حدیث نمبر 423

روایت ہے حضرت زید ابن خالد جہنی سے ۱؎ کہ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز دیکھوں گا ۲؎تو آپ نے دو ہلکی رکعتیں پڑھیں پھر دو رکعتیں دراز دراز دراز پڑھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلی دو سے ہلکی تھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلی دو سے ہلکی تھیں پھر دو رکعتیں پرھیں جو پہلی دو سے ہلکی تھیں پھر دو رکعتیں پڑھیں جو پہلی دو سے ہلکی تھیں پھر وتر پڑھے یہ تیرہ رکعتیں ہوئیں۳؎(مسلم)اس قول تک کہ پھر دو رکعتیں پڑھیں اور وہ دونوں اپنی پہلی سے کم تھیں،چار بار ۴ ؎ یوں ہی صحیح مسلم میں کتاب حمیدی کے افراد میں موطا امام مالک،سنن ابوداؤد اور جامع الاصول میں ہے۔

شرح

۱؎ آپ مشہور صحابی ہیں،مدنی ہیں،آخر میں کوفہ قیام رہا اور وہیں ۷۸ھ؁ میں وفات پائی۔

۲؎ کہنے سے مراد دل میں سوچنا ہے یا اپنے دوستوں سے کہنا۔غالبًا اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حجرے سے باہر نماز پڑھی ہوگی انہیں دن میں پتہ لگ گیا ہوگا اس لیئے یہ ارادہ کیا۔شمائل ترمذی میں ہے کہ آپ فرماتے ہیں کہ اس رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازہ عالیہ کی چوکھٹ پر سر رکھ کر سویا تاکہ جب آپ یہاں سے گزرے تو انہیں خبر ہوجائے اور ان کے سر کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پاؤں شریف لگ جائے۔شعر

کافی کشتہ دیدار کو زندہ کرتےبخت خوابیدہ کو ٹھوکر سے جگاتے جاتے مبارک ہے وہ سر جو ان کی ٹھوکروں میں رہے

۳؎ اس طرح کہ دو ہلکی رکعتیں تحیۃ الوضو اور بالترتیب آٹھ رکعتیں تہجد اور تین رکعتیں و تر حضور صلی اللہ علیہ وسلم اکثر تہجد آٹھ رکعت پڑھتے تھے کبھی کم کبھی زیادہ کیونکہ آ پ پرنفس تہجد فرض تھی،رکعتوں کی تعداد میں اختیار تھا جیسے ہم پر نماز میں قرأت فر ض ہے مگر آیتوں کی تعداد میں ہمیں اختیار ہے۔یہ حدیث بھی امام اعظم کی قوی دلیل ہے کہ وتر تین ر کعت ہیں ایک سلام سے،اس حدیث کی عبارت ایسی واضح ہے جس میں کوئی تاویل نہیں ہوسکتی کیونکہ پہلے ذکر ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ بار میں دس رکعتیں پڑھیں تو اب ایک بار میں تین ہی وتر پڑھے۔

۴؎ یعنی اس روایت میں ہے کہ بہت دراز رکعتیں ایک دفعہ پڑھیں اور اس سے کم چار بار میں آٹھ رکعتیں اس صورت میں تہجد کی رکعتیں د س ہوئیں اور وتر تین تو اب یہ نماز تحیۃ الوضوء کے علاوہ ۱۳ رکعتیں ہوئیں۔صاحب مشکوۃ کا منشا یہ ہے کہ صاحب مصابیح نے تین بار ذکر کیا حالانکہ ان کتب میں چار بار ہے۔