أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاُلۡقِىَ السَّحَرَةُ سٰجِدِيۡنَۙ‏ ۞

ترجمہ:

سو اسی وقت تمام جادوگر سجدے میں گرگئے

بعض علماء کا سحر کو صرف تخیل اور مسمریزم قرار دینا اور واقع میں اس کی حقیقت کا انکار کرنا

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تو اس وقت تمام جادو گر سجدہ میں گرگئے۔

علامہ اسماعیل حقی متوفی 1137 ھ لکھتے ہیں :

ہر فن میں تبحر اور مہارت حاصل کرنا مفید اور سود مند ہوتا ہے، کیونکہ ان جادوگروں نے جادو میں تبحر اور مہارت کی وجہ سے یہ پہچان لیا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے جو لاٹھی کو اژدھا بنادیا ہے یہ جادو نہیں ہے، بلکہ معجزہ ہے کیونکہ جادو صرف شعبدہ بازی، ملمع کاری، ہاتھ کی صفائی اور نظ ربندی ہے، اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے جی اس کہ قرآن مجید میں ہے وسحر و اعین الناس (الا اعراف : ١١٦) انہوں نے لوگوں کی آنکھوں پر سحر کردیا یعنی نظر بندی کردی۔ اگر واقع میں جادو کے ذریعہ ایک چیز کی حقیقت کا دوسری چیز کی حقیقت سے بدل جانا ممکن ہوتا تو وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے عصا کا اژدھا بن جانا بھی جادو کے قبیل سے قرار دیتے اور اس کو معجزہ نہ قرار دیتے جو جادو کے دائرہ سے خارج ہے، اور اس کا مشاہدہ کر کے سجدہ میں نہ ج اگر تے اور ایمان کی دولت سے سرفراز نہ ہوتے۔ علامہ شعرانی متوفی ٩٧٣ٌ نے ابن العربی سے نقل کیا کہ سحر کا لفظ وقت سحر سے ماخوذ ہے اور سحر کے وقت میں ضوء اور ظلمت اور رشوین اور اندھیرا مختلط ہوتے ہیں اس وقت نہ مکمل رات ہوتی ہے کیونکہ صبح کی روشنی ہوتی ہے اور نہ مکمل دن ہوتا ہے کیونکہ سورج طلوع نہیں ہوتا، اسی طرح جادوگر جو کارروائی کرتے ہیں وہ واقع میں باطل محض ہوتی ہے اور جو کچھ آنکھوں کو دکھاتے ہیں وہ واقع میں موجود نہیں ہوتا اس کا وجود صرف دیکھنے والوں کی آنکھوں میں ہوتا ہے، علامہ شعرانی نے اس کلام کو قنل کرنے کے بعد کہا یہ بہت نفس کلا م ہے ہم نے اس کی مثل کبھی نہیں سنی۔ (الکبریت الاحمر ص 17-18، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ) (روح البیان ج ٦ ص 352 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ١٤٢١ ھ)

اسی طرح امام فخر الدین رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے لکھا ہے :

الاعراف :116 سے ان علمئا نے استدلال کیا ہے جو کہتے ہیں کہ سحر اور جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہے یہ محض شعبدہ بازی اور نظر بندی ہے، قاضی نے کہا اگر سحر برحق ہوتا تو وہ ان کے دلوں پر سحر کرتے نہ کہ ان کی آنکھوں پر، اس سے ثابت ہوا کہ انہوں نے ان کو عجیب و غریب امر دکھائے جب کہ واقع میں ایسا نہ تھا، علامہ واحدی نے کہا بلکہ انہوں نے ان کی آنکھوں پر سحر کردیا یعنی ان کی آنکھوں کو صحیح ادراک کنے سے پلٹ دیا اور ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے لاٹھیوں اور رسیوں کو کھوکھلا کر کے ان کے اندر پارہ رکھ دیا تھا اور سورج کی گرمی سے وہ لاٹھیاں اور سریاں حرکت کرنے لگیں جس سے دیکھنے والوں نے یہ سمجھا کہ سانپ رینگ رہے ہیں۔ (تفسیر کبیرج ٥ ص 345 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٥ ھ)

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی ٦٨٥ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے :

جادوگروں نے اس چیز کا خیال ڈال اجو حقیقت کے خلاف تھا۔

علامہ شہاب الدین خفاجی متوفی 1069 ھ نے لکھا ہے اس سے سحر کا باطل کرنا مراد نہیں ہے کیونکہ وہ نصوص سے ثابت ہے اس لئے اس عبارت کو ترک کرنا اولیٰ تھا۔ (عنایت القاضی ج ٤ ص 345، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت 1417 ھ)

سید ابو الاعلی مودودی متوفی 1399 ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے :

خدائی نشان سے حقیقی تغیر واقع ہوتا ہے اور جادو محض نظر اور نفس کو متاثر کر کے اش یاء میں ایک خاص طرح کا تغیر محسوس کراتا ہے۔ (تفہیم القرآن ج ٢ ص 68 مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، فروری 1982 ھ)

اسی طرح شیخ امین احسن اصلاحی نے لکھا ہے :

جادو خواہ کتنا ہی بڑا ہو لیکن اس سے کسی شے کی حقیقت و ماہیت نہیں بدلتی۔ بس دیکھنے والوں کی آنکھوں اور ان کی قوت مخیلہ پر اس کا اثر پڑتا ہے جس سے آدمی ایک شے کو اس شکل میں دیکھنے لگتا ہے جس شکل میں ساحر اس کو دکھانا چاہتا ہے۔ (تدبر قرآن ج ٣ ص 346 مطبوعہ فاران فائونڈیشن 1409 ھ)

یہ تمام اقوال صحیح نہیں ہیں، جادو کی کئی قاسام ہیں اور ایک قسم وہ ہے جس سے کسی چیز کی حقیقت بدل جاتی ہے۔ جیسا کہ ہم 116 سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فرعون کے جادوگروں نے تخیل اور نظر بندی کی تھی اور واقع میں لاٹھیوں کو سانپ نہیں بنایا تھا اس کا جواب یہ ہے کہ فرعون کے جادوگروں کا عمل یہی تھا لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ جادو کے ذریعے سے اشیاء کی حقیقت نہیں بدلتی، اب ہم سحر کی تعریف سحر اور کرامت میں فرق، سحر کے وقوع پر دلائل اور سحر پر اعترضا ات کے جوابات اور سحر کی اقسام بیان کر رہے ہیں۔

سحر کا لغوی اور شرعی معنی

علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی 817 ھ سحر کا لغوی معنی لکھتے ہیں :

ہر وہ فعل جس کا ماخذ غامض اور دقیق ہو اور اس کا سبب مخفی ہو اس کو سحر کہتے ہیں (القاموس المحیط ج ٢ ص ٦٦ داراحیاء التراث العربی بیروت : ١٤١٢ ھ)

علامہ محمد طاہر پٹنی متوفی ٩٨٦ ھ لکھتے ہیں :

انسان اس وقت تک سحر میں مہارت حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ اس کی شر (فسق و فجور) کے ساتھ مناسبت نہ ہو۔ اہل سنت کا مذہب یہ ہے کہ سحر کی حقیقت ہے اور اس کا انکار نہیں کیا جاسکتا کہ جب انسان جادو کے مخصوص کلمات بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی عادت ہے وہ اس وقت غیر معمولی امور پیدا کردیتا ہے، یا وہ ایسے بعض اجسام یا قوی امتزاج سے چیزیں بناتا ہے جن کو ساحری ہی جانتا ہے کیونکہ بعض زہر قاتل ہوتے ہیں اور بعض زہریلی اشیاء بیمار کردیتی ہیں یا نقصان پہنچاتی ہیں۔ (مجمع بحارالانوار ج ٣ ص 47 مکتبتہ دارالایمان، المدینتہ المنورۃ ١٤١٥ ھ)

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی متوفی ٥٠٢ ھ لکھتے ہیں :

سحر کا اطلاق چند معانی پر کیا جاتا ہے۔

(١) دھوکا وہی نظر بندی (مسمر یزم یا ہیپناٹائز کرنا) قرآن مجید میں ہے :

(الاعراف : ١١٦) فرعن کے جادوگروں نے لوگوں کی نظر بندی کردی ( ان کو ہسپناٹائز کردیا۔ )

(ہ) شیطان کے تقرب اور اس کی مدد سے اپنا مقصد پورا کرنا، قرآن مجید میں ہے :

(البقرۃ : ١٠٢) لیکن شیاطین نے کفر کیا وہ لوگوں کو سحر کی تعلیم دیتے تھے۔

(٣) سحر اس فعل کا نام ہے جس کی قوت اور تاثیر سے اشیاء کی صورتیں اور حقیقتیں بدل جاتی ہیں سو ساحر انسان کو گدھا بنا دیتا ہے۔ محصلین کے نزدیک اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (یہ علامہ راغب کی اپنی رائے ہے جمہور کی رائے اس کے خلاف ہے)

(٤) جس کا سمجھنا بہت غامض اور دقیق ہو قرآن مجید میں ہے :

ان ھذا الا سحر مبین : (سبا : ٤٣) یہ تو صرف کھلا ہوا جادو ہے۔

یعنی اس کلام کا سمجھنا بہت غامض اور دقیق ہے۔

سحر اور سحرۃ اس وقت کو کہتے ہیں جب رات کی ظلمت دن کی ضوء اور روشنی سے مختلط ہوتی ہے۔ (اسی طرح حسر کی حقیقت بھی مبہم اور مشتبہ ہوتی ہے۔ ) (المفردات ج ١ ص 298-299 مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ 1418 ھ)

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی متوفی 685 ھ لکھتے ہیں :

سحر سے مراد وہ کام ہے جس کو حاصل کرنے میں شیطان سے مد حاصل کی جاتی ہے اور وہی انسان اس مقصد کو حاصل کرسکتا ہے جو شر اور نفس کے خبث میں شیاطن کے مناسب ہو کیونکہ کسی سے تعان حاصل کرنے میں یہ شرط ہے کہ دونوں میں مناسبت ہو، اور اسی قید سے ساحر بنی اور ولی سے ممتاز ہوجاتا ہے اور بعض حیرت ناک اور تعجب خیز کام جو شعبدہ بازی سے آلات، دوائیوں اور ہاتھ کی صفائی اور کرتبوں سے کئے جاتے ہیں وہ مذموم نہیں ہیں ان کو مجازاً سحر کہا جاتا ہے، یا اس وجہ سے کہ ان کا ماخذ غامض اور دقیق ہوتا ہے اور ان کا سبب مخفی ہوتا ہے۔ (انوار التنزیل مع عنایت القاضی ج ٢ ص 347 مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت، ١٤١٧ ھ)

سید محمود آلوسی متوفی 1270 ھ لکھتے ہیں :

سحر وہ غیر معملوی اور خلافت عادت کام ہے، جس کو حاصل کرنے میں برے کام کر کے شیطان کے تقرب سے مدد حاصل کی جاتی ہے خواہ وہ برے کام زبان سے کئے جائیں جیسے وہ منتر جن میں شرکیہ الفاظ ہوں اور شیاطن کی تعریف کی جائے یا وہ برے کام دیگر اعضاء سے کئے جائیں جیسے ستاروں کی عبادت کرنا، اور کسی کا نقصان کرنا اور دیگر فسق و فجور کے کام، یا وہ برے کام اعتقاد سے کئے جائیں مثلاً ان کاموں کو اچھا اعتقاد کرنا جن سے شیطان کا تقرب اور اس کی محبت حاصل ہوتی ہے اور وہی شخص سحر کرسکتا ہے جو شر اور نفس کی خباثت میں شیاطن کے مناسب ہو، کیونکہ تعاون اور مدد کے لئے مناسبت شرط ہے، پس جس طرح سے فرشتے صرف نیک انسانوں کے ساتھ تعاون کرتے ہیں اور ان ہی پر فیضان کرتے ہیں جو دائمی عبادت کرنے اور اللہ کا تقرب حاصل کرنے میں فرشتوں کے مشابہ ہوں، اسی طرح شیاطین بھی ان ہی فساق اور فجار کے ساتھ تعاون کرتے ہیں جو قول، فعل اور اعتقاد کی خباثت اور نجاست میں شیاطین کے مشابہہ ہوں اور ہماری اس تعریف سے ساحر نبی اور ولی سے ممتاز ہوجاتا ہے۔ (روح المعانی جز ١ ص ٥٣٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

سحر اور کرامت میں فرق

علامہ عبدالنبی بن عبدالرسول احمد نگری نے سحر اور کرامت میں حسب ذیل وجوہ سے فرق بیان کیا ہے :

(١) سحر خبیث اور فاسق شخص سے ظاہر ہوتا ہے اور کرامت اس نیک مسلمان سے ظاہر ہوتی ہے جو دائماً عبادت کرتا ہو اور برے کاموں سے بچتا ہو۔

(٢) سحر چند مخصوص برے کاموں کا نام ہے، اور کرامت کے مخصوص اعمال نہیں ہیں یہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور دائماً شریعت کی اتباع سے ظاہر ہوتی ہے۔

(٣) سحر صرف تعلیم اور تعلم سے حاصل ہوتا ہے اور کرامت اس طرح نہیں ہے بلکہ کرامت وہبی ہوتی ہے اور محض اللہ کی عطا سے حاصل ہوتی ہے۔

(٤) سحر طلب کرنے والوں کے مطالب کے موافق نہیں ہوتا بلکہ معین اور محدود مطالب کے ساتھ مخصوص ہے اور کرامت طلب کرنے والوں کے مطالب کے ساتھ مخصوص ہوتی ہے اور اس کے مخصوص مطالب نہیں ہیں۔

(٥) سحر مخصوص وقتوں، مخصوص جگہوں اور مخصوص شرئاط سے ہوتا ہے، اور کرامت کے لئے کسی وقت، کسی جگہ اور کوئی شرط ضروری نہیں ہے۔

(٦) ساحر کو کبھی دوسرا ساحر اپنی بڑائی ظاہر کرنے کے لئے چیلنج کرتا ہے اور کرامت میں ایک ولی دوسرے ولی کو چیلنج نہیں کرتا۔

(٧) ساحر فاسقوں کے کام کرتا ہے اور ناپاک رہتا ہے، بعض اوقات غسل جنابت بھی نہیں کرتا، اسنجاء نہیں کرتا، ناپاک کپڑے نہیں دھوتا، کیونکہ ناپاکی اور نجاست کی جادو کیظہور میں بہت تاثیر ہوتی ہے یہ اس کیظاہری نجاست ہے اور اس کی باطنی نجاست کفر ہے اس کے برخلاف ولی کا ظاہر اور باطن پاک اور صاف ہوتا ہے۔

(٩) ساحر خلاف شرع کاموں کا حکم دیتا ہے اور ولی شریعت کے موافق کا موں کا حکم دیتا ہے۔ (ہم نے سحر اور کرامت میں جو فرق بیان کئے ہیں ان ہی سے سحر اور معجزہ میں بھی فرق معلوم ہوتا ہے۔ (دستور العماء ج ٢ ص 120 مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢١ ھ)

سحر کے واقع ہونے کے دلائل

علامہ سعد الدین مسعود بن عمر تفتازانی متوفی 791 ھ لکھتے ہیں :

سحر ایک خلاف عادت کام ہے جو کسی شریر اور فاسق شخص سے اعمال مخصوص ہ کے ذریعہ صادر ہوتا ہے، اور یہ اہل حق کے نزدیک عقلا ً جائز ہے اور قرآن اور حدیث سے ثابت ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

(البقرہ : ١٠٢) لیکن شیاطین نے کفر کیا وہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور وہ علم جو ھاروت اور ماروت دو فرشوتوں پر بابل میں نازل کیا گیا اور وہ (فرشتے) کسی کو اس وقت تک وہ علم نہیں سکھاتے تھے جب تک کہ یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو صرف آزمائش ہیں، سو تم کفر نہ کرو، پس لوگوں ان سے وہ علم سیکھتے جس کے ذریعہ وہ خاوند اور اس کی بیوی میں جدائی ڈال دیتے، اور وہ اللہ کے اذن کے بغیر کسی کو ضرر نہیں پہنچاسکتے تھے۔

اس آیت میں یہ خبر دی ہے کہ جادو حقیقتاً ثابت ہے اور وہ محض ثابت ہے اور وہ محض نظر بندی اور ملمع کاری نہیں ہے اور موثر اور خالق حقیقت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

ومن شر النفثت فی العقد۔ (الفلق : ٤) ۔ (اور میں) گرہ (باندھ کر ان) میں پھونکنے والیوں کے شر سے (بھی پناہ مانگتا ہوں)

اس آیت میں جادوگروں کی شرارت سے پناہ مانگی گئی ہے۔ جادو گر منتر پڑھ پڑھ کر پھونک مارتے ہیں اور گرہ باندھتے جاتے ہیں عموماً جس پر جادو کرنا ہوتا ہے اس کے بال یا کوئی چیز حاصل کر کے یہ عمل کیا جاتا ہے۔ اگر جادو ایک ثابت شدہ حقیقت نہ ہوتی تو اللہ تعالیٰ اسسیپ ناہ مانگے کا کیوں حکم دیتا۔

اور جمہور مسلمین کا اس پر اتفاق ہے کہ سورة الفلق اس وقت نازل ہوئی جب لبیدین اعصم یہودی نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کیا حتیٰ کہ آپ تین دن بمیار رہے۔

اس طرح روایت ہے کہ ایک باندھی نے حضرت عائشہ (رض) پر جادو کیا، اسی طرح حضرت ابن عمر (رض) پر جادو کیا گیا پھر لوہا گرم کر کے ان کے ہاتھ پر داغ لگایا گیا۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ اگر جادو کرنا ممکن ہوتا تو کافر تمام انبیاء اور صالحین پر جادو کردیتے تاکہ ان کو ملک عظیم حاصل ہوتا، اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کرنا کس طرح صحیح ہوگا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

(المائدہ : ٦٧) اللہ آپ کو لوگوں (کے شر) سے محفوظ رکھے گا۔

(طہ : ٦٩) اور ساحر جہاں سے بھی آئے وہ کامیاب نہیں ہوگا۔

اور کافر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر یہ عیب لگاتے تھے کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے، حالانکہ یہ قطعی بات ہے کہ وہ جھوٹے تھے۔

ہم پہلے اعتراض کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ جادو ہر دور اور زمانے میں نہیں پایا گیا اور نہ ہر خطہ اور ہر جگہ میں پایا گیا ہے۔

ہم دوسرے اعتراض کے جواب میں یہ کہتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے محفوظ ہیں کہ لوگ ان کو ہلاک کردیں یا آپ کی نبوت میں خلل ڈالیں، اور اس بات سے محفوظ نہیں ہیں کہ لوگ آپ کو ضرور پہنچائیں یا آپ کے جسم میں کوئی تکلیف پہنچائیں اور کفار نے جو کہا تھا کہ آپ پر جادو کیا گیا ہے اس سے ان کی مراد یہ تھی کہ آپ مجنون ہیں اور جادو سے آپ کی عقل زائل کردی گئی ہے۔ کیونکہ آپ نے ان کے دین کو ترک کردیا تھا۔

اور اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے قصہ میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

(طہ : ٦٦) موسٰی کو یہ خیال آنے لگا کہ ان کے جادو ج کے زور سے وہ لاٹھیاں اور رسیاں دوڑ رہی ہیں۔

اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سحر کی کوئی حقیقت نہیں ہے، وہ محض تخیل اور ملمع کاری ہے۔

اس کے جواب میں ہم یہ کہ ہیں گے کہ ہوسکتا ہے کہ ان کا سحری تخییل (مسمریزم) ہو اور ان کے سحر کا مسریزم ہونا اس پر دلالت نہیں کرتا کہ فی نفسہ جادو کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔ (شرح المقاصد ج ٥ ص 79-81 مطبوعہ منشورات الشریف الرضی، ایران، ١٤٠٩ ھ)

یہ علامہ تفتارانی کی عبارت ہے ہمارے نزدیک نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر جادو کا اثر ہونے کی روایت صحیح نہیں ہے، اس کی تحقیق بنی اسرائیل : ٤٧ میں گزر چکی ہے۔

سحر کی اقسام اور اس کے وقوع میں مذاہب

علامہ ابن حجر ھیتمی شافعی مکی متویف 947 ھ لکھتے ہیں، سحر کی حسب ذیل اقسام ہیں :

(١) ستارہ پرستوں، افلاک پرستوں اور ان کو فاعل مختار ماننے والوں کا سحر۔

(٢) اصحاب الاوھام اور اصحاب نفوس قویہ کا سحر۔

(٣) ارواح ارضیہ مثلاً جنات سے استعانت کرنے والوں کا سحر۔

(٤) تخییلات، آنکھوں پر اثر ڈالنا کیونکہ آنکھ مشاہدہ میں خطا کرتی ہے، کشتی میں سوار شخص کو کنارے پر کھڑے ہوئے درخت دوڑتے ہوئے نظر آتے ہیں اور بارش میں بسرنے والے قطرات خطوط دکھائی دیت یہیں (اس مسمریزم بھی کہا جاسکتا ہے)

(٥) عجیب و غریب کام جو مختلف شعبدوں سے ظاہر ہوتے ہیں، ان کے اسباب مخفی ہوتے ہیں جن کا عام لوگوں کو پتا نہیں چلتا۔

(٦) ایسی دوائوں سے جادو کرنا جو حواس کو مطچعل اور عقل کو زائل کردیتی ہیں۔

(٧) کسی کے دل کو تابع کرلینا وہ یہ ہے کہ انسان یہ دعویٰ کرے کہ اس کو اسم اعظم معلوم ہے اور جن اس کا تابع ہے اور اس کی اطاعت کرتا ہے، پس جو شخص ناسمجھ ہوگا وہ اس کے دعویٰ کو سچا گمان کرے گا اور وہ مرعوب اور خوفزدہ ہوجائے گا، پھر جادوگر اس پر قادر ہوگا کہ اس میں جو فعل چاہے وہ کرے۔

علامہ قرطبی مالکی نے کہا ہے کہ اس بات کا انکار نہیں کیا جاتا کہ ساحر کے ہاتھ سے ایسے خلاف عادت کاموں کا ظہور ہوتا ہے جو عام انسانوں کی طاقت میں نہیں ہوتے وہ لوگوں کو بیمار کردیتے ہیں۔ شوہر اور اس کی بیوی میں تفریق کردیتے ہیں، عقل کو زائل کردیتے ہیں۔ اعضا کو ٹیڑھا کردیتے ہیں، علماء نے کہا ہے کہ ساحر سے یہ بعید نہیں ہے کہ ہو اپنے جسم کو اس قدر پتلا کرلے کہ وہ سرکنڈے پر کھڑا ہوجائے، باریک دھاگے پر چلنے لگے، ہوا میں اڑنے لگے، پانی پر چلنے لگے اور کتے پر سواری کرے اور سحر ان کاموں کی علت ہے نہ موجب ہے، ان کاموں کو سحر کے وقت اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے جیسا کہ وہ کھانے اور پینے کے بعد انسان کے اندر سیری پیدا کرتا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٢ ص 45-46 مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

اور معتزلہ نے سحر کی پہلی تین قسموں کا انکار کیا ہے اور ایک قول یہ ہے کہ انہوں نے ان قسموں کے معتقد کو کافر قرار دیا ہے، اور رہے اہل سنت تو انہوں نے سحر کی تمام اقسام کو جائز قرار دیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ ساحر کو اس پر قدرت ہوتی ہے کہ وہ ہوا میں اڑے اور انسان کو گدھا بنا دے اور گدھے کو انسان بنا دے اور اس کے علاوہ دیگر شعبدوں پر بھی اس کو قدرت ہوتی ہے لیکن وہ کہتے ہیں کہ ان تمام چیزوں کا خالق اللہ تعالیٰ ہے، جب ساحر کلمات معینہ بولتا ہے تو اللہ تعالیٰ ان چیزوں کو پیدا کردیتا ہے اور اس پر آیت دلیل ہے :

(البقرہ : ١٠٢) اور جادوگر اللہ کے اذن کے بغیر اپنے جادو سے کسی کو نقصان پہنچانے والے نہیں ہیں۔ (الزواجر ج ٢ ص 712-714 ملحضاً مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ، ١٤١٧ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی 1252 ھ نے اس عبارت کو نقل کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔ (رسائل ابن عابدین ج ٢ ص 304 مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور، 1396 ھ)

علماء دیوبند بھی جمہور اہل سنت کی طرح اللہ تعالیٰ کے اذن سے جادو کے مئوثر ہونے کے قائل ہیں۔

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی 1369 ھ الاعراف : ١١٦ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

ان آیات سے ظاہر ہوا کہ ساحرین فرعون نے اس وقت جو شعبدہ دکھلایا تھا اس میں فی الواقع قلب ماہیت نہیں ہوا بلکہ وہ محض تخییل اور نظر بندی تھی۔ اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ تمام اقسام سحر اسی میں منحصر ہوں، شاید انہوں نے یہ گمان کیا ہو کہ ہم اتنی ہی کارروائی سے موسیٰ (علیہ السلام) کو دبا لیں گے اور کچھ گنجائش ملتی تو ممکن تھا کہ اس سحر عظیم سے بھی بڑا کوئی سحر اعظم دکھاتے مگر اعجاز موسوی نے سحر کو پہلے ہی مورچہ پر مایوس کن شکست دے دی، آگ یموقع ہی نہر ہا کہ مزید مقابلہ جاری رکھا جاتا۔ (حاشیہ عثمانی بر ترجمہ شیخ محمود حسن دیو بندی ص 218 مطبوہ سعودی عربیہ)

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی 1396 ھ الاعراف : ١١٦ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اس آیت سے معلوم ہوا کہ ان لوگوں کا جادو ایک قسم کی نظر بندی تھی اور تخییل تھی جس سے دیکھنے والوں کو یہ محسوس ہونے لگا کہ یہ لاٹھیاں اور رسیاں سانپ بن کر دوڑ رہے ہیں حالانکہ وہ واقع میں اس طرح لاٹھیاں اور رسیاں ہی تھیں۔ سانپ نہیں بنے تھے یہ ایک قسم کا مسمریزم تھا جس کا اثر انسانی خیال اور نظر کو مغلوب کردیتا ہے۔

لیکن اس سے یہ الزم نہیں آتا کہ سحر صرف اسی قسم میں منحصر ہے سحر کے ذریعہ انقلاب ماہیت نہیں ہوسکتا کیونکہ کوئی شرعی یا عقلی دلیل اس کی نفی پر قائم نہیں ہے بلکہ سحر کی مختلئف اقسام واقعات سے ثابت ہیں۔ کہیں تو صرف ہاتھ کی چالاکی ہوتی ہے جس کے ذریعہ دیکھنے والوں کو مغالطہ لگ جاتا ہے، کہیں صرف تخییل اور نظر بندی ہوتی ہے جیسے مسمریزم ہے اور اگر کہیں قلب ماہیت بھی ہوجاتا ہو کہ انسان کا پتھر بن جائے تو یہ بھی کسی شرعی یا عقلی دلیل کے خلاف نہیں ہے۔ (معارف القرآن ج ٤ ص ٣١ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی، ١٤١٤ ھ)

سحر اور ساحر کا شرعی حکم ہم نے الاعراف : ١١٦ میں تفصیل سے بیان کردیا ہے، اسی طرح سحر کے سکیھنے اور سکھانے کا شرعی حکم بھی ہم نے وہاں تفصیل سے بیان کردیا ہے۔ (تبیان القرآن ج ٤ ص 259-260)

القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 46