أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ فَاِنَّا قَدۡ فَتَـنَّا قَوۡمَكَ مِنۡۢ بَعۡدِكَ وَاَضَلَّهُمُ السَّامِرِىُّ ۞

ترجمہ:

فرمایا پس ہم نے آپ کے بعد آپ کی قوم کو فتنہ میں مبتلا کردیا اور ان کو سامری نے گمراہ کردیا

بنو اسرائیل کو آزمائش میں ڈالنا 

اس کے بعد فرمایا : پس ہم نے آپ کے بعد آپ کی قوم کو فتنہ میں مبتلا کردیا اور ان کو سامری نے گمراہ کردیا۔

یعنی ہم نے ان کو آزمائش اور امتحان میں مبتلا کیا تاکہ یہ ظاہر ہو کہ ان میں کون الوہیت اور توحید کے عقیدہ میں راسخ ہیں اور کس کا عقیدہ کمزور ہے۔ بنو اسرائیل اس وقت چھ لاکھ تھے ان میں سے بارہ ہزار توحید پر قائم رہے اور باقی گوسالہ پرستی میں مشغول ہ گئے، اس کی تفصیل اس کے بعد کی آیتوں میں آرہی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ بنو اسرائیل نے قبطیوں سے عاریتہ سونے کے زیورات لئے تھے وہ ان کے پاس تھے، بنو اسرائیل نے ان زیورات سے برأت حاصل کرنے کے لئے وہ سامری کو دے دیئے اس نے ان زیورات کو جمع کر کے ان کو آگ لگا دی پھر اس پگھلے ہوئے سونے سے بچھڑا ڈھال لیا۔ حضرت جبریل جس گھوڑی پر سوار تھے سامری نے اس کے پیر کے نیچے سے خاک کی ایک مٹھی اٹھا لی تھی اس نے بچھڑے کے منہ کے اندروہ خاک ڈال دی جس کے اثر سے وہ آواز نکالنے لگا۔ سامری نے بنو اسرائیل سے کہا موسیٰ بھول گئے ہیں اصل میں یہی ان کا خدا خاک ڈال دی جس کے اثر سے وہ آواز نکالنے لگا۔ سامری نے بنو اسرائیل سے کہا موسیٰ بھول گئے ہیں اصل میں یہی ان کا خدا خاک ڈال دی جس کے اثر سے وہ آواز نکالنے لگا۔ سامی نے بنو اسرائیل سے کہا موسیٰ بھول گئے ہیں اصل میں یہی ان کا خدا خاک ڈال دی جس کے اثر سے وہ آواز نکالنے لگا۔ سامری نے بنو اسرائیل سے کہا موسیٰ بھول گئے ہیں اصل میں یہی ان کا خدا ہے۔ سو بارہ ہزار کے سوا باقی چھ لاکھ نے اس گوسالہ کی پرستش شروع کردی۔ یہ وہ آزمائش ہے جس کا اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے۔ آیا وہ یہ سمجھتے ہیں یا نہیں کہ جس بچھڑے کو خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے وہ ان کا خالق اور ان کا رب کیسے ہوسکتا ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا سامری اس قوم سے تھا جو گائے کی عبادت کرتی تھی۔ ایک قول یہ ہے کہ وہ قبطیوں میں سے ایک شخص تھا۔ وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا پڑوسی تھا اور آپ پر ایمان لے آیا تھا۔ ایک قول یہ ہے کہ بنو اسرائیل میں سامرہ نام کا ایک قبیلہ تھا اور سامری کا تعلق اسی قبیلہ سے تھا۔

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 85