا کرنا واجب نہیں ہے، عمداً نماز قضا کرنے والے، نماز کو بھولنے والے اور سوتے رہ جانے کی وجہ سے نماز قضا کرنے والوں کے درمیان یہ فرق ہے کہ جو نماز کو بھول جائے یا سوتا رہ جائے وہ گنہ گار نہیں ہوگا اور جو عمداً نماز ترک کرے گا وہ گنہگار ہوگا، جمہور کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اقیموا الصلوۃ (الانعام :72) اور اس میں کوئی فرق نہیں کیا کہ نماز اپنے وقت میں پڑھی جائے یا وقت گزرنے کے بعد پڑھی جائے۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے جو وجوب کا تقاضا کرتا ہے۔ نیز حدیث میں سونے والے اور بھولنے والے کو بھی اس نماز کی قضا کرنے کا حکم دیا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 14