أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يَوۡمَئِذٍ يَّتَّبِعُوۡنَ الدَّاعِىَ لَا عِوَجَ لَهٗ‌ؕ وَخَشَعَتِ الۡاَصۡوَاتُ لِلرَّحۡمٰنِ فَلَا تَسۡمَعُ اِلَّا هَمۡسًا ۞

ترجمہ:

اس دن سب لوگ پکارنے والے کے پیچھے جائیں گے، اس میں کوئی کجی نہیں ہوگی اور رحمٰن کے خوف سے سب کی آوازیں پست ہوں گی۔ سو (اے مخاطب ! ) تو معمولی سی آہٹ کے سوا کچھ نہ سن کے گا

قیامت کے دن پکارنے والے کی تفسیر 

طہ :108 میں فرمایا ہے : اس دن سب پکارنے والے کے پیچھے جائیں گے اس میں کوئی کجی نہیں ہوگی، اور رحمٰن کے خوف سے سب کی آوازیں پست ہوں گی۔ سو (اے مخاطب ! ) تو معمولی سی آہٹ کے سوا کچھ نہیں سن سکے گا۔

اس پکارنے والے کی تفسیر میں دو قول ہیں

(١) اس داعی سے مراد صور میں پھونکنا ہے اور اس میں کجی نہ ہونے سے یہ مراد ہے کہ وہ پکارنے والا کسی کو نہیں چھوڑے گا بلکہ سب کو محشر میں حاضر کرے گا۔

(٢) وہ ایک فرشتہ ہے جو بیت المقدس کی ایک چٹان پر کھڑے ہو کر یہ ندا رکے گا : اے بوسیدہ ہڈیو ! اور اے متفرق اعضاء اور اے پارہ پارہ گوشت ! اپنے رب کے سامنے حساب اور جزاء کے لئے کھڑے ہو جائو ! لوگ اس بلانے والے کی آواز سن کر اس کے پیچھے چل پڑیں گے، کہا جاتا ہے کہ یہ حضرت اسرافیل (علیہ السلام) ہوں گے جو اپنا قدم چٹان پر رکھیں گے اور حضرت اسرافیل کی یہ پکار مردوں کو زندہ کرنے کے بعد ہوگی۔

اس کے بعد فرمایا : اور رحمن کے خوف سے سب کی آواز پست ہوں گی، سو (اے مخاطب ! ) تو معمولی سی آہٹ کے سوا کچھ نہیں سن سکے گا۔

اس کی ایک تفسیر یہ ہے کہ خوف اور گھبراہٹ کی وجہ سے سب کی آوازیں پست ہوں گی، پس تم آہٹ کے سوا اور کچھ نہیں سن سکو گے اور اس سے مراد ذکر خفی ہے، تمام انسانوں اور جنوں کو یہ معلوم ہوچکا ہوگا کہ اللہ کے سوا ان کا کوئی مالک نہیں ہے اس لئے کھسر پھسر سے زیادہ ان کی کوئی آواز نہیں سنائی دے گی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ صرف ایسا کلام ہو جس کا صرف ہونٹوں کے ہلنے سے اندازہ ہو اور جس شخص کا اللہ تعالیٰ حساب لینے والا ہو اس کو خوف میں ڈوبا ہوا ہونا چاہیے اور اس کی آواز بہت پست ہونی چاہیے اور اس کا غم بہت زیادہ ہونا چاہیے،

اس کی دوسری تفسیر حضرت ابن عباس (رض) ، حسن، عکرمہ اور ابن زید سے منقول ہے انہوں نے کہا ” ھمس “ معنی ہے قدموں کی آہٹ، اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ میدان حشر میں سوا قدموں کے آہٹ کے اور کوئی آواز سنائی نہیں دے گی۔

ھمس کا معنی ہے پست آواز اور قدموں کی آہٹ قدموں کے چلنے کی آواز سے بہت پست ہوتی ہے۔ (مختار الصحاح ص 402، داراحیاء التراث العربی بیروت :1412 ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 20 طه آیت نمبر 108