أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قَالَ لَئِنِ اتَّخَذۡتَ اِلٰهًا غَيۡرِىۡ لَاَجۡعَلَـنَّكَ مِنَ الۡمَسۡجُوۡنِيۡنَ ۞

ترجمہ:

فرعون نے کہا اے موسیٰ ! اگر تم نے میرے سوا کسی کو معبود بنایا تو میں ضرور تم کو قیدیوں میں شامل کر دوں گا

آیا فرعون موحد تھا، مشرک تھا یا دہریہ ؟

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : فرعوکن نے کہا : اے موسیٰ اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں ضرور تم کو قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔

دنیا میں یہ ہمیشہ سے ہوتا آیا ہے کہ جب کوئی ظالم اور جابر شخص دلائل کا جواب دینے سے عاجز ہوجاتا ہے تو پھر وہ ظلم اور جبر کرنے اور دھمکیاں دینے پر اتر آتا ہے، فرعون نے بھی جب یہ دیکھا کہ وہ حضرت موسیٰ کے دلائل کا جواب نہیں دے سکتا تو اس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو دھمکیاں دینی شروع کردیں اور کہا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود بنایا تو میں تم کو قید خانے میں ڈال دوں گا۔

قرآن مجید کی بعض آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کو نہیں مانتا تھا اور اپنے رب ہونے کا دعویٰ دار تھا اور بعض آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہو یہ مانتا تھا کہ اس کائنات کا خالق اور مالک اللہ تعالیٰ ہی ہے، پہلے ہم وہ آیات پیش کر رہے ہیں جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنی الوہیت اور ربوبیت کا مدعی تھا :

(القصص : ٣٨) فرعون نے کہا اے قوم کے سردارو ! میں اپنے سوا تمہارا کوئی اور معبود نہیں جانتا !

(النزعت : ٢٤) پس (فرعون نے) کہا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں۔

(الشعرائ : ٢٩) (فرعون نے) کہا اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود قرار دیا تو میں ضرور تم کو قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔

اور درج ذیل آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت کو مانتا تھا۔

(بنی اسرائیل : ١٠٢) (موسیٰ نے) کہا تو خوب جانتا ہے کہ یہ معجزات آسمانوں اور زمینوں کے رب نے ہی نازل کئے ہیں اور اے فرعن میں گمان کرتا ہوں کہ تو ہلاک کیا ہوا ہے۔

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قول برحق تھا اور اس سے معلوم ہوا کہ فرعون کو یقین تھا کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کا رب اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دعویٰ رسالت پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا :

(الزخرف ٥٣) (اگر یہ نبی ہیں تو) ان کے اوپر سونے کے کنگن کیوں نہیں گرائے گئے یا ان کے ساتھ صف بہ صف فرشتے ہی آجاتے۔

یعنی فرعون کے نزدیک حضرت موسیٰ کے اللہ کے رسول ہونے کے دعویٰکے صادق ہنے کا معیار یہ تھا کہ فرشتے ان کے رسول اللہ ہونے کی تصدیق کرتے، آیت سے معلوم ہوا کہ وہ اللہ تعالیٰ کو مانتا تھا۔

(الاعراف : ١٢٧) اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے (فرعون سے) کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو زمین میں فساد کرنے کے لئے چھوڑ دے گا، تاکہ وہ تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑے رہیں۔

اس آیت سے معلوم ہو کہ قبطیوں کے نزدیک فرعون کئی خدائو وں کی پرستش کرتا تھا۔ ہوسکتا ہے کہ وہ ستاروں کی پرستش کرتا ہو یا بتوں کی پرستش کرتا ہو اور وہ یہ بھی مانتا ہو کہ تمام آسمانوں اور زمینوں کا کوئی رب ہے، اور چونکہ وہ مصرف کا مطلق العنان بادشاہ تھا تو اس بادشاہی کے غرور وہ اپنی رعایا سے سجدہ کراتا ہو اور اپنے آپ کو خدا کہلواتا ہے۔

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :

شاید کہ فرعون دھریہ تھا یا اس کا یہ اعتقاد تھا کہ جو شخص کسی علاقہ کا بادشاہ ہوجائے، یا اپنی طاقت اور اپنے زور سے کسی علاقہ پر قبضہ کرلے وہ اس علاقے کے لوگوں کی عبادت کا مستحق ہوتا ہے۔

(تفسیر البیضاوی مع الخفا جی ج ٧ ص ٧٧ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٧ ھ)

حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھا ہے :

فرعون کسی صانع اور پیدا کرنے والے کو نہیں مانتا تھا بلکہ وہ پیدا کرنے والے کا بالکلیہ منکر تھا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 368 مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٩ ھ)

سورۃ الاعراف : ١٢٧ میں فرعون کے خدائوں کا ذکر ہے اور سورة الزخرف : ١٥٣ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور فرشتوں پر یقین رکھتا تھا اور بنی اسرائیل : ١٠٢ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرعون اس کو مانتا تھا کہ آسمانوں اور زمینوں کا کوئی رب ہے، ان آیات کی روشنی میں حافظ ابن کثیر کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ فرعون صانع اور پیدا کرنے والے کا منکر تھا۔

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ نے لکھا ہے :

علماء کا اس میں اختلاف ہے کہ آیا فرعون کو یہ علم تھا کہ اس جہان کا کوئی رب ہے اور وہ اللہ عزوجل ہے یا اس کو یہ علم نہیں تھا، بعض نے کہا اس کو یہ علم تھا کیونکہ حضرت موسیٰ نے فرعون سے فرمایا تھا تو خوب جانتا ہے کہ یہ معجزات آسمانوں اور زمینوں کے رب نے ہی نازل کئے ہیں (بنی اسرائیل : ١٠٢) اور بعض نے یہ کہا کہ چونکہ اس نے حضرت موسیٰ سے یہ سوال کیا تھا کہ رب العالمین کی کیا تعریف ہے ؟ (الشعرائ : ٢٣) اس سے معلوم ہوا کہ وہ رب العالمین کے وجود کا معترف تھا، اور اس نے جو اپنی قوم سے یہ کہا تھا میں تمہارا سب سے بڑا رب ہوں (النزعت : ٢٤) یہ اپنی قوم کو ڈرانے کے لئے کہا تھا کیونکہ وہ اپنی قوم کو بہت حقیر سمجھتا تھا اور یہ اس کا اعتقاد نہیں تھا اور وہ یہ کیسے اعتقاد کرسکتا تھا کہ وہ اس جہان کا رب ہے، حالانکہ وہ جانتا تھا کہ وہ پہلے موجود نہیں تھا پھر موجود ہوا اور اس جہان پر ہزاروں برس گزر چکے تھے جب اس کا وجود نہیں تھا اور بعد میں بھی اس کے قبضہ میں صرف مصر کا ملک تھا، اور بعض علماء نے کہا کہ وہ اللہ تعالیٰ سے جاہل تھا اس کے باوجود وہ اپنے دل میں یہ اعتقاد نہیں رکھتا تھا کہ وہ آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا خالق ہے بلکہ وہ دہریہ تھا اور پیدا کرنے والے کا منکر تھا اور اس کا یہ اعتقاد تھا کہ افلاک واجب الوجود ہیں اور تمام حوادث افلاک کی حرکات سے وجود میں آتے ہیں اور اس کا یہ اعتقاد تھا کہ جو شخص زمین کے کسی علاقے کا مالک ہوجائے یا کسی علاقے پر اپنی طاقت سے قبضہ کرلے وہ اس عالقے کے لوگوں کی عبادت کا مستحق ہوجاتا ہے اور وہ ان کا رب ہوتا ہے، اس لئے اس نے الوہیت اور ربوبیت کو اپنے ساتھ خاص کرلیا اور کہا کہ ” مجھے اپنے سوا تمہارے کسی اور معبود کا علم نہیں ہے (القصص : ٣٨) اور بعض علماء نے یہ کہا کہ وہ ان لوگوں میں سے تھا جن کا یہ اعتقاد ہے کہ رب سبحانہ کا بعض ذوات میں حلول ہے اور اس کا یہ اعتقاد تھا کہ خود اس میں بھی رب سبحانہ کا حلول ہے اسی لئے وہ اپنے آپ کو الہ کہتا تھا، اور ایک قول یہ یہ کہ وہ اپنی الوہیت کا بھی مدعی تھا اور دوسروں کی الوہیت کا بھی مدعی تھا جیسا کہ اس آیت سے معلوم ہوتا ہے :

اور فرعون کی قوم کے سرداروں نے (فرعون) سے کہا کیا تو موسیٰ اور اس کی قوم کو زمین میں فساد کرنے کے لئے چھوڑ دے گا تاکہ وہ تجھ کو اور تیرے معبودوں کو چھوڑے رہیں (الاعراف : ١٢٧) اور یہ تمام اقوال بعید ہیں۔

اور جس چیز پر میرا ظن غالب ہے اور جو اکثر آیتوں کا تقاضا ہے وہ یہ ہے کہ فرعن اللہ عزوجل کو پہچانتا تھا اور یہ سمجھتا تھا کہ وہی اس جہان کا خالق ہے مگر اس کی حکومت کا غرور اس پر غالب آگیا اس لئے اس نے اپنے علم اور اپنے اعتقاد کے خلاف اپنی قوم کے سامنے اظہار کیا اور اس کے ملک میں جن لوگوں پر جہالت کا غلبہ تھا اور جن کی عقل ناقص تھی انہوں نے اس قول پر اپنی قوم کے سامنے اظہار کیا اور اس کے ملک میں جن لوگوں پر جہالت کا غلبہ تھا اور جن کی عقل ناقص تھی انہوں نے اس قول پر یقین کرلیا اور یہ بعید نہیں ہے کہ کچھ لوگ ایسی خرافات پر یقین کرلیں اور یہ نہ جان سکیں کہ یہ باتیں بدیہیات کے خلاف ہیں۔

(روح المعانی جز 19 ص 110 مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

اللہ تعالیٰ کے واجب، قدیم اور واحد ہونے کے دلائل کی مزید وضاحت 

فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے پوچھا تھا کہ رب العالمین کی کیا تعریف ہے، اللہ تعالیٰ واجب الوجود اور قدیم بالذات ہے اور جو واجب اور قدیم ہو اس کی حقیقت کا ادراک کرنا کسی انسان کے لئے محال ہے، اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی تعریف اس کی صفات مختتصہ سے کی کہ وہ آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب ہے، فرعون نے یہ سن کر حضرت موسیٰ کا مذاق اڑایا اور اپنے اہل دربار سے کہا کیا تم غور سے سن رہے ہوچ اس کا مطلب یہ تھا کہ دیکھو میں رب العالمین کی تعریف اور ماہیت پوچھ رہا ہوں اور یہ اس کی صفات کو بیان کر رہے ہیں، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جب اس کی جہلات کو دیکھا تو اسلوب تبدیل کیا پہلے اللہ تعالیٰ کی عام صفات سے استدلال کیا تھا اب اس کی خاصف صفت سے استدلال کیا کہ وہ تمہارا اور تمہارے پہلے باپ دادا کا رب ہے، کیونکہ انسان تمام آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کی بہ نسبت اپنے آپ کو اور اپنے باپ دادا کو اور ان کے احوال کو بہتر طور پر جانتا ہے، اس کو معلوم تھا کہ وہ پیدا ہونے سے پہلے نہ تھا اور تمام دنیا اسی طرح تھی، انسان پیدا ہو رہے تھے، پروان چڑھ رہے تھے، اور مر رہے تھے، تمام حیوانوں اور تمام درختوں کا یہی حال تھا، سارا نظام اسی طرح چل رہا تھا، جب کہ وہ اپنی پیدئاش کے ابتدائی مراحل میں ایک مکھی بھی نہیں اڑا سکتا تھا، پھر اللہ تعالیٰ اس کو پرورش کرتا رہا، سن بلوغ اور پھر ادھیڑ عمر تک پہنچایا، اس کے باپ دادا مرگئے وہ ان کے بعد تحت نشین ہوگیا اور وہ بھی ایک دن مرجائے گا اور یہ نظام یونہی چلتا رہے گا تو وہ اس کائنات اور اس کے نظام کا خالق کیسے ہوسکتا ہے ! وہ جب بیدار ہوتا ہے تب بھی اس دنیا کا نظام چتا رہتا ہے اور جب وہ سو جاتا ہے اور دنیا ومافیہا سے بیخبر ہوجاتا ہے پھر بھی یہ نظام اس طرح چلتا رہتا ہے تو وہ اس دنیا کا پیدا کرنے والا اور اس کے نظام کا خالق نہیں ہوسکتا اس کا خالق ضرور ایسا ہے جو پیدا ہونے، سونے، جاگنے اور دیگر تغیرات سے منزہ ہو جو واجب اور قدیم ہو اور ہر چیز سے مستغنی ہو اور واحد ہو، کیونکہ واجب اور قدیم میں تعدد نہیں ہوسکتا، نیز آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں اور خود فرعون اور اس کے باپ دادا کے احوال کو دیکھو۔ ان کے نظام میں وحدت ہے سورج ہمیشہ ایک سمت سے نکلتا ہے اور ایک سمت میں غروب ہوتا ہے، یہی حال چاند اور ستاروں کا ہے، درختوں، حیوانوں، انسانوں اور خود اپنے اور اپنے باپ دادا میں غور کرو ان کے پیدا ہونے، پرورش پانے اور مرنے میں غور کرو کیا سب کچھ نہج واحد اور طریقہ واحد پر نہیں ہے، اگر اس نظام کے متعدد ناظم ہوتے کیا تب بھی ان میں اسی طرح یکسانیت ہوسکتی تھی ! تو ضرور ان کا خالق واحد ہے، وہ واجب بھی ہے، قدیم بھی ہے اور واحد بھی ہے فرعون اس معقول دلیل کا جواب نہ دے سکا تو اس نے کہا (اے لوگو ! ) بیشک تمہارا یہ رسول جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے ضرور مجنون (دیوانہ) ہے، پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس سے بھی آسان دلیل پیش کی کہ وہ مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب ہے، اگر تم عقل رکھتے ہو، یعنی اگر تم عقل رکھتے ہو تو بتائو کہ اگر فرعون اپنے رب ہونے کے دعویٰ میں سچا ہے تو وہ سورج، چاند اور ستاروں کے طلوع اور غروب میں کوئی تغیر کرسکتا ہے کیا وہ سورج کو چاند کی جگہ سے اور چاند کو سورج کی جگہ سے طلوع کرسکتا ہے ؟ کیا وہ دن اور رات کے توارد میں کوئی تبدیلی کرسکتا ہے، مثلاً دن ایک گھنٹہ کا ایک ایک ہفتہ کا ہوجائے یا رات میں ایسی کمی بیشی ہوجائے کیا وہ زرعی پیداوار کے نظام کو بدل سکتا ہے مثلاً زمین سے غلہ پیدا ہونے کے بجائے آسمان سے غلہ برسنے لگے، آسمان سے بارش نازل ہونے کے بجائے ہر جگہ زمین سے پانی ابلنے لگے کیا وہ انسانوں اور حیوانوں کے طبعی تقاضوں کو بدل سکتا ہے کہ ان سے بھوک، پیاس اور جنسی خواہشات کو ختم کر دے، اور جب وہ یہ سب کچھ نہیں کرسکتا تو کیوں نہیں مان لیتا کہ مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب وہ نہیں ہے بلکہ کوئی اور ذات ہے جس نے مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا نظام بنایا ہے جس کے بنائے ہوئے نظام میں ابتدائ، آفرینش سے لے کر آج تک ذرہ برابر تبدیلی نہیں ہوئی اور فرق نہیں ہوا وہ واجب، قدیم اور واحد ہے، وہی آسمانوں اور زمینوں اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب ہے، وہی تیرے اور تجھ سے پہلے تیرے باپ دادا کا رب ہے اور وہی مشرق اور مغرب اور ان کے درمیان کی سب چیزوں کا رب ہے۔ فرعون جب حضرت موسیٰ کے ان دلائل کا جواب نہ دے سکا تو دھمکیوں پر اتر آیا اور کہنے لگا اے موسیٰ ! اگر تم نے میرے سوا کسی اور کو معبود قرار دیا تو میں ضرور تم کو قیدیوں میں شامل کر دوں گا۔

مباحثہ میں اشتعال میں نہ آنا اور مخاطب کی فہم کے لحاظ سے دلائل کے اسالیب کو تبدیل کرنا 

فرعون نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ساتھ مباحثہ میں بہت بدتمیزی اور بد زبانی کی، پہلے ان کا مذاق اڑایا اور اہل دربار سے کہا ان کی باتیں سن رہے ہ، پھر کہا یہ شخص ضرور مجنون ہے، پھر کہا میں تم کو ضرور قیدیوں میں شامل کرلوں گا، لیکن حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کی کسی بدزبانی کا بدکلامی سے جواب نہیں دیا، بلکہ تحمل، وقار، سنجیدگی اور شائستگی کے ساتھ اپنے موقف پر دلائل پیش فرماتے رہے، اس سے معلوم ہوا کہ مباحثہ میں فریق مخالف کی بد زبانی سے طیش میں نہیں آنا چاہیے بلکہ تحمل اور وقار کے ساتھ بحث جاری رکھنی چاہیے اور یہی انبیاء (علیہم السلام) کا طریقہ ہے، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مباحثہ میں جب فریق مخالف ایک طریقہ سے بات نہ سمجھ سکے تو اسلوب بدل کر دلائل پیش کرنا چاہیں، جیسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس مباحثہ میں مختلف انداز اور اطوار سے دلائل پیش فرماتے رہے۔

فرعن نے یہ دھمکی دی کہ میں تم کو ضرور قیدیوں میں شامل کرلوں گا اور یہ نہیں کہا کہ میں تم کو ضرور قید کرلوں گا، اس کی وجہ یہ تھی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ وہ قیدیوں سے کس طرح کا سلوک کرتا ہے کیونکہ وہ جس کو قید کرتا تھا اس کو نہایت گہرے اور اندھے کنویں میں ڈال دیتا تھا جس کو وہاں کچھ دکھائی دیتا تھا نہ سنائی دیتا تھا، اور یہ قتل کرنے کی بہ نسبت زیادہ شدید سزا تھی اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

موسیٰ نے کہا : خواہ میں تمہارے پاس کوئی روشن چیز بھی لے آئو !۔ فرعون نے کہا اگر تم سچے ہو تو وہ چیز لے آئو۔ پس موسیٰ نے اپنا عصا ڈال دیا تو وہ یکایک کھلم کھلا اژدھا بن گیا۔ اور انہوں نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ اچانک دیکھنے والوں کے لئے چمکتا ہوا بن گیا۔ 

اس جگہ یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا مقصد تو اللہ تعالیٰ کی توحید پر دلائل پیش کرتا تھا اور اسی پر مباحثہ ہو رہا تھا پھر انہوں نے اس بحث کے اخیر میں اپنی نبوت اور رسلات پر معجزات کیوں پیش کرنے شروع کردیئے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) طرقیہ سے بھی اللہ تعالیٰ کی توحید ہی ثابت کر رہے تھے کیونکہ جب یہ ثابت ہوجائے گا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے صادق اور برحق رسول ہیں تو پھر ان کا یہ دعویٰ بھی ثابت ہوجائے گا کہ اللہ تعالیٰ ہی تمام جہانوں کا رب ہے اور وہ واجب، قدیم اور واحد ہے۔

اس سے پہلے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کے وجود اور اس کی وحدت پر جو دلائل پیش کئے تھے وہ علمی اور عقلی تھے جن کے متعلق یہ احتمال ہوسکتا تھا کہ وہفرعن کے درباریوں اور عوام کی سمجھ میں نہ آئیں اس لئے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اب اسلوب بدل کر حسی دلائل پیش کئے جن کا سب لوگ مشاہدہ کر رہے تھے، کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک لاٹھی کو زمین پر ڈالا اور وہ لاٹھی کھلم کھلا اژدھا بن گئی، دیکھنے والوں نے دیکھا کہ وہ اژدھا ایک میل لمبا تھا وہ فرعون کی طرف لپکا اور اس کے جبڑوں میں فرعون کا سر آیا چاہتا تھا اور وہ کہنے لگا، اے موسیٰ ! آپ جو چاہیں مجھے حکم دیں پھر فرعن نے گھبرا کر اور خوف زدہ ہو کرک کہا : اے موسیٰ ! میں تمہیں خدا کا واسطہ دیتا ہوں تم اس اژدھے کو پکڑ لو حضرت موسیٰ نے اس اژدھے پر ہاتھ ڈالا تو وہ پھر اسی طرح لاٹھی بن گیا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠٢١٥)

پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دوسرا معجزہ دکھایا اور اپنی بغل میں ہاتھ ڈال کر نکالا تو وہ سورج کی شعائوں کی طرح روشن تھا اور لوگوں کی نگاہیں اس سے خیرہ ہو رہی تھیں اور جب دوبارہ بغل میں ہاتھ ڈالا تو وہ پھر پہلے کی طرح ہوگیا اور لوگوں نے جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ان معجزات کا مشاہدہ کیا اور اس کے مقابلہ میں فرعون کا عاجز ہونا دیکھا تو ان کے سامنے یہ بات آگئی کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے برحق رسول ہیں اور ان کا یہ دعویٰ سچا ہے کہ تمام جہانوں کا رب صرف اللہ ہے جو واجب قدیم اور واحد ہے، ماننا نہ ماننا الگ بات ہے۔

ثعبان، حیتہ اور جآن کے معانی 

ایک اور بحث اس باب میں یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کا جو عصا اژدھا بن گیا تھا اس کو اس آیت : (الشعرائ : ٣٢) میں ثعبان مبین فرمایا ہے اور ایک جگہ فاذاھی حیۃ تسعی (طہ : ٢٠) فرمایا ہے کہ اچانک وہ ایک سانپ تھا جو دوڑ رہا تھا اور تیسری جگہ فرمایا : تھتر کا نھا جان (القصص : ٣١) گویا کہ وہ لہراتا ہوا سوانپ ہے۔ جآن اس سانپ کو کہتے ہیں جو صغر کی طرف مائل ہو، اور ثعبان اس سانپ کو کہتے ہیں جو کبر کی طرف مائل ہو، اور الحیۃ سانپ کا اسم جنس ہے، وہ سانپ جب بہت بڑی شکل اختیار کرتا تو اس کو ثعبان (اژدھے) سے تعبیر فرمایا اور جب اس سے چھوٹی شکل اختیار کرتا تو اس کو جان سے تعبیر فرمایا۔ ثعبان کے لغوی معنی ہیں اژدھا حیتہ کے معنی ہیں سانپ، اور سانپ کے لہراتے ہوئے پھن کو جآن کہتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 29