أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِذَا نُفِخَ فِى الصُّوۡرِ فَلَاۤ اَنۡسَابَ بَيۡنَهُمۡ يَوۡمَئِذٍ وَّلَا يَتَسَآءَلُوۡنَ ۞

ترجمہ:

پھر جب صور پھونک دیا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان رشتے قائم نہیں رہیں گے اور نہ وہ ایک دوسرے سے سوال کرسکیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر جب صور پھونک دیا جائے گا تو اس دن ان کے درمیان رشتے قائم نہیں رہیں گے اور نہ وہ ایک دوسرے سے سوال کرسکیں گے۔ سو جن (کی نیکیوں) کے پلے میزان میں بھاری ہوں گے وہی کامیاب ہوں گے۔ اور جن (کی نیکیوں) کے پلے ہلکے ہوں گے تو یہی وہ لوگ ہوں گے جنہوں نے اپنے آپ کو نقصان میں ڈالا (وہ) ہمیشہ دوزخ میں آیتوں کی تلاوت نہیں کی جاتی تھی پھر تم انکی تکذیب کرتے تھے۔ (المومنون : ١٠٥-١٠١)

قیامت کے دن رشتوں کا قائم نہ رہنا اور اپنے اپنے حقوق وصول کرنا 

المئومنون : ١٠١ میں صور پھونکنے کا ذکر ہے اس سے مراد دوسری بار صور کا پھونکنا ہے، حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : جس طرح لوگ دنیا میں اپنے اپنے نسب پر فخر کرتے ہیں آخرت میں کوئی اس طرح اپنے نسب پر فخر نہیں کرے گا اور جس طرح دنیا میں ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں کہ تم کس قبیلہ سے ہو اور تمہارا کیا نسب ہے آخرت میں کوئی کسی سے اس طرح سوال نہیں کرے گا اور اس دن کے شدید خوف اور دہشت کی وجہ سے کوئی شخص دور سے سے متعارف نہیں ہوگا اور حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جب پہلا صور پھونکا جائے گا تو آسمانوں اور زمینوں کی تمام مخلوق ہلاک ہوجائے گی ماسوا ان کے جن کو اللہ تعالیٰ چاہے گا اس دن ان کے درمیان کوئی نسب ہوگا اور نہ وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے، پھر ماسوا ان کے جن کو اللہ تعالیٰ چاہے گا اس دن ان کے درمیان کوئی نسب ہوگا اور نہ وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے، پھر جب دوسرا صور پھونکا جائے گا تو وہ سب کھڑے ہو کر دیکھ رہے ہوں گے ایک شخص نے حضرت ابن عباس (رض) سے اس آیت کے متعلق سوال کیا :

فاقبل بعضھم علی بعض یتسآء لون۔ (الصفت : ٥٠) پھر وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے سوال کریں گے۔

تو حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا پہلے صور کے وقت کوئی کسی سے سوال نہیں کرے گا کیونکہ اس وقت روئے زمین پر کوئی زندہ شخص نہیں ہوگا اور نہ ان کے درمیان کوئی رشتہ ہوگا اور نہ وہ کسی سے سوال کریں گے اور یہ آیت ” پھر وہ ایک دوسرے کی طرف رخ کر کے سوال کریں گے “ اہل جنت کے متعلق ہے کیونکہ جب وہ جنت میں داخل ہوجائیں گے تو وہ ایک دوسرے سے سوال کریں گے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٤٢٥-١٩٤٢٣ )

اور حضرت ابن مسعود نے فرمایا اس آیت سے مراد دوسرا صور ہے، نیز حضرت ابن مسعود نے فرمایا قیامت کے دن کسی بندہ یا بندی کا ہاتھ پکڑ کر اس کو تمام اولین اور آخرین کے سامنے کھڑا کردیا جائے گا پھر ایک منادی منع کرے گا یہ فلاں بن فلاں ہے جس شخص نے اس سے اپا کوئی حق لینا ہو وہ اس سے اپنا حق وصول کرلے، پھر کوئی عورت اپنے باپ سے کوئی حق لینے آئے گی یا اپنے شوہر سے اپنا حق لینے آئیگی یا اپنے بھائی سے یا اپنے بیٹے سے پھر حضرت ابن مسعود نے یہ آیت پڑھی۔

فلا انساب بینھم یومئذ ولا یتسآء لون (المومنون : ١٠١) تو اس دن ان کے درمیان رشتے قائم نہیں رہیں گے اور نہ وہ ایک دوسرے سے سوال کرسکیں گے۔

پھر اس سے رب سحبانہ و تعالیٰ فرمائے گا ان لوگوں کے حقوق ادا کرو وہ شخص کہے گا اے میرے رب ! دنیا فنا ہوچکی ہے اب میں انکو حق کہاں سے دوں، پھر اللہ تعچالیٰ فرشتوں سے فرمائے گا اس شخص کی نیکیوں میں سے ہر شخص کو اس کے حق کے مطابق نیکیاں دے دو ، اگر وہ شخص اللہ کا ولی ہوگا اور اس کی نیکیوں میں سے رائی کے دانہ کے برابر ایک نیکی رہ جائیگی تو اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کی اس نیکی کو بہت زیادہ بڑھا دے گا حتیٰ کہ اس نیکی کی وجہ سے اس کو جنت میں داخل کر دے گا پھر حضرت ابن مسعود نے یہ آیت پڑھی :

(النسائ : ٤٠) بیشک اللہ ایک ذرہ کے برابر بھی ظلم نہیں کرتا اور اگر کوئی ایک نیکی ہو تو اللہ اس کو دگنا چوگناکر دے گا اور خاص اپنے پاس سے اس کو اجر عظیم عطا فرمائیگا۔ 

اور اگر وہ شخص شقی ہو تو فرشتے کہیں گے اے رب ! اس کی نیکیاں ختم ہو گئیں اور حقوق کے طلب کرنے والے باقی ہیں تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا حق داروں کے گناہ لے کر اس کے گناہوں میں ڈال دو اور اس کو جہنم کی طرف دھکا دے دو ۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ١٩٤٢٧-١٩٤٢٦ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

قیامت کے دن (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نسب نکاح اور سسرال کے رشتوں کے سواتمام رشتوں کا منقطع ہو جانا 

حضرت مسور بن مخرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جو چیز اسے غصہ میں لائے وہ مجھے غصہ میں لاتی ہے اور جس چیز سے وہ خوش ہو اس سے میں خوش ہوتا ہوں اور قیامت کے دن تمام رشتے مقنطع ہوجائیں گے سوا میرے نسب کے اور میرے نکاح کے اور میری سسرال کے۔ (مسند احمد ج ٤ ص ٣٢٣ طبع قدیم، مسند امد رقم الحدیث : ١٩١١٤ عالم الکتب، المستدرک ج ٣ ص ١٥٨ یہ حدیث صحیح ہے، ذہبی نے بھی اس کی موافقت کی ہے سنن کبری للبیہقی ج ٧ ص ٦٤ )

حضرت مسور بن مخرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فاطمہ میرے گوشت کا ٹکڑا ہے جس نے اس کو ناراض کیا اس نے مجھے ناراض کیا۔ (صحیح البخاریرقم الحدیث : ٣٧١٤، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٧١ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٩٨ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٣٧٠)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس منبر پر یہ فرماتے ہوئے سن ہے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہے جو یہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا رشتہ ان کی قوم کو نفع نہیں پہنچائے گا نہیں نہیں بلکہ میرا رشتہ دنیا اور آخرت میں ملا ہوا ہے اور اے لوگو ! جب تم میرے پاس آئو گے تو میں حوض پر تمہارا پیش رو ہوں گا ایک شخص کہے گا میں فلاں ہوں اور دوسرا شخص کہے گا میں فلاں بن فلاں ہوں اور اس کا بھائی کہے گا میں فلاں بن فلاں ہوں، آپ ان سے فرمائیں گے تمہارا نسب میں پہچانتا ہوں لیکن تم نے میرے بعد دین میں نئی باتیں نکالیں اور تم میرے بعد مرتد ہوگئے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ١٨ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے، حاشیہ مسند احدم رقم الحدیث : ١١٠٨١ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ، المستدرک ج ٣ ص ١٤٢ المعجم الکبیرج ٣ ص ٣٦، ج ١١ ص ٢٤٣ اس حدیث کے رجال صحیح ہیں۔ )

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے حضرت علی (رض) کو بلایا اور ان سے چپکے چپکے کوئی بات کی پھر حضرت علی آ کر الصفہ (چبوترے) پر کھڑے ہوگئے وہاں حضرت عباس، عقیل اور حضرت حسین ملے، حضرت علی نے ان سے ام کلثوم کا نکاح حضرت عمر سے کرنے کے متعق مشورہ کیا، عقیل غضب ناک ہوئے اور کہا اے علی جوں جوں تمہارے عمر بڑھ رہی ہے تمہاری غیر دانش مندی میں اضافہ ہو رہا ہے، اللہ کی قسم اگر تم نے یہ نکاح کیا تو ایسی ایسی خرابیاں ہوں گی، پھر حضرت علی نے حضرت عباس سے کہا اللہ کی قسم ! اس کا یہ مشورہ خیر خواہی کی وجہ سے نہیں ہے، حضرت عمر کے درہ سے گھبرا کر اس نے ایسی باتیں کی ہیں اور مجھے حضرت عمر بن الخطاب (رض) نے یہ بتایا کہ انہوں نے رسو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت کے دن ہر سبب (نکاح کا رشتہ) اور نسب کا رشتہ منقطع ہوجائے گا سوا میرے سبب اور میرے نسب کے پھر حضرت عمر ہنسے اور فرمایا عقیل پر افسوس ہے وہ احمق اور جاہل ہے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٣ المستدرک ج ٣ ص ١٧٢ طبع قدیم، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ١٠٣٥٤ )

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب (رض) سے سنا ہے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوء یسنا ہے کہ قیامت کے دن ہر سبب اور نسب (نکاح کا رشتہ اور نسب کا رشتہ) منقطع ہوجائے گا سوا میرے سبب اور نسب کے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث، ٢٦٣٤)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت عمر بن الخطاب سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے آپ فرماتے تھے کہ قیامت کے دن ہر نکاح کا رشتہ اور ہر نسب کا رشتہ مقنطع ہو جاء یگا سوا میرے نکاح اور میرے نسب کے رشتے کے۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٣٥ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کو امام طبرانی نے الاوسط اور لاکبیر میں روایت کیا ہے اس کے تمام راوی صحیح ہیں سوا الحسن بن سھل کے اور وہ بھی ثقہ ہے۔ مجمع الزوائد ج ٩ ص ١٧٣ المستدرک ج ٣ ص ١٤٢ سنن بیہقی ج ٨ ص ٤٦٣ )

حضرت مسور بن مخرمہ بیان کرتے ہیں کہ حسن بن حسن نے حضرت مسور بن مخرمہ کی بیٹی کا اپنے لئے رشتہ مانگا۔ حضرت مسور نے کہا حسن بن حسن سے کہنا کہ میں کس قوت اس کا جواب دوں گا پھر ان کی حضرت حسن سے ملاقات ہوئی، حضرت مسور نے اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کے بعد کہا مجھے تمہارے نسب کے رشتہ اور تمہارے سسرالی رشتے سکو کوئی نکاح کا رشتہ یا کوئی نسب کا رشتہ یا کوئی سسرالی رشتہ زیادہ عزیز نہیں ہے لیکن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا فاطمہ میری فرع (شاخ) ہے جو چیز اس کو خوش کرے وہ مجھے خوش کرتی ہے اور جو چیز اس کو رنجیدہ کرے وہ مجھے رنجیدہ کرتی ہے اور بیشک قیامت کے دن تمام نسب کے رشتے منقطع ہوجائیں گے سوا میرے نسب اور میرے نکاح کے رشتہ کے اور بات یہ یہ کہ حضرت فاطمہ کی بیٹی تمہارے نکاح میں ہے اگر تم اس کے اوپر میری بیٹی کو یہ طور سو کن لائو گے تو اس سے انکو رنج ہوگا پھر حضرت مسور معذرت کر کے چلے گئے۔ (المعجم الکبیرج ٢٠ ص 25-26 رقم الحدیث : ٣٠ مسند احمد ج ٤ ص ٣٢٣ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کی سند میں ام بکر بنت المسور ہیں ان پر نہ کسی نے جرح کی ہے نہ توثیق کی ہے اور اس کے باقی راویوں کی توثیق کی گئی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ٣٠٣) ان تمام احادیث کو حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے المئومنون : ١٠١ کی تفسیر میں روایت کیا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص ٢٨٤ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

ان احادیث میں چونکہ حضرت سید تنا فاطمہ زہرا (رض) کی فضیلت کا ذکر آگیا ہے، اس لئے اب ہم حضرت سیدہ فاطمہ کے باقی فضائل اور مناقب کی احادیث درج کر رہے ہیں۔

حضرت سید تنا فاطمہ (رض) کے فضائل اور مناقب کی احادیث 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی صاحب زادی حضرت سیدہ فاطمہ کو اپنے اس مرض میں بلایا جس میں آپ کی وفات ہوگئی تھی پھر ان سے چپکے چپکے کوئی بات کی تو وہ رونے لگیں پھر ان کو دوبارہ بلا کر کچھ کہا تو وہ ہنسنے لگیں، میں نے حضرت فاطمہ سے پوچھا وہ کیا بات تھی ؟ انہوں نے فرمایا پہلی مرتبہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو یہ بتایا کہ اس درد اور مرض میں میری روح قبض کرلی جائے گی تو میں رونے لگی اور دوسری بار یہ بتایا کہ آپ کے اہل بیت میں سے سب سے پہلے میں آپ کے ساتھ ملوں گی تو میں ہنسنے لگی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧١٦، ٣٧١٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٥ سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٦٣ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ١٦٢ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٣٦٧ مسند احمد رقم الحدیث، ٢٦٩٤٥ )

حضرت مسور بن مخرمہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو منبر پر یہ فرماتے ہئو یسنا ہے کہ بنو ہشام بن المغیرہ نے مجھ سے اس بات کی اجازت طلب کی ہے کہ وہ اپنی بیٹی کا علی بن ابی طالب سے نکاح کردیں، میں اس کی اجازت نہیں دیات، میں پھر اس کی اجازت نہیں دیتا، میں پھر اس کی اجازت نہیں دیات، سوا اس صورت کے کہ علی بن ابی طالب میری بیٹی کو طلاق دے دیں اور ان کی بٹی سے نکاح کرلیں، کیونکہ وہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے اور جو چیز اس کو غمگین کرتی ہے وہ مجھ کو غمگین کرتی ہے اور جو چیز اس کو ایذاء پہنچاتی ہے وہ مجھ کو ایذاء پہنچاتی ہے، یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٢٣٠ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٠٧١ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٩٨ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٨٣٧٠ مسند احمد ج ٤ ص ٣٢٨ صحیح ابن حبان رقم الحدیث، ٦٩٥٥ المعجم الکبیرج ٢٢ رقم الحدیث : ١٠١٢، ١٠١١، حلیتہ الاولیاء ج ٧ ص ٣٢٥ سنن بیہقی ج ٧ ص ٣٠٧ شرح السنتہ رقم الحدیث : ٣٩٥٨، ٣٩٥٧ )

حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تمام عورتوں میں سب سے زیادہ محبوب حضرت فاطمہ تھیں اور مردوں میں سب سے زیادہ محبوب حضرت علی تھے، یعنی آپ کے اہل بیت میں سے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٨ المعجم الاوسط رقم الحدیث، ٧٢٥٨ المستدرک ج ٣ ص ١٥٥) 

حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ حضرت علی (رض) ابوجہل کی بیٹی کا ذکر کرتے ہیں تو آپ نے فرمایا : فاطمہ میرے جسم کا ٹکڑا ہے جو چیز ان کو ایذاء پہنچتای ہے وہ مجھے ایذاء پہنچاتی ہے اور جو چیز انہیں پریشان کرتی ہے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٦٩ مسند حمد ج ٤ ص ٥، المستدرک ج ٣ ص ١٥٩ حلیتہ الاولیاء ج ٢ ص ٤٠ )

حضرت زید بن ارقم (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیحضرت علی، حضرت فاطمہ، حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) کے متعلق فرمایا میں ان سے جنگ کرنے والا ہوں جو ان سے جنگ کرے اور میں ان سے صلح کرنے والا ہوں جو ان سے صلح کرے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧٠ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٥ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٢ ص ٩٧ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦١٩ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٧٧ المستدرک ج ٣ ص ١٤٩ )

حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت حسن، حضرت حسین، حضرت علی اور حضرت فاطمہ (رض) پر چادر ڈلای پھر فرمایا اے اللہ : یہ میرے اہل بیت اور میرے خواص ہیں، ان سے ناپاکی کو دور کر دے اور ان کو اچھی طرح اپک کر دے، حضرت ام سلمہ نے پوچھا یا رسول اللہ ! میں بھی ان کے ساتھ ہوں ؟ فرمایا بیشک تم خیر پر ہو۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧١ مسند احمد ج ٦ ص ٢٩٨ مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٦٩١٢ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٦٤ )

حضتر عائشہ ام المومنین (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اٹھنے اور بیٹھنے میں آپ کی سیرت اور آپ کی عادات اور طور طریقوں میں حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب سے زیادہ آپ کے مشابہہ تھیں، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوگئے تو حضرت فاطمہ آئیں اور آپ پر جھک گئیں اور آپ کو بوسہ دیا پھر رونے لگیں پھر آپ پر جھک گئیں پھر سر اٹھایا اور ہنسنے لگیں، میں نے دل میں کہا میں تو ان کو عقل مند عورت سمجھتی تھی مگر یہ تو (عام) عورتوں کی طرح ہیں، جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے تو میں نے ان سے پوچھا یہ باتیں کہ جب آپ پہلی بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکی تھیں پھر آپ نے سر اٹھایا تو آپ رو رہی تھیں اور جب آپ دوسری بار نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جھکیں اور سر اٹھایا تو آپ ہنس رہی تھیں اس چیز پر آپ کو کس نے برانگیختہ کیا تھا، انہوں نے میں اب اپنا راز افشاء کرنے والی ہوں، آپ نے مجھے یہ خبر دی تھی آپ اپنے اس درد میں فوت ہونے والے ہیں تو میں رونے لگی، پھر آپ نے مجھے یہ خبر دی کہ آپ کے اہل میں سب سے پہلے میں آپ سے ملوں گی تو پھر میں ہنسنے لگی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧٢ سنن ابو دائود رقم الحدیث، ٥٢١٧ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٩٥٣ المعجم الکبیرج ٢٢ رقم الدیث ١٠٣٨ المسدترک ج ٤ ص ٢٨٧٢ سنن بیہقی ج ٧ ص ١٠١ مسند احمد ج ٦ ص ٢٨٢ مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٦٧٤٥، حلیتہ الاولیاء ج ٢ ص ٣٨، دلائل النبوۃ بیہقی ج ٦ ص ٣٦٤ الادب المفرد رقم الحدیث : ٩٤٧ )

حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیحضرت فاطمہ کو بلایا پھر ان سے سرگوشی کی تو وہ رونے لگیں پھر ان سے کوئی بات کی تو وہ ہنسنے لگیں، وہ کہنے لگیں کہ مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ بتایا کہ وہ فوت ہوجائیں گے تو میں رونے لگی پھر آپ نے مجھے یہ خبر دی کہ میں مریم بنت عمران کے سوا تمام جنت کی عورتوں کی سردار ہوں تو میں ہنسنے لگی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧٣، مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٦٧٤٣، الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ٢٤٨ المعجم الکبیرج ٢٢ رقم الحدیث ١٠٣٩)

جمع بن عمر التیمی بیان کرتے ہیں کہ میں اپنی پھوپھی کے ساتھ حضرت عائشہ (رض) کے پاس گیا حضرت عائشہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کون سب سے زیادہ محبوب تھا انہوں نے کہا حضرت فاطمہ ان سے پوچھا گیا مردوں میں انہوں نے کہا ان کے خاوند، بیشک میں جانی ہوں کہ وہ بہت روزے رکھنے والے بہت قیام کرنے والے تھے۔ یہ حدیث حسن غریب ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧٤، مسند ابویعلی رقم الحدیث : ٤٨٥٧ )

حضرت حذیفہ بن یمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے میری ماں نے کہا کہ تم کب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ملے تھے ؟ میں نے کہا میں تو اتنے دنوں سے آپ سے نہیں ملا، وہ مجھ پر ناراض ہونے لگیں میں نے کہا مجھے چھوڑ دیں میں آپ کے پاس جاتا ہوں اور اس وقت تک واپس نہیں آئوں گا حتی کہ حضور آپ کے لئے اور میرے لئے استغفار کریں، میں نے آپ کے ساتھ مغرب کی نماز پڑھی، آپ کھڑے ہو کر پھر نماز پڑھنے لگے حتیٰ کہ آپ نے عشاء کی نماز پڑھی، پھر آپ باہر نکلے میں بھی آپ کے ساتھ باہر نکلا پھر کوئی شخص آپ سے آ کر ملا پھر جب وہ چلا گیا تو آپ نے مجھے دیکھا اور فرمایا حذیفہ ! میں نے کہا لبیک یا رسول اللہ ! فرمایا : کیا تم نے ابیھ اس آنے والے کو دیکھا تھا، میں نے کہا جی ہاں آپ نے فرمایا وہ ایک فرشتہ تھا وہ اپنے رب سے اجازت لے کر مجھے سلام کرنے آیا تھا اور مجھے یہ بشارت دینے کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں اور فاطمہ بنت محمد جنت کی عورتوں کے سردار ہیں۔ (السنن الکبری للنسائی ج ٥ رقم الحدیث، ٨٣٦٥ )

حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک فاطمہ نے اپنی عفت کی حفاظت کی ہے تو اللہ نے ان کی اولاد کو دوزخ پر حرام کردیا۔ (المستدرک ج ٥ رقم الحدیث ٤٧٧٩ طبع جدید مسند البز اور رقم الحدیث : ٢٦٥١ کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٣ ص ١٨٤ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٢٥ الکامل لابن عدی ج ٥ ص ٥٩ طبع جدید، حلیتہ الاولیاء، ج ٤ ص ١٨٨ مسند فاطمہ رقم الحدیث : ١٠٢ مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٠٢، المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٣٩٨٧)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان رتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قایمت کے دن انبیاء کو سواریوں پر اٹھایا جائے گا تاکہ وہ اپنی اپنی امتوں کے مومنوں کے پاس پہنچیں، حضرت صالح کو اپنی اونٹنی پر اٹھایا جائے گا اور مجھے برقا پر اٹھایا جائے گا اس کا قدم منتہاء نظر پر ہوگا اور فاطمہ کو میرے آگے اٹھایا جائے گا۔ یہ حدیث مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ (المستدرک ج ٥ رقم الحدیث : ٤٧٨٠ مسند فاطمہ رقم الحدیث : ٧٤، ٧٣ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٢٦٢٩ المعجم الصغیر ج ٢ ص ١٢٦ تاریخ بغداد ج ٣ ص ١٤٠ مجمع الزوائد ج ١٠ ص ٣٣٣)

حضرت علی (علیہ السلام) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی پردے کی اوٹ سے ندا کرے گا اے اہل محشر اپنی نظریں جھکا لوحتیٰ کہ فاطمہ بنت محمد گزر جائیں، یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے۔ (المستدرک ج ٥ رقم الحدیث : ١٤٧٨١ المعجم الکبیرج ١ رقم الحدیث : ١٨٠ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٢٤٠٧ الکامل لا بن عدی ج ٥ ص ٥ مسند فاطمہ ص ١٣٠ المستدرک ج ٣ ص ١٦١ طبع قدیم، کنزل العمال ج ١٢ رقم الحدیث : ٣٤٢٢٩ حافظ الہیثمی نے اس حیدث کو ضعیف کہا ہے مجمع الزوائد ج ٩ ص ١٢ ہ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ سے بھی مروی ہے حافظ جلال الدین نے کہا اس کی یہ سند صحیح ہے الجامع الصغیر رقم الحدیث، ٨٢٢ جمع الجوام رقم الحدیث : ١٧٥٨ الصواعق المحرقہ ص ١٩٠ معرفتہ الصحابۃ رقم الحدیث : ٣٥٥ کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٢ ص 274-275)

علامہ عبدالرئوف مناوی متوفی ١٠٠٣ ھ اس حدیث کی تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اس حدیث کو حاکم نے مسلم کی شرط کے مطابق صحیح کہا ہے اور ذھبی نے کہا نہیں خدا کی قسم یہ حدیث موضوع ہے اس کی سند میں عباس ہے، امام دار قطنی نے کہا وہ کذاب ہے، ابن الجوزی نے بھی اس کو موضوع کہا ہے، السیوطی نے ابن جوزی کا تعاقب کیا اور اس کے شواہد بیان کئے اور کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے۔ (فیض القدیر شرح الجامع الصغیر ج ٢ ص ٨٤٠ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ : ١٤١٨ ھ) 

حافظ جلال الدین عبدالرحمٰن السیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث کو امام طبرانی نے الاوسط میں روایت کیا ہے اور کہا یہ صرف حضرت علی سے مروی ہے اور اس کی روایت میں عبدالحمید اور البع اس بن بکار الضبی منفرد ہیں اور مجھے حضرت ابوہریرہ حضرت ابوایوب حضرت عائشہ اور حضرت ابو سعید کی حدیث سے اس کے شواہد ملے، امام ابوبکر الشافعی نے الغیلانیات میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو عشر کے باطن سے ایک منادی ندا کرے گا اے لوگو ! اپنی نظریں جھکا لو حتیٰ کہ فاطمہ جنت کی طرف چلی جائیں اور انہوں نے ہی حضرت ابو ایوب انصاری (رض) سے روایت کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو عرش کے باطن سے ایک منادی ندا کرے گا اے اہل محشر اپنی نظروں کو جھکا لو حتی کہ فاطمہ بنت محمد پل صراط سے گزر جائیں پھر حضرت افطمہ ستر جوان حوروں کے ساتھ بجلی کی طرح پل سے گزر جائیں گی۔

(علامہ سیوطی نے حضرت ابوہریرہ تک سند کو الجامع الصغیر : ٨٢٢ میں صحیح کہا ہے) اور حضرت ابو ایوب کی سند کے متعلق لکھا ہے اس میں محمد بن انس الکدیمی اور اس کے اوپر کے تین راوی متروک ہیں اور امام ابوالحسن بن بشر ان نے اپنے فوائد میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب قیامت کا دن ہوگا تو ایک منادی ندا کرے گا اے معشر الخلائق اپنے سروں کو جھکا لو حتیٰ کہ فاطمہ گزر جائیں اس حدیث کو اس سند کے ساتھ خطیب بغدادی نے بھی روایت کیا ہے اور عبداللہ خراسانی کی سند سے بھی ریات کیا ہے اس سند میں حسین بن معاذ راوی ہے حافظ عسقلانی نے اس کے متعلق میان میں کہا اس کی سند میں ضاطراب ہے اور خطب نے حسین کا ذکر بغیر جرح اور تعدیل کے کیا ہے اور خطیب قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا اپنی نظروں کو جھکا لو حتیٰ کہ فاطمہ بنت النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گزر جائیں اور امام ابو الفتح کرے گا اپنی نظریں نیچی کرلو اور اپنے سروں کو جھکا لو کیونکہ فاطمہ بنت محمد پل صراط سے گزر رہی ہیں، اسندیں العزری اور عمیر متروک ہیں اور امام الازردی نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید سے روایت کیا ہے کہ قیامت کے دن ایک منادی ندا کرے گا اے لوگو ! اپنی نظریں نیچی کرلو حتیٰ کہ فاطمہ پل صراط سے گزر جائیں، اس سند میں ایک راوی دائود مجہول ہے۔ (اللئالی المصنعتہ ج ١ ص 368-369 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ)

خلاصہ یہ ہے کہ اس حدیث کی جس سند کو ذہبی اور ابن جوزی نے موضوع کیا ہے وہ حضرت علی کی روایت ہے اور حافظ سیوطی نے تصریح کی ہے کہ الغیلانیات میں حضرت ابوہریرہ کی روایت صحیح ہے اور خطیب نے الحسن بن ابی بکر کی سند سے جو حضرت عائشہ سے حدیث روایت کی ہے اس کا کوئی سقم بیان نہیں کیا اور باقی روایات میں متروک، مضطرب یا مجہول راوی ہیں جو زیادہ سے زیادہ ضعیف روایات ہیں، اللہ تعالیٰ حافظ سیوطی کے درجات بلند فرمائے انہوں نے اس حدیث کی سندوں کو بےغبار کردیا میں نے اس حدیث کی سند کی تصحیح میں بہت محنت کی ہے اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت فاطمہ سے فرمایا تمہارے غضب کی وجہ سے اللہ غضب ناک ہوتا ہے اور تمہاری رضا کی وجہ سے اللہ راضی ہوتا ہے۔ (المستدرک رقم الحدیث : ١٤٧٨٣ المعجم الکبیرج ١ ص ١٠٨ رقم الحدیث ١٨٢ علل الدار قطنی ج ٣ ص ١٠٣ مسند فاطمہ رقم الحدیث : ١٢٠، ١١٩)

زید بن اسلم اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ بنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئے اور کہا اے فاطمہ ! اللہ کی قسم میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے نزدیک آپ سے زیادہ کسی کو محبوب نہیں دیکھا اور اللہ کی قسم آپ کے والد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد لوگوں میں مجھے آپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں ہے۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٤٧٨٩ مسند فاطمہ رقم الحدیث : ١٨٥ الکامل لابن عدی ج ٥ ص ٣٣١)

حضرت ابوثعلبہ خشنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی غزوہ یا کسی سفر سے واپس آتے تو مسجد میں جا کردو رکعت نماز پڑھتے، پھر حضرت فاطمہ (رض) کے گھر جاتے، پھر اس کے بعد اپنی ازواج کے پاس جاتے۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٤٧٩٠ طبع جدید المستدرک ج ١ ص ٤٨٨ طبع قدیم)

حضرت سعد بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جبریل (علیہ السلام) میرے پاس جنت سے بہی دانے لے کر آئے میں نے شب معراج ان دانوں کو کھایا اور خدیجہ فاطمہ سے لپٹی ہوئی تھیں اور مجھے جب بھی جنت کی خوشبو کی خواہش ہوتی تو میں فاطمہ کی گردن کو سنگھتا تھا۔ اس حدیث کا متن اور سند غریب ہے۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٤٧٩١ مسند فاطمہ رقم الحدیث : ١١٠)

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی سر پر جاتیت و سب سے آخر میں حضرت فاطمہ سے ملاقات کرتے اور جب کسی سفر سے واپس آتے تو سب سے پہلے حضرت فاطمہ سے ملاقات کرتے۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٤٧٩٢ طبع جدید، المستدرک ج ١ ص ٤٨٩ طبع قدیم)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جس مرض میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات ہوگئی اس میں آپ نے فرمایا : اے فاطمہ ! کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم تمام جہانوں کی عورتوں کی سردار ہو، اور اس امت کی عورتوں کی سردار ہو اور مومنین کی عورتوں کی سردار ہو۔ (المستدرک رقم الحدیث : ٤٧٩٤ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٤٢٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٥٠ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٨٧١ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٥٢١٧ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٢٠ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 23 المؤمنون آیت نمبر 101