أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفۡعَلُ وَهُمۡ يُسْأَلُونَ ۞

ترجمہ:

اس سے ان کاموں کا سوال نہیں کیا جائے گا جو وہ کرتا ہے اور ان سب سے باز پرس کی جائے گی

اللہ تعالیٰ کے افعال کی حکمتیں ہونا اور اغراض نہ ہونا 

مجوسی یہ کہتے ہیں کہ اس جہان میں خیر ہے اور شر ہے، لذات ہے اور تکلیف ہے، حیات ہے اور موت ہے، صحت ہے اور بیماری ہے، خوشحالی ہے اور تنگ دستی ہے، اچھائی ہے اور برائی ہے، خیر اور اچھائی کا فاعل اچھا ہوتا ہے اور شر اور برائی کا فاعل برا ہوتا ہے اور یہ ہو نہیں سکتا کہ فاعل واحد خیر بھی ہو اور شر بھی ہو، پس اس جہان کے دو خالق ہیں، خیر اور اچھائی کا فاعل یزدان ہے اور شر اور برائی کا فاعل اہرمن ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ خیر اور شر ہر چیز کا خالق اللہ تعالیٰ ہے اور شر کے خلق کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے شر کے ساتھ متصف ہونا برا ہے۔

بعض اوقات شر کا حصول بھی ناگزیر ہوتا ہے، جسم کو کاٹنا اور چیرنا برا ہے لیکن جسم سے کسی فاسد مواد یا فاسد جز کو نکالنے کے لئے اس کو کاٹنا اور چیرنا ناگزیر ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی فعل کے متعلق یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ اس نے فلاں کام کیوں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ کسی کے سامنے جواب دہ نہیں ہے، اللہ تعالیٰ سب کا خاق اور سب کا مولیٰ ہے۔ سب اس کی مخلوق اور اس کے بندے ہیں اسے یہ پوچھنے کا حق ہے کہ فلاں بندے نے فلاں کام کیوں کیا اور کسی بندہ کو اپنے مالک سے اور کسی مخلوق کو اپنے خالق سے یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ اس نے فلاں کام کیوں کیا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے اعفال کی حکمتیں ہوتی ہیں بعض کو اپنے خالق سے یہ پوچھنے کا حق نہیں ہے کہ اس نے فلاں کام کیوں کیا۔ ہاں اللہ تعالیٰ کے اعفال کی حکمتیں ہوتی ہیں، بعض افعال کی حکمتوں سے اللہ تعالیٰ خود اپنے بندوں کو مطلع فرما دیتا ہے اور بعض حکمتوں سے اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مطلع فرما دیتے ہیں، لیکن اس کے افعال کی تمام حکمتوں کا احصاء اور احاطہ کرنا ممکن نہیں ہے اور نہ ہی یہ انسان کے محدود علم اور اس کی قدرت میں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اپنے جن بعض کاموں کی حکمتوں پر مطلع فرمایا ان کیی بعض مثالیں یہ ہیں :

وما خلفت الجن والانس الالیعبدون (الذاریات :56) اور میں نے جن اور انسان کو صرف اس لئے پیدا کیا ہے کہ وہ میری (ہی) عبادت کریں۔

رملاً مبشرین ومنذرین لئالیکون للناس علی اللہ حجۃ یعدالرسل (النساء :165) ہم نے بشارت دینے والے اور عذاب سے ڈرانے والے رسول بھیجے تاکہ رسولوں کو بمیجنے کے بعد لوگوں کے لئے اللہ کے سامنے (پیش کرنے کے لئے) کوئی عذر باقی نہ رہے اور اتمام حجت ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کو اپنا نئاب اور خلیفہ بنایا تو فرشتوں نے اس کی حکمت کو جاننا چاہا، اللہ تعالیٰ نے ان کو حکمت بتائی جس کا خلاصہ یہ ہے کہ خلیفہ اور تائب کے لئے ضروری ہے کہ اس کا علم زیادہ ہو اور صحضرت) آدم کا علم تم سب سے زیادہ ہے، (فرشتے ان چیزوں کے نام نہ بتاسکے جن چیزوں کے نام حضرت آدم نے بتا دیئے تھے)

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے بعض احکام شرعیہ کی بھی حکمتیں اور مصلحتیں بیان فرمائی ہیں، مثلاً اللہ تعالیٰ نے قصاص کی مصلحت بیان فرمائی :

(المائادہ :32) اسی وجہ سے ہم نے بنی اسرائیل پر لکھ دیا جس نے کسی ایسے شخص کو قتل کیا جس نے نہ کسی کو قتل کیا ہو نہ زمین میں فساد کیا ہو تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کردیا اور جس نے کسی شخص کی جان بچائی تو اس نے گویا تمام لوگوں کو زندہ کردیا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے حضرت زید بن حارثہ کی مطلقہ سے آپ کا نکاح کردیا تھا تاکہ آپ کی زندگی میں یہ نمونہ قائم ہو کہ منہ بولا بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہوتا اور اگر وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو اس سے نکاح کرنا جائز ہے، سو ارشاد فرمایا۔

(الاحزاب 37) پس جب زید نے اس عورت سے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس سے آپ کا نکاح کردیا تاکہ مسلمانوں پر اپنے بولے بیٹوں کی بیویوں (سے نکاح) کے معاملہ میں کوئی تنگی نہ رہے جب وہ ان سے اپنی حاجت پوری کرچکے ہوں، اور اللہ کا حکم پورا ہونے والا تھا۔

اس طرح اللہ تعالیٰ کے احکام اور افعال کی حکمتیں ہوتی ہیں مثلاً مومنوں کو ان کی عبادتوں پر اجر عطا فرمانے کی حکمت اللہ تعالیٰ کے فضل کا اظہار ہے، اور کفار کو دائمی عذاب دینے کی حکمت اللہ تعالیٰ کے عدل کا اظہار ہے اور گناہ گار مسلمانوں کے حق میں انبیاء (علیہم السلام) اور دیگر مقربین کی شفاعت قبول کرنے میں اپنے نیک بندوں کا اعزاز، اکرام اور ان کی وجاہت کو ظاہر کرنا ہے، دنیا میں کفار کو عیش و آرام اور نعمتوں کے ساتھ رکھنے میں ان کا استدراج ہے اور ان کو ڈھیل دینا دینا ہے اور چونکہ آخرت میں ان کے لئے کوئی نفع اور عیش نہیں ہے تو ان کو دنیا میں ہی نواز دیتا ہے ات کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بالکلیہ محروم نہ ہوں اور مسلمانوں پر دنیا میں مصائب نازل کنے میں دنیا میں ہی ان کو ان کے گناہوں کی سزا دینا ہے اور ان کے اخروی درجات کو بلند کرنا ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں بیشمار حکمتیں اور مصلحتیں ہیں اور ہمارا ان تمم یا بعض حکمتوں کو جاننا ضروری نہیں ہے، وہ مالک علی الاطلاق ہے وہ اپنے بندوں کے ساتھ جو معاملہ چاہے کرے کسی کو سوال کرنے یا اعتراض کرنے کا حق نہیں ہے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کوئی کام کسی غرض سے نہیں کرتا، کیونکہ جو شخص کوئی کام کسی غرض سے کرتا ہے اس غرض کے پوری ہونے سے اس کی تکمیل ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ جو کام کرتا ہے بےغرض کرتا ہے اس کی کوئی غرض نہیں ہے اور وہ کسی بات پر جواب دہ نہیں ہے اور لوگوں سے ہر چیز کے متعلق سوال کیا جائے گا۔

میمون بن عمران حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ جب اللہ عزوجل نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو بھیجا اور ان پر تورات کو نازل کیا تو حضرت موسیٰ نے کہا : اے اللہ ! بیشک تو رب عظیم ہے، اگر تو چاہے کہ تیری اطاعت کی جائے تو تیری اطاعت کی جائے گی اور تو چاہے کہ تیری نافرمانی کی جائے تو تیری نافرمانی کی جائے گی اور تو یہ پسند کرتا ہے کہ تیری اطاعت کی جائے اس کے باوجود تیری نافرمانی کی جاتی ہے ! اے میرے رب یہ کیوں کر ہوتا ہے ؟ تب اللہ عزوجل نے ان کی طرف یہ وحی فرمائی میں جو کچھ کرتا ہوں اس کے متعلق سوال نہیں کیا جاتا اور لوگوں سے سوال کیا جائے گا ! اس کے بعد حضرت عزیز اور حضرت عیسیٰ (علیہما السلام) نے بھی اللہ تعالیٰ سے یہی سوال کیا اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی یہی جواب دیا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث :10606 مجمع الزوائد ج ٧ ص 200)

علامہ ابو عبداللہ قرطبی مالکی متوفی 668 ھ لکھتے ہیں :

ابن جریج نے کہا اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو قضاء اور فیصلہ کرتا ہے اس کے متعلق اس سے سوال نہیں کیا جائے گا اور مخلوق سے ان کے اعمال کے متعلق سوال کیا جائے گا، کیونکہ وہ اس کے غلام ہیں، کل حضرت مسیح اور ملائکہ سے سوال کیا جائے گا کیونکہ وہ معبود ہونے کے لائق اور قابل نہ تھے، ایک قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کسی قول اور فعل پر گرفت نہیں ہوگی اور مخلوق کے اقوال اور افعال پر گرفت ہوگی۔ حضرت علی (رض) سے روایت ہے کہ ایک شخص نے کہا اے امیر المومنین ! کیا ہمارا رب یہ پسند کرتا ہے کہ ہم اس کی نافرمانی کریں ؟ حضرت علی نے فرمایا کیا ہمارے رب کی زبردتی نافرمانی کی جاتی ہے ! اس شخص نے کہا یہ بتائیں اگر اللہ مجھے ہدیات پر عمل کرنے سے روک دے اور مجھے برے کاموں پر لگا دے تو کیا اس نے اچھا کیا یا برا کیا حضرت علی نے فرمایا اگر اللہ تم کو (بالفرض) تمہارا حق نہ دے تو اس نے (معا ذاللہ) برا کیا (ہم نے بالفرض اس لئے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ پر کسی کا کوئی حق نہیں ہے) اور اگر وہ تم پر فضل اور احسان نہ کرے تو وہ مالک ہے جس پر چاہے اپنا فضل فرمائے۔ پھر حضرت علی نے یہ آیت پڑھی :

لایسئل عما یفعل وھم یسئلون (الانبیاء :23) اس سے ان کا موں کا سوال نہیں کیا جائے گا جو وہ کرتا ہے اور ان سب سے باز پرس کی جائے گی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١١ ص 188-189 مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415 ھ)

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی 310 ھ لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق میں جو کچھ تصرف فرماتا ہے کسی کو زندگی دیتا ہے کسی کو موت دیتا ہے، کسی کو درجنوں بچے دیتا ہے کسی کو لاولد رکھتا ہے، کسی کو مال و دولت عطا کرتا ہے کسی کو فقر وفاقہ میں مبتلا کرتا ہے، کسی کو صحت اور قوت عطا فرماتا ہے اور کسی کو پکار اور کمزور رکھتا ہے، کسی کو عزت دیتا ہے اور کسی کو ذلت میں مبتلا رکھتا ہے، اس سے کسی بات کے متعلق سوال نہیں کیا جائے گا کیونکہ سب اسی کی مخلوق، مملوک اور غلام ہیں، سب اس کے زیر سلطنت اور زیر حکم ہیں، ب پر اس کی قضا نافذ ہے، اس کے اوپر کوئی ہستی نہیں ہے جو اس سے سوال کرسکے، اور آسمان اور زمین میں جو بھی مخلوق ہے وہ سب اس کے بندے ہیں اور ان سب سے ان کے اعمال کے متعق سوال کیا جائے گا اور ان کے اعمال کا حساب لیا جائے گا کیونکہ وہ سب کا مالک اور معبود ہے۔ (جامع البیان جز 17 ص 20، مطبوعہ دارالفکر بیروت 1415)

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 23