اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ ۖ وَّلَا تَاۡخُذۡكُمۡ بِهِمَا رَاۡفَةٌ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِۚ وَلۡيَشۡهَدۡ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 2
sulemansubhani نے Wednesday، 10 June 2020 کو شائع کیا.
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلزَّانِيَةُ وَالزَّانِىۡ فَاجۡلِدُوۡا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنۡهُمَا مِائَةَ جَلۡدَةٍ ۖ وَّلَا تَاۡخُذۡكُمۡ بِهِمَا رَاۡفَةٌ فِىۡ دِيۡنِ اللّٰهِ اِنۡ كُنۡتُمۡ تُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰهِ وَالۡيَوۡمِ الۡاٰخِرِۚ وَلۡيَشۡهَدۡ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞
ترجمہ:
زانیہ عورت اور زانی مرد ان میں سے ہر ایک کو تم سو کوڑے مارو اور ان پر شرعی حکم نافذ کرنے میں تم کو ان پر رحم نہ آئے اگر تم اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہونی چاہیے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : زانیہ عورت اور زانی مردان میں سے ہر ایک کو تم سو کوڑے مارو، اور ان پر شرعی حکم نافذ کرنے میں تم کو ان پر رحم نہ آئے، اگر تم اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہونی چاہیے (النور : ٢)
اس آیت کی تفسیر میں ہم زنا کا معنی بیان کریں گے، زنا کی حد میں کوڑوں اور ایک سال کی جلاوطنی کا فقہی اختلاف بیان کریں گے، زنا کی حد میں رجم کے دلائل کا ذکر کریں گے۔ زنا کی حد میں عورتوں کے ذکر کو مقدم کرنے کی وجہ بیان کریں گے، زنا کی حد میں کوڑوں کی کیفیت اور کوڑے مارنے کی تفصیل بیان کریں گے اور زنا کی ممانعت اور مذمت اور دنیا اور آخرت میں اس کی سزا کے متعلق احادیث بیان خریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق و بہ الاستعانۃ یلیق۔
زنا کا لغوی معنی
زنا کا لغوی معنی ہے پہاڑ پر چرھنا، سائے کا سکڑنا، پیشاب کو روک لینا، حدیث میں ہے :
لا یصلی احد کم و ھو زناء تم میں سے کوئی شخص پیشاب روکنے کی حالت میں نماز نہ پڑھے۔
(مسند الربیع بن حبیب، ج ا ص ٦٠، مکتبتہ الثقافۃ العربیہ بیروت)
اسی طرح حدیث میں ہے :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نماز نہ پڑھے کہ وہ پیشاب اور پاخانے کو روک رہا ہو۔ اس حدیث کی سند قوی ہے۔
(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٢٠٧٢، موارد الظمآن رقم الحدیث : ١٩٥، تلخیص الحبیر رقم الحدیث : ٥٦٦، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث : ٧٦٦، ١٧٧١)
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کھانا آجائے تو نماز (کامل) نہیں ہوتی اور نہ اس وقت جب نمازی پیشاب اور پاخانے کو روک رہا ہو۔
(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٦٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٨٩، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٨٠٢، تاریخ دمشق لابن عساکر ج ٣٤ ص ١٦٤، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ) ۔
علامہ راغب اصفہانی نے لکھا ہے کہ زنا کا معنی ہے کسی عورت کے ساتھ بغیر شرعی کے وطی (مباشرت) کرنا۔
(مختار الصحاح ١٧٠، النہایہ ج ٢ ص ٢٨٤، المفردات ج ا ص ٢٨٤)
قاضی عبد النبی بن عبد الرسول احمد نگری لکھتے ہیں :
الزنا : اس اندام نہانی میں وطی (مباشرت، جماع) کرنا جو وطی کرنے والے کی ملکیت یا ملکیت کے شبہ سے خالی ہو۔
(دستور العلماء ج ٢ ص ١١٣، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢١ ھ)
سید مرتضی حسین زبیدی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں :
لغت میں زنا کا معنی کسی چیز پر چڑھنا ہے اور اس کا شرعی معنی ہے کسی ایسی شہوت انگیز اندام نہانی میں حشفہ (آلہ تناسل کے سر) کو داخل کرنا جس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو۔ (تاج العروس ج ١٠ ص ١٦٥، مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ مصر، ١٣٠٦ ھ) ۔
فقہاء حنبلیہ کے نزدیک زنا کی تعریف
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :
اہل علم کا اس شخص کے زانی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو کسی ایسی عورت کی قبل (اندام نہانی) میں وطی کرے جو حرام ہو اور وطی کسی شبہ سے نہ ہو اور دبر (سرین) میں وطی کرنا بھی اس کی مثل زنا ہے کیونکہ یہ بی اس عورت کی فرج (شرمگاہ) میں وطی کرنا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے اور نہ ملکیت کا شبہ ہے۔ لہٰذا یہ قبل (اندام نہانی) میں وطی کی طرح ہے۔ نیز اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
………(النساء : ١٥) تمہاری وہ عورتیں جو بےحیائی کا کام کرتی ہیں۔
اور دبر میں وطی کرنا بھی بےحیائی کا کام ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے قوم لوط کے متعلق فرمایا :
………(الاعراف : ٨٠) کیا تم بےحیائی کا کام کرتے ہو ؟
یعنی مرد، مردوں کی دبر میں وطی کرتے ہیں اور ایک قول یہ ہے کہ پہلے قوم لوط کے لوگ عورتوں کی دبر میں وطی کرتے تھے پھر مردوں کی دبر میں وطی کرنے لگے۔
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں : اگر کوئی شخص مردہ عورت سے وطی کرے تو اس میں دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد ہے اور یہی امام اوزاعی کا قول ہے، کیونکہ اس نے آدم زاد کی فرج میں وطی کی ہے پس یہ زندہ عورت سے وطی کے مشابہ ہے، نیز اس لئے کہ یہ بہت عظیم گناہ ہے کیونکہ اس میں بےحیائی کے ارتکاب کے علاوہ مردہ کی عزت کو بھی پامال کرنا ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس پر حد نہیں ہے اور یہ حسن کا قول ہے۔ ابوبکر نے کہا میرا بھی یہی قول ہے مردہ سے وطی کرنا وطی نہ کرنے کی مثل ہے، کیونکہ اس پر شہوت نہیں آتی اور لوگ اس سے کراہت محسوس کرتے ہیں۔ اس لئے اس سے زجر کو مشروع کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور حد کو زجر کے لئے مشروع کیا گیا ہے… اور نابالغ لڑکی سے زنا کرنے کا حکم یہ ہے کہ اگر اس سے وطی کرنا ممکن ہو تو اس سے وطی کرنا زنا ہے اور اس سے وطی کرنے پر بالغہ سے وطی کی طرح حد واجب ہوگی۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں : اگر کس شخص نے محرم سے نکاح کرلیا تو یہ نکاح بالا جماع باطل ہے، اور اگر اس سے وطی کرلی تو اکثر اہل علم کے قول کے مطابق پر اس پر حد واجب ہے۔ حسن، جابر بن زید، امام مالک، امام شافعی، امام ابو یوسف، امام محمد، اسحاق، ابو ایوب، ابن ابی خیثمہ کا یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ اور ثوری کا قول یہ ہے کہ اس پر حد نہیں ہے، کیونکہ یہ ایسی وطی ہے جس (کے جواز) میں شبہ پیدا ہوگیا ہے اس لئے اس وطی سے حد واجب نہیں ہوگی، جیسے کوئی شخص اپنی رضاعی بہن کر خرید کر اس سے وطی کرے۔ اور شبہ کا بیان یہ ہے کہ اس نے محرم سے نکاح کرلیا اور نکاح اباحت وطی کا سبب ہے ( اور حضرت آدم کی شریعت میں محارم مثلاً بہن سے نکاح جائز تھا) اس شبہ کی وجہ سے اس پر حد لازم نہیں ہوگی۔ (لیکن ایسے شخص کو تعزیر اً قتل کردیا جائے گا، کیونکہ ایک شخص نے اپنی سوتیلی ماں سے شادی کرلی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کا سرقلم کرنے کا حکم دیا۔ (یعنی اس پر حد جاری نہیں کی) ۔ نیز حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص محرم سے وطی کرے اس کو قتل کردو۔ (جامع ترمذی ص ٢٣١ مطبوعہ نور محمد کراچی، اور یہی امام ابوحنیفہ کی دلیل ہے۔ سعیدی غفرلہ) ۔
علامہ ابن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں کہ امام احمد کے اس مسئلہ میں دو قول ہیں۔ ایک قول یہ ہے کہ اس پر حد واجب ہے، کیونکہ اس نے ایسی عورت کے ساتھ وطی کی ہے جس کے حرام ہونے پر اجماع ہے اور اس میں ملکیت کا کوئی شبہ نہیں ہے، اور دوسرا قول یہ ہے کہ اس پر حد نہیں ہے جیسا کہ جامع ترمذی، سنن ابودائود اور سنن ابن ماجہ میں ہے۔ حضرت براء کہتے ہیں میری اپنے چچا سے ملاقات ہوئی درآں حالیکہ ان کے ہاتھ میں جھنڈا تھا۔ میں نے کہا کہاں جا رہے ہیں، انہوں نے کہا ایک شخص نے اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کی بیوی سے نکاح کرلیا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے اس کی گردن مارنے اور اس کا مال ضبط کرنے کے لئے بھیجا ہے۔ نیز جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ میں حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” جو شخص محرم سے وطی کرے اس کو قتل کردو۔ “
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ امام احمد یہ قول راجح ہے کیونکہ یہ حدیث کے مطابق ہے۔ نیز علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ جو شخص بغیر نکاح کے محرم سے زنا کرے اس میں بھی وہی اختلاف ہے جو نکاح کے بعد وطی کرنے میں اختلاف ہے۔ (المغنی لابن قدامہ ج ٩ ص ٥٥۔ ٥٣، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤٠٥ ھ)
فقہاء شافعیہ کے نزدیک زنا کی تعریف
علامہ یحییٰ بن شرف نووی لکھتے ہیں : مراد اپنی حشفہ (سپاری) کو کسی ایسی فرج ( اندام نہانی) میں داخل کردے جو طبعاً مشتہیٰ ہو اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو تو اس وطی پر حد واجب ہوتی ہے اگر زانی محصن (شادی شدہ) ہو تو اس کی حد رجم ہے اور اس کے ساتھ اس کو کوڑے نہیں لگائے جائیں گے، اور اگر غیر محصن (غیر شادی شدہ) ہو تو اس کی حد کوڑے اور شہر بدر کرنا ہے، اس میں مرد اور عورت برابر ہیں۔
محصن ہونے کی تین شرطیں ہیں : پہلی شرط مکلف ہونا ہے، اس لئے بچہ اور مجنون پر حد نہیں لگے گی لیکن ان کو زجرو توبیخ کی جائے گی، دوسری شرط ہے حریت پس غلام، ام ولد اور جس کا بعض حصہ غلام ہو محصن نہیں ہیں، اور تیسری شرط ہے نکاح صحیح ہونا۔ (روضتہ الطالین و عمدۃ المفتین ج ١٠ ص ٨٦، مکتب اسلامی بیروت، ١٤٠٥ ھ)
فقہاء مالکیہ کے نزدیک زنا کی تعریف
علامہ ابو عبد اللہ شتانی مالکی لکھتے ہیں :
علامہ ابن حاجب مالکی نے زنا کی یہ تعریف کی ہے، ’ کسی ایسے فرد کی فرج میں عمداً وطی کرے جو اس کی ملک میں بالاتفاق نہ ہو ” فرج کی قید سے وطی خارج ہوگئی جو غیر فرج میں ہو، اور آدمی کی قید سے وہ وطی خارج ہوگئی جو جانور کے ساتھ وطی ہو، کیونکہ جانور کے ساتھ وطی کرنے میں حد نہیں، تعزیز ہے۔ (اکمال اکمال العلم ج ٤ ص ٤٤٥، دار الکتب العلمیہ بیروت، طبعی قدیم) ۔
فقہاء احناف کے نزدیک زنا کی تعریف
ملک العلماء علامہ کاسانی حنفی لکھتے ہیں جو شخص دار العدل میں احکام اسلام کا التزام کرنے کے بعد اپنے اختیار سے زندہ مشتہاۃ عورت کی قبل (اندانی نہانی) میں وطی کرے دارآں حالیکہ و قبل حقیقتا ملکیت اور ملکیت کے شبہ اور حق ملک اور حقیقتا ً نکاح اور شبہ نکاح اور نکاح اور ملک کے موضع اشتباہ کے شبہ سے خالی ہو۔ (بدائع الصنائع ج ٧ ص ٣٣) علامہ ابن ہمام نے بھی یہی تعریف کی ہے۔ (فتح القدیر ج ٧ ص ٣٣ سکھر) ۔
اس تعریف کی قیود کی وضاحت حسب ذیل ہے :
وطی : عورت کی اندام نہانی میں بقدر سپاری آلہ تناسل کو داخل کرنا، پس جس وطی سے حد واجب ہوگی اس میں بقدر سپاری داخل ہونا ضروری ہے اور اس سے کم میں حد واجب نہیں ہوگی۔
حرام : کسی مکلف شخص نے اجنبی عورت سے وطی کی ہو تو اس کو حرام کہا جائے گا، اگرچہ بچہ یا مجنون نے وطی کی تو اس پر حرام کا حکم نہیں لگے گا، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے تین شخصوں سے قلم تکلیف اٹھا لیا گیا، بچہ سے حتیٰ کہ وہ بالغ ہوجائے، سوئے ہوئے سے حتی ٰ کہ وہ بیدار ہوجائے اور مجنون سے حتیٰ کہ وہ ٹھیک ہوجائے۔ اس حدیث کو امام ترمذی (رقم : ١٤٢٣) اور امام ابو دائود (رقم : ١٤٤٠١) نے روایت کیا ہے۔
قبل : عورت کی اندام نہانی کو کہتے ہیں اس قید کی وجہ سے مرد یا عورت کی دبر (سرین) میں وطی امام ابوحنیفہ کے نزدیک زنا کی تعریف سے خارج ہوگئی، اس کے برخلاف امام ابو یوسف، امام محمد اور فقہاء مالکیہ، اور فقہاء حنبلیہ عورت کی دبر میں وطی کو بھی زنا قرار دیتے ہیں۔ امام ابوحنیفہ کی دلیل یہ ہے کہ دبر میں وطی کو لواطت کہتے ہیں اور اس کی حد میں صحابہ کا اختلاف تھا اگر یہ زنا ہوتا تو اختلاف نہ ہوتا، نیز زنا اس لئے حرام ہے کہ اس سے نسبت مشتبہ ہوتا ہے اور بچہ ضائع ہوتا ہے اور لواطت میں صرف نطفہ ضائع ہوتا ہے جیسا کہ عزل میں ہے۔
عورت : اس قید کی وجہ سے جانور کے ساتھ وطی، زنا کی تعریف سے خارج ہوگئی، کیونکہ یہ ایک نادر چیز ہے اور طبعیت سلیمہ اس سے نفرت کرتی ہے۔
زندہ : اس قید کی وجہ سے مردہ کے ساتھ وطی، زنا کی تعریف سے خارج ہوگئی، کیونکہ یہ بھی ایک نادر امر ہے اور طبیعت سلیمہ اس سے نفرت کرتی ہے۔
مشتہاۃ : یعنی اس عورت سے وطی کی جائے جس پر شہوت آتی ہو اتنی چھوٹی لڑکی جس پر شہوت نہ آتی ہو اس سے وطی کرنا زنا نہیں ہے۔ ( ہرچند کہ اتنی چھوٹی لڑکی سے وطی کرنے والے پر تعزیر ہوگی) ۔
حالتِ اختیار : یعنی وطی کرنے والے کو اختیار ہو، اسی طرح حد کے وجوب کے لئے وطی کرانے والی عورت کا مختار ہونا بھی ضروری ہے، اس لئے مکرہ (جس پر جبر کیا گیا ہو) پر حد نہیں ہے، کیونکہ حافظ الہیثمی نے امام طبرانی کی متعدد اسانید کے ساتھ یہ حدیث ذکر کی ہے : حضرت عقبہ بن عامر، حجرت عمران بن حصین، حضرت ثوبان، حضرت ابن مسعود اور حضرت ابن عمر (رض) سے روایت ہے : نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت سے خطاء، نسیان اور جس کام پر جبر کیا گیا ہو (کے گناہ کو) اٹھا لیا گیا۔ (مجمع الزوائد ج ٧ ص ٢٥٠، دار الکتاب العربی)
اس پر علماء کا اتفاق ہے کہ اگر عورت پر جبر کرکے اس کے ساتھ وطی کی جائے تو اس پر حد نہیں ہے، لیکن مرد میں اختلاف ہے۔ امام شافعی اور محققین مالکیہ کے نزدیک اگر مرد پر جبر کرکے اس سے وطی کرائی جائے تو اس پر حد ہے نہ تعزیر۔ فقہاء حنابلہ کے نزدیک اس پر حد لگائی جائے گی کیونکہ اس کے آلہ کا متنشر ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ اکراہ نہیں ہے۔ اور وہ اپنے اختیار سے وطی کر رہا ہے۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک مرد پر بھی حد نہیں ہے کیونکہ انتشار اس کے مرد ہونے کی دلیل ہے، اختیار کی دلیل نہیں ہے۔ امام ابو یوسف، اور امام محمد کا بھی یہی نظریہ ہے۔
دار العدل :
دارالعدل سے مراد داراسلام ہے، کیونکہ دار الحرفب اور دار الکفر میں قاضی کو حد جاری کرنے کی قدرت نہیں ہے یعنی اگر کوئی شکص دار الحرب میں یاد ارالکفر میں زنا کرے گا تو بھی وہ اسلامی سزا سو کوڑوں یا رجم کا مستحق ہے، لیکن چونکہ قاضی اسلام، دار الکفر یا دار الحرب میں اسلام سزائیں نافذ کرنے پر قادر نہیں ہے اس لئے اس پر حد جاری نہیں ہوگی، دار الکفر میں بھی زانی سزا کا مستحق ہے اور اس کا یہ فعل گناہ ہے جیسا کہ سود، چوری، ڈاکہ، قتل اور دیگر جرائم اور دار الحرب میں ناجائز اور گناہ ہیں، اسی طرح زنا بھی وہاں ناجائز اور گناہ ہے۔
احکام اسلام کا التزام : اس قید کی وجہ سے حربی مستامن خارج ہے، کیونکہ اس نے احکا اسلام کا التزام نہیں کیا، مسلمان اور ذمی اور زنا کریں گے تو ان پر حدی جاری کی جائے گی۔
حقیقت ملک سے خالہ ہونا : اگر کسی شخص نے ایسی باندی سے وطی کرلی جو مشترکہ ہے اس کی اور کسی کی ملکیت میں ہے، یا اس نے ایسی باندی سے وطی کی جو اس کی محرم تھی تو چونکہ وہ حقیقتاً اس کی ملکیت میں تھی اس لئے اس کا یہ فعل ہرچند کہ ناجائز ہے لیکن زنا نہیں ہے اور اس پر حد نہیں ہے۔
حقیقتِ نکاح سے خالی ہونا : اگر کسی شخص نے اپنی بیوی سے حالت حیض یا نفاس میں وطی کرلی یا روزہ دار یا محرمہ بیوی سے وطی کرلی یا ایلاء یا ظہار کے بعد وطی کرلی تو ہرچند کہ یہ فعل گناہ ہے لیکن زنا نہیں ہے، کیونکہ عورت حقیقتا ً اس کے نکاح میں موجود ہے۔
شبہ ملک سے خالی ہونا : جب ملک یا نکاح میں شبہ ہوجائے تو حد نہیں ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
……………(سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٢٤) شبہات کی بناء پر حدود ساقط کردو۔
مثلاً اگر کسی شخص نے بیٹے کی باندی سے وطی کرلی تو اس پر حد نہیں ہے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ اس کو یہ شبہ ہوا ہو کہ بیٹے کے مال کا میں مالک ہوں۔ امام ابن ماجہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! میرا مال بھی ہے اور اولاد بھی اور میرا باپ میرا مال ہڑپ کرنا چاہتا ہے آپ نے فرمایا :
………(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٢٩١) تو اور تیرا مال تیرے باپ کی ملکیت ہے۔
اسی طرح مکاتب کی باندی سے وطی کرنا بھی زنا نہیں ہے، کیونکہ مکاتب جب تک پوری رقم ادا نہ کرے مالک کا غلام ہے سو اس کی باندی بھی اس کی ملکیت ہے۔
شبہ نکاح سے خالی ہونا۔
یعنی عقد نکاح میں شبہ نہ ہو۔ مثلاً کسی شخص نے بغیر ولی یا بغیر گواہ کے نکاح کرکے وطی کرلی، یا نکاح متعہ کرکے وطی کرلی تو اس کا یہ فعل زنا نہیں ہے خواہ وہ اس نکاح کے عدم جواز کا اعتقاد رکھتا ہو کیونکہ اس نکاح کے جواز اور عدم جواز میں علماء کے اختلاف کی وجہ سے اس نکاح میں شبہ آگیا۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے نسبی، رضاعی یا سسرالی کے رشتہ سے کسی محرم سے نکاح کرلیا یا دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرلیا یا کسی عورت سے اس کی عدت میں نکاح کرلیا اور اس عقد نکاح کی وجہ سے وطی کرلی تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر حد نہیں ہوگی خواہ اس کو نکاح کی حرمت کا علم ہو، کیونکہ اس وطی میں اس کو شبہ لاحق ہوگیا ہے۔ لہٰذا یہ وطی زنا نہیں ہے البتہ اس پر تعزیز ہے۔
فقہاء مالکیہ، فقہاء شافعیہ، فقہاء حنبلیہ، امام ابو یوسف اور امام محمد نے یہ کہا ہے کہ جو وطی ابداً حرام ہو اس سے حد لازم آتی ہے اور یہ نکاح باطل ہے اور اس کے شبہ کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ البتہ جو وطی ابداً حرام نہ ہو جیسے بیوی کی بہن یا جس نکاح میں اختلاف ہو جیسے بغیر ولی یا بغیر گواہوں کے نکاح، اس وطی کی وجہ سے حد لازم نہیں آتی۔
امام ابوحنیفہ اور جمہور فقہاء کے درمیان منشاء اختلاف یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جب نکاح کا اہل شخص اس محل میں نکاح کرے جو مقاصد نکاح کے قابل ہو تو وہ نکاح وجوب حد سے مانع ہے، خواہ وہ نکاح حلال ہو یا حرام اور خواہ وہ تحریم متفق علیہ ہو یا مختلف فیہ اور خواہ اس کو حرمت کا علم ہو یا نہ ہو، جمہور فقہاء اور صاحبین کے نزدیک قاعدہ یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس عورت سے نکاح کرے جس سے نکاح کرنا ابداً حرام ہو یا اس کی تحریم پر اتفاق ہو تو اس نکاح سے وطی پر حد لازم آتی ہے اور اگر وہ نکاح ابداً حرام نہ ہو یا اس کی حرمت میں اختلاف ہو تو پھر اس نکاح سے وطی پر حدلازم نہیں آتی۔
(بدائع صنائع ج ٧ ص ٣٥، مغنی المحتاج ج ٤ ص ١٤٥، المہذب ج ٢ ص ٢٦٨، المیزان الکبری ج ٢ ص ١٥٧، حاشیۃ الدسوتی علی الشرح الکبیر ج ٣ ص ٢٥١، المغنی ج ٨ ص ١٧٤، رحمتہ الامۃ ج ٢ ص ١٣٦)
حد زنا کی شرائط
حد زنا جاری کرنے کے لئے جن شرائط پر فقہاء کا اتفاق ہے، وہ حسب ذیل ہیں :
١۔ زنا کرنے والا بالغ ہو، نابالغ پر بالاتفاق حد جاری نہیں ہوتی۔
٢۔ زنا کرنے والا عاقل ہو، پاگل اور مجنون پر بالاتفاق حد جاری نہیں ہوتی۔
٣۔ جمہور فقہاء کے نزدیک زانی کا مسلمان ہونا بھی شرط ہے، شادی شدہ کافر پر فقہاء حنفیہ کے نزدیک حد جاری نہیں ہوتی، البتہ اس کو کوڑے لگائے جاتے ہیں۔ فقہاء شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک زنا اور شراب خوری کی کافر پر کوئی حد نہیں ہے کیونکہ یہ اللہ کا حق ہے اور اس نے حقوق الٰہیہ کا التزام نہیں کیا، فقہاء مالکیہ کے نزدیک اگر کافر نے کافرہ کے ساتھ زنا کیا تو اس پر حد نہیں ہے، البتہ تادیباً اس کو سزا دی جائے گی اور اگر اس نے مسلمان عورت سے جبراً زنا کیا تو اس کو قتل کردیا جائے گا اور اگر باہمی رضا مندی سے زنا کیا تو عبرتناک سزا دی جائے گی۔
٤۔ زانی مختار ہو اگر اس پر جبر کیا گیا ہے تو جمہور کے نزدیک اس پر حد نہیں ہے اور فقہاء حنابلہ کے نزدیک اس پر حد ہے اور اگر عورت پر جبر کیا گیا تو اس پر بالاتفاق حد نہیں ہے۔
٥۔ عورت سے زنا کرے، اگر جانور سے وطی کی ہے تو مذاہب اربعہ میں بالاتفاق اس پر حد نہیں ہے، البتہ تعزیر ہے اور جمہور کے نزدیک جانور کو بالاتفاق قتل نہیں کیا جائے گا اور اس کو کھانا جائز ہے۔ فقہاء حنابلہ کے نزدیک اس کا کھانا حرام ہے۔
٦۔ ایسی لڑکی سے زنا کیا ہو جس کے ساتھ عادتاً وطی ہوسکتی ہو اگر بہت چھوٹی لڑکی سے زنا کیا ہے تو اس پر حد نہیں ہے نابالغ لڑکی پر حد نہیں ہوتی۔
٧۔ زنا کرنے میں کوئی شبہ نہ ہو اگر اس نے کسی اجنبی عورت کو یہ گمان کیا کہ وہ اس کی بیوی یا باندی ہے، اور زنا کرلیا تو جمہور کے نزدیک اس پر حد نہیں ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف کے نزدیک اس پر حد ہے، جس عقد نکاح کے جواز یا عدم جواز میں اختلاف ہو اس نکاح کے بعد وطی کرنے پر حد نہیں ہے، مثلاً بغیر ولی یا بغیر گواہوں کے نکاح ہو، اور جو نکاح بالاتفاق ناجائز ہے جیسے محارم سے نکاح یا دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرنا امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس نکاح کے بعد وطی کرنے پر حد نہیں ہے اور جمہور کے نزدیک حد ہے۔
٨۔ اس کو زنا کی حرمت کا علم ہوا گر وہ جہل کا دعویٰ کرے اور اس سے جہل متصور ہو تو اس میں فقہاء مالکیہ کے دو قول ہیں۔
٩۔ عورت غیر حربی ہو اگر وہ حربیہ ہے تو اس میں فقہاء مالکیہ کے دو قول ہیں۔
١٠۔ عورت زندہ ہو اگر وہ مردہ ہے تو اس سے وطی کرنے پر جمہور کے نزدیک حد نہیں ہے اور فقہاء مالکیہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ اس پر حد ہے۔
١١۔ مرد کا حشفہ (آلہ تناسل کا سر) عورت کی قبل (اندام نہانی) میں غائب ہوجائے اگر عورت کی دبر میں وطی کرلے تو جمہور کے نزدیک اس پر حد نہیں ہے، اسی طرح لواطت (اغلام) پر بھی حد نہیں ہے، اگر اجنبی عورت کے پیٹ یا رانوں سے لذت حاصل کی تو اس پر بھی تعزیر ہے۔
١٢۔ زنا دار السلام میں کیا جائے، دارالکفر یا دار لحرب میں زنا کرنے پر حد نہیں ہے، کیونکہ قاضی اسلام کو وہاں حد جاری کرنے کا اختیار نہیں ہے۔ (لفظ الاسلامی بیروت، ١٤٠٥ ھ)
احصان کی تحقیق
فقہاء اربعہ کا اس پر اتفاق ہے کہ اگر زانی محصن (شادی شدہ) ہو تو اس کو رجم کیا جائے گا خواہ مرد ہو یا عورت اور اگر وہ غیر محصن ہے تو اس کو کوڑے مارے جائیں گے اس لئے احصان کا معنی سمجھنا ضروری ہے۔
سید محمد مرتضیٰ زبیدی حنفی لکھتے ہیں :
احصان کا اصل میں معنی ہے منع کرنا، عورت اسلام، پاکدامنی، حریت اور نکاح سے محصنہ ہوتی ہے، جو ہری نے ثعلب سے نقل کیا ہے ہر پاک دامن عورت محصنہ ہے اور ہر شادی شدہ عورت محصنہ ہے۔ حاملہ عورت کا بھی محصنہ کہتے ہیں کیونکہ حمل نے اس کو دخول سے ممنوع کردیا۔ مرد جب شادی شدہ ہو تو محصن ہے۔ حضرت ابن مسعود نے ” فاذا احصن فان اتین بفاخشۃ “ کی تفسیر میں کہا باندی کا احسان اس کا مسلمان ہونا ہے۔ حضرت ابن عباس نے کہا باندی کا احصان اس کا شادی شدہ ہونا ہے۔ زجاج نے محصنین غیر مسافحین کی تفسیر میں کہا مرد کا احصان اس کا شادی شدہ ہونا اور پاک دامن (غیر زانی) ہونا ہے اور فرج کا احصان، زنا سے رکنا ہے، اور احصنت فرجھا کا معنی پاکدامن رہنا اور زنا سے باز رہنا ہے اور والمحصنت من النساء کا معنی شادی شدہ خواتین ہے۔ (تاج العروس ج ٩ ص ١٧٩، ١٣٠٦ ھ)
(١) عقل (٢) بلوغ (٣) حریت (٤) اسلام (٥) نکاح صحیح (٦) خاوند اور بیوی دونوں کا ان صفات پر ہونا (٧) نکاح صحیح کے بعد خاوند کا بیوی سے وطی کرنا لہٰذا بچہ، مجنون، غلام، کافر نکاح فاسد، عدم وطی اور زوجین کے ان صفات پر نہ ہونے سے احصان ثابت نہیں ہوگا۔ (بدائع الصنائع ج ٧ ص ٣٨۔ مطبوعہ کراچی ١٤٠٠ ھ)
زنا کی ممانعت، اور دنیا اور آخرت میں اس کی سزا کے متعلق قرآن مجید کی آیات
………(نبی اسرائیل : ٣٢) اور زنا کے قریب بھی مت جائو، بیشک وہ بےحیائی کا کام ہے اور برا راستہ ہے۔
………(النور : ٢) زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد ان میں سے ہر ایک کو تم سو کوڑے مارو، اور ان پر شرعی حکم نافذ کرنے میں تم کو ان پر رحم نہ آئے، اگر تم اللہ پر اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہو، اور ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہونی چاہیے۔
………(الفرقان : ٢٩۔ ٢٨) اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور جس شخص کے قتل کرنے کو اللہ نے حرام کردیا ہے اس کو ناحق قتل نہیں کرتے اور زنا نہیں کرتے، اور جو شخص یہ کام کرے گا وہ سخت عذاب کا سامنا کرے گا قیامت کے دن اس کے عذاب کو دگنا کردیا جائے گا اور وہ ہمیشہ ذلت والے عذاب میں رہے گا
اے نبی جب آپ کے پاس مومن عورتیں ان چیزوں پر بیعت کرنے کے لئے آئیں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کریں گے، نہ چوری کریں گی نہ زنا کریں گی نہ اپن اولاد کو قتل کریں گی اور نہ کوئی ایسا بہتان باندھیں گی جس کو وہ خود اپنے ہاتھوں اور پیروں کے سامنے گھڑ لیں اور نہ کسی نیک کام میں آپ کی حک عدولی کریں گی تو آپ ان کو بیعت کرلیں اور ان کے لئے استغفار کریں۔ بیشک اللہ بہت بخشنے والا، بےحد رحم فرمانے والا ہے۔
زنا کی ممانعت، مذمت اور دنیا اور آخرت میں اس کی سزا کے متعلق احادیث اور آثار
(١) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ علم اٹھا لیا جائے گا، جہل برقرار رہے گا، شراب پی جائے گی اور زنا کا ظہور ہوگا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٨٠ ،۔ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٧١، سنن الترمذی رقم الحدیث ؛ ٢٢٠٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٠٤٥، مصنف عبد الرزاق رقم الحدیث ؛ ٥٠٤٥، مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : ١٩٩٠)
(٢) حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے سامنے سے گزرتی ہے تاکہ لوگوں کو اس خوشبو آئے وہ عورت زانیہ ہے۔ (یعنی وہ عورت لوگوں کے دلوں میں زنا کی تحریک پیدا کرتی ہے) (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤١٧٣، سنن الترمذی رقم الحدیث ؛ ٢٧٨٦، مسند احمد ج ٤ ص ٣٩٤، مسند عبد بن حمید رقم الحدیث : ٥٥٧، مسند البز اور قم الحدیث : ١٥٥١، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٤٢٤، المستدرک ج ٢ ص ٣٩٦، سنن بیہقی ج ٣ ص ٢٤٦ )
(٣) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تین آدمیوں سے اللہ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کو پاک کرے گا اور نہ ان کی طرف نظر رحمت فرمائے گا اور ان کے لے درد ناک عذاب ہوگا، بوڑھا زانی، جھوٹا بادشاہ (سردار یا حاکم) اور متکبر فقیر۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠٧، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧١٣٨، شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٤٠٥)
(٤) حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تین آدمیوں سے اللہ محبت رکھتا ہے اور تین آدمیوں سے اللہ بغض رکھتا ہے۔ جن تین آدمیوں سے اللہ محبت رکھتا ہے وہ یہ ہیں : ایک شخص لوگوں کے پاس جا کر سوال کرے، اس کا سوال ان کے ساتھ کسی رشتہ داری کی بناء پر نہ ہو، اور وہ لوگ اس کو منع کردیں، پھر ایک شخص ان کے پیچھے سے جائے اور چپکے سے اس کو دے دے، اور اس کے عطیہ کو اللہ کے سوا کوئی نہ جانتا ہو، یا وہ شخص جس کو اس نے عطیہ دیا تھا اور وہ لوگ جو رات کو سفر کریں حتیٰ کہ نیند ان کو بہت زیادہ مرغوب ہوجائے پھر وہ ٹھہر جائیں اور اپنے سر رکھ کر سو جائیں پھر ان میں سے ایک شخص بیدار ہو کر نماز میں قیام کرے اور میری حمد و ثنا کرے اور میری آیت کی تلاوت کرے، اور وہ شخص جو کسی لشکر میں ہو اس کا دشمن سے مقابلہ ہو وہ لشکر شکست کھاجائے اور وہ شخص آگے بڑھ کر حملہ کرے حتیٰ کہ وہ شخص شہید ہوجائے یا فتح یاب ہو، اور جن تین آدمیوں سے اللہ بغض رکھتا ہے وہ یہ ہیں : بوڑھا زانی، متکبر فقیر اور مالدار ظالم۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٦٨، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٦١٤، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث ١٢٢٣، مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥ ص ٢٨٩، مسند احمد ج ٥ ص ١٥٣، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٢٤٥٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٣٤٩، المستدرک ج ٢ س ١١٣) ۔
(٥) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں سورج کو گہن لگ گیا…اس موقع پر آپ نے فرمایا : سورج اور چاند اللہ کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں، ان کو کسی کی موت کی وجہ سے گہن لگتا ہے نہ کسی کی حیات کی وجہ سے۔ پس جب تم ان نشانیوں کو دیکھو تو اللہ سے دعا کرو، اللہ اکبر کہو اور نماز پڑھو، اور صدقہ کرو پھر فرمایا : اے امت ! اللہ کی قسم ! کسی شخص کو اللہ سے زیادہ اس پر غیریت نہیں آتی کہ اس کا بندہ زنا کرے یا اس کی بندی زنا کرے۔ اے اُمتِ ! اگر تم ان چیزوں کو جان لو جن کو میں جانتا ہوں تو تم ضرور کم ہنسو اور تم ضرور زیادہ روئو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٠٤٤، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٠١، سنن ابودائود رقم الحدیث ١٧٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٤٧١، ١٤٧٠)
(٦) حضرت سمرہ بن جندب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب سے اکثر یہ فرمایا کرتے تھے کیا تم میں سے کسی شخص نے خواب دیکھا ہے، پھر کوئی شخص جو اللہ چاہتا وہ خواب بیان کرتا۔ ایک دن صبح کے وقت آپ نے فرمایا بیشک آج رات (خواب میں) دو فرشتے آئے اور وہ مجھے اٹھا کرلے گئے، انہوں نے مجھ سے کہا آپ چلئے میں ان کے ساتھ چلتا رہا… میں نے دیکھا کہ ننگے مرد اور ننگی عورتیں ایک تنور کی مثل میں تھے اس کا بالائی حصہ تنگ تھا اور نچلا حصہ کشادہ تھا اور اس کے نیچے سے آگ جل رہی تھی جب آگ کے شعلے بھڑکتے تو وہ لوگ اوپر اٹھ جاتے اور جب آگ کم ہوتی تو وہ نیچے گر جاتے…فرشتوں نے بتایا وہ زانی مرد اور زانی عورتیں تھیں۔ الحدیث۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٠٤٧، ١٣٨٦، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٧٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٩٤، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٧٦٥٨ )
(٧) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے زنا کیا یا شراب پی اللہ اس سے ایمان کو نکال لیتا ہے جیسے انسان اپنے سر سے قمیص اتارتا ہے۔ (المستدرک ج ا ص ٢٢، شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٣٦٦، الکبائر لذھبی ص ٨٣۔ ٨٢، الترغیب والترہیب للمنذری ج ٣ ص ٢٥٢، دار الحدیث قاہرہ) ۔
(٨) حضرت ام المومنین میمونہ بنت الحارث (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت اس وقت تک اچھے حال میں رہے گی جب تک ان کی اولاد زنا کی کثرت سے نہو، اور جب ان کی اولاد زنا کی کثرت سے ہوگی تو عنقریب اللہ ان میں عام عذاب نازل فرمائے گا۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٣٣٣، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٧٠٩١، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٧ )
(٩) امام طبرانی نے حضرت شریک، ایک صحابی سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص زنا کرتا ہے اس سے ایمان نکل جاتا ہے، پس اگر وہ توبہ کرے تو اللہ اس کی توبہ قبول فرما لیتا ہے۔
(المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٧٢٢٤، شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٣٦٦، مجمع الزوائد ج ا ص ١٠١، الترغیب والترہیب للمنذری رقم الحدیث : ٣٥٢٩، حافظ عسقلانی نے کہا اس کی سند جید ہے ج ١٢ ص ٦١، الاصابہ ج ٣ ص ٣٤٩، قدیم) ۔
(١٠) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس وقت زانی زنا کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور جس وقت شرابی شراب پیتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا اور جس وقت چور چوری کرتا ہے تو وہ مومن نہیں ہوتا، اور جس وقت کوئی لٹیرا کسی شریف آدمی کو لوٹتا ہے اور لوگ اس کی نظریں اٹھا کر دیکھتے ہیں تو وہ مومن نہیں ہوتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث (رح) ٥٥٧٨، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٧، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٤٨٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٩٣٦، شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٣٦٣، تاریخ و دمشق الکبیر جز ٥٦ ص، ٨٦، ٨٥، رقم الحدیث : ١٢٢٤١، ١٢٢٤٠، مطلوبہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
(١١) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس قوم میں خیانت کا ظہور ہوتا ہے اس قوم کے دلوں میں رعب ڈال دیتا جاتا ہے اور جس قوم میں زنابہ کثرت ہوتا ہے ان میں موت بہ کثرت ہوتی ہے اور جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے ان سے رزق منقطع ہوجاتا ہے اور جو قوم ناحق فیصلے کرتی ہے ان میں خون ریزی زیادہ ہوتی ہے اور جو قوم عہد شکنی کرتی ہے ان پر اللہ دشمن کو مسلط کردیتا ہے۔
(سنن کبری للبہقی ج ٣ ص ٣٤٦، المؤ طارقم الحدیث : ١٠٢٠، الاستذ کا رج ١٤ ص ٢١١۔ ٢١٠، رقم الحدیث : ٢٠٠٩٠)
(١٢) حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ ! اللہ کے نزدیک کون سا گناہ سب سے زیادہ بڑا ہے ؟ آپ نے فرمایا تم اللہ کو شریک بنائو حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے، اس نے پوچھا پھر کون سا ہے ؟ فرمایا تم کھانے کے خوف سے اپنی اولاد کو قتل کردو، اس نے پوچھا پھر کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو، پھر اللہ نے اس کی تصدیق میں یہ آیت نازل فرمائی :
آیت……(الفرقان : ٦٨)
اور جو لوگ اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ کسی ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں جس کے قتل کو اللہ نے حرام کردیا ہو اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص یہ کام کرے گا اس کو عذاب کا سامنا ہوگا۔
(صحیح البخاری رقم (رح) الحدیث : ٦٨٦١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٦، سنن الترمذی رقم (رح) الحدیث : ٣١٨٢، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٣١٠، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٤٠، السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١٠٩٨٧)
(١۳) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم زنا سے بچتے رہو، کیونکہ اس میں چار خصلتیں ہیں :
(١) اس سے چہرے کی رونق چلی جاتی ہے۔
(٢) رزق منقطع ہوجاتا ہے۔
(٣) رحمان نارازض ہوتا ہے۔
(٤) اور دوزخ میں خلود ہوتا ہے۔ (یعنی بہت دیر تک رہنا)
(المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٧٠٩٢، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٤، اس کی سند میں عمرو بن جمیع متروک ہے)
(١٤) حضرت عبد اللہ بن یزید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے عرب کی ہلاک ہونے والی عورتو ! مجھے سب سے زیادہ تم پر زنا کا اور شہوت خفیہ (ریاکاری) کا خوف ہے۔ (حلیتہ الاولیاء ج ٧ ص ١٢٢ )
(١٥) حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے، بوڑھا، زانی، امام کذاب اور متکبر فقیر۔ (مسند البزاررقم الحدیث : ١٣٠٨، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٣٤، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٥ )
(١٦) حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اہل ذمہ پر ظلم کیا جائے تو دشمنوں کی حکومت ہوجائے گی اور جب کثرت کے ساتھ زنا کیا جائے گا تو لوگ بہ کثرت قید ہوں گے اور جب قولم لوط کا عمل بہ کثرت کیا جائے گا تو اللہ مخلوق کے اوپر سے اپنا ہاتھ اٹھائے گا، پھر یہ پرواہ نہیں کرے گا کہ وہ کس وادی میں ہلاک ہوتے ہیں۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٧٥٢، حافظ الہیثمی نے کہا اس کی سند میں عبد الخالق بن زید بن واقد ضعیب ہے، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٥ )
(١٧) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بوڑھے زانی اور بوڑھی زانیہ کی طرف نہیں دیکھے گا۔
(العجم الاوسط رقم الحدیث : ٨٣٩٦، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٣، حافط الہیثمی نے کہا اس کی سند میں ایک رواوی ہے موسیٰ بن سہل اس کو میں نہیں جانتا اور اس کے باقی راوی ثقافت ہیں)
(١٨) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ معمر زانی اور متکبر فقیر کی طرف نہیں دیکھے گا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٣١٩٥، حافظ الہیثمی نے کہا اس کا ایک روای ابن لہیعہ ہے اس کی حدیث حسن بھی ہوتی ہے اور ضعیف بھی مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٥ ) ۔
(١٩) حضرت نافع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا متکبر مسکین، بوڑھا زانی اور اپنے عمل سے اللہ پر احسان جتانے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ (الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٣٦، حافظ الہیثمی نے کہا اس کے ایک راوی الصباح بن خالد کو میں نہیں جانتا اور اس کے باقی راوی ثقہ ہیں مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٥ )
(٢٠) حضرت بریدہ (رض) نے کہا سات آسمان اور سات زمینیں بوڑھے زانی پر لعنت کرتی ہیں اور زانیوں کی فروج کی بدبو سے اہل دوزخ کو بھی ایذا ہوگی۔ (مسند البزار رقم الحدیث : ١٥٤٨، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٣٧، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٥ ) ۔
(٢١) حضرت عثمان بن ابی العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آدھی رات کو آسمانوں کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں پھر ایک منادی نداء کرتا ہے کہ کوئی دعا کرنے والا ہو تو اس کی دعا قبول کی جائے، کوئی سائل ہو تو اس کو عطا کیا جائے، کوئی مصیبت زدہ ہو تو اس کی مصیبت دور کردی جائے پس ہر دعا کرنے والے مسلمان کی دعا قبول کرلی جائے گی سوا اس عورت کے جو پیسے لے کر زنا کراتی ہے اور سوا اس شخص کے جو ظالمانہ ٹیکس لیتا ہے۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٢٢، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٧٩٠، حافظ منذری نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے الترغیب والترہیب ج ارقم الحدیث : ١١٦٣، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٨٨)
(٢٢) حضرت عبد اللہ بن بسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی و نے فرمایا زانیوں کے چہروں میں آگ بھڑک رہی ہوگی۔ (الترغیب والترہیب ج ٣ رقم الحدیث : ٣٥٢٤، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٥، اس کی سند پر اعتراض ہے)
(٢٣) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا زنا فقر پیدا کرتا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٤١٨، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٢٥ )
(٢٤) حضرت ابو امامہ باھلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میں سویا ہوا تھا میرے پاس دو شخص آئے ان دونوں نے مجھے میری بغلوں سے پکڑ کر اٹھایا اور مجھے ایک سخت چڑھائی والے پہاڑ پر لے گئے، اور مجھ سے کہا اس پر چڑھیے میں نے کہا اس میں کی طاقت نہیں رکھتا، انہوں نے کہا ہم آپ کے لئے چڑھنا آسان کردیں گے، پھر میں چرھا حتیٰ کہ میں اس پہاڑ کے وسط میں پہنچ گیا، ناگاہ میں نے بہت زور کی آوازیں سنیں۔ میں نے پوچھا یہ کیسی آوازیں ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ دوزخ کے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ہیں، (الی قولہ) ہم چلتے رہے حتیٰ کہ میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا جن کے بدن بہت پھولے ہوئے تھے اور ان سے سخت بدبو آرہی تھی، میں نے پوچھا یہ کون ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ مقتولین کفار ہیں، وہ پھر مجھے آگے لئے گئے وہاں ایسے لوگ تھے جن کے بدن بہت پھولے ہوئے تھے اور ان سے سخت بدبو آرہی تھی گویا کہ وہ پاخانے کی بدبو تھی میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا یہ زنا کرنے والے مرد اور زنا کرنے والی عورتیں ہیں : الحدیث (صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٩٨٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٤٨٥)
(٢٥) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی شخص زنا کرتا ہے تو اس کا ایمان نکل جاتا ہے گویا کہ وہ اس کے اوپر سائبان ہو اور جب وہ اس سے توبہ کرتا ہے تو اس کا ایمان لوٹ آتا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٦٩٠، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦٢٧، المستدرک ج ١ ص ٢٢، سنن بہیقی ج ا ص ٥٣٦٦ )
(٢٦) حضرت جابر بن عبد اللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آئے اور ہم اکٹھے جاتے۔ آپ نے فرمایا : اسے مسلمانوں کی جماعت ! اللہ سے ڈرو اور رشتہ داروں سے ملاپ رکھو، رشتہ داروں سے میل جول سے زیادہ جلد پہنچنے والا اور کوئی ثواب نہیں ہے اور بغاوت سے (یا زنا سے) بچو کیونکہ اس سے زیادہ جلد پہنچنے والا اور کوئی عذاب نہیں ہے، اور تم ماں باپ کی نافرمانی سے بچو کیونکہ ایک ہزار سال کی مسافت سے جنت کی خوشبو آتی ہے اور ماں کبریائی صرف اللہ رب العالمین کے لئے ہے۔ (الترغیب والترہیب ج ٣ رقم الحدیث : ٣٠١٩، مجمع الزوائد ج ٥ ص ١٢٥ )
(٢٧) راشد بن سعد المقرائی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب مجھے معراج کرائی گئی تو میرا ی سے لوگوں کے پاس سے گزر ہوا جن کی کھال آگے کی قینچیوں سے کاٹی جا رہی تھی۔ میں نے کہا اے جبریل سے گزرا جس سے سخت بدبو آرہی تھی میں نے پوچھا اے جبریل یہ کون لوگے ہیں ؟ انہوں نے کہا یہ وہ عورتیں ہیں جو زنا کرانے کے لئے خود کو مزین کرتی تھیں اور وہ کام کرتی تھیں جو ان کے لئے جائز نہ تھے۔ یہ حدیث مرسل ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٦٧٥٠، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤٠ )
(٢٨) حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عادتاً زنا کرنے والا بت پرست کی مثل ہے۔ (مساوی الاخلاق للخرائطی رقم الحدیث : ٤٧٧، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤١، تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر جز ٢٣ ص ١٧٣ رقم الحدیث : ٤٩٣١، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
حافظ منذری نے کہا صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ عادی شرابی بت پرست کی طرح اللہ سے ملاقات کرے گا اور اس میں شک نہیں کہ زنا شرابی نوشی سے بڑا گناہ ہے۔ (الترغیب والترہیب ج ٣ ص ٢٣٧، بیروت، ١٤١٤ ھ)
(٢٩) حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس بستی میں زنا اور سود کا ظہور ہو انہوں نے اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو حلال کرلیا۔ (یہ حدیث صحیح ہے) (المستدرک ج ٢ ص ٣٧، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٤٣، شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٤١٧)
(٣٠) حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس قوم میں زنا اور سود کا ظہور ہوا انہوں نے اپنے اوپر اللہ کے عذاب کو حلال کرلیا۔ (مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٤٩٨١، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤٤، ٢٧٧٠، مجمع الزوائد ج ٤ ص ١١٨)
(٣١) حضرت مقداد بن اسود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے پوچھا کہ تم زنا کے متعلق کیا کہتے ہو ؟ انہوں نے کہا یہ حرام ہے اس کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام کیا ہے۔ یہ قیامت تک کے لئے حرام ہے، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے اصحاب سے فرمایا اگر کوئی شخص دس عورتوں سے زنا کرے تو یہ اس کی بہ نسبت زیادہ آسان ہے (یعنی ان کی اس کی سزا اس سے کم ہے) کہ وہ اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٨، اس کے راوی ثقات ہیں، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤٧ )
(٣٢) حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے گا، اس کی طرف اللہ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا اور نہ اس کو پاک کرے گا اور فرمائے گا دوزخ میں دو زخیوں کے ساتھ داخل ہو جائو۔ (مساوی الاخلاق للخر ائطی رقم الحدیث : ٤٨٥، مسند الفردوس الدیلمی رقم الحدیث : ٣٣٧١، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٤٨ ) ۔
(٣٣) حضرت ابو قتادہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص اس عورت کے بستر پر بیٹھا جس کا شوہر غائب ہو، قیامت کے دن اللہ ایک اژدھے کو اس کے اوپر قادر کردے گا۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٢٧٨، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٢٣٧، الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٣٩، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٢٥٨ ) ۔
(٣٤) حضرت عبد اللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ جو شخص اس عورت کے بستر پر بیٹھتا ہے جس کا شوہر غائب ہو، اس کی مثال اس شخص کی طرح ہے جس کو قیامت کے اژدھوں میں سے کوئی سیاہ اژدھا بھنبھوڑ رہا ہو۔ (الترغیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٥٠، حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے راوی ثقات ہیں، مجمع الزوائد ج ٦ ص ٢٥٨ ) ۔
(٣٥) حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجاہدین کی بیویوں کی حرمت، جہاد پر نہ جانے والوں کے لئے ان کی مائوں کی مثل ہے اور مجاہد جس شخص کے اوپر اپنی اہلیہ کو چھوڑ کر جائے اور وہ اس میں خیانت کرے تو اس کو قیامت کے دن کھڑا کیا جائے گا اور مجاہد اس کی نیکیوں میں سے جس قدر چاہے گا، لے لے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ وہ اس کی نیکی چھوڑ دے گا ؟ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٧، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٤٩٦، سنن نسائی رقم الحدیث : ٣١٨٩)
(٣٦) حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بنی اسرائیل کے ایک عابد نے ساٹھ سال اپنے گرجے میں اللہ کی عبادت کی، پھر بارش ہوئی اور زمین سرسبز ہوگئی۔ راہب نے اپنے گرجے سے باہر جھانکا اور سوچا کہ میں گرجے سے باہر نکل کر اللہ تعالیٰ کا ذکر کروں اور زیادہ نیکی حاصل کروں۔ وہ گرجے سے اترا، اس کے ہاتھ میں ایک روٹی یا روٹیاں بھی تھیں، جس وقت وہ باہر کھڑا تھا تو ایک عورت آکر اس سے ملی وہ دونوں ایک دوسرے سے کافی دیر تک باتیں کرتے رہے حتیٰ کہ اس عابد نے اس سے اپنی خواہش پوری کرلی، پھر اس پر بےہوشی طاری ہوگئی پھر وہ ایک ترم تالاب میں نہایا، اس کے بعد ایک سائل آیا تو اس نے ان دو روٹیوں کی طرف اشارہ کیا، پھر اس کی ساٹھ سال کی عبادت کا زنا کے گناہ کے ساتھ وزن کیا گیا تو گناہ کا پلڑہ بھاری نکلا، پھر ان روٹیوں کی نیکی کا وزن کیا گیا تو نیکیوں کا پلڑہ بھاری نکلا سو اس کو بخش دیا گیا۔ اس حدیث میں اللہ تعالیٰ کی بےنیازی کا بیان ہے ساٹھ سال کی عبادت ایک زنا کے گناہ سے ضائع کردی اور دو روٹیوں کو صدقہ کرنے کی نیکی سے اس کے گناہ بخژ دیا، وہ جس گناہ پر چاہے پکڑ لیتا ہے اور جس نیکی کو چاہتا ہے نواز دیتا ہے۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٧، الترگیب والترہیب رقم الحدیث : ٣٥٣١، ١٣٨٧، ١٢٩٩)
(٣٧) شعبی بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت علی (رض) نے جمعہ کے دن ایک عورت کو رجم (سنگسار) کیا تو کہا میں نے اس کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے رجم کیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٨١٢)
(٣٧) شیبانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن ابی اوفیٰ (رض) سے سوال کیا کہ کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم (سنگسار) کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ہاں، میں نے سوچا سورة نور کے نزول سے پہلے یا اس کے بعد ؟ انہوں نے کہا مجھے معلوم نہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨١٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٠٢)
اس سوال کا منشاء یہ ہے کہ اگر رجم سورة نور کے نازل ہونے سے پہلے ہوا ہے تو ہوسکتا ہے کہ سورة نور کے نازل ہونے کے بعد وہ منسوخ ہوگیا ہو کیونکہ سورة نور میں زانیوں کو کوڑے مارنے کا حکم ہے اور اگر سورة نور کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ سو کوڑے مارنے کا حکم رجم کرنے کے منافی نہیں ہے یعنی کنوارے اگر زنا کریں تو ان کو سو کوڑے مارے جائیں اور اگر شادہ شدہ زنا کریں تو ان کو رجم (سنگ سار) کیا جائے۔ اور تحقیق یہ ہے کہ سورة نور کے نزول کے بعد رجم کیا گیا ہے کیونکہ سورة ٔ نور کے نزول کے متعلق ہم بیان کرچکے ہیں کہ تین قول ہیں، ٤ ہجری، ٥ ہجری اور ٦ ہجری اور صحیح یہ ہے کہ سورة ٔ نور شعبان ٥ ہجری میں نازل ہوئی ہے اور رجم اس کے بعد کیا گیا ہے کیونکہ رجم کے موقع پر حضرت ابوہریرہ (رض) موجود تھے اور وہ ٧ ہجری میں اسلام لائے تھے، اور حضرت ابن عباس (رض) بھی موجود تھے اور حضرت ابن عباس (رض) اپنی والدہ کے ساتھ ٩ ہجری میں مدینہ آئے تھے۔ (فتح الباری ج ٤ ص ٧٩، مطبوعہ دار الفکر بیروت، ١٤٢٠ ھ)
(٣٩) حضرت جابر بن عبد اللہ انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ قبیلہ اسلم کا ایک شخص رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آیا اور اس نے بتایا کہ وہ زنا کرچکا ہے اور اس نے چار مرتبہ قسم کھا کر اپنے متعلق زنا کرنے کا اقرار کیا اور وہ شخص شادی شدہ تھا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو رجم (پتھر مار مار کر ہلاک) کردیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤١٨، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٢، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٧١٥٨، مسند احمد رقم الحدیث : ٥٥ ا ١٥، عالم الکتب بیروت) ۔
(٤٠) حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مجھ سے حکم لو، مجھ سے حکم لو، اللہ نے زنا کرنے والیوں کی سزا کی راہ بیان فرما دی اگر کنواری کنوارے کے ساتھ زنا کرے تو ان کو سو کوڑے مارو، اور ایک سال کے لئے شہر بدر کردو، اور اگر شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ زنا کرے تو ان کو رجم (سنگسار) کردو۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٩٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤١٦، ٤٤١٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٤، سنن کبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١١٠٩٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٥٠ )
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ نے زانیہ عورتوں کے متعلق فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی سزا کی سبیل بیان فرمائے گا اس حدیث میں آپ نے یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا کی راہ بیان کردی ہے اور اپنا وعدہ پورا فرما دیا ہے، سورة النساء کی وہ آیت یہ ہے :
………(النساء : ١٥)
تمہاری عورتوں میں سے جو بےحیائی کا کام کریں ان کے خلاف تم اپنوں میں سے چار گواہ طلب کرو، پس اگر وہ شہادت دے دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں قید رکھو حتیٰ کہ موت ان کی زندگیاں پوری کردے یا اللہ ان کو کوئی اور سزا مقرر فرمادے۔
سو جس سزا کے مقرر کرنے کا سورة نساء میں ذکر کیا گیا تھا وہ کنواری عورت کو کوڑے مارنے اور شادی شدہ کا رجم کرنے کا حکم ہے۔ کوڑے مارنے کا حکم سورة نور میں ہے اور رجم کرنے کا ذکر ان احادیث میں ہے، ہم نے رجم کے ثبوت میں ٥٣ احادیث مرفوعہ، ٤٠ آثار صحابہ اور ٥ فتاویٰ تابعین ذکر کیے ہیں، ان کی تفصیل شرح صحیح مسلم ج ٤ ص ٨١٦۔ ٨٠٤ میں مذکور ہے وہاں ملاحظہ فرمائیے۔ اور یہ اس قدر کثیر احادیث اور آثار ہیں کہ یہ کہنا صحیح ہے کہ رجم کا حکم تواتر سے ثابت ہے۔
میں نے یہاں پر زنا کی ممانعت اور اس کی دنیاوی اور اخروی سزا کے متعلق چالیس احادیث ذکر کی ہیں، احادیث تو ان کے علاوہ اور بھی ہیں لیکن نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے چالیس احادیث کی تبلیغ کرنے پر جو نویس سنائی ہے میں نے اس کے حصول کی امید میں چالیس احادیث ذکر کی ہیں، وہ حدیث یہ ہے :
حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو جس شخص نے میری امت کو ان کے دین سے متعلق چالیس حدیثیں پہنچائیں، اللہ اس کو اس حال میں اٹھائے گا کہ وہ فقیہ ہوگا اور میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔
(شعب الایمان رقم الحدیث : ١٧٢٦، ١٧٢٥، تاریخ دمشق الکبیر الابن عساکر جز ٥٤ ص ١١١، ٩٩، رقم الحدیث : ١١٨٢٨، ١١٨٣٨، مطلوبہ دار احیاء التراچ العربی بیروت، ١٤٢١ ھ، المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٣٠٧٦، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٨٦٣٧، حافظ سیوطی نے اس حدیث کو صحیح ہونے کی رمز کی ہے، جعم الجوامع رقم الحدیث : ٢١٨٥٨، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٥٨ )
یہ چالیس احادیث میں نے زنا سے ترہیب اور تکویف کی ذکر کی ہیں آکر میں، میں زنا سے بچنے کی ترغیب کے سلسلہ میں بھی ایک حدیث درج کرنا چاہتا ہوں۔
حضرت ابو امامہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
جس شخص کی نظر کسی عورت کے حسن کی طرف (بلا قصد) پڑجائے پھر وہ اپنی نظیر پھیر لے اللہ اس کے دل میں اس کی عبادت میں حلاوت اور لذت پیدا کردیتا ہے۔ (شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٤٣١، مطلبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٠ ھ)
زنا کی حد میں عورت کے ذکر کو مقدم کرنے کی توجیہ
قرآن مجید میں احکام بیان کرنے کا عام اسلوب یہ ہے کہ صرف مردوں پر کسی حکم کو فرض کیا جاتا ہے اور عورتیں اس حکم میں بالتبع داخل ہوجاتی ہیں لیکن اس آیت میں زنا کرنے والی عورتوں اور مردوں دونوں کا ذکر کیا گیا ہے، نہ صرف یہ بلکہ عورتوں کے ذکر کو مقدم کیا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اصل میں زنا کا سبب اور اس کا محرکم عورت ہوتی ہے، عورت سے جنسی لذت حاصل کرنے کے لئے مرد فعل زنا کا مرتکب ہوتا ہے اور
………(المائدہ : ٣٨) چور مرد اور چور عورت کے ہاتھوں کو کاٹ دو ۔
اس آیت میں چور مرد کا ذکر چور عورت سے پہلے فرمایا کیونکہ اکثر و بیشتر اس فعل کو صدور مرد سے ہوتا ہے۔
کوڑے مارنے کے مسائل اور فقہی احکام
علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جس چیز کے ساتھ کوڑے لگائے جائیں گے، وہ چابک ہو یا درخت کی شاخ اور وہ چابک یا شاخ متوسط ہو نہ بہت سخت ہو، نہ بہت نرم ہو۔ حدیث میں ہے :
امام مالک، زید بن اسلم سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں ایک شخص نے اپنے اوپر زنا کا اعتراف کرلیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو مارنے کے لئے ایک چابک منگوایا تو ایک ٹوٹا ہوا چابک لایا گیا، آپ نے فرمایا اس سے سخت لائو تو درخت کی ایک نئی شاخ لائی گئی جس کے پھل بھی نہیں اتارے گئے تھے۔ آپ نے فرمایا اس سے ذرا کم لائو، پھر ایک استعمال شدہ اور نرم شاخ لائی گئی، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے کوڑے مارنے کا حکم دیا، پھر آپ نے فرمایا : اے لوگو ! اب وقت آگیا ہے کہ تم اللہ کی حدود کے ارتکاب سے باز آجائو اور جس شخص نے ان ناپاک کاموں میں سے کوئی کام کرلیا اس کو چاہیے کہ وہ اللہ کے ستر کے ساتھ اپنا پردہ رکھے، کیونکہ جس کا جرم ہم پر ظاہر ہوگا اس کے اوپر اللہ کی کتاب کو جاری کردیں گے۔ (موطا امام مالک رقم الحدیث : ١٥٨٨، مطبوعہ دار المعرفتہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)
فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ جس شخص پر کوڑے لگائے جائیں اس کے کپڑے اتارے جائیں یا نہیں، امام مالک اور امام ابوحنیفہ نے یہ کہا کہ اس کے کپڑے اور عورت کے کپڑے نہ اتارے جائیں البتہ وہ کپڑے اتار دئیے جائیں جو ضرب سے بچاتے ہوں۔ امام اور زاعی نے کہا مرد کے کپڑے اتروانے میں امام کو اختیار ہے چاہے اس کے کپڑے اتروائے جائیں یا نہیں۔ شعبی اور نخعی نے کپڑے اتارنے سے منع کیا ہے۔ حضرت ابن مسعود نے کہا کہ اس کے کپڑے اتارے جائیں غالباً ان کی مراد یہ ہے۔ ثوری بھی یہی قول ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام مالک نے جو کہا ہے کہ اس کے کپڑے اتارے جائیں غالباً ان کی مراد یہ ہے کہ مرد کے ستر کے علاوہ اس کے کپڑے اتار دئیے جائیں۔
اس میں بھی اختلاف ہے کہ حد جاری کرتے وقت انسان کے کن اعضاء پر کوڑے مارے جائیں ؟ امام مالک نے کہا کہ حدود اور تعیزرات میں صرف پیٹھ پر کوڑے مارے جائیں۔ امام شافعی اور ان کے اصحاب نے کہا کہ چہرے اور نازک اعضاء کے سوا تمام جسم پر کوڑے مارے جائیں، سر پر مارنے میں اختلاف ہے۔ جمہور نے کہا کہ سر کو بچایا جائے اور امام ابو یوسف نے کہا کہ سر پر ضرب لگائی جائے، حضرت عمر اور حضرت ابن عمر سے مروی ہے کہ سر پر ضرب لگائی جائے، امام مالک کی دلیل یہ حدیث ہے :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ ھلال بن امیہ نے اپنی بیوی پر شریک بن سمحاء کے ساتھ زنا کی تمہت لگائی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کو پیش کیا، تب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم گواہ پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد قذف کے کوڑے لگائے جائیں گے، اس نے کہا یا رسول اللہ ! جب ہم میں سے کوئی شخص اپنی بیوی کے اوپر کسی مرد کو دیکھے تو کیا وہ گواہوں کو تلاش کرنے جائے گا ؟ آپ نے پھر یہی فرمایا کہ تم گناہوں کو پیش کرو ورنہ تمہاری پیٹھ پر حد قذف لگائی جائے گی، پھر لعان کے احکام نازل ہوئے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٦٧١، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٢٥٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٧٨، مسند احمد رقم الحدیث : ١٢٤٧٧، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٢٨٢٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٤٥١ )
کوڑوں کے ساتھ ایسی ضرب لگائی جائے، جس سے چوٹ لگے، درد ہو لیکن زخم نہ آئے۔ امام مالک اور ان کے اصحاب نے کہا ہے کہ تمام قسم کی حدود میں ضرب مساوی ہو اس سے کوئی زخم نہ پڑے۔ امام شافعی (رض) کا بھی یہی قول ہے اور امام اعظم ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب (رض) نے یہ کہا ہے کہ تعزیر میں سخت ضرب لگانی چاہیے، زنا کی ضرب شراب نوشی کی ضرب سے زیادہ شدید ہے اور شراب نوشی کی ضرب قذف (تہمت) کی ضرب سے زیادہ شدید ہے۔
پہلے شراب نوشی کی حد میں اختلاف تھا۔ عبد الرحمن بن ازھر بیان کرتے ہیں کہ میں نے غزوہ حنین کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو دیکھا آپ لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے تھے، آپ کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو نشہ میں تھا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان لوگوں سے کہا جو آپ کے پاس تھے، تمہارے ہاتھ میں جو چیز آئے اس سے اس کو مارو، اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مٹی اتھا کر اس پر ماری، حضرت ابوبکر (رض) کے پاس ایک شخص کو لایا گیا جو نشہ میں تھا، انہوں نے اس کو چالیس کوڑے مارے۔
ابن وبرہ کلبی بیان کرتے ہیں کہ حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ عنہ سنے مجھے حضرت عمر (رض) کے پاس بھیجا میں جب ان کے پاس پہنچا تو وہاں حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبد الرحمن بن عوف، حضرت علی، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بیٹھے ہوئے تھے۔ میں نے کہا حضرت خالد بن ولید نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، انہوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ کہا ہے کہ لوگ اب شراب بہت پینے لگے ہیں اور اس کی سزا معمولی سمجھتے ہیں۔ حضرت عمرنے کہا یہ کبار اصحاب تمہارے سامنے بیٹھے ہیں ان سے پوچھو۔ حضرت علی (رض) نے فرمایا ہماری رائے یہ ہے کہ جب آدمی نشہ میں ہوتا ہے تو ہذیان بکتا ہے اور جب ہذیان بکتا ہے تو لوگوں پر تہمت لگاتا ہے اور تہمت لگانے والے کی حد اسی (٨٠) کوڑے ہیں۔ حضرت عمر نے مجھ سے کہا حضرت علیی نے جو کہا ہے وہ حضرت خالد کو پہنچا دو پھر انہوں نے اسی (٨٠) کوڑے مارے اور حضرت عمر نے بھی اسی (٨٠) کوڑے مارے۔ (الجامع لاحکام القرآن ج ١٢ ص ١٥٤، مطلوبہ دار الفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)
زانی کو کوڑے مارنے کے بعد شہر بدر کرنے میں مذاہب فقہاء
اگر زانی مرد یا زانیہ عورت محصن نہ ہو تو قرآن مجید میں اس کی سزا سو کوڑے مارنا بیان فرمائی ہے۔ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے :
………(النور : ٢) زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والے مرد ان میں سے ہر ایک کے سو کوڑے مارو۔
بعض احادیث میں سو کوڑے مارنے کے علاوہ ایک سال کے لئے شہر بدر کرنے کا بھی حکم ہے جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث نمبر ٤٣٠١ میں ہے۔ فقہاء کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا غیر شادی کے زنا کی حد میں سو کوڑوں کے علاوہ شہر بدر کرنا بھی داخل ہے یا نہیں ؟
علامہ ابن قدامہ لکھتے ہیں کہ غیر شادی شدہ کے زنا کرنے کی حد میں جمہور کا یہ نظریہ ہے کہ اس کو سو کوڑے مارے جائیں اور ایک سال کے لے شہر بدر بھی کیا جائے۔ خلفاء راشدین سے بھی یہی مروی ہے، حضرت ابن عمر اور حضرت ابن مسعود (رض) سے بھی یہی منقول ہے، فہقئا تابعین میں سے عطاء، طائوس، ثوری، ابن ابی لیلیٰ اور ابو ثور کا بھی یہی نظریہ ہے۔ امام اشافعی اور امام مالک کا بھی یہی قول ہے اور یہی امام احمد کا مذہب ہے، اور امام ابوحنیفہ اور امام محمد بن حسن یہ کہتے ہیں کہ شہر بدر کرنا واجب نہیں ہے کیونکہ حضرت علی (رض) نے فرمایا ان دونوں کو شہر بدر کرنا انہیں فتنہ میں ڈالنے کے لئے کافی ہے، اور ابن مسیب سے یہ روایت ہے کہ حضرت عمر (رض) نے ربیعہ بن امیہ بن خلف کو شراب نوشی کی بناء پر خیبر میں جلا وطن کردیا۔ وہ ہرقل کے پاس جا کر نصرانی ہوگیا تب حضرت عمر نے فرمایا : اس کے بعد میں کبھی کسی کو شہر بدر نہیں کروں گا۔ نیز اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف کوڑے لگانے کا حکم دیا ہے اور اگر شہر بدر کرنے کو واجب قرار دیا جائے تو نص قرآن پر زیادتی لازم آئے گی۔ (المغنی مع الشرح الکبیر ١٠ ص ١٣٠، دار الفکریہ بیروت، ١٤٠٤ ھ)
زانی اور زانیہ کو شہر بدر کرنے میں فقہاء احناف کا موقف اور دلائل
علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی (صاحب ہدایہ) لکھتے ہیں : غیر شادی شدہ کی حد میں کوڑوں اور شہر بدر کرنے کو جمع نہیں کیا جائے گا امام شافعی ھد میں ان دونوں سزائوں کو جمع کرتے ہیں، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
………(صحیح مسلم، سنن ابو دائود، جامع ترمذی)
کنوارہ کنواری کے ساتھ زنا کرے تو اس کو سو کوڑے مارو اور ایک سال کے لئے شہر بدر کردو۔
نیز اس سے زنا کا دروازہ بند ہوجائے گا، کیونکہ دوسرے شہر میں ان کے جان پہنچان والے کم ہوں گے۔
علامہ مرغینانی حنفی لکھتے ہیں : ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے فاجلدو اپس کوڑے مارو، اللہ تعالیٰ نے کل سزا سو کوڑے بیان کی ہے اور اس کے علاوہ کنوارے شخص کی اور کوئی سزا بیان نہیں کی (پس اگر ایک سال شہر بدر کرنے کو زنا کی حد کا جز قرار دیا جائے تو اخبار آھاد سے نص قرآن پر زیادتی لازم آئے گی اور یہ جائز نہیں ہے، اس کے برخلاف شادی شدہ کو رجم کرنا اخبار آحاد سے نہیں بلکہ احادیث متواترہ سے ثابت ہے اور احادیث متواترہ سے قرآن مجید کے عام کو خاص کرنا جائز ہے، اس لئے یہ کہا جائے گا کہ قرآن مجید میں الزانی سے مراد کنوارہ زانی ہے اور کوڑے مارنے کا حکم کنواروں کے بارے میں ہے اور شادی زدہ زانی کی سزا یعنی اس کو رجم کرنا احادیث متواترہ سے ثابت ہے جیسا کہ عنقریب اس کی وضاحت کی جائے گی۔ (سعیدی غفرلہ)
علامہ مرغینانی لکھتے ہیں : زانی کو شہر بدر کرنا زنا کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے کیونکہ اپنے شہر میں تو خاندان والوں سے حیاء آئے گی اور دوسرے شہر میں اس کو زنا کرنے سے کوئی حجاب نہیں ہوگا۔ نیز دوسرے شہرے میں اس کے کھانے، پینے، رہائش، کپڑوں اور علاج معالجہہ کی ضروریات کا کوئی کفیل نہیں ہوگا اس وجہ سے یہ خطرہ ہے کہ شہر بدر کی ہوئی عورتیں اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے زنا کو کسب معاش بنالیں اور یہ زنا کی بدترین قسم ہے، اور اس کی تائید اس سیہوتی ہے کہ حضرت علی نے فرمایا : فتنہ میں مبتلا کرنے کے لئے شہر بدر کرنا کافی ہے۔ اور جس حدیث میں کنوارے کی حد میں کوڑوں اور شہر بدر کرنے کو جمع کیا ہے وہ اسی طرح منسوخ ہے جس طرح اس حدیث کا وہ حصہ منسوخ ہے جس میں شادی شدہ کی حد میں رجم اور کوڑوں کو جمع کیا گیا ہے، کیونکہ پوری حدیث اس طرح ہے کنوارہ، کنواری کے ساتھ زنا کرے تو اس کو سو کوڑے مارو اور ایک سال کے لئے شہر بدر کردو۔ اور شادی شدہ، شادی شدہ کے ساتھ زنا کرے تو اس کو سو کوڑے مارو اور پتھروں سے رجم کردو۔ (صحیح مسلم، جامع ترمذی، سنن ابو دائود) ۔
علامہ ابو الحسن کے استدلال کا خلاصہ یہ ہے کہ جس حدیث میں کوڑے مارنے کے ساتھ شہر بدر کرنے کا حکم ہے اسی حدیث میں رجم کے ساتھ کوڑے مارنے کا بھی ذکر ہے اور جب جمہور فقہاء باوجود اس حدیث کے رجم کی سزا کے ساتھ کوڑے مارنے کا ضافہ نہیں کرتے تو کنوارے کی سزا میں کوڑے مارنے کے ساتھ شہر بدر کرنے کا اضافہ کیوں کرتے ہیں۔ یہ صراحتاً ترجیح بلا مرجح ہے بلکہ ترجیح یا بالمرجوع ہے کیونکہ اس سے قرا ان مجید کی ذکر کردہ حد پر زیادتی لازم آتی ہے۔ علامہ یحییٰ بن شرف نواسی زیر بحث حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : شادی شدہ کی حد میں رجم کے ساتھ کوڑوں کو جمع کرنے میں فقہاء کا اختلاف ہے۔ ایک جماعت نے کہا ان کو جمع کرنا واجب ہے پہلے کوڑے لگائے جائیں پھر رجم کیا جائے۔ حضرت علی، حسن بصری، اسحاق بن راہویہ، دائود، اہل ظاہر اور بعض اصحاب شافعی کا یہی قول ہے، اور جمہور فقہاء نے یہ کہا ہے کہ صرف رجم کرنا واجب ہے۔ قاضی عیاض نے بعض محدثین سے نقل کیا ہے کہ جب شادی شدہ زانی بوڑھا ہو تو کوڑے لگا کر رجم کیا جائے اور اگر جو ان ہو تو صرف رجم کیا جائے۔ یہ مذہب باطل اور بےاصل ہے۔ اور جمہور کی دلیل یہ ہے کہ احادیث کثیرہ میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شادی شدہ کو صرف رجم کرنے پر اقتصار کیا جیسا کہ حضرت ماعز اور غامدیہ کے قصہ سے ظاہر ہے (رح صحیح مسلم ج ٢ س ٦٥ مطبوعہ نور محمد) نیز احادیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر شادی شدہ کو صرف کوڑے مارے اور شہر بدر نہیں کیا اور کثیر آثار صحابہ سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ ہم انشاء اللہ عنقریب واضح کریں گے…(سعیدی غفرلہ)
علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی ( صاحب ہدایہ) لکھتے ہیں : ہاں ! اگر امام کے نزدیک شہر بدر کرنے میں مصلھت ہو تو وہ جس قدر عرصہ مناسب سمجھے شہر بدر کرسکتا ہے، یہ تعزیر اور سیاست ہے کیونکہ بعض اوقات اس کا فائدہ ہوتا ہے اس لئے یہ امر امام کی رائے پر موقوف ہے اور بعض صحابہ سے جو شہر بدر کرنے کی روایت ہے وہ بھی تعزیر اور سیاست پر محمول ہے۔ (ہدایہ اولین ص ٤٩٣۔ ٤٩٢، مکتبہ امدادیہ ملتان)
ائمہ ثلاثہ کے دلائل کے جوابات اور فقہاء احناف کے دلائل
ائمہ ثلاثہ نے شہر بدر کرنے کی جن روایات سے استدلال کیا ہے وہ صرف تین صحابہ کی روایات ہیں حضرت عبادہ بن صامت، حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید بن خالد (رض) ، اور جو روایت صرف تین صحابہ سے مروی ہو وہ خبر متواتر یا خبر مشہور نہیں ہے صرف خبر واحد ہے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ احادیث خبر مشہور ہیں تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوگا کہ نبی و نے کسی غیر شادی شدہ زانی کو شہر بدر کیا یا شہر بدر کرنے کا حکم دیا اور اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ فعل بطور حد کیا ہو بلکہ یہ بھی احتمال ہے کہ آپ نے یہ فعل بطور تعزیر کیا ہو لہٰذا ان احادیث سے شہر بدر کرنے کا حد ہونا ثابت نہیں ہوا۔
غیر شادی شدہ زانی کو صرف کوڑے مارنے کے ثبوت میں احادیث
امام ابو دائود کرتے ہیں :
حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک شخص نے آکر یہ اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت کے ساتھ زنا کیا ہے جس کا اس نے نام بھی لیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس عورت کے پاس کسی شخص کو بھیج کر اس سے اس کے متعلق پوچھا اس عورت کا زنا کرنے سے انکار کیا تو آپ نے اس شخص کو ڑے مارے اور اس عورت کو چھوڑ دیا۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٦٦، بیروت)
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو بکر بن لیث کا ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے چار بار یہ اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے، آپ نے اس کو سو کوڑے لگائے پھر آپ نے فرمایا : اس عورت کے خلاف گواہ لائو، عورت نے کہا خدا کی قسم یا رسول اللہ ! یہ شخص جھوٹا ہے، پھر آپ نے اسی کو اسی کوڑے حد قذف لگائی۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٦٧ )
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ بنو بکر لیث کا ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے چاربا یہ اقرار کیا کہ اس نے ایک عورت سے زنا کیا ہے، آپ نے اس کو سو کوڑے لگائے پھر آپ نے فرمایا : اس عورت کے خلاف گمراہ لائو، عورت نے کہا خدا کی قسم یا رسول اللہ ! یہ شخص جھوٹا ہے، پھر آپ نے اس کو اسی کوڑے حد قذف لگائی۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٦٧ )
حضرت ابوہریرہ اور حضرت زید بن خالد (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ پوچھا گیا کہ اگر غیر شادی شدہ باندی زنا کرے تو اس کا کیا حکم ہے ؟ آپ نے فرمایا جب وہ زنا کرے تو اس کو سوکوڑے مارو، اور اگر پھر زنا کرے تو پھر کوڑے مارو اور اگر پھر زنا کرے تو پھر کوڑے مارو، پھر اس کو بیچ دو خواہ رسی کے ایک ٹکڑے کے عوض بیچنا پڑے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨٣٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٧٠٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٤٦٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٤٣٣) ۔
ان دونوں حدیثوں میں اس کی تصریح ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر محصن کو حد میں سو کوڑے مارے یا سوکوڑے مارنے کا حکم دیا اور ایک سال کے لئے شہر بدر کیا نہ شہر بدر کرنے کا حکم دیا اس لئے جن احادیث میں شہر بدر کرنے کا حکم ہے وہ سیاست پر محمول ہیں۔
رجم کی تحقیق
تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے کہ شادی شدہ مسلمان مرد یا عورت زنا کرے تو اس کی حدرجم ہے اور فقہاء اسلام میں سے کسی مستند شخص نے اس اجماع کی مخالفت نہیں کی۔ بعض خارجیوں نے اس اجماع کی اگر مخالفت کی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، البتہ ہمارے زمانے میں منکرینِ حدیث کی ایک جماعت پیدا ہوئی جنہوں نے سنت کی حجیت کا انکار کیا اور مستشرقین نے اسلام کے خلاف جو کچھ زہر اگلا اس کو انہوں نے قبول کرلیا۔ ان لوگوں نے جہاں اسلام کے اور بہت سے اجماعی اور مسلمہ عقائد کا انکار کیا ہے ان میں سے ایک رجم کا مسئلہ ہے یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں زانی کی سزا صرف کوڑے مارنا ہے اور جن احادیث میں رجم کا ذکر ہے وہ اخبار آحاد ہیں اور خبر واحد سے قرآن مجید کو منسوخ کرنا جائز نہیں ہے۔
منکرین سنت کا یہ قول قطعاً باطل اور مردود ہے اوّل تو یہ غلط ہے کہ قرآن مجید میں رجم کا اصلاً ذکر نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں ارشارتاً جم کا ذکر موجود ہے جیسا کہ انشاء اللہ عنقریب ہم واضح کریں گے اور ثانیاً یہ مفروضہ بھی غلط ہے کہ رجم کا حکم اخبار آحاد سے ثابت ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ رم کا حکم پچاس سے زیادہ صحابہ سے مروی ہے اور یہ احادیث معناً اخبار متواترہ ہیں جیسا کہ ہم انشاء اللہ اس پر تفصیلا گفتگو کریں گے اور اخیر میں ہم منکرین سنت کے مشہور اور اہم اعتراضات کے جوابات ذکر کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق و بہ الاستعانۃ یلیق۔
قرآن مجید سے رجم کا ثبوت
اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
………(المائدۃ : ٤٣ )
اور وہ کیسے آپ کو منصف بنائیں گے حالانکہ انکے پاس تورات ہے جس میں اللہ کا حکم موجود ہے !
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ (جیسا کہ صحیح مسلم کی حدیث نمبر ٤٣٢٥ میں ہے) یہود زنا کرنے والوں سے یہ کہتے تھے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جائو اگر وہ منہ کالا کرنے اور کوڑے مارنے کا حکم دیں تو اس پر عمل کرنا اور اگر رجم کا حکم دیں تو ان سے دور رہنا۔ علامہ ابن کثیر نے ان آیات کے شان نزول میں لکھا ہے کہ سنن ابو دائود میں ہے حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک مرد اور ایک عورت کا مقدمہ لایا گیا جنہوں نے زنا کیا تھا، آپ نے فرمایا تم اپنے مذہب کے دو سب سے بڑے عالموں کا لائو وہ صوریا کے دو بیٹوں کو لائے آپ نے ان کو قسم دے کر پوچھا ان زنا کرنے والوں کا حکم تورات میں کیا لکھا ہے ؟ انہوں نے کہا تورات میں ہے کہ جب چار آدمی یہ گواہی دیں کہ انہوں نے ان کو اس طرح زنا کرتے دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں جاتی ہے تو ان کو رجم کردیا جائے، آپ نے فرمایا تم ان کو رجم کیوں نہیں کرتے ؟ انہوں نے کہا ہماری حکومت چلی گئی اور ہم قتل کو ناپسند کرتے ہیں پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گواہوں کو بلایا اور چار آدمیوں نے آکر یہ گواہی دی کہ انہوں نے اس طرح دیکھا ہے جیسے سلائی سرمہ دانی میں ہوتی ہے، تب رسول اللہ و نے انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ علامہ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ یہ احادیث اس پر دلالت کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تورات کے حکم کے مطابق انہیں رجم کرنے کا حکم دیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٢٩۔ ٢٨، دار الفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)
امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
………(تفسیر کبیر ج ٤ ص ٣٦٢ )
اس آیت میں حکم اللہ سے مراد بالخصوص رجم ہے کیونکہ یہودیوں نے رخصت حاصل کرنے کے لئے آپ کو حکم بنایا تھا۔
قرآن مجید اور احادیث میں جو یہ ذکر ہے کہ تورات میں حکم اللہ یعنی رجم موجود ہو، اس کی تفصیل تورات میں حسب ذیل ہے :
پر اگر یہ بات سچ ہو کہ لڑکی میں کنوارے پن کے نشان نہیں پائے گئے ۔ تو وہ اس لڑکی کو اس کے باپ کے گھر کے دروازہ پر نکال لائیں اور اس کے شہر کے لوگ اسے سنگسار کریں کہ وہ مرجائے کیونکہ اس نے اسرائیل کے درمیان شرارت کی کہ اپنے باپ کے گھر میں فاحشہ پن کیا۔ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا (استثناء : ٢٢۔ ٢١ )
اگر کوئی کنواری لڑکی کسی شخص سے منسوب ہوگئی اور کوئی دوسرا آدمی اسے شہر میں پاکر اس سے صحبت کرے تو تم ان دونوں کو اس شہر کے پھاٹک پر نکال لانا اور ان کو تم سنگسار کردینا کہ وہ مرجائیں لڑکی کو اس لئے کہ وہ شہر میں ہوتے ہوئے نہ چلائی اور مرد کو اس لئے کہ اس نے اپنی ہمسایہ کی بیوی کو بےحرمت کیا۔ یوں تو ایسی برائی کو اپنے درمیان سے دفع کرنا (استثناء : ٢٤۔ ٢٣ )
یہ قرآن مجید کا عجاز ہے کہ تورات میں آج تک یہ آیت موجود ہے حالانکہ ہر دور میں تورات میں تحریف ہوتی رہی، بلکہ قدرت خداوندی دیکھئے کہ یہ آیت انجیل میں بھی موجود ہے، یوحنا کی انجیل میں ہے :
اور فقیہ اور فریسی ایک عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کرکے یسوع سے کہا اسے استاد ! یہ عورت زنا میں عین فعل کے وقت پکڑی گئی ہے۔ توریت میں موسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے ؟ انہوں نے اسے آزمانے کے لئے یہ کہا تاکہ اس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے تو اس نے سیدھے ہو کر ان سے کہا کہ جو تم میں بےگناہ ہو وہی پہلے اس کو پتھر مارے (یوحنا : باب ٨ آیت : ٨۔ ٣)
تورات اور انجیل کے ان اقتباسات سے یہ واضح ہوگیا کہ شادی شدہ زانی کو رجم کرنے کا حکم پچھلی آسمانی کتابوں میں موجود تھا اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو اس وقت (نزولِ قرآن کے وقت) کی موجودہ کتابوں کا جو مصدق قرار دیا ہے وہ اسی حکم کے اعتبار سے ہے اور اللہ کی قدرت ہے کہ ہزار ہا تحریفات کے باوجود رجم کا یہ حکم تورات اور انجیل میں آج بھی موجود ہے۔
رسول اللہ و نے دو زانی یہودیوں کے متعلق جو رجم کا فیصلہ فرمایا تھا اس کے متعلق سورة مائدہ میں جو آیات نازل ہوئی تھیں، اسی سیاق میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
………(المائدہ : ٤٨ )
ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب آپ پر نازل کی ہے اور آنحالیکہ یہ ان آسمانی کتابوں کی مصدق اور نگہبان ہے جو اس کے سامنے ہیں سو آپ ان کے درمیان اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ احکام کے مطابق فیصلہ کیجئے اور جو حق کے پاس آیا ہے، اس سے دور ہو کر ان کی خواہشات کے پیچھے نہ لگیے۔
نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے آسمانی کتابیں تورات اور انجیل موجود تھیں اور خود قرآن مجید ناطق اور شاہد ہے کہ ان کتابوں میں تحریف کی جاچکی ہے، ان کے باوجود قرآن مجید فرماتا ہے کہ قرآن کا مصدق اور نگہبان ہے اور جس چیز کا قرآن مجید مصدق ہے وہ رجم کا حکم ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم اللہ قرار دیا ہے اور اسی کا قرآن مجید نگہبان ہے اور یہ وجہ ہے کہ آئے دن کی تحریفات کے باوجود تورات اور انجیل میں رجم کا حکم آج بھی موجود ہے اور یہ قرآن مجید کا معجزہ اور اس کی صداقت کی زبردست دلیل ہے۔
رجم کی منسوخ التلاوت آیت
امام بہیقی متوفی ٤٥٨ ھ روایت کرتے ہیں :
زربن حبیش کہتے ہیں کہ مجھ سے حضرت ابی بن کعب (رض) نے فرمایا تم سورة احزاب میں کتنی آیات شمار کرتے ہو ؟ میں نے کہا : تہتر (٧٣) آیتیں ! حالانکہ ہم دیکھتے تھے کہ یہ سورة ، سورة البقرہ کے برابر تھی اور اسمیں یہ آیت تھی (ترجمہ) جب بوڑھا مرد یا بوڑھی عورت زنا کرے تو ان کو ضرور رجم کردو یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرتناک سزا ہے اور اللہ تعالیٰ غالب، حکمت والا ہے۔
” سورة احزاب ابتادء سورة البقرہ کے برابر تھی، اس کا مطلب یہ ہے کہ بعد میں اس کی بعض آیات کی تلاوت منسوخ کردیا گیا، قرآن مجید میں ہے :
جس آیت کو ہم منسوخ کردیتے ہیں یا بھلا دیتے ہیں تو ان سے بہتر یا اس جیسی آیت لے آتے ہیں۔
جیسا کہ آیت رجم کو منسوخ کردیا گیا، بعض علماء نے یہ جواب دیا ہے کہ اس سورت میں قرآن مجید کی آیات کے ساتھ ساتھ صحابہ کرام تفسیر بھی لکھ لیتے تھے جس کو بعد میں حذف کردیا۔
نیز امام بہیقی روایت کرتے ہیں :
کثیر بن صلت کہتے ہیں کہ ہم مروان کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور ہم میں حضرت زید بن ثابت (رض) بھی تشریف فرما تھے، حضرت زید نے کہا، یہ آیت ہم پڑھتے تھے جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان کو ضرور رجم کرو، مروان نے کہا ہم اس آیات کو قرآن مجید میں کیوں نہ داخلکریں ؟ حضرت زید نے فرمایا نہیں ! کیا تم نہیں دیکھتے کہ شادی شدہ جوان آدمیوں کو بھی رجم کیا جاتا ہے۔ حضرت زید نے کہا کہ صحابہ اس پر بحث کر رہے تھے اور اس وقت ہم میں حضرت عمر بن الخطاب بھی تھے۔ انہوں نے کہا اس مسئلہ میں میں تمہاری تسلی کروں گا اور کہا کہ میں نبی و کے پاس جا کر اس کا ذکر کروں گا اور جب آپ رجم کا ذکر کریں گے تو میں کہوں گا یا رسول اللہ ! آیر رجم لکھوا دیجئے حضرت عمر کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گیا اور آپ سے اس کا ذکر کیا، جب آپ نے آیت رجم کا ذکر کیا تو میں نے کہا یا رسول اللہ ! آیت رجم لکھوا دیجئے آپ نے فرمایا مجھے اس کا اختیار نہیں ہے۔ امام بہیقی فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اور اس سے پہلی حدیث میں اس پر دلیل ہے کہ آیت رجم کا حکم ثابت ہے اور اس کی تلاوت منسوخ ہے اور میرے علم کے مطابق اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ (سنن کبریٰ ج ٨ ص ٢١١، ملتان)
امام حاکم متوفی ٤٠٥ ھ روایت کرتے ہیں :
عکرمہ کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جس شخص نے رجم کا انکار کیا اس نے قرآن کا انکار کیا، حالانکہ اس کو گمان بھی نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :” اے اہل کتاب ! تمہارے پاس ہمارے رسول آچکے ہیں اور وہ ان بہت سی باتوں کو بیان کرتے ہیں جن کو تم چھپاتے تھے، اور رجم کو بھی یہود چھپاتے تھے۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے اور بخاری اور مسلم نے اس کو بیان نہیں کیا۔ (المستدرک ج ٤ ص ٣٥٩، مکہ مکرمہ)
کثیر بن صلت بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمرو بن العٓس اور حضرت زید بن ثابت (رض) قرآن مجید کے نسخے لکھ رہے تھے، جب اس آیت پر پہنچے تو حضرت زید نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے سنا ہے کہ جب بوڑھا مرد اور بوڑھی عورت زنا کریں تو ان کو ضرور رجم کرو۔ حضرت عمرو نے کہا یہ آیت نازل ہوئی تو میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جا کر عرض کیا : اس آیت کو لکھ دیجئے تو آپ نے اس بات کو ناپسند کیا، اور جب غیر شادی شدہ بوڑھا زنا کرے تو اس کو صرف کوڑے لگائے جاتے ہیں اور جب شادی شدہ شخص زنا کرے تو اس کو رجم کیا جاتا ہے، اس حدیث کی سند صحیح ہے اور بخاری اور مسلم نے اس کو روایت کیا۔ (المستدرک ج ٤ ص ٣٦٠، مکہ مکرمہ)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے متعدد طریق اور اسانید سے اس حدیث کو بیان کیا ہے اور انہوں نے اس کے منسوخ التلاوت ہونے کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ اس کے الفاط میں اختلاف ہے بعض روایات میں یہ الفاظ بھی ہیں :
………
انہوں نے جو لذت حاصل کی ہے (اس وجہ سے رجم کرو)
نیز اس آیت کے الفاظ کے عموم پر عمل نہیں ہوتا کیونکہ مطلقاً بوڑھے شخص کو رجم نہیں کیا جاتا بلکہ اس بوڑھے شخص کو رجم کیا جاتا ہے جو شادی شدہ ہو اور اگر غیر شادی شدہ ہو تو اس کو کوڑے لگائے جاتے ہیں، جیسا کہ حضرت عمرو بن العاص نے واضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ (فتح الباری ج ١٢ ص ١٤٣، لاہور)
اس آیت کے منسوخ التلاوت ہونے پر ایک دفعہ ایک فاضل شخص نے مجھ سے سوال کیا کہ حدیث میں ہے :
……… (مشکوٰۃ ص ٣٢)
میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا
پھر حدیث سے یہ آیت کیسی منسوخ ہوگئی ؟ میں نے اس کے جواب میں کہا کلام اللہ سے مراد قرآن مجید ہے اور قرآن مجید کے الفاظ منضبط ہیں اور وہ الفاظ تواتر سے ثابت ہیں اور اس آیت کے الفاظ غیر منضبط ہیں اور ان الفاظ کا ثبوت تواتر سے نہیں ہے اس لئے یہ الفاظ قرآن مجید نہیں ہیں۔ لہٰذا ان کے منسوخ التلاوت ہونے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔
آیت رجم کی بحث
میرے شخ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں :
بخاری شریق میں ہے کہ حضرت عمر فاروق (رض) نے منبر پر بیٹھ کر فرمایا : لوگو ! میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں جس کا کہنا میرے لئے مقدر کردیا گیا ہے، میں نہیں جانتا شاید میری موت میرے سامنے ہو، جو شخص میرے بات کو سمجھ کر اسے یاد رکھے اسے چاہیے کہ جہاں تک وہ پہنچ سکتا ہو وہاں تک میری بات لوگوں کو بتادے اور جسے خوف ہو کہ اس بات کو نہ سمجھ سکے گا تو میں اسے اپنے اوپر جھوٹ بولنے کی اجازت نہیں دیتا وہ بات یہ ہے کہ ” بیشک اللہ تعالیٰ نے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ بھیجا اور ان پر کتاب نازل فرمائی اور جو کچھ اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا اس میں رجم کی آیت بھی تھی، ہم نے وہ آیت پڑھی اور اسے سمجھ اور اسے یاد رکھا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے رجم کیا اور حضور کے بعد ہم نے بھی رجم کیا۔ مجھے خوف ہے کہ طویل زمانہ گزر جانے کے بعد کوئی کہنے والا کہہ دے کہ خدا کی قسم اللہ کی کتاب میں ہم رجم کی آیت نہیں پاتے تو لوگ اللہ کے نازل کئے ہوئے فریضہ کو ترک کرکے گمراہ ہوجائیں۔ اللہ کی کتاب میں رجم برحق ہے ہر اس آزاد مد اور عورت پر جس نے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کیا، بشرطیکہ شرعی گواہ قائم ہوجائیں یا (عورت کا) حمل ظاہر ہوجائے یا اقرار ہو۔
(بخاری شریق جلد ثانی ص ١٠٠٩، صحیح مسلم ج ٢ ص ٦٥، موطا امام املک میں ٦٨٥)
اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ قرآن مجید کی آیت الزانیۃ والزانی میں سوکوڑوں کی سزا کا ذکر آزاد غیر شادی شدہ زانی اور زانیہ کے لے ہی ہے اور رجم کی سزا کا تعلق غیر شادی شدہ سے نہیں بلکہ وہ شادی شدہ کے لئے مخصوص ہے۔ صرف اتنی بات میں وارد ہے اور ہم بارہا بتا چکے ہیں کہ وہ احادیث جن میں رجم کی سزا مذکور ہے وہ متواتر المعنی ہونے کی وجہ سے قطعی الثبوت ہیں جس طرح قرآن کی آیات وحی الٰہی ہیں اسی طرح سنت اور حدیث نبوی بھی وحی الٰہی ہے اور اسی بناء پر اس کا دلیل شرعی ہونا ہم قرآن مجید سے ثابت کرچکے ہیں، جو چیز قرآن سے ثابت ہو، اس سے جس حکم کا ثبوت ہوجائے وہ عین قرآن کے مطابق ہے، اسے خلافِ قرآن کہنا کسی طرح درست نہیں ہے۔
دیکھئے قبلہ اولیٰ کے قبلہ ہونے کا حکم قرآن میں وارد نہیں بلکہ حدیث سے ثابت ہے، اسی طرح پانچ نمازیں، ان کی تعداد رکعات اور ادا کرنے کی ترتیب مثلاً نماز میں رکوع، سجود، قیام اور قعود اوعر ان سب ارکان کی ترتیب سب سنت نبوی سے ثابت ہے، اگر سنت اور حدیث کو نظر انداز کرکے صرف اقیمو الصلوٰ اور اتوالزکوٰۃ کو سامنے رکھ لیا جائے تو نہ اقامت صلوٰۃ کے حکم پر عمل ہوسکتا ہے نہ ہی ایتاء ذکوٰۃ کے فریضہ سے سبکدوش ہونا ممکن ہے اس لئے سنت اور حدیث کو لازی طور پر تسلیم کرنا پڑے گا تاکہ قرآن کے معنی سمجھ میں آجائیں اور مراد الٰہی کے مطابق احکام قرآنیہ پر عمل کرنا ممکن ہو۔
آیت رجم کا نزول اور اس کا منسوخ التلاوت ہونا احادیث صحیحہ کی روشنی میں واضح ہوچکا ہے۔ اس کے باوجود ہم نزول الفاظ اور نسخ تلاوت کے قطعی اور متواترہ کا قول نہیں کرتے لیکن یہ ضرورکہتے ہیں کہ رجم کے معنی تواتر اور قطعیت کے ساتھ قرآبن پاک میں موجود ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
………(المائدہ : ٤٣ )
اور اے رسول وہ یہودی کس طرح آپ کو اپنا حکم بناتے ہیں حالانکہ ان کے پاس تورات ہے، جس میں اللہ کا حکم پایا جاتا ہے۔ (مقالات کا ظمی ج ٣ س ٤٠٠۔ ٣٩٩، مکتبہ فریدیہ ساہیوال، ١٤٠٧ ھ)
رجم کی احادیث متواترہ
رجم کی صحیح مرفوع متصل احادیث تریپن (٥٣) صحابہ سے مروی ہیں جن کو مسلم اور مستند جلیل القدر مھدثین نے اپنی تصانیف میں متعدد اسانید کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ان کے علاوہ ثقہ تابعین کی چودہ (١٤) مرسل روایات ہیں چودہ (١٤) آثار صھابہ اور پانچ (٥) فتاویٰ تابعین ہیں جن کو اکبار محدیثین اسانید کثیرہ کے ساتھ اپنی مصنفات میں درج کیا ہے یہ کل چھیاسی (٨٦) احادیث ہیں۔ ہم نے جن اعداد و شمار کا ذکر کیا ہے، یہ ان کتب احادیث سے حاصل کئے گئے ہیں جو ہمارے پاس موجود اور دستیاب ہیں۔ ان کے علاوہ بیشمار کتب احادیث ہیں جو ہماری دسترس سے باہر ہیں اس لئے حتمی اور قطعی طور پر انہیں کہا جاسکتا ہے کہ رجم کے سلسلہ میں کتنی احادیث مرفوعہ، مرسلہ، آثار صحابہ اور فتاویٰ تابعین موجود ہیں۔ بہرحال ہم نے جو اعداد و شمار تتبع اور تلاش سے حاصل کئے ہیں ان کی بناء پر یہ اطمیان اور یقین ہوجاتا ہے کہ رجم کا ثبوت جن احادیث سے ہے وہ معناً متواتر ہیں اور اس عد سے اس بات پر شرح صدر ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث اس قوت میں ہیں کہ ان سے قرآن مجید کی وضاحت کی جاسکتی ہے اور ان حادیث متواترہ کی بناء پر یہ قول صحیح اور برحق ہے کہ قرآن مجید میں جس زانیہ اور زانی کو سزا سو کوڑے مارنا بیان ہے اس سے آزاد اور غیر محصن (غیر شادی شدہ) زانی اور زانیہ مراد ہیں۔ رہے آزاد اور محصن (شادی شدہ) زانیہ اور زانی تو ان کی حد رجم کرنا ہے جیسا کہ احادیث متواترہ میں اس کا بیان ہے۔
منکرین رجم یہ شبہ وارد کرتے ہیں کہ سنت سے قرآن مجید کے عموم قطعی کی تخصیص کیسے کی جاسکتی ہے ؟ اس کا جواب اولاً یہ ہے کہ الزانیۃ والزانی میں عموم قطعی نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید میں باندیوں کے زنا کی سزا کے متعلق ہے :
………(النساء : ٢٥) یعنی باندیوں کی سزا آزاد عورتوں کی سزا کا نصف ہے۔
یعنی باندیوں کی سزا پچاس کوڑے ہے، اس سے معلوم ہوا کہ آیت نور میں جو زانیوں کی سزا سو کوڑے بیان کی گئی ہے اس سے ہر زانی اور زانیہ مراد نہیں ہے بلکہ آزاد زانیہ اور زانی مراد ہے کیونکہ باندیوں کی سزا سورة نساء میں اس کی نصف بیان کی گئی ہے اور جب اس آیت میں خود قرآن مجید سے تخصیص ہوگئی تو اس کا عموم قطعی نہ رہا اور یہ ہر زانیہ اور زانی کو شامل نہیں ہے، اس لئے اگر سنت متواترہ سے اس میں تخصیص کی جائے اور اس بناء پر اس کو غیر شادی شدہ زانیوں کے ساتھ مختص قرار دیا جائے تو اس میں کیا استبعاد ہے !
رہے آزاد اور شادی شدہ زانی تو ان کی سزا رجم ہے جیسا کہ احادیث متواترہ میں اس کا بیان ہے۔
ہم نے شرح صحیح مسلم بن رجم کی ٥٣ احادیث مرفوع بیا کی ہیں، ١٤ مرسل روایت بیان کی ہیں، ١٤ آثار صحابہ اور ٥ فتاویٰ تابعین کا ذکر کیا ہے۔ (شرح صحیح مسلم ج ٤ ص ٨١٦۔ ٨٠٤)
حد زنا کے دیگر مباحچ شرح صحیح مسلم ج ٤ ص ٨٤٠۔ ٨١٦ میں ملاحظہ فرمائیں۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 2
ٹیگز:-
احادیث , رجم , امام بہیقی , حضرت انس , جماعت , ایک , حضرت ابوبکر بن عبدالرحمن بن حارث , مقدم , حالتِ اختیار , ممانعت , ائمہ ثلاثہ , آیت رجم , تبیان القرآن , حضرت بریدہ , نزدیک , اللہ , علامہ یحییٰ بن شرف نووی , دار العدل , Tibyan ul Quran , شرعی حکم , مذاہب فقہاء , احادیث متواترہ , حضرت ابن عباس , فقہاء شافعیہ , حضرت عبد اللہ بن عمرو , حضرت ابوذر غفاری , سو , داراسلام , Allama Ghulam Rasool Saeedi , علامہ ابن قدامہ , کوڑے , حضرت عائشہ , فقہاء مالکیہ , حضرت عبد اللہ بن بسر , سزا , حضرت ابو قتادہ , حد زنا , Quran , علامہ ابن قدامہ حنبلی , شہر بدر , حرام , فقہاء حنبلیہ , توجیہ , سیدہ عائشہ صدیقہ , سورہ نور , احصان , ایمان , زنا , وطی , قرآن کریم , حضرت سمرہ بن جندب , حضرت عثمان بن ابی العاص , قرآن مجید , حضرت ابو موسیٰ , سید محمد مرتضیٰ زبیدی حنفی , قرآن , مرد , زانیہ , دنیا , مسلمانوں , حضرت عبد اللہ بن مسعود , قیامت , مسائل , حضرت ام المومنین میمونہ بنت الحارث , usa , علامہ راغب اصفہانی , نافذ , آخرت , حضرت ابو ذر , قاضی عبد النبی بن عبد الرسول احمد نگری , اللہ تعالیٰ , زانی , حضرت عبد اللہ بن یزید , عورت , فقہاء احناف , مارنے , حضرت ابن مسعود , حضرت سلمان , سید مرتضی حسین زبیدی , زندہ , شرائط , حضرت ابو امامہ باھلی , حضرت ابوہریرہ , حضرت عبادہ بن الصامت , حضرت نافع , حضرت ابن عمر , سورہ النور , علامہ ابو عبد اللہ شتانی مالکی , رحم , فقہی احکام , غیر شادی شدہ , حضرت انس بن مالک , حضرت سہل بن سعد , علامہ کاسانی حنفی , حضرت جابر , تحقیق , مشتہاۃ