حدیث نمبر 389

روایت ہے حضرت عبداﷲ ابن مغفل سے ۱؎ فرماتے ہیں فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو،مغرب سے پہلے دو رکعتیں پڑھو تیسری بار فرمایا جو چاہے اس خوف سے کہ لوگ اسے سنت بنالیں ۲؎(مسلم،بخاری)

شرح

۱؎ آپ صحابی ہیں،بیعت الرضوان میں شریک ہوئے،مدینہ منورہ میں قیام رہا پھر عہد فاروقی میں لوگوں کو فقہ سکھانے بصرہ بھیجے گئے،وہاں ہی رہے، ۶۰ھ ؁ میں وفات پائی۔

۲؎ یعنی “لِمَنْ شَاءَ”اس لیئے فرمایا کہ لوگ ان رکعتوں کو سنت مؤکدہ یا واجب نہ جان لیں یہ سمجھ کر “صَلُّوْا”امر ہے اور امرو جوب کے لیئے آتا ہے۔خیال رہے کہ بعض امام اس حدیث کی بناء پر فرماتے ہیں کہ نماز مغرب سے پہلے دو نفل مستحب ہے لیکن امام اعظم ، امام مالک اور اکثر فقہاء فرماتے ہیں کہ یہ نفل مکروہ ہیں۔اس حدیث کو منسوخ مانتے ہیں کہ شروع اسلام میں یہ حکم تھا پھر نہ رہا چند وجہوں سے:ایک یہ کہ تیسری فصل میں بحوالہ مسلم آرہا ہے کہ عمر فاروق اس نفل پڑھنے والوں کو سزا دیتے تھے۔دوسرے یہ کہ بروایت بخاری اسی دوسری فلص میں آرہا ہے صحابہ نے ابو تمیم کو دو رکعتیں پڑھتے دیکھا تو تعجبًا ایک دوسرے سے شکایت کی۔تیسرے یہ کہ تمام صحابہ نے یہ نفل بعد میں چھوڑ دیئے۔چوتھے یہ کہ ان نفلوں سے مغرب میں تاخیر ہوگی حالانکہ اسے جلدی پڑھنے کا حکم ہے۔پانچویں یہ کہ ہم باب فضل اذان میں ایک حدیث نقل کرچکے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر دو اذانوں یعنی اذان و تکبیر کے درمیان نماز ہے سوا مغرب کے۔بہرحال جمہور علماء کے نزدیک یہ حدیث قابلِ عمل نہیں۔اس کی کچھ بحث باب فضل اذا ن میں گزر چکی اور اس کی پوری تحقیق فتح القدیر شرح ہدایہ میں دیکھو۔