أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡرَحِمۡنٰهُمۡ وَكَشَفۡنَامَابِهِمۡ مِّنۡ ضُرٍّ لَّـلَجُّوۡا فِىۡ طُغۡيَانِهِمۡ يَعۡمَهُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اگر ہم ان پر مزید رحم کرتے اور جو تکلیف انہیں پہنچی ہے اس کو دور کردیتے تو یہ ضرور اپنی سرکشی میں بھٹکنے پر اصرار کرتے

اس سے پہلے۔ نے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے متعلق مشرکین کے شبہات کو زائل فرمایا تھا اور اب یہ بیان فرما رہا ہے کہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت برحق ہے اور جو آپ کی نبوت کو نہیں مانتے اور آپ کا کفر کرتے ہیں وہ آخرت میں اس کا خمیازہ اٹھائیں گے، پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور اگر ہم ان پر (مزید) رحم کرتے اور جو تکلیف انہیں پہنچی ہے اس کو دور کردیتے تو یہ ضرور اپن سرکشی میں بھٹکنے پر اصرار کرتے۔ اس آیت میں جس تکلیف کا ذکر فرمایا ہے اس کی حسب ذیل تفسیریں ہیں :

١۔ اس سے مراد ہے قحط اور بھوک ہے اور دنیا کے باقی مصائب اور تکلیفیں مراد ہیں۔

٢۔ اس سے مراد ہے مختلف جنگوں اور جہادوں میں ان کا قتل کیا جاتا اور ان کا قید کیا جانا۔

٣۔ اس سے مراد آخرت کا ضرر اور عذاب ہے اور یہ بیان فرمایا کہ وہ اپنے عناد اور سرکشی میں اس قدر پہنچ چکے ہیں کہ آخرت کا عذاب ان سے دور نہیں ہوسکتا پھر یہ کہیں گے کہ ان کو دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے لیکن ان کو دوبارہ دنیا میں نہیں لوٹایا جائے گا اور اگر ان کو دنیا میں لوٹا دیا جائے گا تو یہ پھر اسی ڈگر پر چلیں گے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 75