وَ قَالَ الشَّیْطٰنُ لَمَّا قُضِیَ الْاَمْرُ اِنَّ اللّٰهَ وَعَدَكُمْ وَعْدَ الْحَقِّ وَ وَعَدْتُّكُمْ فَاَخْلَفْتُكُمْؕ-وَ مَا كَانَ لِیَ عَلَیْكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍ اِلَّاۤ اَنْ دَعَوْتُكُمْ فَاسْتَجَبْتُمْ لِیْۚ-فَلَا تَلُوْمُوْنِیْ وَ لُوْمُوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-مَاۤ اَنَا بِمُصْرِخِكُمْ وَ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُصْرِخِیَّؕ-اِنِّیْ كَفَرْتُ بِمَاۤ اَشْرَكْتُمُوْنِ مِنْ قَبْلُؕ-اِنَّ الظّٰلِمِیْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۲۲)

اور شیطان کہے گا جب فیصلہ ہوچکے گا (ف۵۳) بےشک اللہ نے تم کو سچا وعدہ دیا تھا (ف۵۴) اور میں نے جو تم کو وعدہ دیا تھا (ف۵۵) وہ میں نے تم سے جھوٹا کیا اور میرا تم پر کچھ قابو نہ تھا (ف۵۶) مگر یہی کہ میں نے تم کو (ف۵۷) بلایا تم نے میری مان لی (ف۵۸) تو اب مجھ پر الزام نہ رکھو (ف۵۹) خود اپنے اوپر الزام رکھو نہ میں تمہاری فریاد کو پہنچ سکو ں نہ تم میری فریاد کو پہنچ سکو وہ جو پہلے تم نے مجھے شریک ٹھہرایا تھا (ف۶۰) میں اس سے سخت بیزار ہوں بےشک ظالموں کے لیے دردناک عذاب ہے

(ف53)

اور حساب سے فراغت ہو جائے گی ، جنّتی جنّت کا اور دوزخی دوزخ کا حکم پا کر جنّت و دوزخ میں داخل ہو جائیں گے اور دوزخی شیطان پر ملامت کریں گے اور اس کو برا کہیں گے کہ بدنصیب تو نے ہمیں گمراہ کر کے اس مصیبت میں گرفتار کیا تو وہ جواب دے گا کہ ۔

(ف54)

کہ مرنے کے بعد پھر اٹھنا ہے اور آخرت میں نیکیوں اور بدیوں کا بدلہ ملے گا ، اللہ کا وعدہ سچا تھا سچا ہوا ۔

(ف55)

کہ نہ مرنے کے بعد اٹھنا ، نہ جزا ، نہ جنّت ، نہ دوزخ ۔

(ف56)

نہ میں نے تمیں اپنے اِتّباع پر مجبور کیا تھا یا یہ کہ میں نے اپنے وعدہ پر تمہارے سامنے کوئی حُجّت و برہان پیش نہیں کی تھی ۔

(ف57)

وسوسے ڈال کر گمراہی کی طرف ۔

(ف58)

اور بغیر حُجّت و برہان کے تم میرے بہکائے میں آ گئے باوجود یکہ اللہ تعالٰی نے تم سے فرما دیا تھا کہ شیطان کے بہکائے میں نہ آنا اور اس کے رسول اس کی طرف سے دلائل لے کر تمہارے پاس آئے اور انہوں نے حجّتیں پیش کیں اور برہانیں قائم کیں تو تم پر خود لازم تھا کہ تم ان کا اِتّباع کرتے اور ان کے روشن دلائل اورظاہر معجزات سے منہ نہ پھیرتے اور میری بات نہ مانتے اور میری طرف التفات نہ کرتے مگر تم نے ایسا نہ کیا ۔

(ف59)

کیونکہ میں دشمن ہوں اور میری دشمنی ظاہر ہے اور دشمن سے خیر خواہی کی امید رکھنا ہی حماقت ہے تو ۔

(ف60)

اللہ کا اس کی عبادت میں ۔ (خازن)

وَ اُدْخِلَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْؕ-تَحِیَّتُهُمْ فِیْهَا سَلٰمٌ(۲۳)

اور وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے وہ باغوں میں داخل کیے جائیں گے جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ان میں رہیں اپنے رب کے حکم سے اس میں ان کے ملتے وقت کا اکرام سلام ہے (ف۶۱)

(ف61)

اللہ تعالٰی کی طرف سے اور فرشتوں کی طرف سے اور آپس میں ایک دوسرے کی طرف سے ۔

اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴)

کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی (ف۶۲) جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں

(ف62)

یعنی کلمۂ توحید کی ۔

تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵)

ہر وقت اپناپھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے (ف۶۳) اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں (ف۶۴)

(ف63)

ایسے ہی کلمۂ ایمان ہے کہ اس کی جڑ قلبِ مومن کی زمین میں ثابت اور مضبوط ہوتی ہے اور اس کی شاخیں یعنی عمل آسمان میں پہنچتے ہیں اور اس کے ثمرات برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں ۔ حدیث شریف میں سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اصحابِ کرام سے فرمایا وہ درخت بتاؤ جو مومن کے مثل ہے اس کے پتے نہیں گرتے اور وہ ہر وقت پھل دیتا ہے ( یعنی جس طرح مومن کے عمل اکارت نہیں ہوتے اور اس کی برکتیں ہر وقت حاصل رہتی ہیں ) صحابہ نے فکریں کیں کہ ایسا کون درخت ہے جس کے پتے نہ گرتے ہوں اور اس کا پھل ہر وقت موجود رہتا ہے چنانچہ جنگل کے درختوں کے نام لئے جب ایسا کوئی درخت خیال میں نہ آیا تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا ، فرمایا وہ کھجور کا درخت ہے ۔ حضرت ابنِ عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اپنے والد ماجد حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے عرض کیا کہ جب حضور نے دریافت فرمایا تھا تو میرے دل میں آیا تھا کہ یہ کھجور کا درخت ہے لیکن بڑے بڑے صحابہ تشریف فرما تھے میں چھوٹا تھا اس لئے میں ادباً خاموش رہا ، حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا کہ اگر تم بتا دیتے تو مجھے بہت خوشی ہوتی ۔

(ف64)

اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی اچھی طرح خاطر گُزین ہو جاتے ہیں ۔

وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶)

اور گندی بات (ف۶۵) کی مثال جیسے ایک گندہ پیڑ (ف۶۶)کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا اب اسے کوئی قیام نہیں (ف۶۷)

(ف65)

یعنی کُفری کلام ۔

(ف66)

مثل اندرائن کے جس کا مزہ کڑوا ، بو ناگوار یا مثل لہسن کے بدبودار ۔

(ف67)

کیونکہ جڑ اس کی زمین میں ثابت و مستحکم نہیں ، شاخیں اس کی بلند نہیں ہوتیں ۔ یہی حال ہے کُفری کلام کا کہ اس کی کوئی اصل ثابت نہیں اور کوئی حجّت و برہان نہیں رکھتا جس سے استحکام ہو ، نہ اس میں کوئی خیر وبرکت کہ وہ بلندیٔ قبول پر پہنچ سکے ۔

یُثَبِّتُ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِالْقَوْلِ الثَّابِتِ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ فِی الْاٰخِرَةِۚ-وَ یُضِلُّ اللّٰهُ الظّٰلِمِیْنَ ﳜ وَ یَفْعَلُ اللّٰهُ مَا یَشَآءُ۠(۲۷)

اللہ ثابت رکھتا ہے ایمان والوں کو حق بات (۶۸) پر دنیا کی زندگی میں (ف۶۹) اور آخرت میں (ف۷۰) اور اللہ ظالموں کو گمراہ کرتا ہے (ف۷۱) اور اللہ جو چاہے کرے

(ف68)

یعنی کلمۂ ایمان ۔

(ف69)

کہ وہ ابتلاء اور مصیبت کے وقتوں میں بھی صابر و قائم رہتے ہیں اور راہِ حق و دینِ قویم سے نہیں ہٹتے حتی کہ ان کی حیات کاخاتمہ ایمان پر ہوتا ہے ۔

(ف70)

یعنی قبر میں کہ اول منازلِ آخرت ہے جب منکر نکیر آ کر ان سے پوچھتے ہیں کہ تمہارا ربّ کون ہے ، تمہارا دین کیا ہے اور سیدِ عالَم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی طرف اشارہ کر کے دریافت کرتے ہیں کہ ان کی نسبت تو کیا کہتا ہے ؟ تو مومن اس منزل میں بفضلِ الٰہی ثابت رہتا ہے اور کہہ دیتا ہے کہ میرا ربّ اللہ ہے ، میرا دین اسلام اور یہ میرے نبی ہیں محمّدِ مصطفٰے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ، اللہ کے بندے اور اس کے رسول پھر اس کی قبر وسیع کر دی جاتی ہے اور اس میں جنّت کی ہوائیں اور خوشبوئیں آتی ہیں اور وہ منوّر کر دی جاتی ہے اور آسمان سے ندا ہوتی ہے کہ میرے بندے نے سچ کہا ۔

(ف71)

وہ قبر میں منکَر و نکیر کو جواب صحیح نہیں دے سکتے اور ہر سوال کے جواب میں یہی کہتے ہیں ہائے ہائے میں نہیں جانتا ، آسمان سے ندا ہوتی ہے میرا بندہ جھوٹا ہے اس کے لئے آ گ کا فرش بچھاؤ ، دوزخ کا لباس پہناؤ ، دوزخ کی طرف دروازہ کھول دو ۔ اس کو دوزخ کی گرمی اور دوزخ کی لپٹ پہنچتی ہے اور قبر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ ایک طرف کی پسلیاں دوسری طرف آ جاتی ہیں ، عذاب کرنے والے فرشتے اس پر مقرر کئے جاتے ہیں جو اسے لوہے کے گرزوں سے مارتے ہیں ۔( اَعَاذْنَا اللّٰہ ُ تَعَالیٰ مِنْ عَذَابِ القَبْرِ وَ ثَبِّتْنَاعَلَی الْاِیْمَانِ ) ۔