أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡكُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَـيَسۡتَخۡلِفَـنَّهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ كَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡۖ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمۡ دِيۡنَهُمُ الَّذِى ارۡتَضٰى لَهُمۡ وَلَـيُبَدِّلَــنَّهُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِهِمۡ اَمۡنًا‌ ؕ يَعۡبُدُوۡنَنِىۡ لَا يُشۡرِكُوۡنَ بِىۡ شَيۡـئًــا‌ ؕ وَمَنۡ كَفَرَ بَعۡدَ ذٰ لِكَ فَاُولٰٓئِكَ هُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے کہ وہ ان کو ضرور بہ ضرور زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلافت عطا کی تھی اور ضرور بہ ضرور ان کے اس دین کو محکم اور مضبوط کر دے گا جس کو اس نے ان کے لئے پسند فرما لیا ہے اور ضرور بہ ضرور ان کے خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دے گا وہ لوگ جو میری عبادت کرتے ہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور جن لوگوں نے اس کے بعد ناشکری کی تو وہی لوگ فاسق ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اللہ نے تم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے کہ وہ ان کو ضرور بہ ضرور زمین میں خلافت عطا فرمائے گا، جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلافت عطا کی تھی اور ضرور بہ ضرور ان کے اس دنی کو محکم اور مضبوط کر دے گا جس کو اس نے ان کے لئے پسند فرما لیا ہے اور ضرور بہ ضرور ان کے خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دے گا، وہ لوگ جو میری عبادت کرتے ہیں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور جن لوگوں نے اس کے بعد ناشکری کی تو وہی لوگ فاسق ہیں۔ (النور : ٥٥ )

النور : ٥٥ کا شان نزول 

امام عبدالرحمن بن محمد بن ادریس ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اس آیت کے شان نزول میں اپنی اسنید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

سدی بیان کرتے ہیں کہ جب حدیبیہ میں مشرکین نے مسلمانوں کو عمرہ کرنے سے منع کردیا تو اللہ عزوجل نے ان سے وعدہ فرمایا کہ وہ ان کو غلبہ عطا فرمائے گا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٧٥٩ )

ابو العالیہ بیان کرتے ہیں کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جن لوگوں سے خلافت عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٧٦٠ )

مقاتل بن حیان بیان کرتے ہیں کہ بعض مسلمانوں نے کہا اللہ تعالیٰ اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مکہ میں کب فتح عطا فرمائے گا، اور ہمیں کب زمین میں امن نصیب ہوگا، اور ہم سے کب مصائب دور ہوں گے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی، اور اس آیت کے مخاطب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب ہیں۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٤٧٦١ )

امام ابوالحسن علی بن احمد الواحدی المتوفی ٤٦٨ ھ اس آیت کے شان نزول میں روایت کرتے ہیں :

الربیع بن انس ابوالعالیہ سے روایت کرتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نزول وحی کے بعد دس سال تک آپ خود اور آپ کے اصحاب بھی خوف کی حالت میں رہے کبھی چھپ کر اور کبھی ظاہراً اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتے تھے، پھر آپ کو مدینہ کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا، اور وہاں بھی مسلمان خوف زدہ تھے وہ ہتھیاروں کے پہرے میں صبح اور شام گزارتے تھے، پھر آپ کے اصحاب میں سے ایک شخص نے کہا : یا رسول اللہ ہم پر امن اور سلامتی کا دن کب آء یگا ؟ جب ہم اپنے ہتھیار رکھ سکیں گے۔ پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھوڑے عرصہ کے بعد ہی تم میں سے کوئی شخص اپنی جماعت میں بغیر ہتھیاروں کے پیر پھیلا کر بیٹھ سکے گا اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی …پس اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جزیرہ عرب پر غلبہ طعا فرمایا اور مسلمانوں نے اپنے ہتھیار اتار دیئے اور امن اور چین سے رہنے لگے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی روح قبض کرلی، پھر مسلمان حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) کے دور تک امن سے رہے حتیٰ کہ پھر وہ فتنوں میں مبتلا ہوگئے اور انہوں نے اللہ کی نعمت کی ناشکری کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں دشمنوں کا خوف داخل کردیا۔ انہوں نے اپنے نیک اعمال کو برے اکعمال سے بدلا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی نعمتوں کو مصائب سے بدل دیا۔ (اسباب نزول القرآن رقم الحدیث : ٦٤٦، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، حافظ سیوطی نے اس حدیث کو امام ابن حمید اور امام ابن ابی حاتم کے حوالوں سے ذکر کیا ہے، الدرالمنثورج ٦ ص ١٩٨ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)

حضرت ابی بن کعب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب مدینہ میں آئے، اور انصار نے ان کو جگہ دی اور عرب ان پر تیر مارتے تھے اور وہ کوئی رات ہتھیاروں کے بغیر نہیں گزارتے تھے اور ہر صبح ہتھیاروں کے ساتھ کرتے تھے، تو انہوں نے کہا کیا ہم کوئی رات امن اور اطمینان سے گزاریں گے جس میں ہمیں اللہ کے سوا اور کسی کا ڈر نہیں ہوگا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی۔

(المستدرک ج ٢ ص ٤٠١ قدیم المستدرک رقم الحدیث : ٣٥١٢، اسباب نزول القرآن رقم الحدیبث : ٦٤٧ الدرالمنثور ج ٦ ص ١٩٨ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٥٤١ )

تنگ دستی کے بعد مسلمانوں کی خوشحالی 

حضرت عدی بن حاتم (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کے پاس ایک شخص نے آ کر فاقہ کی شکایت کی، پھر ایک اور شخص آیا اور اس نے راستے میں ڈاکوئوں کی شکایت کی۔ آپ نے فرمایا اے عدی ! کیا تم نے حیرہ کو دیکھا ہے ؟ (حیرہ کوفہ سے تین میل دور ایک شہر ہے جس کو آج کل نجیف کہتے ہیں یہ ریات حیرہ کا پایہ تخت رہا ہے نیز فارس کے ایک گائوں اور نیشا پور کے ایک محلہ کو بھی حیرہ کہتے ہیں) میں نے کہا میں نے اس کو نہیں دیکھا لیکن میں نے اس کی خبر سنی ہے، آپ نے فرمایا اگر تمہاری عمر طویل ہوئی تو تم ایک سفر کرنے والی خاتون کو دیکھو گے وہ حیرہ سے سفر کر کے آئے گی اور کعبہ کا طواف کرے گی اور اسے اللہ کے سوا اور کسی کا خوف نہیں ہوگا، میں نے دل میں کہا، پھر قبیلہ طے کے ان ڈاکوئوں کا کیا ہوگا جنہوں نے ہر جگہ فساد برپا کر رکھا ہیچ اور فرمایا اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم کسریٰ کے خزانوں کو فتح کرو گے، میں نے پوچھا کسریٰ بن ہرمز ! فرمایا کسریٰ بن ہرمز اور اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم مٹھی بھر سونا یا چاندی لے کر اس تلاش میں نکلو گے کہ کوئی اس کو قبول کرلے اور تم کو قبول کرنے والا کوئی شخص نہیں ملے گا، اور تم میں سے کوئی شخص ضرور اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرے گا اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہوگا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا میں نے تمہاری طرف کوئی رسول نہیں بھیجا تھا جس نے تم کو تبلیغ کی تھی ؟ وہ شخص کہے گا کیوں نہیں ! پھر فرمائے گا کیا میں نے تم کو مال نہیں دیا تھا اور تم کو فضیلت نہیں دی تھی ؟ وہ کہے گا کیوں نہیں ! پھر وہ اپنی دائیں جانب دیکھے گا تو اس کو صرف جہنم نظر آئے گا، پھر وہ اپنی بائیں جانب دیکھے گا تو اس کو صرف جہنم نظر آئے گا۔ حضری عدی کہتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ دوزخ کی آگ سے بچو ! خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے کو صدقہ کر کے، اور جس کو کھجور کا ایک ٹکڑا بھی نہ ملے تو وہ کسی سے کوئی اچھی بات کہہ دے اور اس کے ذریعہ دوزخ سے بچے۔ حضرت عدی کہتے ہیں کہ پھر میں نے ایک خاتون کو دیکھا جو حیرہ سے سفر کر کے آئی اور اس نے کعبہ کا طواف کیا اور وہ راستہ میں صرف اللہ سے ڈرتی تھی اور میں ان مسلمانوں میں سے تھا جنہوں نے کسریٰ کے خزانوں کو فتح کیا تھا اور اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم ضرور دیکھو گے گے کہ تم مٹھی بھر سونا لیکر نکلو گے اور اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تھا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٥٨٥ مسند احمد ج ٤ ص 377-378 صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٦٧٩ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ٣٤٢ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٠١٤ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤١٥ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٨٤٣ )

حضرت مقداد بن اسود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہئوے سنا ہے کہ زمین پر کوئی پتھروں کا یا مٹی کا مکان باقی نہیں بچے گا اور نہ کوئی خیمہ رہے گا مگر اللہ اس میں کلمہ اسلام کو داخل کر دے گا، کسی غالبک و غلبہ دے کر یا کسی ذلیل کو پست کر کے، جو غالب ہوں گے ان کو اہل اسلام سے کر دے گا اور جو کمزور ہوں گے ان کو مسلمان کے تابع کر دے گا۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٤ المستدرک ج ٤ ص ٤٣٠)

نواب قنوجی کا آیت استخلاف کو خلفاء راشدین کے ساتھ مخصوص نہ قرار دینا 

نواب صدیق بن حسن بن علی قنوجی متوفی ١٣٠٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام امت کو زمین میں خلیفہ بنانے کا وعدہ فرمایا، اور ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت صحابہ کے ساتھ خاص ہے، اور اس اختصاص پر کوئی دلیل نہیں ہے، کیونکہ ایمان اور اعمال صالحہ کی صفات صحابہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہیں بلکہ اس امت کے ہر اس فرد کے لئے اس خلافت کا حصول ممکن ہے جو اللہ تعالیٰ کی کاتب اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر عمل کرتا ہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہوں اور اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو مومنین اعمال صالحہ کرتے ہیں ان کو اللہ تعالیٰ خلفاء بنا دے گا اور وہ زمین میں اس طرح تصرف کریں گے جس طرح بادشاہ اپنی سلطنتوں میں تصرف کرتے ہیں اور ان علماء کا قول بہت بعید ہے جنہوں نے کہا یہ آیت خلفاء اربعہ (حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) یا مہاجیر ن کے ساتھ مخصوص ہے، کیونکہ عوموم الفاظ کا اعتبار کیا جاتا ہے اور خصوصیت سبب یا خصوصیت مورد کا اعتبار نہیں کیا جاتا۔ (فتح البیان ج ٤ ص ٦١٢ طبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)

بعض آیات میں عموم الفاظ کے بجائے خصوصیت مورد کا اعتبار کیا جانا 

نواب قنوجی کی یہ تفسیر صحیح نہیں ہے، ہرچند کہ قاعدہ یہی ہے کہ اگر آیت کے الفاظ میں عموم ہو اور اس کا مورد اور سبب خاص ہو تو ال فاظ کے عموم کا اعتبار ہوتا ہے اور خصوصیت مورد کا اعتبار نہیں ہوتا، لیکن اگر دلائل سے یہ ثابت ہو کہ کسی آیت میں الفاظ کا عموم مراد نہیں ہوسکتا تو پھر وہاں خصوصیت مورد اور سبب ہی کا اعتبار کیا جاتا ہے اور سورة النور : ٥٥ کی یہ آیت بھی اسی طرح ہے، ہم پہلے اس قاعدہ سے استثناء کی چند نظائر پیش کریں گے اور پھر اس پر دلائل پیش کریں کہ سورة النور : ٥٥ میں عموم الفاظ کا اعتبار نہیں ہوسکتا بلکہ یہاں خصوصیت مورد ہی کا اعتبار ہے اور یہ آیت خلفاء راشدین ہی کے ساتھ مخصوص ہے۔

قرآن مجید میں ہے :

(آل عمران : ١٨٨) ان لوگوں کے متعلق گمان نہ کرو جو اپنے کاموں پر خوش ہوتے ہیں، اور جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کاموں پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کئے، ان کے متعلق یہ گمان مت کرو کہ ان کو عذاب سے نجات ہوجائے گی ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

اس آیت کے الفاظ کے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ ہر اس شخص کو عذاب ہوگا جو اپنے کئے ہوئے کاموں پر خوش ہوتا ہے اور یہ چیز تو ہر شخص میں پائی جاتی ہے، پھر تو کوئی شخص بھی عذاب سے نہیں بچ سکے گا۔ اس لئے یہ آیت یہود کے ساتھ خاص ہے۔ حدیث میں ہے :

علقمہ بن وقاص بیان کرتے ہیں کہ مروان نے اپنے دربان سے کہا اے ابو رافع ! حضرت ابن عباس (رض) کے پاس جائو اور ان سے پوچھو کہ اگر ہر اس شخص کو عذاب ہو جو اپنے کام پر خوش ہوتا ہے اور یہ چاہتا ہے کہ ان کاموں پر اس کی تعریف کی جائے جو اس نے نہیں کئے تو پھر تو ہم سب کو عذاب دیا جائے گا۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا تمہارا اس آیت سے کیا تعلق ہے ؟ یہ آیت تو صرف یہود کے متعلق ہے جن کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بلایا اور ان سے آپ نے کسی چیز کے متعقل پوچھا جس کو انہوں نے چھپالیا، اور آپ کو اس چیز کے علا اوہ کسی اور چیز کی خبر دی، اس کے باوجود وہ اس بات کے خواہش مند رہے کہ آپ کے سوال کے جواب میں جو کچھ انہوں نے باتای ہے اس پر ان کی تعریف بھی کی جائے اور اصل حقیقت کو چھپا کر وہ بہت خوش ہوئے، پھر حضرت ابن عباس (رض) نے وہ ایٓتیں پڑھیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ یہ آیت یہود کے متعلق ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٥٦٩ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٧٨ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٠١٤ المستدرک ج ٢ ص ٢٩٩)

حضرت ابن عباس (رض) نے قرآن مجید کی دو آیتیں پڑھی تھیں، وہ یہ ہیں۔

(آل عمران :187-188) اور جب اللہ نے اہل کتاب سے عہد لیا کہ تم اس کو ضرور لوگوں سے بیان کرو گے اور اس کو نہیں چھپائو گے تو انہوں نے اس عہد کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا اور اس کو تھوڑی قیمت کے عوض فروخت کردیا سو کیسا برا ہے ان کا یہ فروخت کرنا۔ ان لوگوں کے متعلق گمان نہ کرو جو اپنے کاموں پر خوش ہوتے ہیں اور جو یہ چاہتے ہیں کہ ان کاموں پر ان کی تعریف کی جائے جو انہوں نے نہیں کئے، ان کے متعلق یہ گمان مت کرو کہ ان کو عذاب سے نجات ہوجائے گی ان کے لئے درد ناک عذاب ہے۔ 

خود نواب قنوجی نے بھی اس آیت کی مورد کے ساتھ تخصیص پر صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی مذکور الصدر حدیث سے استدلال کیا ہے۔ نیز انہوں نے اس حدیث سے بھی اس آیت کی مورد کے ساتھ تخصیص پر استدلال کیا ہے :

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی غزوہ میں جاتے تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں منافقین پیچھے رہ جاتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے بیٹھنے پر خوش ہوتے اور جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آتے تو اپنے نہ جانے پر عذر پیش کرتے اور یہ چاہتے کہ جو کام انہوں نے نہیں کیے ان پر ان کی تعریف کی جائے اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی لاتحسبن الذین یفرحون …(آل عمران : ١٨٨)

نیز نواب قنوجی لکھتے ہیں یہ بھی روایت ہے کہ یہ آیت فنحاس، الیسع اور ان کے امثال کے متعلق نازل ہوئی ہے اور یہ بھی روایت ہے کہ یہ آیت یہود کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ (فتح البیان ج ١ ص ٥٧٤، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)

عموم الفاظ کے باوجود مورد کے ساتھ تخصیص کی دیگر مثالیں درج ذیل ہیں۔

اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بھڑو، (الحجرات : ١) اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ بہت سننے والا، بےحد جاننے والا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں نواب قنوجی متوفی ١٣٠٧ ھ لکھتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) نے فرمایا یعنی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ر وزہ رکھنے سے پہلے روزہ نہ رکھو۔

امام بخاری نے اپنی تاریخ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ کچھ لوگ رمضان سے ایک دن یا دو دن پہلے روزہ رکھ لیا کرتے تھے تو یہ آیت نازل ہوئی ہے۔

اور اس آیت کا معنی اس طرح ہے جس طرح خازن نے کہا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے قول یا فعل سے پہلے کوئی بات کہو نہ کوئی کام کرو، اور علامہ بیضاوی نے کہا اللہ اور رسول کے حکم کرنے سے پہلے کوئی بات یقینی طور پر نہ کہو۔

(فتح البیان ج ٦ ص ٣٧٠ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)

اس تفسیر سے واضح ہوگیا کہ اس آیت کا حکم عہد رسالت کے ساتھ خاص ہے اور الفاظ کا عموم معتبر نہیں ہے۔

دوسری مثال یہ آیت ہے :

(الحجرات : ٢) اے ایمان والو ! اپنی آوازوں کو نبی کی آواز پر بلند نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو جیسے تم آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتے ہو (ایسا نہو) کہ تمہارے اعمال ضائع ہوجائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ چلے۔ 

اس آیت میں بھی الفاظ عام ہیں اور مورد خاص ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے کلام کرتے وقت، آپ کی آواز سے آواز اونچی ہونا آپ کی حیات مبارکہ میں ہی متصور ہے۔

نواب قنوجی متوفی ١٣٠٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اپنی آوازوں کو اس حد تک بلند نہ کرو کہ وہ آپ کی آواز سے اونچی ہوجائیں۔ (فتح البیان ج ٦ ص ٣٧١، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)

الحجرات : ٥-١ کی آیات اسین وع کی ہیں ان میں الفاظ کا عموم ہے اور مورد عہد رسالت کے ساتھ خاص ہے۔

آیت استخلاف کے خلفاء راشدین کے ساتھ مخصوص ہونے پر دلائل 

علماء اہل سنت نے یہ کہا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر، حضرت عمر، حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کی خلافت کے برحق ہونے کی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ بنایا اور ان کی امانت پر راضی رہا، اور وہ اس دین پر تھے جس سے اللہ تعالیٰ راضی تھا، کیونکہ آج تک کوئی شخص فضیلت میں ان سے بڑھ کر نہیں ہے اور نہ کوئی شخص آج تک فضائل میں ان کے ہم پلہ ہے۔ ان کے خلیفہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو شام، عراق، خراسان اور افریقہ کے شہروں پر اقتدار عطا فرمایا، ان کے دور میں اسلام کی تبلیغ اور اشاعت ہوئی اور اسلام جزیرہ عرب سے نکل کر دنیا کے بہت سے علاقوں میں پھیل گیا۔ انہوں نے اللہ کی حدود کو جاری کیا، احکام شرعیہ کو نافذ کیا قرآن مجید کو جمع کیا احادیث کو محفوظ اور مدون کیا، اور قرآن اور سنت پر عمل کرا ای اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ خلافت تیس سال تک رہے گی اس کے بعد ملوکیت آجائے گی اور یہ تیس سال خلفاء راشدین کے دور تک پورے ہوگئے۔ حضرت ابوبکر کی خلافت دو سال تک رہی، حضرت عمر کی خلافت دس سال تک رہی، حضرت عثمان کی خلافت بارہ سال رہی اور حضرت علی کی خلافت چھ سال تک رہی اور یوں مدت خلافت کے تیس سال پورے ہوگئے، ہم نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے، وہ یہ ہے :

حضرت سفینہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت میں خلافت تیس سال رہے گی پھر اس کے بعد ملوکیت (بادشاہت) آجائے گی۔ سعید بن جمہان نے کہا مجھ سے حضرت سفینہ نے کہا حضرت ابوبکر کی خلافت اور حضرت عمر کی خلافت اور حضرت عثمان کی خلافت اور حضرت علی خلافت کو گنو، ہم نے ان کا میزان کیا تو وہ تیس سال تھے۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٢٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٦٤٦، ٤٧، ٤٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٦٥٧، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦١٣، ٦٤٤٢، الکامل لابن عدی ج ٣ ص ١٢٣٧ المستدرک ج ٣ ص ٧١ دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٦ ص ٣٤١، ٣٤٢، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٣٨٦٥، تاریخ و مشق الکبیر ج ٤ ص ١٨٣ رقم الحدیث : ١٠٤٧ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ 

امام فخر الدین محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

یہ آیت خلفاء راشدین کی خلافت کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے، کیونکہ جو مومنین صالحین سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں موجود تھے ان سے اللہ تعالیٰ نے زمین میں خلافت عطا فرمانے کا وعدہ فرمایا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور اللہ نے تمم میں سے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے کہ وہ ان کو ضرور بہ ضرور زمین میں خلافت عطا فرمائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو خلافت عطا کی تھی اور ضرور بہ ضرور ان کے اس دین کو محکم اور مضبوط کر دے گا جس کو اس نے ان کے لئیپ سند فرما لیا ہے اور ضرور بہ ضرور ان کے خوف کی کیفیت کو امن سے بدل دے گا اور یہ بات معلوم ہے کہ یہ وعدہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد پورا ہونا تھا، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ آپ کی وفات کے بعد ہی مقرر کیا جانا تھا اور یہ بھی معلوم ہے کہ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہونا تھا کیونکہ آپ خاتم الانبیاء ہیں، اور یہ بھی معلوم ہے کہ یہ خلیفہ حضرت ابوبکر، حضرت عمر اور حضرت عثمان (رض) کے ایام حکومت میں ہی مقرر کیا گیا ہے، کیونکہ ان ہی ایام میں فتوح عظیمہ ہوئی ہے اور زمین پر اقتدار حاصل ہوا ہے اور دین کا غلبہ ہوا ہے اور امن برپا ہوا ہے، اور یہ چیزیں حضرت علی (رض) کے دور خلافت میں حاصل نہیں ہوئیں کیونکہ آپ اپنے پورے دور حکومت میں مسلمانوں میں سے اپنے مخالفین کے ساتھ جنگ میں مشغول رہے اور آپ کو کفار کے خلاف جنگ کرنے کی فرصت نہیں ملی۔ پس معلوم ہوا کہ اس آیت میں ان خلفاء کی خلافت کے برحق ہونے کی دلیل ہے۔

دلائل مذکورہ پر اعتراضات کے جوابات 

اس تقریر پر چند اعتراضات ہیں ہم ان اعتراضات کو مع ان کے جوابات کے پیش کر رہے ہیں :

(١) اس آیت کے ظاہر معنی پر عمل نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ ہر مومن صالح کو خلیفہ بنادیا جائے اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ” منکم “ میں من تبعیضیہ موجود ہے یعنی تم میں سے بعض کو خلیفہ بنایا جائے گا۔

(٢) لیستخلفنھم کا یہ معنی نہیں کہ وہ تم کو خلیفہ بنائے گا اس کا یہ معنی بھی ہوسکتا ہے کہ وہ تم کو زمین میں ٹھہرنے اور رہنے کی جگہ دے گا جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں کو زمین میں بسایا تھا اور آباد کیا تھا، اور اس کی دلیل یہ ہے کہ پہلے لوگوں کو بھی زمین میں بسایا تھا انک و زمین کی خلافت نہیں دی تھی۔ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر خلیفہ بنانے کا معنی لوگوں کو زمین میں بسانا اور آباد کرنا ہو تو یہ معنی تو تمام مخلوق کے لئے حاصل ہے پھر اس میں مومنین صالحین کی کیا خصوصیت ہے اور ان کو بشارت دینے کی کیا وجہ ہے۔

(٣) اگر یہ مان لیا جائے کہ اس سے مراد زمین میں خلیفہ بنانا ہے تو اس سے یہ کب لازم ہے کہ اس سیم راد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا خلیفہ بنانا ہے، کیونکہ تمہارا مذہب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تھا اور حضرت علی نے فرمایا تھا میں تم کو اس طرح چھوڑ دیتا ہوں جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تمہیں چھوڑ دیا تھا، اس کا جواب یہ ہے کہ ہرچند کہ ہمارا مذہب یہ ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معین کر کے کسی کو خلیفہ نہیں بنایا تھا تاہم آپ نے خلافت کے ایسے اوصاف بیان کردیئے تھے جو ان پر صادق آتے ہیں اور آپ نے ایسے اشارات کئے جو حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کی تعیین کرتے ہیں۔ مثلاً آپ نے بہ اصرار اور بہ تاکید ایام علالت میں حضرت ابوبکر کو نمازوں کا امام بنانے کا حکم دیا، اور ایام علالت میں حضرت ابوبکر نے سترہ نمازیں پڑھائیں اور آپ نے دو بار حضرت ابوبکر کی اقتداء میں نماز پڑھی۔ (صحیح ا لبخاری رقم الحدیث : ٢٣٨٣) حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ایام مضر میں مجھ سے فرمایا : میرے لئے اپنے باپ ابوبکر اور اپنے بھائی کو بلائو تاکہ میں ایک مکتوب لکھ دوں، کیونکہ مجھے یہ خدشہ ہے کہ کوئی تمنا کرنے والا تمنا کرے گا اور کہے گا ” میں ہی ہوں اور کوئی نہیں ہے “ اور اللہ اور مومنین ابوبکر کے غیر کا انکار کردیں گے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث، ٢٣٨٧) حضرت جبیر بن مطعم (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک خاتون آئیں اور آپ سے کچھ دریافت کیا۔ آپ نے فرمایا پھر آنا، اس نے کہا یا رسول اللہ ! یہ بتلائیں کہ اگر میں آپ کو پھر نہ پائوں تو ؟ اس کا مطلب تھا اگر آپ فوت ہوجائیں تو ؟ آپ نے فرمایا پھر تم ابوبکر کے پاس آنا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٥٩ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨٦) حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو ذات السلاسل کے لشکر کا امیر بنا کر بھیجا، میں جب واپس پہنچا تو میں نے پوچھا آپ کو لوگوں میں سب سے زیادہ کون محبوب ہے ؟ فرمایا عائشہ ! پوچھا مردوں میں ؟ فرمایا اس کا باپ ! پوچھا پھر کون ہے ؟ فرمایا عمر ! پھر آپ نے کئی لوگوں کے نام گنوائے تو میں اس خیال سے خاموش رہا کہ شاید میرا نام سب کے آخر میں آئے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٣٥٨ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٣٨٤) محمد بن حنفیہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (حضرت علی) سے پوچھا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد سب سے افضل کون ہے فرمایا ابوبکر، میں نے کہا پھر کون ہے فرمایا عمر، مجھے خوف ہوا کہ اب آپ حضرت عثمان کا نام لیں گے میں نے کہا پھر آپ ہیں ؟ فرمایا میں تو صرف مسلمانوں میں سے ایک مسلمان ہوں ! (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٧١) حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احد پہاڑ پر چڑھے اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر اور حضرت عثمان (بھی چڑھے) وہ پہاڑ ان کی وجہ سے ہلنے لگا آپ نے اس پر اپنا پیر مارا اور فرمایا ” اے احد ساکن ہوجا “ تجھ پر صرف ایک نبی ہے، ایک صدیق ہے اور دو شہید ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٨٦)

(٤) یہ کیوں نہیں ہوسکتا کہ اس آیت میں حضرت علی کو خلیفہ بنانے کی بشارت ہو کیونکہ کبھی واحد کو بھی تعظیماً جمع کے ساتھ تعبیر کرلیا جاتا ہے اس لئے ہوسکتا ہے کہ اس آیت میں مومنین صالحین سے حضرت علی مراد ہوں ! اس کا جواب یہ ہے کہ جمع کو واحد پر محمول کرنا مجاز اور خلاف اصل ہے۔

(٥) اگر جمع سے واحد سے زیادہ ہی مراد ہوں تو اس سے بارہ امام کیوں نہیں مراد ہوسکتے ! اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں ان لوگوں سے خطاب ہے جو عہد رسالت میں موجود تھے، اور بارہ امام اس وقت موجود نہ تھے۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جن سے خلافت کا وعدہ کیا ہے ان کو قوت اور شوکت اور فرمانروائی عطا فرمانے کا بھی وعدہ کیا ہے اور ان بارہ اماموں میں سے آخری دس کو تو بہرحال اپنے اپنے زمانوں میں قوت، شوکت اور فرمانروائی حاصل نہ تھی۔

آیت استخلاف سے صرف حضرت علی، بارہ امام، یا امام مہدی کے مراد نہ ہونے پر دلائل 

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت سے بہ کثرت علماء نے خلفاء اربعہ (رض) کی خلافت کے برحق ہونے پر استدلال کیا ہے، کیونکہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کو خلافت عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے جو آپ کے زمانہ میں وجود تھے اور ان کے دین کو اقتدار عطا کرنے کا اور دشمنوں سے ان کو امن عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے، اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ پورا ہونا ضروری ہے کیونکہ اس کے وعدہ کا پورا نہ ہونا محال ہے اور یہ مجموعہ (خلافت، دین کا اقتدار اور دشمنوں سے امن) صرف خلفاء اربعہ کے عہد میں حاصل ہوا ہے۔ سو ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے خلیفہ بنانے سے برحق خلیفہ تھا، اور اس آیت سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپ کے زمانہ کے تمام حاضرین کو خلیفہ بنادیا جاتا بلکہ خلافت ان حاضرین میں منعقد ہونی تھی (جیسے کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے اندلس کو فتح کیا تھا، اور مسلمانوں نے تین براعظموں پر حکومت کی تھی اور مسلمانوں نے انگریزوں سے آزادی حاصل کی تھی) اس لئے اس آیت میں خطاب کا عام ہونا اور من کا بیانیہ ہونا صرف ان چار کے خلیفہ ہونے کے منافی نہیں ہے، اسی طرح حضرت عثمان اور حضرت علی (رض) کے زمانوں میں فتنوں اور شورشوں کا برپا ہونا بھی امن کی بشارت کے منافی نہیں ہے کیونکہ اس آیت میں جس امن کی بشارت دی گئی ہے اس سے مراد دشمنان دین اور کفار سے امن ہے اور حضرت عثمان اور حضرت علی کے زمانوں میں جو فتنے اٹھے تھے، وہ مسلمانوں کی بغاوت کی وجہ سے تھے وہ محض اندرونی خلفشار تھا، بیرونی خطرہ نہیں تھا۔

امام رازی اور بعض دیگر علماء اہل سنت نے اس آیت سے شیعہ کے خلافصرف خلفاء ثلاثہ کی خلافت پر دلیل قائم کی ہے۔ کیونکہ شیعہ ان تنیوں کی خلافت کا انکار کرتے ہیں اور انہوں نے اس آیت سے حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی خلافت کے برحق ہونے پر استدلال نہیں کیا۔ حضرت علی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت شیعہ کے نزدیک مسلم ہے اور دونوں فریقوں کے نزدیک حضرت علی کی خلافت کے دلائل بہت زیادہ ہیں، اس لئے انہوں نے کہا کہ عہد رسالت میں مومنین صالحین کی جو جماعت حاضر تھی اس سے اللہ تعالیٰ نے خلافت، اقتدار اور امن عطا کرنے کا وعدہ فرمایا اور یہ وعدہ صرف ان تین خلفاء کے زمانہ میں پورا ہوا۔ امام مہدی اس آیت کے نزول کے زمانہ میں قطعاً اور بالا جماع موجود نہ تھے، اس لئے اس آیت کو ان کے ساتھ وعدہ پر محمول نہیں کیا جا سکت اور حضرت علی (رض) ہرچند کہ اس آیت کے نزول کے وقت موجود تھے لیکن ان کے زمانہ میں دین اسلام کی نشر و اشاعت کما حقہ نہیں ہوسکی اور اسلامی فتوحات اور دین کو مزید اقتدار حاصل نہیں ہوا، بلکہ کتب شیعہ میں یہ تصریح ہے حضرت علی اور ان کے حامی شیعہ اپنے دین کو چھپا کر رکھتے تھے اور بہ طور تقیہ مخالفین کے دین کو ظاہر کرتے تھے اس لئے حضرت علی (رض) کے زمانہ میں کامل امن حاصل نہیں ہوا تھا۔

شام، مصر اور مغرب کے مسلمان حضرت علی کی خلافت کا مطلقاً انکار کرتے تھے اور ان کے احکام کو قبول نہیں کرتے تھے اور شیعہ کے زعم کے مطابق وہ کافر تھے اور حضرت علی کے لشکر کی اکثریت ان مسلمانوں سے ڈرتی تھی اور ان سے بہت زیادہ محتاط رہتی تھی، اس وجہ سے صرف حضرت علی (رض) کو اس آیت کا مصداق قرار دینا صحیح نہیں ہے، کیونکہ شیعہ کے اصول کے مطابق جمع کے افراد کم از کم تین ہیں اور جمع کا واحد پر اطلاق ان کے نزدیک صحیح نہیں ہے۔ اس وجہ سے بھی صرف حضرت علی (رض) کو اس آیت کا مصداق قرار دینا صحیح نہیں ہے اور بارہ اماموں میں سے بقیہ امام بعد میں پیدا ہوئے لہٰذا وہ اس آیت کی مراد نہیں ہوسکتے، کیونکہ ان کو زمین میں اقتدار حاصل نہیں ہوا تھا، نہ ان کے سندیدہ دین کا رواج ہوا تھا اور نہ ان کو دشمنوں کے خوف اور خطرہ سے امن اور اطمینان حاصل ہوا تھا، بلکہ وہ علماء شیعہ کی تصریح کے مطابق دین کے دشمنوں سے خوف زدہ رہتے تھے اور تقیہ کرتے تھے اور اس پر شیعہ علماء کا اجماع ہے، سو اس سے لازم آیا کہ خلفاء ثلاثہ ہی اس آیت کے مصداق ہیں۔ لہٰذا ان کی خلافت برحق ہے اور یہی مطلوب ہے۔ (روح المعانی جز 18 ص 301 مطبوعہ دارالفکر بیروت، 1417 ھ)

حضرت علی کی خلافت کا برحق ہونا خلفاء ثلاثہ کیخلافت کے برحق ہونے پر موقوف ہے 

امام رازی اور علامہ آلوسی نے جو آیت استخلاف کی تقریر کی ہے اس میں لکھا ہے کہ اس آیت سے خلفاء ثلاثہ کیخلافت کا برحق ہونا ثابت ہے اور صرف حضرت علی (رض) کی خلافت اس آیت سے ثابت نہیں ہے۔ انہوں نے روا فض اور شیعہ کا رد کرنے کے لئے ایسا کہا ہے کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ اس آیت سے خلفاء ثلاثہ کی خلافت ثابت نہیں ہے صرف حضرت علی، بارہ اماموں یا حضرت مہدی کی خلافت ثابت ہے جیسا کہ عنقریب کتب شیعہ کے حوالوں سے آئے گا، اور اہل سنت کے نزدیک حضرت علی (رض) کی خلافت خلفاء ثلاثہ کی خلافت کی فرع ہے اور جب خلفاء ثلاثہ کی خلافت صحیح اور ثابت ہے تو حضرت علی (رض) کی خلافت کی صحت بھی ثابت ہوگی اس کے لئے الگ دلائل دینے کی ضرورت نہیں جیسا کہ حسب ذیل احادیث اور آثار سے ظاہر ہے۔

حضرت عمر (رض) نے فرمایا اس خلافت کا ان لوگوں سے زیادہ کوئی حق دار نہیں ہے جن سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے وصال کے وقت راضی تھے پھر انہوں نے یہ نام لئے، حضرت علی، حضرت عثمان، حضرت زبیر، حضرت طلحہ، حضرت سعد اور حضرت عبدالرحمٰن (رض) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٧٠٠ الطبقات الکبریٰ ج ٣ ص ٤٥ جدید تاریخ دمشق الکبیر لابن عساکر ج ٤١ ص ١٢٣ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)

امام ابن عساکر متعدد اسانید سے روایت کرتے ہیں کہ دو دن تک اس پر بحث ہوتی رہی لیکن کوئی فیصلہ نہ ہوا، آخر تیسرے دن حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے کہا کہ وصیت کے مطابق خلافت چھ آدمیوں میں دائر ہے لیکن اس کو تین شخصوں تک محدود کردینا چاہیے اور جو اپنے خیال میں جس کو زیادہ مستحق سمجھتا ہو اس کا نام لے۔ حضرت زبیر نے حضرت علی کا نام لیا، حضرت عسد نے حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کا نام لیا، حضرت طلحہ نے حضرت عثمان کا نام لیا، حرت عبدالرححمٰن بن عوف نے کہا میں اپنے حق کو چھوڑتا ہوں، اب خلافت صرف دو آدمیوں میں منحصر ہے اور ان دونوں میں سے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ اور سنت شیخین کی پابندی کا عہد کرے گا اس کے ہاتھ پر بیعت کی جائے گی، اس کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے الگ الگ حضرت عثمان اور حضرت علی سے کہا کہ آپ دونوں اس کا فیصلہ میرے ہاتھ میں دے دیں، ان کی رضا مندی کے بعد حضرت عبدالرحمٰن بن عوف اور دیگر صحابہ مسجد میں جمع ہوئے، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف نے ایک مئوثر تقریر کے بعد حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کرلی، پھر حضرت علی نے بیعت کی پھر تمام مسلمانوں نے حضرت عثمان کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔

(تاریخ دمشق الکبیر لا بن عساکر ج ٤١ ص 124-128 ملحضاً ، داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ الطبقات الکبریٰ ج ٣ ص 44-46 ملحضاً دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

اس حوالے سے واضح ہوگیا کہ تمام صحابہ کا اس پر اجماع تھا کہ حضرت عثمان ایح رضتع لی میں سے کسی ایک کو خلیفہ بنایا جائے اور جب حضرت عثمان (رض) شہید ہوگئے تو حضرت علی (رض) خلافت کے لئے معین ہوگئے اور آپ کی خلافت پر تمام صحابہ کا اجماع ہوگیا اور اس سے یہ بھی معلوم ہوگیا کہ حضرت علی (رض) کی خلافت خلفاء ثلاثہ کی خلافت کی فرع ہے۔

آیت استخلاف سے شیعہ مفسرین کا حضرت علی، بارہ اماموں اور امام مہدی کی خلافت پر استدلال

شیخ الطائفہ ابوجعفر محمد بن الحسن الطوسی المتوفی ٤٦٠ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں خلیفہ بنانے سے مراد امارت اور خلافت عطا کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے مراد گزرے ہوئے لوگوں کی طرح ان کو زمین میں باقی رکھنا ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے :

(فاطر : ٣٩) وہی ہے جس نے تمک و زمین میں آباد کیا۔

(الاعراف : ١٢٩) (موسیٰ نے) کہا اللہ بہت جلد تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اور ان کی بجائے تم کو اس زمین میں آباد کر دے گا۔

پس اس آیت میں جس استخلاف اور اقتدار عطا کرنے کا وعدہ فرمایا ہے وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی حاصل تھا جب اللہ تعالیٰ نے آپ کے دشمنوں کو ہلاک کردیا آپ کے پیغام اور آپ کے دین کو غلبہ عطا فرمایا اور اسلام کو پھیلا دیا تو یہ وعدہ پورا ہوگیا، اور ہم اس سے اللہ تعالیٰ کی پناہ چاہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی زندگی میں آپ کے دین کو سربلند نہیں کیا، حتیٰ کہ بعد میں آنے والوں نے اس کام کی تلافی کی، اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے جس اقتدار عطا فرمانے کا ذکر فرمایا ہے اس سے مراد ملکوں اور شہروں کو فتح کرنا نہیں ہے ورنہ لازم آئے گا کہ اللہ کے دین کو ابیھ تک غلبہ اور اقتدار حاصل نہیں ہوا، کیونکہ بہت سارے ممالک ابھی تفتح نہیں ہوئے اور کفار کے قبضہ میں ہیں، اور اس سے یہ بھی لازم آئے گا کہ (حضرت) معاویہ اور بنوامیہ کی امامت بھی برحق ہو اور ان کا اقتدار (حضرت) ابوبکر اور (حضرت) عمر سے زیادہ وسیع ہو، کیونکہ انہوں نے ان سے زیادہ مکلوں کو فتح کیا ہے۔

اور اگر ہم یہ مان لیں کہ اس آیت میں استخلاف سے مراد خلیفہ اور امام بنانا ہے تو لازم آئے گا کہ ان کی (حضرت ابوبکر وغیرہ کی) خلافت منصوص ہو حالانکہ ہمارے مخلافین کا مذہب یہ ہے کہ کسی کی خلافت منصوص نہیں ہے اور اگر وہ اس آیت سے ان کی امامت کی صحت پر استدلال کریں تو لازم آئے گا کہ وہ بغیر آیت کے ان کی امامت پر استدلال کریں اور ان کو خلفاء رسول قرار دیں حتیٰ کہ یہ آیت ان کو شامل ہو۔

اگر وہ یہ کہیں کہ مفسرین نے ان کی خلافت کا ذکر کیا ہے تو ہم کہیں گے کہ تمام مفسرین نے اس کا ذکر نہیں کیا کیونکہ مجاہد نے ذکر کیا ہے کہ اس سے مراد امت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہے، اور حضرت ابن عباس وغیرہ نے بھی تقریباً یہی کہا ہے۔

اور اہل بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد مہدی (علیہ السلام) ہیں، کیونکہ وہ ڈر اور خوف کے بعد ظاہر ہوں گے اور مغلوب ہونے کے بعد غالب ہوں گے۔ لہٰذا اہل سنت کی تفسیر کے مطابق اس پر اجمامع نہ ہوا، ہم کسی ایک تفسیر پر طعن نہیں کر رہے، ہماری مراد یہ ہے کہ اس آیت میں خلافت اور امامت پر دلالت نہیں ہے، اور اگر ایسا ہوتا تو اس کے اختیار کرنے پر دلائل کی ضرورت نہ پڑتی، اور پھر خلفاء ثلاثہ کی خلافت منصوص ہوتی اور یہ اکثر علماء کا مذہب نہیں ہے۔ (التبیان فی تفسیر القرآن ج ٧ ص 456-457 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

الشیخ ابو علی الفضل بن الحسن الطبرسی المتوفی فی القرن السادس (٦٠٠ ھ) لکھتے ہیں :

العیاشی نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت علی بن الحسین (علیہ السلام) نے اس آیت کو پڑھا اور فرمایا اللہ کی قسم اس سے مراد ہمارے شیعہ اہل بیت ہیں، ہم میں سے ایک شخص کو اللہ تعالیٰ یہ خلافت دے گا اور وہ اس امت کے مہدی ہیں، جن کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے اگر دنیا کی بقاء میں سے صرف ایک دن رہ جائے تو اللہ اس دن کو طویل کر دے گا حتیٰ کہ میری اولاد سے ایک شخص والی ہوگا اور وہ اس دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دے گا جیسا کہ پہلے یہ دنیا ظلم اور ناانصافی سے بھری ہوئی تھی، اور ابو جعفر عبداللہ (علیہ السلام) سے بھی اسی کی مثل مروی ہے، لہٰذا اس آیت میں مومنین صالحین سے مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل بیت صلوات الرحمان ہیں اور یہ آیت ان کے لئے خلافت، شہروں پر اقتدار اور مراد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اہل بیت صلوات الرحمان ہیں، اور یہ آیت ان کے خلافت، شہروں پر اقتدار اور مہدی کی آمد کے وقت ان سے خوف کے زائل ہونے کی بشارت کو متضمن ہے اور اس خلافت سے مراد یہ ہے کہ جس طرح حضرت آدم، حضرت دائود اور حضرت سلیمان کو خلیفہ بنایا گیا تھا اسی طرح ان کو خلیفہ بنایا جائے گا، اس پر عترت طاہرہ کا اجماع ہے اور ان کا اجماع حجت ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا اشراد ہے کہ میں تم میں ثقلین (دو وزنی چیزیں) چھوڑ کر جا رہا ہوں ایک کتاب اللہ اور دوسری میری عترت میری اہل بیت۔ یہ دونوں ایک دور سے سے الگ نہیں ہوں گی حتیٰ کہ میرے پاس حوض ایک کاتب اللہ اور دوسری میری عترت میری اہل بیت۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے الگ نہیں ہوں گی حتیٰ کہ میرے پاس حوض پر آئیں گی۔ نیز زمین پر اقتدار عطا کرنے کو کسی زمانہ کے ساتھ مقید نہیں فرمایا۔ اضی میں اہل بیت کو یہ اقتدار حاصل نہیں ہوا، سو اس اقتدار کا انتظار ہے، کیونکہ اللہ عزاسمہ وعدہ خلافین ہیں کرتا۔ (مجمع البیان ج ٧ ص ٢٤٠، مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت، ١٤٠٦ ھ)

سید محمد حسین الطباطبائی لکھتے ہیں :

اس آیت میں جس خلافت، زمین پر اقتدار اور خوف کے بد امن کی بشارت دی گئی ہے وہ ابھی تک حاصل نہیں ہوئی، وہ اس وقت حاصل ہوگی جب حضرت مہدی کا ظہور ہوگا، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پھر اس آیت کی کیا توجیہ ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں سے وعدہ کیا ہے جو ایمان لائی اور انہوں نے نیک اعمال کئے اس کا جواب یہ ہے کہ یہ وعدہ مستقبل میں ضرور پورا ہوگا ہرچند کہ ابھی تک پورا نہیں اور اس کی نظیر یہ آیات ہیں :

(بنو اسرائیل : ٧) پھر جب دوسرے وعدہ کا وقت آیا (تو ہم نے دور سے لوگوں کو بھیج دیا) تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں۔

کیونکہ جن یہودیوں سے وعدہ کیا گیا تھا وہ اس وعدہ کے پورے ہونے کے وقت تک زندہ نہیں رہے تھے، اسی طرح اس آیت میں جن مومنین صالحین سے خلافت عطا کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے وہ بھی اس وقت تک زندہ نہیں رہیں گے جب حضرت مہدی کا ظہور ہوگا اور ان کو خلافت، زمین پر اقتدار اور خوف کے بعد امن عطا کر کے اس وعدہ کو پورا کیا جائے گا۔

اسی طرح ذوالقرنین نے دیوار بنانے کے بعد کہا :

(الکھف : ٩٨) (ذوالقرنین نے کہا) یہ صرف میرے رب کی رحمت ہے، پس جب میرے رب کا وعدہ پورا ہوگا تو وہ اس کو زمین بوس کر دے گا، اور میرے رب کا وعدہ برحق ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے قیامت کے وقوع کے متعلق وعدہ فرمایا :

(الاعراف : ١٨٧) وہ آسمانوں اور زمینوں میں بڑا بھاری حادثہ ہے اور تمہارے پاس صرف اچانک ہی آئے گی۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے مومنین صالحین سے ایک وعدہ فرمایا جس کو اس آیت کے زمانہ نزول نے نہیں پایا اور نہ اب تک مومنین صالحین کی کسی جماعت نے اس وعدہ کو پایا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور حق یہ ہے کہ وعدہ اسی زمانہ کے مومنین کی جماعت میں پورا ہوگا جب امام مہدی کا ظہور ہوگا (الی ان قال) اور رہا یہ کہ اس آیت کو خلفاء راشدین، یا خلفاء ثلاثہ یا خصوصاً حضرت علی (رض) پر منطبق کیا جائے تو اس کی کوئی سبیل نہیں ہے۔ (المیزان فی تتفسیر القرآن ج ١٥ ص 168-170 مطبوعہ دارالکتب الامیہ طہران، ١٣٩٧ ھ)

شیعہ علماء کی مبسوط اور مئوخر تفسیر میں اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے :

اس آیت کے مصداق میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے :

(١) بعض نے کہا پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں جن صحابہ نے زمین میں اقتدار حاصل کیا تھا، یہ آیت ان کے متعلق ہے۔

(ہ) بعض نے کہا اس میں پہلے چار خلفاء کی حکومت کی طرف اشارہ ہے۔

(٣) ایک جماعت نے کہا اس میں مہدی (علیہ السلام) کی حکومت کی طرف اشارہ ہے، جن کی حکومت میں تمام مشرق و مغرب ان کے جھنڈے کے نیچے ہوں گے۔

(٤) اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلے تمام مسلمان اس آیت میں شامل ہیں اور اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ مہدی (علیہ السلام) جن کے متعلق شیعہ اور سنی متفق ہیں کہ وہ تمام دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جبکہ وہ پہلے ظلم اور ناانصافی سے بھری ہوگی وہ اس آیت کے مصداق کامل ہیں۔ (تفسیر نمونہ ج ١٤ ص ٥٣٠ مطبعہ دارالکتب الاسلامیہ ایران، 1396 ھ)

علماء شیعہ کی تفسیروں پر مصنف کا تبصرہ 

شیخ الطائفہ الطوسی نے اس پر زور دیا ہے کہ اس آیت میں خلیفہ بنانے سے مراد ایک قول کے بعد دوسری وقم کو آباد کرنا ہے، لیکن اگر یہی معنی مراد ہو تو پھر اس میں مومنین صالحین کی کیا خصوصیت رہ جاتی ہے، کیونکہ کافروں کی بھی ایک قوم کے بعد دوسری قوم کو زمین میں آباد کیا گیا۔ نیز اس آیتک و مئومنین صالحین کے الئے انعام اور بشارت کے طور پر ذکر کیا گیا ہے اور محفل زمین پر آباد کرنے میں ان کے لیء کیا انعام اور کیا بشارت ہے، ان کا دورسا اعتراض یہ ہے کہ اس آیت سے خلفاء ثلاثہ کو مراد لینے پر تمام صحابہ کا اجماع نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا اس آیت سے مراد تمام امت ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر صحابہ کا اجماع نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا اس آیت سے مراد تمام امت ہ، اس کا جواب یہ ہے کہ تمام صحابہ کا اجماع نہیں ہے، کیونکہ حضرت ابن عباس اور مجاہد نے کہا اس آیت سے مراد تمام امت ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اکثر صحابہ اور اکثر مفسرین کا یہی مختار ہے کہ اس آیت کا مصداق خلفاء ثلاثہ ہیں اور حضرت عباس اور مجاہدہ کا اخلاف نہیں مضر نہیں ہے، کیونکہ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ اور تمام مفسرین کسی ایک تفسیر پر متفق ہوں۔

شیخ طبری اور شیخ طباطبائی نے اس پر زور دیا ہے کہ اس آیت کا مصداق امام مہدی ہیں۔ ان کا دعویٰ دو وجہ سے غلط ہے ایک اس وجہ سے کہ اس آیت میں خلافت ز، میں پر اقتدار اور امن عطا کرنے کا وعدہ ان مومنین صالحین سے کیا گیا ہے جو عہد رسالت میں حاضر اور موجود تھے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا (؎ النور : ١٥٥) 

اور امام مہدی تو ابھی تک پیدا بھی نہیں ہوئے اور دوسری وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے یہ وعدہ مومنوں کی جماعت سے کیا ہے اور خلفاء ثلاثہ پر جمع کا اطلاق صحیح ہے اور امام مہدی ایک فرد ہیں ان پر جمع کا اطلاق صحیح نہیں ہے۔

تفسیر نمونہ میں امام مہدی کو قطعی طور پر اس آیت کا مصداق قرار نہیں دیا بہرحال اس آی سے امام مہدی کو مراد لینے کا وہی جواب ہے جو ہم ابھی ذکر کرچکے ہیں۔ نیز تفسیر نمونہ میں اس قول کو بھی برقرار رکھا ہے کہ اس آیت سے چار خلفاء کی طرف اشارہ ہے۔

اس امت کی پہلی اجتماعی ناشکری قتل عثمان ہے 

اس آیت کے آخر میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اور جن لوگوں نے اس کے بعد ناشکری کی تو وہی لوگ فاسق ہیں۔

امام الحسین بن مسعود الفرا البغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

ومن کفر بعد ذلک میں کفر سے مراد کفران نعمت ہے اور اس سے کفر باللہ مراد نہیں ہے، اور فاسقوں سے مراد اللہ کی نافرمانی کرنے والے ہیں۔ مفسرین نے کہا ہے کہ سب سے پہلے جنہوں نے اس نعمت کا کفر کیا وہ لوگ ہیں جنہوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کیا تھا جب انہوں نے حضرت عثمان (رض) کو شہید کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ان کو جو امن کی نعمت عطاکیھی، وہ واپس لے لی اور ان پر خوف مسلط کردیا حتیٰ کہ وہ ایک دور سے کو قتل کرنے اور خوں ریزی میں مشغول ہوگئے، حالانہ ان سے پہلے وہ بھائی بھائی تھے۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٢٧، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)

حمید بن بلال کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن سلام (رض) نے حضرت عثمان (رض) کے متعلق کہا جب سے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ میں آئے تھے اس وقت سے آج تک فرشتہ تمہارے مدینہ کا احاطہ کئے ہوئے ہیں، پسا للہ کی قسم اگر تم نے عثمان (رض) کو قتل کردیا تو وہ فرشتے لوٹ جائیں گے اور پھر کبھی نہیں آئیں گے۔ پس اللہ کی قسم تم میں سے جو شخص بھی ان کو قتل کرے گا وہ اللہ سے اس حال میں ملاقات کرے گا کہ اس کا ہاتھ سوکھا ہوا (شل، مفلوج) ہوگا۔ بیشک اللہ کی تلوار تم سے اب تک میان میں رکھی ہوئی ہے اور اللہ کی قسم اگر تم نے ان کو قتل کردیا تو اللہ اپنی تلوار کو میان سے نکال لے گا پھر کبھی اس تلوار کو میان میں نہیں رکھے گا یا کہا قیامت تک میان میں نہیں رکھے گا، اور جب بھی کسی نبی کو قتل کیا گیا تو اس کے بدلہ میں ستر ہزار افراد قتلکئے گئے اور جب بھی کسی خلیفہ کو قتل کیا گیا تو اس کے بدلہ ٣٥ ہزار نفوس قتل کئے گئے۔ (اس کی سند ضعیف ہے)

(مصنف عبدالرزاق رقم الدیث : ٢٠٩٦٣ مکتب اسلامی، رقم الحدیث : ٢١١٢٩، دارالکتب العلمیہ بیروت، معالم التنزیل رقم الحدیث : ١٥٤٥، داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام ابوالقاسم علی بن الحسن ابن عساکر المتوفی ٥٧١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت زبیر بن عوام (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : آج کے بعد کسی کو باندھ کر قتل نہیں کیا جائے گا، ماسوا قاتل عثمان کے۔ تم اس کو قتل کردو گے اگر تم نے اس کو ذبح نہیں کیا تو تم کو بکریوں کی طرح ذبح کئے جانے کی بشارت ہو۔

(تاریخ دمشق الکبیرج ٤١ ص ٢٩٤ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ الکامل لابن عدی ج ٧ ص ٥٤٤، دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ کی تلوار اس وقت تک میان میں رہے گی جب تک عثمان (رض) زندہ رہیں گے اور جب عثمان کو قتل کردیا جائے گا تو وہ تلوار میان سے باہر نکل آئے گی پھر قیامت تک وہ تلوار میان میں داخل نہیں ہوگی۔ (تاریخ دمشق الکبیرج ٤١ ص ٢٩٤ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ، کنز العمال رقم الحدیث : ٣٢٨٦٦ )

حافظ السویطی متوفی ٩١١ ھ نے لکھا ہے اس حدیث کی سند موضوع ہے، اس کی آفت عمرو بن فائد ہے اور اس کا شیخ ابن عدی بھی کذاب ہے، حافظ ذہبی نے کہا ہے کہ اس حدیث کی نکارت ظاہر ہے۔ (میزان الاعتدال رقم : ٦٤٢١) (اللالی المصنوعۃ ج ١ ص 290 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ)

حکمران دنیاوی امور کے منتظم ہیں اور علماء دینی امور کے 

امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ھوازن القشیری نیشا پوری متوفی ٤٦٥ ھ لکھتے ہیں :

اللہ کا وعدہ برحق ہے اور اس کا کلام صادق ہے، اور یہ آیت خلفاء اربعہ کی خلافت کیصحت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس پر اجماع ہے کہ ان کے دور سے لے کر آج تک کوئی شخص ان سے زیادہ افضل نہیں ہے۔ ان کی امامت قطعی ہے، ان کا دین اللہ کی طرف سے پسندیدہ ہے ان کو خوف کے بعد امن حاصل ہوا۔ انہوں نے مسلمانوں کے داخلی اور خارجی معاملات کو عمدگی کے ساتھ طے کیا اور اسلام کا دفاع کیا۔

اس آیت میں ان ائمہ دین کی طرف اشارہ ہے جو ارکان ملت ہیں، اسلام کے سوتن ہیں اور مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں، کیونکہ مسلمانوں کے معاملات میں ظالم حاکموں کی وجہ سے فساد آیا تھا جن کا نصب العنی صرفدنیاوی اقتدار تھا، رہے دین کی حفاظت کرنے والے تو وہ ائمہ دین اور علماء ہیں اور ان کی حسب ذیل اقسام ہیں :

(١) علماء کا ایک گروہ وہ ہے جنہوں نے قرآن مجید کو حفظ کیا اور اس کی اشاعت کی اور رسلو اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی احادیث اور آثار کو محفوظ اور مدون کیا یہ علماء بہ منزلہ خزانہ ہیں۔

(٢) علماء کا دوسرا گروہ وہ ہے جنہوں نے اصول دین اور عقائد کی حفاظت کی اور بد عقیدہ معاندین اور اہل بدعت کا قرآن و سنت کے واضح دلائل سے رد کیا، یہ علماء سالام کے بہدر مجاہد ہیں۔

(٣) علماء کا تیسرا اگر وہ دو فقہاء اور مجتہدین ہیں جو پیش آمدہ دینی مسائل اور معاملات میں عوام کی روہنمائی کریت ہیں اور کتاب و سنت اور اقوال مجتہدین سے فتاویٰ جاری کرتے ہیں۔ یہ علماء ملک کی قوت ناذفہ کے قائم مقام ہیں اور اس دور کی اصطلاح کے مطباق حسب مرتاب ججوں کے عہدوں پر فائز ہیں۔

(٤) علماء کا چوتھا گروہ وہ ہے جو لوگوں کو بیعت کرتے ہیں ان کو گناہوں سے توبہ کراتے ہیں ان کو نیک اعمال کی تلقین کرتے ہیں ان کو اور ادو وظائف کی تعلیم دیتے ہیں، ان کے دلوں سے معصیت کا زنگ اور میل کچیل اتار کر ان کا باطن صاف کرتے ہیں اور ان کا تزکیہ کرتے ہیں ان کے دلوں میں اللہ عزوجل اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی معفرت اور محبت کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ یہ بادشاہ کے خواص اور مجلس سطان کے مقربین کے منزلہ میں ہیں۔

محبت کے چراغ روشن کرتے ہیں۔ یہ بادشاہ کے خواص اور مجلس سلطان کے مقربین کے منزلہ میں ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ سلاطین اور حکمران مسلمانوں کے دنیاوی امور کے منتظم ہوتے ہیں اور علماء مسلمانوں کی دینی امور کے منتظم ہوتے ہیں ،۔ یہ تقسیم بعد کے سلاطین اور حکمرانوں کے اعتبار سے ہے، رب خلفاء راشدین تو وہ مسلمانوں کے دنیاوی امور کے بھی وکیل تھے اور ان کے دینی امور کے بھی کفیل تھے۔ (الطاف الاشارات ج ٢ ص 373-374 ملحضات و موضحاً مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢٠ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 24 النور آیت نمبر 55