أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الَّذِيۡنَ سَبَقَتۡ لَهُمۡ مِّنَّا الۡحُسۡنٰٓىۙ اُولٰٓئِكَ عَنۡهَا مُبۡعَدُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

بیشک جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے اچھی جزا پہلے سے مقرر ہوچکی ہے وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے اچھی جزا پہلے سے مقرر ہوچکی ہے وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے وہ دوزخ کی آہٹ تک نہ سنیں گے اور انہوں نے جن لذتوں کو چاہا تھا، ان میں ہمیشہ رہیں گے بڑی گھبراہٹ بھی ان کو غمگین نہ کرسکے گی، فرشتے (یہ کہتے ہوئے) ان کا استقبال کریں گے یہی تمہارا وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا (الانبیاء :101-103) 

ابن الزبعریٰ کا رد 

بعض روایات میں ہے کہ جب ابن الزبعریٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ اعتراض کیا کہ اگر سب معبود دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو پھر عیسیٰ اور عزیز (علیہما السلام) بھی دوزخ میں ڈالے جائیں گے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خاموش ہوگئے حتیٰ کہ یہ آیت نازل ہوئی، بیشک جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے اچھی جزا مقرر ہوچکی ہے وہ دوزخ سے دور رکھے جائیں گے یعنی حضرت عیسیٰ اور حضرت عزیز علیہما السلام۔

لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے اولاً اس لئے کہ قرآن مجید میں ہے : انکم وماتعبدون بیشک تم اور جن چیزوں کی تم عبادت کرتے ہو یہاں پر بالعموم یہ نہیں فرمایا کہ اللہ کے سوا جن کی بھی عبادت کی گی ہے وہ دوزخ کا ایندھن ہیں، بلکہ بالخصوص اہل مکہ کو خطاب ہے اور وہ صرف بتوں کی عبادت کرتے تھے اور عیسیٰ اور عیز (علیہما السلام) کی عبادت نہیں کرتے تھے۔ لہٰذا وہ اس عزیز (علیہما السلام) ذوالقعول ہیں۔ لہٰذا وہ اس آیت کے عموم میں داخل نہیں ہیں اور عربی زبان جاننے والے کے لئے یہ امور بالک واضح اور بدیہی ہیں تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ امور مخفی ہوں جو افصح العرب ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 21 الأنبياء آیت نمبر 101