أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ رَبُّنَا الَّذِىۡۤ اَعۡطٰـى كُلَّ شَىۡءٍ خَلۡقَهٗ ثُمَّ هَدٰى ۞

ترجمہ:

موسیٰ نے کہا ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت عطا کی پھر ہدایت دی

اللہ تعالیٰ کی ربوبیت اور توحید پر دلیل 

جب فرعون نے یہ کہا کہ تم دونوں کا رب کون ہے تو حضرت موسیٰ نے نہ صرف یہ بتایا کہ ہمارا رب اللہ عزوجل ہے بلکہ اس پر ایک سادہ اور پر مغز دلیل بھی قائم کی کہ ہمارا رب وہ ہے جس نے ہر چیز کو پیدا کیا پھر ہدایت دی۔

اللہ تعالیٰ نے ہر چیز کو اس کی مخصوص ساخت پر پیدا کیا اور ہر چیز میں یہ شعور اور ہدایت رکھی کہ وہ کس طریقہ سے اپنا رزق تلاش کریں کس طریقہ سے اپنے گھونسلے اور ٹھکانے بنائیں۔ آپ جنگل کے درختوں کو دیکھیں اس میں پرندے کس طرح ایک ایک تنکا اکٹھا کر کے کئی کئی منزلہ گھر بنا لیتے ہیں پھر بعض پرندے دانہ دنکا چگ کر اپنا رزق حاصل کرتے اور بعض پرندے شکار کر کے اپنا رزق حاصل کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی نسل بڑھانے اور بچوں کو پالنے کے لئے کیا کارروائی کرتے ہیں۔ کس طرح ان کو دودھ پلا کر ان کی نشو و نما کرتے ہیں، ان کو دانے دن کے کا چوگا دیتے ہیں، مرغی کو دیکھیے وہ کس طرح انڈوں کو سیتی ہے، اس کو یہ عمل کس نے بتایا، یہ صرف اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں ہدایت رکھی ہے جس کے مطباق وہ یہ سب کام انجام دے رہے ہیں۔ شہد کی مکھی اپنا مسدس گھر بناتی ہے اس کا گھر نہایت باریک باریک خانوں پر حکمت اور تدبیر کے ساتھ بنا ہوا ہوتا ہے جیسے کسی ماہر سول انجینئر نے اس کو بنایا ہے، چیونٹی گرمیوں میں سردیوں کے لئے خوراک کا ذخیرہ کرتی ہے۔ ان ننھے منے جانوروں کو ایسی حکمت اور دانائی کی باتیں کس نے سکھائی ہیں۔ تمام دنیا کے ہر قسم کے جانوروں کو دیکھو زمین پر رینگنے والے کیڑوں کو درندوں اور چرندوں کو فضا میں اڑنے والے پرندوں کو اور پانی کے جانوروں کو الٹا سب کو اپنی اپنی زندگی گزارنے کے طریقوں کی فطری ہدایت کس نے دی، فرعون ہو یا کوئی اور خدائی کا دعویٰ دار انسان کیا وہ زمین کے چپے چپے پر، فضاء بسیط میں اور دریائوں اور سمندروں کی تمام تہوں میں پہنچ گیا ہے۔ اس نے اپنی زمین اور فضا کے تمام جانداروں کو دیکھ بھی لیا ہے ؟ ان سب کو فطری ہدایت دینا تو دور کی بات ہے، آخر اللہ کے سوا وہ کون ہے جس نے ہر جان دار کو اپنی زندگی گزارن یکے طریقے بتائے ہیں، وہ سورج ہے، چاند ہے، ستارے ہیں، کوئی انسان ہے، کوئی دیوی یا دیوتا ہے، پتھر کی مورتی ہے ؟ ہم کہتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی چیز بھی ان تمام جانداروں کے حالات اور کو ئاف کے علم کو محیط نہیں ہے، تو پھر وہ کون کون ہے جو ان تمام مخلوقات کو اپنے اپنے نظام حیات بنانے کی ہدایت دے رہا ہے کیا اللہ کے سوا کوئی اور ہے جس نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے تمام جانداروں کے اندر اپنی زندگی گزارنے اور اپنی ضروریات کو پورا کرنے کی ہدایت رکھی ہے۔ ہم اس سے اس کے دلائل پوچھنے کی بات تو بعد میں کریں گے پہلے یہ تو معلوم ہو کہ وہ کون ہے جس کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ تمام جانداروں کو فطری ہدایت دیتا ہے اور جب کسی کا یہ دعویٰ نہیں ہے تو مان لو کہ اللہ تعالیٰ ہی واحد لاشریک ہے جو سب کو پیدا کرنے والا ہے اور ان کو ان کی معیشت کی ہدایت دینے والا ہے۔

نیز اس آیت کا ایک معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو ہر وہ چیز عطا کی ہے جس کی اس کو ضرورت پیش آسکتی ہے اور اس کا دوسرا معنی یہ ہے کہ ہر مخلوق کو اپنے منفعت کے لحاظ سے جس کی شکل و صورت کی ضرورت پیش آسکتی تھی اللہ تعالیٰ نے اس کو اس قسم کی شکل و صورت عطا فرمائی۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 50