أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالۡبُدۡنَ جَعَلۡنٰهَا لَـكُمۡ مِّنۡ شَعَآئِرِ اللّٰهِ لَـكُمۡ فِيۡهَا خَيۡرٌ‌ ‌ۖ فَاذۡكُرُوا اسۡمَ اللّٰهِ عَلَيۡهَا صَوَآفَّ‌ ۚ فَاِذَا وَجَبَتۡ جُنُوۡبُهَا فَكُلُوۡا مِنۡهَا وَاَطۡعِمُوا الۡقَانِعَ وَالۡمُعۡتَـرَّ ‌ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرۡنٰهَا لَـكُمۡ لَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے بنادیا ہے ان میں تمہارے لئے بھلائی ہے، پس تم ان کو قطار میں کھڑا کر کے( ان کو نحر کرنے کے قوت) اللہ کا نام لو، پس جب ان کے پہلو زمین پر گرجائیں تو تم خود (بھی) ان سے کھائو اور محتاج اور مانگنے والے کو بھی کھلائو، اسی طرح ہم نے ان مویشیوں کو تمہارے لئے مسخر کردیا ہے تاکہ تم شکر ادا کرو

البدن کا معنی 

الحج :36 میں فرمایا : اور قربانی کے اونٹوں کو ہم نے تمہارے لئے اللہ کی نشانیوں میں سے قرار دیا ہے۔

قربانی کے اونٹ کے لئے اس آیت میں البدن کا لفظ ہے۔ بدن کا معنی ہے جسم لیکن جثہ کے اعتبار سے جسم کو بدن کہا جاتا ہے اور رنگ کے اعتبار سے جسم کو جسد کہا جاتا ہے۔ جس عورت کا بدن بھاری ہو اس کو بادن اور بدین کہتے ہیں کہ رسول اللہ تعالیٰ نے فرمایا رکوع اور سجود میں مجھ پر سبقت نہ کرو کیونکہ میں اگر تم سے پہلے رکوع کروں تو تم مجھے پالو گے اور اسی طرح جب میں سر اٹھائوں فانی قدبدنت کیونکہ اب میرا جسم بھاری ہوگیا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :619، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث :963) اور قرآن مجید میں ہے۔ والبدن جعلنھا لکم من شعائر اللہ۔ (الحج :36) اس آیت میں البدن بدنتہ کی جمع ہے۔ اس کا معنی ہے وہ اونٹ جن کو قربانی کے لئے روانہ کیا جائے۔ (المفردات ج ١ ص 50، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، 1418 ھ)

آیا البدن میں گائے شامل ہے یا نہیں ؟

اس میں اختلاف ہے کہ البدن کا اطلاق اونٹوں کے علاوہ گایوں پر بھی کیا جاتا ہے یا نہیں۔ حضرت ابن مسعود عطا اور امام شافعی کے نزدیک اس کا اطلاق گایوں پر نہیں کیا جاتا اور امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کا اطلاق گایوں پر بھی کیا جاتا ہے۔ ثمرہ اختلاف یہ ہے کہ کسی شخص نے بدنہ کی نذر مانی اور اس کو اونٹ نہیں ملے تو اب وہ اونٹوں کی جگہ گایوں کی قربانی کرسکتا ہے یا نہیں ؟ امام شافعی کے نزدیک وہ گایوں کی قربانی نہیں کرسکتا، اور امام مالک اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک وہ اونٹوں کی جگہ گایوں کی قربانی کرسکتا ہے اور اس کی نذر پوری ہوجائے گی۔ حدیث سے امام شافعی کی تائید ہوتی ہے کیونکہ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص پہلی ساعت میں جمعہ کی نماز کے لئے گیا اس نے گویا بد نہ کو صدقہ کیا اور جو دوسری ساعت میں گیا اس نے گویا بقرۃ (گائے) کو صدقہ کیا۔ الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث :881، صحیح مسلم رقم الحدیث :850)

اس حدیث میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدنہ اور بقرۃ کو الگ الگ ذکر فرمایا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ بد نہ صرف اونٹ کو کہیت ہیں اور اس کا اطلاق گائے پر نہیں ہوتا۔

نیز اس آیت میں ہے فاذا وجبت جنوبھا یعنی جب نحر کرتے وقت اونٹوں کو کھڑا کر کے ان کے سینہ کے بالائی حصہ پر نیزہ مارا جائے اور وہ اس کی ضرب سے پہلو کے بل گر کر ٹھنڈے ہوجائیں اور یہ وصف اونٹوں کا ہے، ان ہی کو کھڑا کرکے نحر کیا جاتا ہے، گایوں کا یہ وصف نہیں ہے کیونکہ ان کو زمین پر گرا کر ذبح کیا جاتا ہے نحر نہیں کیا جاتا، اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کی دلیل یہ ہے کہ اونٹوں کو بدنہ ان کی ضخامت کی وجہ سے کہا جاتا ہے اور ضخامت اونٹوں اور گایوں دونوں میں پائی جاتی ہے۔ نیز خون بہا کر اللہ کا تقرب حاصل کرنے میں گائیں، اونٹوں کی مثل ہیں حتیٰ کہ گایوں اور اونٹوں دونوں میں قربانی کے ساتھ حصے کئے جاسکتے ہیں اور امام شافعی کا بھی یہی قول ہے۔

حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گائے کی قربانی سات کی طرف سے ہوسکتی ہے اور اونٹ کی قربانی سات کی طرف سے ہوسکتی ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدی :2808)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سات آدمیوں کی طرف سے اونٹ کی قربانی دی اور سات آدمیوں کی طرف سے گائے کی قربانی دی۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :2809)

بدن اور ھدی میں یہ فرق ہے کہ بدن صرف اونٹوں کو کہتے ہیں جن کو قربانی کے لئے کعبہ کی طرف روانہ کیا جاتا ہے اور ھدی عام ہے، اونٹ، گائے اور بکری میں سے جس کو بھی قربانی کے لئے کعبہ کی طرف روانہ کیا جائے، وہ ھدی ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ١٢ ص ٥٨ مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

اونٹوں کو نحر کرنے کا طریقہ 

اس آیت میں فرمایا : پس تم ان کو قطار میں کھڑا کر کے (ان کو نحر کرنے کے وقت) اللہ کا نام لو۔

ابن ابی ذئب کہتے ہیں کہ میں نے ابن شہاب سے الصواف (صف میں کھڑے ہوئے) کا معنی دریافت کیا۔ انہوں نے کہا پہلے تم اونٹوں کو باندھو پھر ان کو صف بہ صف کھڑا کرو، اور امام مالک نے بھی اسیر حط کہا اور باقی فقہاء کا بھی یہی مذب ہے سوا امام ابوحنیفہ کے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ اونٹوں کو بٹھا کر اور کھڑا کر کے ہر طرح نحر کرنا جائز ہے (لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک بھی اونٹ کو کھڑا کر کے نحر کرنا مستحب ہے۔ جیسا کہ عنقریب آئے گا۔ ) جمہور کی دلیل یہ آیت ہے کیونکہ اس میں فرمایا ہے جب اونٹ پہلو کے بل گرجائیں اور گرنا اسی وقت ہوگا جب پہلے اونٹ کھڑے ہوئے ہوں۔

زیاد بن جبیر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ایک شخص کے پاس گئے، وہ اونٹ کو بٹھا کر نحر کر رہا تھا۔ حضرت ابن عمر نے کہا اس اونٹ کو کھڑا کرو اور یہ بندھا ہوا ہو پھر نحر کرو یہ تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :1713، صحیح مسلم رقم الحدیث :1320، سنن ابودائود رقم الحدیث :1368)

ابوالزبیر حضرت جابر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ مجھے عبدالرحمٰن بن سابط (رض) نے یہ حدیث بیان کی کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب اونٹ کو اس حال میں نحر کرتے تھے کہ اس کا الٹا پیر بندھا ہوا ہوتا تھا اور وہ اپنے باقی پیروں پر کھڑا ہوا ہوتا تھا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث :1767)

امام مالک نے کہا اگر انسان کمزور ہو یا اس کو خطرہ ہو کہ اونٹ بھاگ جائے گا تو اس کو باندھ کر نحر کرنے میں کوئی حرج نہیں اور مختاریہ ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے بغیر باندھے نحر کیا جائے اگر خطرہ ہو تو اونٹ کو بادنھ دیا جائے اور کھڑا کرنے کے لئے اس کی کونچیں نہ اٹھائی جائیں۔ الایہ کہ اس کو یہ خطرہ ہو کہ وہ اس پر قوت نہیں پائے گا اور اس کی کونچیں اٹھا کر کھڑا کرنے سے افضل یہ یہ کہ اس کو بٹھا کر نحر کیا جائے۔ حضرت ابن عمر جب جوان تھے تو اس کے سینہ میں نیزہ مار کر اس کے کوہان سے نکال دیتے تھے اور جب ان کی عمرہ زیادہ ہوگئی تو وہ اونٹ کو بٹھا کر نحر کرتے تھے۔ ایک آدمی ان کے ساتھ نیزہ پکڑے ہوئے ہوتا تھا اور دوسرا آدمی اس کی نکیل پکڑے ہوئے ہوتا تھا اور گائے اور بکری کو لٹا کر ذبح کیا جاتا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٢ ص 59-60 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1415 ھ)

علامہ محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی 1088 ھ لکھتے ہیں :

اونٹوں کی گردن کے نچلے حصے میں نحر کرنا مستحب ہے اور ان کو ذبح کرنا مکروہ ہے۔

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی 1252 ھ لکھتے ہیں :

شتر مرغ، زرافہ، انٹ اور ہر لمبی گردن والے جانور کو ذبح کیا جائے گا۔ المضمرات میں مذکور ہے کہ سنت یہ ہے کہ اونٹ کو کھڑا کر کے نحر کیا جائے اور گائے اور بکری کو لٹا کر ذبح کیا جائے۔ (الدرا المختار درد المختار ج ٩ ص 362، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت 1419 ھ)

القانع اور المعتر کے معنی 

اس کے بعد اس آیت میں فرمایا : تم خود بھی اس میں سے کھائو اور محتاج اور مانگنے والے کو بھی کھلائو۔

فقہاء کا اس پر اتفاق ہے کہ انسان کا اپنی ھدی (قربانی) سے کھانا مستحب ہے۔ اس میں اجر بھی ہے اور اللہ کی اطاعت بھی ہے کیونکہ زمانہ جاہلیت میں مشرکین اپنی ھدی سے نہیں کھاتے تھے۔ ابو العباس نے کہا کھانا اور کھلانا دونوں مستحب ہیں اور اس کے لئے یہ بھی جائز ہے کہ وہ ان میں سے کسی ایک پر اققتصار کرلے۔

اور فرمایا : القانع اور المعتر کو کھلائو، القانع کا معنی ہے قناعت کرنے والا، جو شخص سوال کرنے سے رکتا ہو اور اس کے پاس جتنا مال ہو اسی کو کافی سمجھے، سوال نہ کرے اور لوگوں سے مستغنی رہے۔ ابن السکیت نے کہا قناعت کا معنی ہے راضی رہنا اور سوال نہ کرنا اور معتر کا معنی ہے جو گھوم پھر کر مانگتا ہے۔ حسن بصری نے کہا القانع کا معنی محتاج ہے اور المعتر کا معنی ہے زیارت کرنے والا۔

القرآن – سورۃ نمبر 22 الحج آیت نمبر 36