أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

حَتّٰٓى اِذَا جَآءَ اَحَدَهُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ رَبِّ ارۡجِعُوۡنِۙ ۞

ترجمہ:

حتی کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے میرے رب ! مجھے واپس بھیج دے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، حتیٰ کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آتی ہے تو وہ کہتا ہے اے میرے رب ! مجھے واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس دنیا میں وہ نیک کام کرلوں جن کو میں چھوڑ آیا ہوں، ہرگز نہیں یہ صرف ایک بات ہے جس کو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پس پشت ایک حجاب ہے جس دن تک ان کو اٹھایا جائے گا۔ (المئومنون :99-100)

موت کے وقت دنیا میں دوبارہ لوٹنے کی تمنا کرنے والے کافر ہوں گے اور بدکار مسلمان 

جب کافر کی موت کا وقت آجاتا ہے اور موت کی علامات ظاہر ہوجاتی ہیں اس وقت وہ ان فرشوتوں کو دیکھ لیتا ہے جو اس کی روح قبض کرنے کے لئے آتے ہیں اس وقت اس کو اپنے گمراہ ہونے کا یقین ہوجاتا ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

(الانفال : ٥٠) کاش آپ اس وقت دیکھتے جب فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے اور ان کے چہروں پر اور ان کے کو لہوں پر ضرب لگاتے ہیں اور کہت یہیں کہ تم جلنے کا عذاب چکھو۔

اور موت کے وقت کافر اپنے دل میں کہتا ہے کہ اے رب ! مجھے واپس بھیج دے، ارجعون جمع کا صیغہ ہے، اللہ واحد ہی لیکن کافر اس وقت اس کے لئے تعظیم کے قصد سے جمع کا صیغہ بولتا ہے۔

موت کے وقت ایمان لانے اور نیک عمل کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دوبارہ دنیا میں بھیجنے کی درخواست کرنا صرف کافروں کے ساتھ مختص نہیں ہے بلکہ جو مسلمان ساری عمر اللہ کے احکام پر عمل نہیں کرتے اور گناہوں میں ڈوبے رہتے ہیں وہ بھی جب موت کے وقت عذاب کے فرشتوں کو دیکھیں گیت و وہ بھی اس وقت یہ تمنا کریں گے کہ کاش ان کو دوبارہ دنیا میں بھیجا جائے تاکہ وہ نیک عمل کریں اور گناہ کریں، جیسا کہ ان آیات سے ظاہر ہوتا ہے :

(المنافقون : ١٠-٩) اے ایمان ولاو ! تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کردیں اور جس نے ایسا کیا تو وہی نقصان اٹھانے اولے ہیں۔ اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرو اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر وہ یہ کہے کہ اے میرے رب تو مجھے تھوڑی دیر کی مہلت کیوں نہیں دیتا تاکہ میں صدقہ کروں اور نیک لوگوں میں سے ہو جائوں۔

اس سے معلوم ہوا کہ زکوۃ ادا کرنے میں اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے اور حج کی استطاعت ہو تو حج کرنے میں بھی دیر نہیں کرنی چاہیے کیونکہ کسی کو موت کا وقت معلوم نہیں کیا پتا کس وقت موت آجائے اور یہ فرائض اس کے ذمہ رہ جائیں اور موت کے وقت یہ آرزو کرنے کا کوئی فائدہ نہیں کہ کاش مجھے کچھ اور زندگی دے دی جائے تاکہ وہ زکوۃ ادا کرلوں اور جو نیک کام مجھ سے رہ گئی ہیں ان کی قضا کرلوں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 99