أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَرَجَعُوۡۤا اِلٰٓى اَنۡـفُسِهِمۡ فَقَالُوۡۤا اِنَّكُمۡ اَنۡـتُمُ الظّٰلِمُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

پس انہوں نے اپنی نفسوں کی طرف رجوع کیا اور آپس میں کہا بیشک تم ہی ظالم ہو

حضرت ابراہیم کی قوم نے جو خود کو ظالم کہا، اس کی وجوہ 

الانبیاء :64 میں فرمایا : پس انہوں نے اپنے نفسوں کی طرف رجوع کیا اور (آپس میں) کہا بیشک تم ہی ظالم ہو۔ انہوں نے جو اپنے آپ کو ظالم کہا، اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جب یہ واضح کردیا کہ بتوں کی عبادت کرنا باطل ہے کیونکہ جو اپنے آپ کو کسی کی مار سے نہیں بچا سکتے، وہ سارے جہان کے خدا کیسے ہوسکتے ہیں ؟ تب ان کو یہ اندازہ ہوا کہ بتوں کی عبادت کر کے وہ اب تک اپنے اوپر ظلم کرتے رہتے تھے۔

(٢) مقاتل نے کہا انہوں نے آپس میں یہ کہا کہ کلہڑا تو بڑے بت کے اوپر رکھا ہوا ہے تو پھر تم ابراہیم پر بتوں کے توڑنے کا الزام لگا کر ان پر ظلم کر رہے ہو۔

(و) تم اپنے بتوں کو اکیلا چھوڑ کر عید کے میلہ میں کیوں گئے تھے حتیٰ کہ ابراہیم تمہارے بتوں کو توڑنے پر قادر ہوئے 

(٤) تم نے ابراہیم سے یہ سوال کیا کہ آیا تم نے ہمارے خدائوں کو توڑا ہے، اس کا جواب دینے کی وجہ سے ابراہیم نے ہمارے طریقہ عبادت کے باطل ہونے کو ظاہر کیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 64