أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالَّذِيۡنَ لَا يَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰهِ اِلٰهًا اٰخَرَ وَلَا يَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِىۡ حَرَّمَ اللّٰهُ اِلَّا بِالۡحَـقِّ وَلَا يَزۡنُوۡنَ‌ ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ يَلۡقَ اَثَامًا ۞

ترجمہ:

اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرتے ہیں جس کے ناحق قتل کرنے کو اللہ نے حرام کردیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ کسی اور رمعبود کی عبادت نہیں کرتے اور نہ وہ ایسے کسی شخص کو قتل کرتے ہیں جس کے ناحق قتل کرنے کو اللہ نے حرام کردیا ہے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو ایسے کام کرے گا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا۔ قیامت کے دن ان کو دگنا عذاب دیا جائے گا اور وہ اس میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا۔ سوا اس کے جس نے توبہ کرلی اور ایمان لایا اور اس نے نیک اعمال کئے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔ (الفرقان : ٧٠-٦٨ )

حضرت وحشی کا قبول اسلام 

امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اس آیت کے شان نزول میں اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) عنھما بیان کرتے ہیں کہ کچھ مشرکین نے بہت زیادہ قتل کئے پھر وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آئے اور کہا آپ ہمیں جس دین کی طرف دعوت دیتے ہیں وہ بہت عمدہ ہے، کاش آپ ہمیں یہ بتادیں کہ ہم نے اس سے پہلے جو برے اعمال کئے ہیں ان کا کوئی کفارہ ہوسکتا ہے تب یہ آیات نازل ہوئیں۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠١٢٢، معالم التنزیل ج ٣ ص ٤٥٦ )

حافظ سلیمان بن احمد الطبرانی متوفی ٣٦٠ ھ اور حافظ ابو القاسم علی بن الحسن ابن عساکر متوفی ٥٧٠ ھ اپنی سند سے کیا ہے اور امام ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اور امام ابن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ نے بھی اپنی سندوں کے ساتھ اس کا ذکر کیا ہے۔ اس کی پوری تفصیل امام طبرانی، امام ابن جوزی کی روایات میں ہے :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت سیدنا حمزہ (رض) کے قاتل وحشی کو بلایا اور اس کو اسلام کی دعوت دی، اس نے کہا یا محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ مجھے اپنے دین کی کس طرح دعوت دے رہے ہیں حالن کہ آپ نے یہ کہا ہے کہ جس نے شرک کیا یا ناحق قتل کیا یبا زنا کیا وہ اپنے گناہوں کی سزا پائے گا۔ قیامت کے دن اس کے عذاب کو دگنا کردیا جائے گا اور وہ اس عذاب میں ذلت کے ساتھ ہمیشہ رہے گا (الفرقان : ٦٩-٦٨) اور میں یہ تمام کام کرچکا ہوں کیا آپ میرے لئے کوئی رخصت پاتے ہیں ؟ تو آپ نے یہ آیت پڑھی : سو اس کے جس نے توبہ کرلی اور ایمان لایا اور اس نے نیک اعمال کئے تو یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے (الفرقان : ٧٠) وحشی نے کا یا محمد ! یہ بہت سخت شرط ہے شاید میں اس توبہ پر قائم نہ رہ سکوں اور مججھ سے پھر کوئی گناہ ہوجائے تب آپ نے یہ آیت پڑھی :

(النسائ : ٤٨) بیشک اللہ اس کو نہیں بخشے گا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جائے اور اس سے کم گناہ کو جس کے لئے وہ چاہے گا بخش دے گا۔

پھر وحشی نے کہا یا محمد ! اس میں فرمایا ہے جس کے لئے اللہ چاہے گا سو میں نہیں جانتا کہ میری مغفرت ہو سکے گی یا نہیں کیا اس کے سوا اور کوئی صورت ہے ؟ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی :

(الزمر : ٥٣) آپ کہیے اے میرے وہ بندو ! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے ناامید ہو، بیشک اللہ تمہارے تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ لاریب وہ بہت بخشنے والا ہے بےحد رحم فرمانے والا ہے۔

تب وحشی نے کہا یہ وہی ہے جو میں چاہتا تھا پھر وہ مسلمان ہوگئے اور لوگوں نے کہا یا رسول اللہ ! اگر ہم سے وہ گناہ سر زد ہوجائیں جو وحشی سے سرزد ہوئے ہیں ڈ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ آیت تمام مسلمانوں کے لئے عام ہے۔

(المعجم الکبیرج ١١ ص 158 رقم الحدیث : ١١٤٨٠ تاریخ دمشق الکبیرج ٣ و ص 316 رقم الحدیث :4148، زاد المسیرج ٦ ص ١٠٤ مجمع الزوائد ج ٧ ص 101 جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠١٣٩ تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٤١٧)

اس حدیث سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلق عظیم کا اندازہ کیجیے جو آپ کے محبوب چچا کا قاتل تھا اس کو کس کوشش سے مسلمان کیا ہے۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ سب سے بڑا گناہ شرک کرنا ہے اس کے بعد کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنا ہے اور اس کے بعد بڑا گناہ زنا کرنا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے پوچھا یا رسول اللہ ! اللہ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کون سا ہے ؟ آپ نے فرمایا یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی شریک قرار دے کر اس کی عبادت کرو حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا ہے، اس نے پوچھا پھر کون سا گناہ سب سے بڑا ہے ؟ فرمایا تم اپنے بیٹے کو اس خوف سے قتل کردو کہ وہ تمہارے ساتھ کھانا کھائے گا ! اس نے پوچھا پھر کون سا گناہ زیادہ بڑا ہے ؟ فرمایا تم اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرو۔ پھر اس کی تصدیق میں اللہ تعالیٰ نے الفرقان : ٦٨ کو نازل فرمایا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٧٧، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٦، (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣١٨٣ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ٣٤٧٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٤١٥ مسند احمد ج ١ ص ٤٣٤)

اللہ تعالیٰ کا گناہوں کے بدلہ میں نیکیاں عطا فرمانا 

اس آیت سے یہ بھی ثابت ہوا کہ اگر اللہ تعالیٰ کرم فرمائے تو نہ صرف یہ کہ وہ گناہوں کو معاف کردیتا ہے بلکہ گناہوں کے بدلہ میں نیکیاں عطا فرما دیتا ہے۔

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اس شخص کو جانتا ہوں جس کو سب سے آخر میں دوزخ سے نکالا جائے گا۔ اسکو قیامت کے دن لایا جائے گا اور کہا جائے گا اس کے سامنے اس کے چھوٹے چھوٹے گناہ پیش کرو اور اس کے ب ڑے بڑے گناہوں کو مخفی رکھا جائے گا، اس سے کہا جائے گا تو نے فلاں فلاں دن یہ یہ کام کئے تھے، وہ ان گناہوں کا اقرار کرے گا اور انکار نہیں کرے گا اور وہ دل میں اپنے بڑے بڑے گناہوں سے ڈر رہا ہوگا، پھر کہا جائے گا اس کو اس کے ہر گناہ کے بدلے میں نیکی دے دو ، تب وہ کہے گا اے میرے رب ! میرے تو اور بڑے بڑے گناہ ہیں جن کو میں یہاں اس کے ہر گناہ کے بدلے میں نیکی دے دو ، تب وہ کہے گا اے میرے رب ! میرے تو اور بڑے بڑے گناہ ہیں جن کو میں یہاں پر نہیں دیکھ رہا، حضرت ابوذر نے کہا میں نے دیکھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنس رہے تھے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں ظاہر ہوگئیں۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٠ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٦٥٨٦ مسند حمد ج ٥ ص ١٧٠ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٣٧٥ مسند ابو عوانہ ج ١ ص 169-170)

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم جہاں کہیں بھی ہو اللہ سے ڈرت یرہو ! اگر کوئی گناہ ہوجائے تو اس کے بعد کوئی نیکی کرلو وہ نیکی اس گناہ کو مٹا دے گی اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئو۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ١٩٨٧ مسند احمد ج ٥ ص ١٥٣ سنن الدارمی رقم الحدیث : ٢٧٩٤ المسدترک ج ١ ص ٥٤ حلیتہ الاولیاء ج ٤ ص ٣٧٨)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 25 الفرقان آیت نمبر 68