أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاحۡلُلۡ عُقۡدَةً مِّنۡ لِّسَانِیْ ۞

ترجمہ:

اور میری زبان کی گرہ کھول دے

 

حضرت موسیٰ کی زبان میں گرہ کی وجوہ 

تیسرا سوال یہ کہ میرے لئے میری زبان کی گروہ کھول دے۔ ان کی زبان میں جو گرہ تھی اس کی دو جہیں ہیں ایک یہ کہ ان کی زبان میں پیدائشی گرہ تھی تو انہوں نے اللہ تعالیٰ سے یہ دعا کی کہ وہ اس گروہ کو زائل کر دے، دوسری وجہ یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے بچپن میں فرعون کی داڑھی نوچ لی تھی تو فرعون نے کہا یہ میرا دشمن بنے گا اور ان کو قتل کرنے کا ارادہ کرلیا، تب اس کی بیوی آسیہ نے کہا یہ بےعقل بچہ ہے اور ایک تھال میں یاقوت اور انگارہ رکھا اور کہا اگر اس نے یاقوت کو اٹھا لیا تو اس کو ذبح کردینا اور اگر اس نے انگارہ اٹھا لیا تو پھر یہ اس کے بچپن کا تقاضا ہے اس کو چھوڑ دینا، پھر حضرت جبریل آئے اور انہوں نے حضرت موسیٰ کا ہاتھ انگارے پر رکھ دیا حضرت موسیٰ نے اس انگارے کو اٹھا کر منہ میں ڈال لیا اس وجہ سے ان کی زبان جل گئی اور ان کی زبان میں گرہ پڑگئی اور ان کی زبان میں لکنت پیدا ہوگئی۔ (جامع البیان رقم الحدیث :18173) اس روایت پر یہ اشکال ہے کہ اگر بچہ بالفرض انگارے کو پکڑ بھی لے تو اس کا ہاتھ فوراً جل جائے گا اور وہ اس انگارے کو چھوڑ دے گا اور اس کو انگارے کو منہ میں رکھ لینا عادۃ بہت بعید ہے، اسی لئے صحیح وجہ پہلی ہی معلوم ہوتی ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس گرہ کو کھولنے کا سوال ان وجوہ سے کیا تھا

(١) تاکہ فرائض رسالت کی ادائیگی میں خلل نہ ہو۔

(٢) جس شخص کی زبان میں لکنت ہو لوگ اس کی بات کو توجہ سے نہیں سنتے اور اس کو اچھا نہیں جانتے اور رسول کے لئے ضروری ہے کہ لوگ اس کی بات کو توجہ سے سنیں اور اس کو اچھا جانیں۔

(٣) اس لکنت کا دور ہونا ان کا معجزہ ہوجائے کیونکہ مصر والوں کو پتا تھا کہ ان کی زبان میں لکنت ہے اور یہ روانی سے بات نہیں کرسکتے، پھر جب وہ روانی سے بات کریں گے تو حضرت موسیٰ کا معجزہ ہوگا۔

(٤) اس سے حضرت موسیٰ کا متن آسان ہوگا کیونکہ فرعون جو غرور اور تکبر کی وجہ سے خدا بنا ہوا تھا اگر اس کے سامنے حضرت موسیٰ اٹک اٹک کر اور لکنت سے اللہ تعالیٰ کا پیغام سناتے تو وہ متاثر ہونے کے بجائے الٹا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مذاق اڑاتا۔

فقہ کا لغوی اور اصطلاحی معنی 

حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ لوگ میری بات سمجھیں۔ قرآن مجید میں ہے یفقھوا قولی یعنی لوگ جان لیں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں اور میری بات سمجھیں، لغت میں فقہ کا معنی ہے لھم اور عرف میں اس سے علم شریعت مراد ہوتا ہے اور جس کو اس کا علم ہو اس کو فقیہ کہتے ہیں۔

امام ابوحنیفہ نے فرمایا فقہ کی تعریف یہ ہے کہ نفس کو اپنے نفع اور ضرر کی چیزوں کی معرفت ہوجائے اور اس کی مشہور تعریف یہ ہے : احکام شرعیہ عملیہ کا جو علم ان احکام کے دلائل سے ہو وہ فقہ ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 27