وَقَالُوۡا مَالِ هٰذَا الرَّسُوۡلِ يَاۡكُلُ الطَّعَامَ وَيَمۡشِىۡ فِى الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مَلَكٌ فَيَكُوۡنَ مَعَهٗ نَذِيۡرًا۞- سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 7
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَقَالُوۡا مَالِ هٰذَا الرَّسُوۡلِ يَاۡكُلُ الطَّعَامَ وَيَمۡشِىۡ فِى الۡاَسۡوَاقِ ؕ لَوۡلَاۤ اُنۡزِلَ اِلَيۡهِ مَلَكٌ فَيَكُوۡنَ مَعَهٗ نَذِيۡرًا ۞
ترجمہ:
اور کافروں نے کہا یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلتا ہے ؟ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا جو اس کے ساتھ (عذاب سے) ڈرانے والا ہوتا
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور کافروں نے کہا یہ کیسا رسول ہے جو کھانا کھاتا ہے اور بازاروں میں چلات ہے ؟ اس کے ساتھ کوئی فرشتہ کیوں نہیں نازل کیا گیا جو اس کے ساتھ (عذاب سے) ڈرانے والا ہوتا !۔ یا اس کی طرف کوئی خزانہ ڈال دیا جاتا یا اس کے پاس کوئی باغ ہوتا جس سے یہ کھاتا ! اور ظالموں نے کہا تم صرف ایک جادو کئے ہوئے شخص کی پیروی کرتے ہو۔ بھلا آپ دیکھیے انہوں نے آپ کے لئے کیسی مثالیں گھڑ رکھی ہیں، پس وہ گمراہی میں مبتلا ہوگئے اب وہ کسی طرح ہدایت پر نہیں آسکتے۔ (الفرقان : ٩-٧)
پیغام حق نہ سنانے پر کفار کا آپ کو مال اور حکومت کی پیشکش کرنا
امام ابن اسحاق، امام ابن جریر اور امام ابن المنذر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ عتبہ، شیبہ (ربیعہ کے دو بیٹے) ابوسفیان بن حرب، النضر بن الحارث، الوالجنتری، الاسود بن المطلب، زمعتہ بن الاسود، الولیدی بن المغیرہ، ابوجہل بن ہشام، عبداللہ بن امیہ، امیہ بن خلف، العاص بن وائل اور نبیہ بن الحجاج، سب جمع ہوئے اور بعض نے بعض سے کہا کہ (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس کسی کو بھیجو اور ان سے بات کرو، پھر انہوں نے آپ سے کہا کہ آپ کی قوم کے معزز لوگ جمع ہو کر آپ سے بات کرنے کے لئے آئے ہیں، پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کے پاس تشریف لائے تو انہوں نے آپ سے کہا ہم آپ کے پاس حجت قائم کرنے کے لئے آئے ہیں اگر آپ نے نبوت اور نزول وحی کا دعویٰ مال جمع کرنے کے لئے کیا ہے تو ہم آپ کو مال اکٹھا کر کے دے دیتے ہیں اور اگر آپ نے سرداری کی طلب میں یہ دعویٰ کیا ہے تو ہم آپ کو سردار مان لیتے ہیں اور اگر آپ نے سلطنت کی طلب میں یہ دعویٰ کیا ہے تو ہم آپ کو اس ملک کا حاکم مان لیتے ہیں۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے جتنی پیشکشیں کی ہیں، مجھے ان سے کوئی غرض نہیں ہے۔ میں تمہارے سے پاس مال طلبک رنے آیا ہوں نہ سرداری کی طلب میں اور نہ تم پر حکومت کی طلب میں، لیکن اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہاری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے اور مجھ پر کتاب نازل کی ہے اور مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں (ایمان لانے پر ثواب کی) بشارت دوں اور (کفر کرنے پر تمہیں عذاب سے) ڈرائوں۔ پس میں نے تمہیں اپنے رب کا پیغام پہنچا دیا اور تمہاری خیر خواہی کردی، سو اگر تم نے میرے پیغام کو قبول کرلیا تو یہ دنیا اور آخرت میں متہارے اجر کا حصہ ہے اور اگر تم نے میرے پیغام کو رد کردیا تو میں اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق صبر کروں گا حتیٰ کہ اللہ میرے اور تمہارے درمیان فیصلہ کر دے۔
انہوں نے کہا اے محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب تم نے ہماری پیشکش کو قبول نہیں کیا تو تم اپنے رب سے یہ سوال کرو کہ وہ تمہارے ساتھ ایک فرشتہ کو نازل کرے جو تمہارے پیغام کی تصدیق کرے اور پھر ہمیں بتائے، اور اللہ سے یہ سوال کرو کہ وہ تمہارے لئے باغات بنا دے اور تمہارے لئے سونے اور چاندی کے محلات بنا دے جو تمہیں فکر معاش سے مستغنی کردیں، کیونکہ تم تلاش معاش میں ہماری طرح بازاروں میں چلتے ہ، تاکہ ہم تمہاری فضیلت اور تمہارے رب کے نزدیک تمہاری قدر و منزلت کو جان لیں اور یہ کہ تم واقعی اللہ کے رسول ہو۔ آپ نے فرمایا میں تمہاری فرمائش پوری نہیں کروں گا اور نہ اپنے رب سے ان چیزوں کا سوال کروں گا۔ (الدرا المنثور ج ٦ ص ٦١٦ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)
کفار کے اس اعتراض کا جواب کہ آپ بازاروں میں چلتے ہیں !
مشرکین قریش نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر یہ اعترضا کیا تھا کہ آپ تجارت اور کسب معاش کے لئے بازاروں میں چلتے ہیں، ان کا یہ اعتراض بالکل لغو تھا، کیونکہ تجارت اور کسب معاش کے لئے بازاروں میں جانا مباح ہے۔ نیز جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسب معاش کے لئے بازاروں میں گئے تو امت کے لئے کسب معاش کے لئے بازاروں میں جانے کا نمونہ فراہم ہوگیا اور تجارت کرنا سنت اور باعث ثواب ہوگیا۔ قابل اعتراض چیز بازاروں میں شور کرنا اور بدکلامی کرنا ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان چیزوں سے پاک اور منزہ تھے۔
حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے تورات میں فرمایا : اے نبی ! ہم نے آپ کو شاہد، مبشر اور ان پڑھ قوم کی پناہ بنا کر بھیجا ہے آپ میرے بندے اور رسول ہیں میں نے آپ کا نام متوکل رکھا ہے۔ وہ نہ درشت کلام ہیں نہ بدزبان ہیں، نہ بازاروں میں شور کرنے والے ہیں اور نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے ہیں لیکن معاف کرتے ہیں اور درگزر کرتے ہیں، اور اللہ آپ کی روح اس وقت تک ہرگز قبض نہیں فرمائے گا جب تک آپ کی وجہ سے ٹیڑھی قوم کو سیدھا نہ کر دے، بایں طور کہ وہ کہیں لا الہ الا اللہ وہ آپ کے سبب سے اندھی آنکھوں کو بینا کر دے گا، اور بہرے کانوں کو کھول دے گا اور دلوں کے غلاف اتار دے گا۔
(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٨٣٨ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٠٣٤ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٩١، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٠٦، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٢٢ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٠٠)
جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میں تجارت کے لئے گئے تو صحابہ کرام (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی جانا شروع کیا :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے مہاجر بھائیوں کو بازاروں کی خریدو فروخت مشغول رکھتی تھی اور ہمارے انصاری بھائیوں کو کھیتی باڑی مشغول رکھتی تھی اور ابوہریرہ بھوکے پیٹ بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لازماً رہتا تھا اور ان احادیث کے سماع میں حاضر رہتا تھا جن سے وہ حاضر نہیں ہوتے تھے اور ان چیزوں کو یاد رکھنا تھا جکو وہ یاد نہیں رکھتے تھے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث :118، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣٦٥٥، السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٥٨٦٦ )
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 7