أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِدۡفَعۡ بِالَّتِىۡ هِىَ اَحۡسَنُ السَّيِّئَةَ‌ ؕ نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا يَصِفُوۡنَ ۞

ترجمہ:

برائی کو اس طریقہ سے دور کیجیے جو بہت اچھا ہو، آپ کے متعلق یہ جو باتیں بناتے ہیں ہم ان کو خوب جانتے ہیں

برائی کا جواب اچھائی سے دینے کی نصیحت اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت میں اس کی مثالیں 

المئومنون : ٩٦ میں فرمایا : برائی کو اس طریق سے دور کیجیے جو بہت اچھا ہو آپ کے متعلق یہ جو باتیں بناتے ہیں ہم ان کو خوب جانتے ہیں۔ اسی طرح ایک اور آیت میں بھی فرمایا ہے :

(حم السجدۃ ٣٤) نیکی اور بدی برابر نہیں آپ برائی کو بھلائی سے دور کیجیے پھر وہی شخص جس کے اور آپ کے درمیان دشمنی ہے وہ ایسا ہوجائے گا جیسے وہ آپ کا محب اور دوست ہو۔

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ظلم کا جواب احسان سے دیجیے زیادتی کا جواب عفو کے ساتھ اور غضب کا جواب عفو اور درگزر کے ساتھ اور بےہدگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور ناپسندیدہ باتوں کا جواب برداشت اور حلم سے دیجیے اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ آپ کا دشمن آپ کا دوست بن جائے گا اور دور رہنے والا قریب ہوجائے گا اور آپ کے خون کا پیاسا آپ کا گرویدہ اور جاں نثار ہوجائے گا۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت میں اس کی بہت مثالیں ہیں ہم چند مثالیں ذکر کر رہے ہیں۔

حضرت براء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو سراقہ بن مالک بن جعشم نے (سو اونٹوں کے لالچ میں) آپ کا پیچھا کیا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کا گھوڑا زمین میں جھنس گیا اس نے کہا آپ میرے لئے اللہ سے دعا کیجیے میں آپ کو ضرر نہیں پہنچائوں گا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لئے دعا کی ایک اور حدیث میں ہے اس نے آپ سے یہ سوال کیا کہ آپ مجھے امان لکھ کر دے دیں، آپ نے عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اس نے چمڑے کے ایک ٹکڑے پر اس کو امان لکھ دی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٩٠٨، ٣٩٠٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٠٠٩ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث، ٨٦٦٣) 

غور کیجیے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس شخص کو امان لکھ کر دے رہعے ہیں جو سو اونٹوں کے لالچ میں آپ کا سر اتارنے کے لئے نکلا تھا آپ نے اس کی بدی کا جواب نیکی سے دیا اور بالآخر وہ مسلمان ہوگیا۔

جنگ بدر کے بعد صفوان بن امیہ کی ترغیب پر عمیر بن وھب آپ کو قتل کرنے کے ارادہ سے آیا اور مسجد نبوی میں زہر میں بجھی ہوئی تلوار لے کر آپ کے قریب آ کر بیٹھ گیا آپ نے اس سے پوچھا کہ اے عمیر تم کس لئے آئے ہو ؟ اس نے کہا آپ کے پاس جو ہمارے قیدی ہیں میں ان کی سفارش کر کے آپ سے چھڑانے کے لئے آیا ہوں، آپ نے فرمایا پھر تمہارے گلے میں یہ تلوار کیسی ہے ؟ اس نے کہا ان تلواروں کے لئے خربای ہو انہوں نے ہم سے کون سی مصیبت دور کردی ہے ؟ آپ نے فرمایا تم سچ کہہ رہے ہو تم اسی لیء آئے ہو، اس نے کہا خدا کی قسم میں اسی لئے آیا ہوں، آپ نے فرمایا نہیں بلکہ تم اور صفوان بن امیہ صحن کعبہ میں بیٹھے ہوئے تھے تم نے مقتولین بدر کا ذکر کیا پھر تم نے کہا اگر مجھ پر قرض اور بچوں کی ذمہ داری نہ ہوتی تو میں ابھی روانہ ہوجاتا اور (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کر کے آتا، پھر صفوان اسشرط پر تمہارے قرض اور تمہارے بچوں کی کفالت کا ضامن ہوگیا کہ تم مجھے قتل کردو گے اور تمہارے اور تمہارے اس ارادہ کے پورے ہوین کے درمیان اللہ حائل ہوگیا یہ سن کر عمیر نے بےساختہ کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں، یا رسول اللہ ! پہلے ہم آسمانی خبروں اور وحی کے متعلق آپ کی تکذیب کرتے تھے اور یہ ایسی خبر ہے جس کے موقع پر میرے اور صفوان کے سوا کوئی موجود نہیں تھا خدا کی قسم ! مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہ بات صرف اللہ نے بتائی ہے، اللہ کا شکر ہے جس نے مجھے اسلام کی ہدایت کی، اس نے کلمہ شہادت پڑھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ تمہارا دینی بھائی ہے اس کو قرآن کی تعلیم دو اور اس کے قیدی آزدا کردو، پھر حضرت عمیر بن وھب مکہ چلے گئے اور اسلام کی تبلیغ کرنے لگے اور جس طرح پہلے مسلمانوں پر ظلم کرتے تھے، اب مشرکین کے خلاف تیغ بےنیا مرہتے تھے ان کی تبلیغ سے بہت سے لوگ مسلمان ہوگئے۔ (سیرۃ النبویہ علی ہامش الروض الانف ج ٤ ص ٨٤ مطبوعہ بیروت فتح الباری ج ٣ ص ٣٧-٣٦ مطبوعہ لاہور، ١٤٠١ ھ) 

فتح مکہ کے بعد آپ نے عمیر بن وھب کی سفارش سے صفوان بن امیہ کو بھی معاف کردیا اور وہ مسلمان ہوگئے۔ (کتاب المغازی للواقدی ج ٢ ص ٨٥٣ الکامل لابن اثیرج ٢ ص ١٦٨ بیروت)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) عنہب یان کرتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی ابن سلول فوت ہوگیا تو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بلایا گیا جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لئے کھڑے ہوئے تو میں دوڑ کر آپ کے پاس پہنچ گیا، میں نے کہا یا رسول اللہ کیا آپ اس ابن ابی کی نماز جنازہ پڑھا رہے ہیں ؟ حالانکہ اس نے فلاں دن یہ اور یہ کہا تھا (کہ مدینہ پہنچ کر عزت والے ذلت والوں کو نکال دیں گے اور یہ کہا تھا کہ جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں جب تک وہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑیں اس وقت تک ان پر خرچ نہ کرو اور حضرت عائشہ (رض) پر بدکاری کی تہمت لگائی تھی جس سے آپ کو سخت رنج پہنچا تھا اور آپ سے کہا تھا کہ اپنی سواری دور کرو مجھے اس سے بدبو آتی ہے، جنگ احد میں عین لڑائی کے دن اپنے تین سو ساتھیوں کو لے کر لشکر سے نکل گیا تھا میں آپ کو یہ تمام باتیں گنواتا رہا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تبسم فرما کر کہا ” اپنی رئاے کو رہنے دو “ جب میں نے بہت اصرار کیا تو فرمایا مجھے اختیار دیا گیا ہے (کہ استغفار کرو یا نہ کرو) سو میں نے (استغفار کرنے کو) اختیار کرلیا اور اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ اگر میں نے ستر مرتبہ سے زیادہ استغفار کیا تو اس کی مغفرت کردی جائے گی تو میں تر مرتبہ سے زیادہ استغافر کرتا، حضرت عمر بیان کرتے ہیں کہ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کی نماز جنازہ پڑھائی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٦٦ مسند احمد رقم الحدیث، ٩٥ عالم الکتب بیروتض 

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ ریات کرتے ہیں :

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس معاملہ میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا میری قمیض اور اس پر میری نماز جنازہ اس سے اللہ کے عذاب کو دور نہیں کرسکتی اور بیشک مجھے یہ امید ہے کہ میرے اس عمل سے اس کی قوم کے ایک ہزار آدمی اسلام لے آئیں گے۔ (جامع البیان ج ١٠ ص ١٤٢ مطبعہ دارالمعرفتہ بیروت ١٤٠٩ ھ)

آپ کی اس نرمی اور حسن اخلاق کو دیکھ کر عبداللہ بن ابی کی قوم کے ایک ہزار آدمی اسلام لے آئے۔

ابوسفیان نے متعدد بار مدینہ پر حملے کئے تھے اس کو معاف کردیا، وحشی نے آپ کے محبوب چچا حضرت حمزہ (رض) کو شہید کیا تھا اس کو معاف کردیا، ھند نے حضرت حمزہ کا کلیجہ نکال کر کچا چبایا تھا اس کو معاف کردیا اور مکہ کے جن ظالموں نے آپ پر ظلم و ستم ڈھائے تھے جنہوں نے آپ کے راستہ میں کانٹے بچھائے تھے، جنہوں نے سجدہ کی حالت میں آپ پر اوجھڑی ڈالی تھی، جنہوں نے آپ کا سماجی بائیکاٹ کیا تھا اور شعب ابی طالب میں غلہ کا ایک دانہ تک نہیں پہنچنے دیا تھا ان سب کو معاف کردیا۔

مفسرین کا اس میں اتخلاف ہے کہ اس آیت کا حکم اب بھی باقی ہے یا منسوخ ہوچکا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ جہاد کے احکام نازل ہونے کے بعد کافروں کی زیادتی کے جواب کو نرمی سے دینے کا وجوب اب منسوخ ہوگیا ہے اور مسلمانوں کے آپس کے معاملات میں زیادتی کا جواب نرمی کے ساتھ دینا اب بھی معمول ہے اور مستحسن ہے، قرآن مجید میں ہے :

(الشوریٰ : ٤٠) برائی کا بدلہ اسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ کے ذمہ کرم پر ہے بیشک اللہ ظالموں سے محبت نہیں کرتا۔

(الشوری : ٤١) اور جس شخص نے صبر کیا اور معاف کردیا بیشک یہ بلند ہمت والوں کے کاموں میں سے ہے۔

(حم السجدۃ : ٣٥) اور یہ بات (برائی کا بدلہ اچھائی سے دینا) صرف ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جوص بر کریں اور ان ہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو بڑی سعادت والے ہوں۔

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) طبعاً بےشری کی باتیں کرتے تھے اور نہ تکلفاً آپ بازار میں شور نہیں کرتے تھے اور برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگزر کرتے تھے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٠١٦ مسند احمد ج ٦ ص ١٧٤ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٣٣٠ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤٠٩ سنن کبری للبیہقی ج ٧ ص ٤٥ )

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے نہیں دیکھا کبھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر کوئی زیادتی کی گی ہو اور آپ نے اس کا بدلہ لیا ہو، جب تک اللہ کی حدود کو پامال نہ کیا گیا ہو اور جب اللہ کی حدود کی ذرا سی بھی خلاف ورزی کی گئی ہو تو آپ سے زیادہ غضب ناک کوئی نہیں ہوتا تھا اور آپ کو جب بھی دو چیزوں میں سے کسی ایک کا اختیار دیا جاتا تو آپ زیادہ آسان چیز کو اختیار کرتے تھے بہ شرطی کہ وہ گناہ نہ ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٦٠، ٦٧٨٦، ٦٨٥٣ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٢٧ سنن ابو دائود رقم الدیث : ٤٧٨٥ مسند احمد ج ٦ ص ٨٥ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٤١٠ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٧٩٤٢، مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٤٣٧٥)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی امت کو بھی یہی تلقین کی ہے کہ وہ برائی کا جواب اچھائی سے اور بدی کا جواب نیکی سے دیں :

حضرت عقبہ بن عامررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوئی میں نے آپ کا ہاتھ پکڑنے میں پہل کی اور عرض کیا یا رسول اللہ ! مجھے بتایئے کہ سب سے اچھے اعمال کو ن سے ہیں ؟ آپ نے فرمایا اے عقب ! جو تم سے تعق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو، جو تم کو محروم کرے اس کو عطا کرو اور جو تم پر ظلم کرے اس سے اعراض کرو۔ (مسند احمد ج ٤ ص ١٤٨، طبع قدیم، مسند حمد رقم الحدیث : ١٧٤٦٧ عالم الکتب بیروت، حافظ زین نے کہا یہ حدیث حسن ہے اور انہوں نے ترمذی کا حوالہ دیا مگر مجھے ترمذی میں یہ حیدث نہیں ملی، مسند احمد رقم الحدیث : ١٧٦٦٧ دارالحدیث القاہرہ المعجم الکبیرج ١٧ ص ٢٧٠ مجمع الزوائد رقم الحدیث : ١٣٦٨٩ حافظ الہیثمی نے کہا امام احمد کی دو سندوں میں سے ایک سند حسن ہے۔ )

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو تم سے تعلق توڑے اس سے تعلق جوڑو، جو تم سے برا سلوک کرے اس سے اچھا سلوک کرو اور حق بات کہو خواہ وہ تمہارے خلاف ہو۔ (ابن النجار رقم الحدیث : ٦٩٢٩ تہذیب تاریخ ابن عساکر ج ٣ ص ٦١ جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٣٤٩٨ الجامع الصغیر رقم الدیث : ٥٠٠٤ کنز العمال رقم الحدیث : ٦٠٢٩ سلسلتہ الاحادیث الصحیحہ للالبانی، رقم الحدیث : ١٩١١)

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ مجیھ نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا میں تمہیں اللہ سے ڈرنے (تقویٰ ) کی نصیحت کرتا ہوں کیونکہ وہ تمہارے ہر کام کا سردار ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور زیادہ نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا تم تلاوت قرآن اور اللہ کے ذکر کو لازم کرلو کیونکہ یہ تمہارے لئے آسمانوں میں نور ہے اور زمین میں نور ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور زیادہ نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا تم زیداہ ہنسا نہ کرو کیونکہ یہ دل کو مار دیتا ہے اور چہرے کا نور ختم کردیتا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ اور نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا تم جہاد کو لازم کرلو کیونکہ یہ میری امت کی رہبانیت ہے، میں نے کہا یا رسول اللہ ! اور نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا سوائے کلمہ خیر کہنے کے خاموش رہو کیونکہ یہ (خاموش رہنا) شیطان کو بھگائے گا اور دین کے کاموں میں تمہارا مددگار ہوگا، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا اپنے سے کم تر کو دیکھو اور اپنے سے برتر کو نہ دیکھو، یہ اس بات کے زیادہ لائق ہے کہ تم اللہ کی ان نعمتوں کو حقیر نہ جانو گے جو اس نے تم کو عطا کی ہیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا اپنے رشتہ داروں سے تعلق جوڑو خواہ وہ تم سے تعلق توڑیں میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور زیادہ نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا اللہ کا پیغام سنانے میں کسی کی ملامت سے نہ ڈرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ ! اور نصیحت کیجیے آپ نے فرمایا لوگوں کے لئے ان چیزوں کو پنسد کرو جن چیزوں کو تم اپنے لئے پسند کرتے ہو، پھر آپ نے میرے سینہ پر ہاتھ مار کر فرمایا اے ابوذر عقل سے بڑھ کر کوئی تدبیر نہیں اور گناہ سے رکنے سے بڑھ کر کوئی تقویٰ نہیں اور اچھے الخقا سے بڑھ کر کوئی فضیلت نہیں۔

(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٦٥١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٦١ حافظ الہیثمی فرماتے ہیں اس حدیث کی سند میں ایک راوی ابراہیم بن ہشام بن یحییٰ الغسانی ہے اس کی امام ابن حبان نے توثیق کی او امام ابوزرعہ نے اس کو ضعیف قرار دیا، مجمع الزوائد ٤ ص ٢١٦)

میں اس بحث کو شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی متوفی ٦٩٢ ھ کے اس شعر پر ختم کرتا ہوں۔

بدی را بدی سہل باشد جزا

اگر مردی احسن الی من اساء 

برائی کا بدلہ برائی سے دینا بہت آسان ہے، مردانگی یہ ہے کہ تم اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو جس نے تمہارے ساتھ برا سلوک کیا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 96