أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَتَبۡنُوۡنَ بِكُلِّ رِيۡعٍ اٰيَةً تَعۡبَثُوۡنَۙ ۞

ترجمہ:

کیا تم ہر اونچی جگہ پر لہو و لعب کی ایک یادگار تعمیر کر رہے ہو۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (حضرت ہود نے کہا) کیا تم ہر اونچی جگہ پر لھو و لعب کی ایک یادگار تعمیر کر رہے ہو ؟ ۔ اور اس توقع پر مضبوط مکان بنا رہے ہو کہ تم ہمیشہ رہو گے ۔ ! اور جب تم کسی کو پکڑتے ہو تو سخت جبر سے پکڑتے ہو ۔ سو تم اللہ سے ڈرو اور میری اطاعت کرو ۔ (الشعراء : ١٣١-۱۲۸)

قوم عاد کے عبث لھو و لعب کے متعلق اقوال 

اس آیت میں ریع کا لفظ ہے ریع کا معنی ہے ٹیلا ہر وہ اونچی جگہ جو دور سے نظر آئے (المفردات ج ٢ ص ٤٧٢)

اور اس میں تعبثون کا لفظ ہے۔ یہ عبث سے بنا ہے اس کا معنی ہے کھیل کود اور بیکار کام میں مشغول ہونا جس کام کی کوئی غرض نہ ہو اس کو عبث کہتے ہیں الفردات ج ٢ ص ٢١٤) اور اس میں آ یۃ کا لفظ ہے اس کا معنی ہے علامت ‘ نشانی اور یا دو گار۔ قوم عاد ہر اونچی جگہ پر جو ایک یادگار تعمیر کرتے تھے اس کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) حضرت ابن عباس نے فرمایا وہ اونچی جگہ پر مکان بناتے جس میں وہ رہائش کا ارادہ نہیں رکتے تھے اس لیے اس کو عبث فرمایا۔

(٢) سعید بن جبیر اور مجاہد نے کہا وہ عمارت بنا کر اس کے اوپر برج بناتے اور اس برج میں کبوتر رکھتے تھے 

(٣) ضحاک نے وہ بلند جگہ پر ایک عمارت بنا تے اور اس میں کھڑے ہو کر آنے جانے والوں کو دیکھتے اور ان کا مذاق اڑاتے (زاد المسیرج ٦ ص ٦٣٢-٥٣١‘ مصبو عہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ٧٠٤١ ھ)

ان اقوال کے علاوہ امام رازی نے دو قول اور ذکر کیے ہیں :

(٤) وہ اونچی جگہوں پر عمارتیں بناتے تاکہ اس سے ان کا غنی اور خوشحال ہونا ظاہرہو اور وہ ان عمارتوں پر فخر کرتے تھے اس لیے ان کے اس کام کو عبث فرمایا۔

(٥) وہ لوگ جب سفر پر جاتے تھے تو اپنا راستہ تلاش کرنے میں ستاروں سے رہ نمائی حاصل کرتے تھے اور انہوں نے اس کے لیے راستوں میں بلند علامتیں اور نشانیاں بنادیں تھیں ‘ حالا ن کہ ان کو اس کی ضرورت نہ تھی وہ ستاروں سے رہ نمائی حاصل کرتے تھے۔

ہم نے امام راغب سے نقل کیا ہے کہ عبث کا معنی ہے جس کام کی کوئی صحیح غرض نہ ہو ‘ اسی طرح کا لہو کا معنی ہے وہ چیز یا وہ کام جو انسانوں کو اس کے مقصود ‘ مشن اور اہم کام سے غافل کردے وہ لہو ہے۔ (الفردات : ج ٢ ص ٢٨٥)

مفسرین نے قوم عاد کے عبث کاموں اور لہو و لعب میں چھتوں پر کبوتروں کے کا بک بنانے اور کبو تر بازی کا بھی ذکر کیا ہے ‘ ہم پہلے لہو و لعب اور کبوتر بازی کے متعلق احادیث ذکر کریں گے۔ پھر لہو و لعب کی تعریب ‘ جائز کھیلوں کی ضرورت ‘ ناجائز کھیلوں کے نقصانات ‘ فقہی جزئیات اور دیگر مناسب امور بان کریں گے 

لہو و لعب اور کبوتر بازی کے متعلق احادیث 

حضرت عبداللہ بن عبدالرحمن بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ ‘ ایک تیر کی وجہ سے تین آدمیوں کو جنت میں داخل فرماتا ہے تیر کا بنانے والا جو اس کے بنانے میں خیر اور ثواب کی نیت رکھتا ہو ‘ تیر پھینکنے والا ‘ اور اس کی امداد کرنے والا ‘ تم تیر ادازی کرو اور سواری کرو ‘ اور تیر اندازی کرنا سواری کرنے سے زیادہ پسندیدہ ہے۔ ہر وہ چیز جس سے مسلمان لہو کرتا ہے (کھیلتا ہے) وہ باطل ہے ( بےفائدہ اور لغو کام ہے) ماسوا اس کا کمان سے تیر پھینکنا ‘ اور اپنے گھو ڑے کو تر بیت دینا۔ اور اپنی بیوی سے دل لگی کرنا کیونکہ یہ برحق کام ہے 

سنس الزمذی رقم الحدیث : ٨٣٦١ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣١٥٢‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٠٨٥٣‘ سن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١١٨٢‘ مصنف عبدالزاق رقم الحدیث : ٢٢٥٩١‘ ٠١٠١٢‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٥ ص ٢٢‘ مسند احمد ج ٤ ص ٨٤١‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٠١٤٢‘ ١ لمعجم الکبیر رقم الحدیث ٢٤٩‘ المستدرک ج ٢ ص ٩٥ السنن الکبریٰ للبیہقی ج ٠١ ص ٨١٢‘ ٣١)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سورج غریب ہونے کے بعد تم اپنے مویشیوں اور بچوں کو باہر نہ نکالوں ‘ حتیٰ کہ عشاء کی سیاہی غائب ہوجائے ‘ کیونکہ سورج غروب ہونے کے بعد شیاطین کھیلتے رہتے ہیں حتی ٰ کہ عشاء کی سیاہی غائب ہوجائے (صحیح مسلم رقم الحدیث ٣١٠٢‘ سنن ابودائود درقم الحدیث ٤٠٦٢‘ مسند احمد ج ٣ ص ٦٨٣)

حضرت یزید بن سعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی کی کوئی چیز مذاق سے لے نہ سنجیدگی سے یا دل لگی اور کھیل کے طور پر لے نہ سنجیدگی سے اور جس شخص نے اپنے بھائی کی لاٹھی لی ہے وہ اس کو واپس کر دے۔

(سن ابود دائود رقم الحدیث ٣٠٠٥ سن الترمذی رقم احدیث ٠٦١٢ المعجم الکبیر ج ٢ رقم الحدیث ٠٣٦ المسدرک ج و ٣ ص ٧٣٦ السنن الکبریٰ للبیہیقی ج ٦ ص ٢٩ شرح السنہ رقم الحدیث : ٢٧٥٢ )

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں دو سے ہوں نہ دو مجھ سے ہے۔(مسند البرز ‘ رقم الحدیث ٢٠٤٢‘ ملمعجم الاوسط رقم الحدیث ٥١٤)

علامہ ابن اثیر الجزری نے کہا دو کا معنی ہے لھو وہ لعب یعنی میں کھیلنے کود نے والوں میں سے نہیں ہوں اور نہ کھیل کود میرا شغل ہے (النہایۃ ج ٢ ص ١٠٣-٢٠١) ‘ ابو محمد یحییٰ بن محمد نے کہا دو کا معنی باطل (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٥٢٢ )

حضرت شرید (رض) بنان کرتے ہیں کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرمانتے ہوئے سنا کہ جس نے چڑیا کو بےفائدہ (بغیر کھا نے کی غرض کے) قتل کیا وہ قیامت کے دن اللہ عزوجل سے فریاد کرے گی کہ فلاں شخص نے مجھے عبث قتل کیا اور مجھے کسی فائدہ کے لیے قتل نہیں کیا (سنن النسائی رقم الحدیث ٧٥٤٤‘ ٠٦٣٤)

حضرت ابو موسیٰ (رض) نے کہا جو شخص کسی کھیل کے مہروں (مثلالوڈو کی گوٹوں) کے ساتھ کھیلا اس نے اللہ اور رسول کی نافرمانی کی (مسند احمد ج ٤ ص ٥٢١‘ سنن ابود ائود رقم الحدیث ٨٣٩٤)

حضرت بریدہ بن الحصیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص نرد شیر (چوسر یا شطرنج کے مہروں) کے ساتھ کھیلا پس گویا اس نے اپنا ہاتھ خنزیر کے گوشت اور خون میں مل لیا (کیرم ‘ اسنوکر اور لوڈو وغیرہ بھی اس میں داخل ہیں) (صحیح مسلم رقم الحدیث ٠٦٢٢‘ سنن ابود ائود رقم الحدیث : ٩٣٠٥٢ )

حضرت عبداللہ بن عباس (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جانوروں کو لڑانے سے منع فرمایا (جیسے کتوں ‘ ریچھ ‘ مینڈھوں اور مرغوں کو لڑایا جاتا ہے )(سن ابودائود رقم الحدیث ٢٦٥٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٩٠٧١‘ مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث ٩٠٥٢‘ الکامل لا بن عدی ج ٣‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٠١ ص ٢٢ )

حضرت معاویہ بن بہز (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اس شخص کے لئے ہلاکت ہو جو لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے ’ اس کے لئے ہلاکت ہو ‘ پھر اس کے لیے ہلاکت ہو۔(سن ابودائود رقم الحدیث ٠٩٩٤ ’ سنن الترمذی رقم الحدیث ٥١٣٢ ’ مسند احمد ج ٢ ص ٥٤٣ ‘الادب المفردر قم الحدیث ١٣٠٠‘ صحیح ابن حبان قرم الحدیث ٤٧٨٥‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٠١ ص ٣١٢‘ ٩١)

محدثین کے نزدیک لہو کی تعریف 

علامہ مجد الدین المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٢٠٢ ھ لکھتے ہیں 

جس کام میں انسان اس قدر مشغول ہوجائے کہ اس کام کے علاوہ دوسرے کاموں سے غافل ہوجاتے تو اس کام کو لھو و لعب کہتے ہیں (النہایہ ج ٤ ص ٢٤٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٨١٤١ ھ )

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٦٥٢ ھ لکھتے ہیں 

ہر وہ لہو باطل ہے جس کی مشغولیت انسان کو اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل کر دے 

علامہ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٢٥٨ اس کی شرح میں لکھتے ہیں 

مطلقا کسی فعل میں مشغول ہونا خواہ اس فعل کی اجازت ہو یا وہ فعل ممنوع ہو ‘ لہو ہے ‘ مثلا کوئی شخص نفل نماز میں مشغول ہو یا تلاوت میں مشغول ہو یا ذکر میں یا قران کے معانی کے اندر غور و فکر کرنے میں حتی کہ فرض نماز کا وقت عمداـ نکل جائے تو وہ بھی لہو ہے اور جبمرغوب اشیاء میں اتعغال کا یہ حکم ہے تو اس سے کم درجہ کی چیزوں میں اشتغال کا کیا حال ہوگا۔(فتح الباری ج ١٢ ص ٧٢٢‘ ٦٦٣‘ مطبوعہ دارلفکر بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

علامہ بدالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٥٥٨ ھ لکھتے ہیں 

امام بخاری کی عبارت کا مطلب یہ ہے کہ جب کسی کام میں اشتغال اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے غافل نہ کرے تو وہ لہو نہیں ہے (عمدہ القاری ج ٢٢ ص ٤٧٢‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعہ المنیر یہ مصر ‘ ٨٥٣١ ھ )

ملا علی بن سلطان محمد القاری متوفی ٤١٠١ ھ لکھتے ہیں 

جس طرح تیراندازی اور گھوڑے کو تربیت دینے میں اشتغال لہو باطل نہیں بلکہ برحق امور میں سے ہے اسی طرح ہر وہ کام جو حق میں معاونت کرتا ہو خواہ علم ہو یا عمل جبکہ وہ امور مباحہ میں سے ہو تو اس میں اشتغال لہ باطل نہیں ہے اور برحق امور میں سے ہے ‘ جیسا کہ کسی شخص کا گھوڑوں اور اونٹوں میں بغیرشرط باندھے مقابلہ کر انا ‘ یا کسی شخص کا بند کی قوت بحال رکھنے یا قوت حاصل کرنے کے لیے دوڑنا ‘ بھاگنا (اور دوسری ورزشیں کرنا ‘ یاد ماغ کے تازگی کے لیے آلات موسیقی کے بغیر حمد ‘ نعت او حکیمانہ اشعار سننا (مرقات ج ٧ ص ٨١٣ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ٠٩٣١ ھ )

جسمانی صحت کے حصول کے لیے جائز کھیلوں اور ورزشوں کا جواز 

جسمانی ورزش اور باہمی دلچسپی کے لیے جو کھیل کھیلے جاتے ہیں ان کے کھیلنے سے اگر کسی غیر شرع امر کا ارتکاب نہ ہوتا ہو اور کوئی عبادت ضائچ نہ ہوتی ہو تو ان کھیلنا جائز ہے مثلا بعض کھیل ایسے ہیں جن میں کھلاڑی گٹنوں سے اونچا نیکر پہنتے ہیں بعض کھیل ایسے ہیں جو صبح سے شام تک جاری رہتے ہیں اور ظہر کی نماز کا وقت کھیل کے دوران آ کر نکل جاتا ہے اور کھلاڑی اور کھیل دیکھنے والے نماز کا کوئی خیال نہیں کرتے کھا نے اور چائے کا وقفہ کیا جاتا ہے لیکن نماز کا کوئی وقفہ نہیں ہوتا ! بعض دفعہ کسی کھیل میں ہار جیت پر کوئی شرط رکھی جاتی ہے ‘ یہ سب امور ناجائز ہیں 

انسان کی صحت اور جسم کو چاق و چو بند رکھنے کے لئے کھیل اور ورزش دونوں بہت ضروری ہیں ‘ بعض لوگ میز کرسی پر بیٹھ کر دن رات پڑھنے لکھنے کال کام کرتے ہیں ان کو اپنے کام کی وجہ سے زیادہ چلنے پھر نے جسمانی مشقت کا موقع نہیں ملتا اس کی وجہ سے ان لوگوں کی توند نکل آئی ہے اور خون میں لولیسٹرول کی مقدار زیادہ ہوجاتی ہے اور یہ لوگ ذیا بطیس (خون میں شکر کا ہونا) ہائی بلڈ پریشر ‘ دل کی بیماریوں ‘ معدہ کا ضعف اور گیس کا شکار ہوجا تے ہیں ان بیماریوں سے محفوظ رہنے یا بیماری لاحق ہونے کے بعد ان کا مقابلہ کرنے کے لیے مختلف قسم کے کھیلوں اور ورزشوں میں مشغول رہنا حفظان صحت کے لیے نہایت ضروری ہے 

اسلام میں مختلف کھیلوں اور ورزشوں کی بھی مناسب حد تک حوصلہ افزائی کی گئی ہے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے گھڑ سواری کا مقابلہ کرایا ‘ پیدل دوڑ کا مقابلہ کرایا ‘ آپ نے خود بہ نفس نفیس مقابلہ میں حصہ لیا۔ اسی طرح آپنے کشتی بھی کی۔

جسم کو چاق و چو بند اور صحت کو قامء رکھنے کے لیے جو کھیل کھیلے جائیں اور جسمانی ورزشیں کی جائیں ان میں یہ نیت ہونی چاہیے کہ ایک صحت مند اور طاقت ورجسم اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے احکام پر زیادہ اچھی طرح عمل کرسکتا ہے اور حقوق العباد کی ادائیگی اور خلق خدا کی خدمت تندرست اور توانا جسم سے بہتر کی جاسکتی ہے اس لیے اچھی صحت اور طاقت کے حصول کے لیے مناسب کھیلوں اور ورزشوں میں حصہ لینا چاہیے 

علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں 

بغیر کسی عوض کی شرط کے مقابلہ میں حصہ لینا مطلقا جائز ہے اور نہ اس میں کسی معین جنس کے مقابلہ کے مقابلہ کی قید ہے خواہ پیا دہ دوڑ کا مقابلہ ہو ‘ کشتیوں کا ہو یا پرندوں خچروں ‘ گدھوں اور ہاتھیوں یا نیزوں کا مقابلہ ہو اسی طرح کشتی لڑنا بھی جائز ہے اور طاقت آزمائی کے لیے پتھر اٹھانا بھی جائز ہے کیونکہ ایک سفر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عائشہ سے دوڑ میں مقابلہ کیا ہے حضرت سلمہ بن اکوع نے ایک انصاری سے دوڑ میں مقابلہ کیا۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت رکانہ سے کشتی لڑی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک قوم کے پاس سے گزرے جو پتھر اٹھا کر اطاقت آزمائی کررہے تھے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو منع نہیں فرمایا۔(امغنی ج ٩ ص ٨٦٣ )

ان تمام احادیث اور آثار میں اس کا ثبوت ہے کہ صحت اور قوت کو برقرار رکھنے کے لئے صحت مند کھیلوں اور جسمانی ورزشوں کو اختیار کرنا چاہیے اور ان کھیلوں میں دلچسپی پیدا کرنے کے لئے مقابلہ منعقد کرانا بھی جائز ہے البتہ کسی بھی مقابلہ پر ہار جیت کی شرط رکھنا جائز ہے۔ ان احادیث کی تفصیل کے لئے شرح صحیح مسلم ج ٦ ص 638-642 اور تبیان القرآن ج ٣ ص 306-309 کا مطالعہ فرمائیں۔

لہو باطل (غیر شرعی شغل) کے نقصانات 

(١) لہو باطل سے بندہ اور اللہ کے درمیان بہ تدیرج ربط کم ہوتا جاتا ہے اور بندہ کو اس کا شعور نہیں ہوتا 

(٢) لہو باطل سے بندہ شیطان کے پھندوں میں پھنستا چلا جاتا ہے اور حمن سے دور ہوتا چلا جاتا ہے 

(٣) لہو باطل کی تمام انواع اور اقسام ‘ مکر و تنز یہی ہیں یا مکروہ تحریمی ہیں یا حرام ہیں ‘ مثلا فلم آرٹ اور شوبز 

(٤) اس میں ناجائز طریقہ سے مال خرچ ہوتا اور انسان دیکھتے دیکھتے امارت سے افلاس کے گھڑے میں جا گرتا ہے جیسے ریس ‘ جوئے اور سٹے میں عوما ایسا ہوتا ہے اور لکھ پتی اور کروڑ پتی انسانوں کا دیوالیہ نکل جاتا ہے 

(٥) مسلمان کا بلا فائدہ وقت ضا ئع ہوتا ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت سے غافل ہوجاتا ہے اور تارک فرائض ہوجاتا ہے 

(٦) بعض اوقات کھیلوں میں ہار جیت میں اختلاف اور نزاع پیدا ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں کینہ ‘ حسد اور بغض پیدا ہوتا ہے اور کئی مرتبہ لڑائی اور جدال قتال کی نوبت آجاتی ہے 

(٧) انسان کی شہرت اور عزت داغ دار ہوجاتی ہے ‘ کتنے کھلاڑی جو لوگوں کے آ ئیڈل اور ہیرو تھے سٹہ کھیلنے کی وجہ سے ذلیل و خوار اور قابل نفرت ہوگئے ہیں اور اس کی بہت مثالیں ہیں 

(٨) اس سے دل میں نفاق پیدا ہوتا ہے اور شیطان کھیلنے والے کے دل میں نفاق ‘ سازشوں اور دھوکہدہی کو مزین کرتا رہتا ہے حتی کہ اس کو پکا فریبی ‘ چالباز اور منافق بنا دیتا ہے 

(٩) دنیا میں اس کی شخصیت گمراہ اور حقیر ہوجاتی ہے اور آخرت میں وہ درد ناک عذاب کا مستحق ہوتا ہے 

(١٠) کھیلوں میں جیت کے لیے ناجائز ہتھکنڈے استعمال کرنے کی وجہ سے اور ناجائز پیسہ حاصل کرنے کے سبب سے انسان اپنے سینکڑوں دشمن بنا لیتا ہے 

لہو باطل اور کبوتر بازی کے متعلق فقہاء کی تصریحات 

علامہ شمس الدین محمد بن احمد سرحسی حنفی متوفی ٣٨٤ ھ لکھتے ہیں 

جو شخص کبوتروں سے کھیلتا ہو اور کبوتر اڑاتا ہو اس کی گواہی جائز نہیں ہے کیونکہ اسمیں شدت غفلت ہے ‘ ظاہر یہ ہے کہ وہ شخص عام طور پر کبوتر بازی میں مشغول رہتا ہو اور دوسرے امور کی طرف کم تکوجہ دیتا ہو ‘ پھر وہ شخص لھو لعب پر اصرار کر نیولا ہو ‘ حالانکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے میں کھیلنے کودنے والوں میں سے نہیں ہوں اور نہ کھیل کود میرا شغل ہے (مسند البز اررقم الحدیث ٢٠٤٢ )

اور کبوتر باز کا غالب حال یہ ہے کہ وہ چھتوں پر گھومتا پھرتا ہے اور لوگوں کی خواتین کو تاڑتا ہے اور یہ فسق ہے اور جو شخص اپنے گھر میں کا بک میں کبوتروں کو رکھے تاکہ ان سے انس اور محبت کرے اور ان کو عادۃ اڑاتا نہو تو تو وہ شخص نیک ہے اور اس کی شہادت مقبول ہوگئی کیونکہ گھروں میں کبوتروں کو بند رکھا مباح ہے ‘ لوگ کبوتروں کے لیے برج بناتے ہیں اور اس کو کسی نے منع نہیں کیا اور جو شخص گانے گاتا ہو اور اس پر مجمع لگاتا ہو اس کی گواہی جائز نہیں ہے اسی طرح نوحہ کرنے والی عورت کی بھی گواہی جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بھی ایک قسم کے فسق پر اصرار کرتے ہیں اور نیک لوگوں کے نزیک ان کی عزت اور وقار نہیں ہے اور ان سے ساز بجانا اور جھوٹ بولنا بعید نہیں ہے۔ اس لیے ان کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔(المبسوط ج ١٦ ص ٥٥١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

جن کاموں سے انسان فاسق ہوجاتا ہے اور اس کی شہادت قابل قبول نہیں ہوتی 

علامہ حسن بن منصور اوز جندی متوفی ٢٩٥ ھ لکھتے ہیں 

جو شخص کبوتروں کے ساتھ کھیلتا ہیو اور ان کو اڑاتا ہو اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی کیونکہ ان کے ساتھ اس کی مشغولیت زیادہ ہوگی اور اس کی غفلت شدید ہوگی اور اس سے یہ خطرہ ہے کہ اس کی نظر مسلمانوں کی خواتین پر پڑے گی ‘ لیکن اگر وہ کبوتر کو انس کے لیے اپنے گھر میں بند رکھے اور اس کو اڑائے نہیں تو پھر اس کی گواہی کو قبول کرنا جائز ہے کیونکہر جس کے پاس کبوتروں کا برج (چھت پر گنبد) ہو و وہ فاسق نہیں ہوتا اور جو شخص شرط لگا کر شطرنج کھیلے (یعنی اگر وہ ہار گیا تو وہ اتنی رقم دے گا یا کسی اور چیز کے ساتھ جوا کھیلے تو اس کی گواہی قبول کرنا جائز نہیں ہے ‘ کیونکہ جوا کھیلنا گناہ کبیرہ ہے اور اگر بغیر شرط اور جوئے کے شطرنج کھیلے تو اگر وہ دائما شطرنج کھیلتا ہو حتیٰ کہ وہ کھیل اس کو نمازوں سے غافل کردے یا وہ کھیل کے دوران جھوٹی قسمیں کھائے تو اس کی گواہی کو قبول کرنا جائز نہیں اور اگر کوئی شخص تھوڑی مقدار میں کوئی کھیل کھیلے جو اسکو فرائض سے غافل نہ کرے تو اس کی عدالت (گواہی دینے کی اہلیت) ساقط نہیں ہے اور بیوی اور تیر کمان گھوڑے کے ساتھ کھیلنے سے اس وقت تک عدالت ساقط نہیں ہوگی جب تک کہ یہ مشغولیت اس کو فرائض سے غافل نہ کردے اور اگر آلات لھو سے کھیلنا اس کے فرائض سے مانع نہ ہو لیکن لوگوں کے نزدیک وہ کھیل مذموم ہو جیسے مزا میر اور طنا بیر (بانسر یاں اور ستار) اور اگر وہ لوگوں کے نزیدک مدموم نہ ہوں جیسے گا گا کر اونٹوں کو ہانکنے والے جیسے سرکنڈے کی بانسری بجانا ‘ اس سے اس کی عدالت باطل نہیں ہوگی ماسوا اس کے وہ بہت زیادہ گائے بجائے اور لوگ اس کی دھن پر رقص کریں اور اصل (امام محمد کی مبسوط) میں مذکور ہے کہ جو شخص گا گا کر مجمع لگاتا ہو اس کی گواہی مقبول نہیں کیونکہ وہ معیصت کا اظہار کررہا ہے اس طرح جو شخص شرابیوں کی مجلس میں بیٹھے خواہ وہ شراب نہ پیے اور اسکو نشہ نہ آئے اس کی گواہی قبول نہیں ہوگی اور نوحہ کرنے والوں مردوں اور عورتوں کی گواہیقبول نہیں کی جائے گی اور نہ ان لوگوں کی جو سود خوری میں مشہور اور معروف ہوں اور جو نیک شخص فحش اشعار پڑھے اس کی قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ان لوگوں کی جو سود خوری میں مشہور اور معروف ہوں اور جو نیک شخص فحش اشعار پڑے اس کی عدالت ساقط نہیں ہوگی کیونکہ وہ دوسروں کے اشعار نقل کرتا ہے اور جو شخص ترنم سے اشعار پڑھے اس کی عدالت میں ساقط نہیں ہوگی اور جو شخص فرائض واجب ہونے کے بعد ان کو تا خیر سے ادا کرے تو اگر ان فرائض کا وقت معین ہے جیسے نماز ‘ روزہ ‘ زکوٰۃ اور حج کو بغیر عذر کے مئو غر کردیا تو اس کی عدالت ساقط نہیں ہوگی اور امام محمد بن مقاتل نے اسی پر فتٰوی دیا ہے اور بعض علما نے کہا اگر اس نے زگوا اور حج کو بغیر عذر کے مئوخر کردیا تو اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور فقیہ ابو اللیث نے اسی پر فتویٰ دیا ہے ‘ امام ابو یوسف نے امالی میں لکھا ہے کہ حج فورا واجب ہوجاتا ہے اور صحیح یہ ہے کہ زکوۃ کی تاخیر سے اس کی عدالت باطل نہیں ہوگی اور جس شخص الائمہ سرخسی کا قول ہے اور ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ جس شخص نے ایک جمعہ بھی بلا عذر ترک کردیا اسکا یہی حکم ہے اور شمس الا ئمہ حلوانی کا اسی پر فتویٰ ہے اور اگر اس نے کسی عذر یا مرض یا بعد مسافت کی وجہ سے یا کسی تاویل سے جمعہ کو ترک کیا ‘ مثال اس کے نزدیک امام فاسق ہے یا گمراہ ہے تو پھر اسکا یہ حکم نہیں ہے اور اگر اور اگر کسی نماز کی جماعت کو ترک کیا اور اس کو گناہ نہیں جانا ‘ جیسا کہ عوام کرتے ہیں تو اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور اگر اس نے کسی تاویل سے باجماعت نماز نہیں پڑھی مثلا اس کے نزدیک امام فاسق ہے یا گمراہ ہے تو پھر اس کے کا یہ حکم نہیں ہے اور جو شخص جھوٹ بولنے میں مشہور ہو اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی اور جو شخص اپنی اولاد کو اپنی بیوی کو اور پڑوسیوں کو گالیاں دیتا ہو اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی ایک قول یہ ہے کہ اگر عادۃ ایسا کرتا ہو تو اس کی عدالت ساقط ہوگی اور اگر کبھی کبھی ایسا کرتا ہو تو عدالت ساقط نہیں ہوگی اور جو شخص صرف شلوار پہن کر بازار میں چلتا ہو یار استہ میں کھاتا ہو تو اس عدالت ساقط ہوجائے گی کیونکہ یہ افعال حیا اور آ داب کے خلاف ہیں اور جو شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اصحاب کو گالیاں دیتا ہو اس کی عدالت ساقط ہوجائے گی ‘ فاسق جب تو بہ کرلے تو اس کی شہادت اس وقت تک قابل قبول نہیں ہوگی جب تک کہ اتنا عرصہ نہہ گذر جائے جس میں اس کی توبہ کا اثر ظاہر ہوجائے۔(فتاویٰ قاضی خاں علی ھامش الھندیہ ج ٢ ص ٠٦٤‘ مطبوعہ مطبعہ کبریٰ امیر یہ بولاق مصر ٠١٣١ ھ)

علامہ ابوالحسن علی بن ابی بکر المرغینانی المتوفی ٣٩٥ ھ لکھتے ہیں 

مخنث کی شہادت قبول نہیں کی جائے گی اور نہ نوحہ کرنے والی کی اور زنہ گانے والی کی کیونکہ یہ دونوں حرام کی مرتکب ہیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نوحہ کرنے والی اور گانے والی کی آوازوں کو سننے سے منع فرمایا ہے (سنن ابود ائود رقم الحدیث ٨٢١٥٣ مسند احمد ج ٣ ص ٥٢) اور نہ اس شخص کی شہادت قبول ہوگی جو دائما سرور حاصل کرنے کے لیے شراب پیتا ہو اور نہ اس شخص کی جو پر ندے اڑاتا ہو کیونکہ اس سے غفلت پیدا ہوتی ہے اور نہ اس شخص کی جو مجمع لگا کر گاتا ہو کیونکہ یہ گناہ کبیرہ ہے (بہ شرطی کہ ان اشعار میں کسی زندہ اکور معین مرد یا عورس کے محاسن بیان کیے ہوں یا شراب نوشی کی ترغیب کا مضمون ہو یا کسی مسمان یاذمی کی عجو ہو یا اس میں نوحہ ہو ( فتح القدیر ج ٧ ص ٤٨٣ دالرفلکر بیروت ٥١٤١ ھ) اور نہ اس شخص کی گواہی قبول ہوگی جو کسی ایسے گناہ کبیرہ کا ارتکاب کرے جس پر حد واجب ہو اور نہ اس شخص کی جو شطرنج میں اشتغال کی وجہ سے نماز ترک کردے اور نہ اس کی جو سود کھانے میں مشہور ہو اور نہ اس شخص کی جو راستہ میں پیشاب کرتا ہو یا کھاتا پیتا ہو اور نہ اس شخص کی جو اصحاب رسول کو سب و شتم کرے اور نہ رافضیوں کی (ھدایہ اخیرین ص ٣٦١ ملخصا ‘ مطبوعہ شرکت علیمہ ملتان )

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ٢٥٢١ ھ نے قاضی خاں اور فتح القدیر کی ذکر کردہ وہ تمام صورتوں کو تفصیل سے بیان کیا ہے ‘ طوالت کی وجہ سے ہم انکی عبارت کو ترک کررہے ہیں جو دیکھنا چاہتا ہو اصل کتاب دیکھ لے۔

(ردالمحتاج ١١ ص ٤٨١-١٧١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

ہمارے زمانہ کے بناوٹی صوفیاء کا سماع ‘ رقص اور دھمال کرنا 

الیتیمہ میں مذکور ہے کہ شمس الا ئمہ الحلوانی سے پوچھا گیا کہ جو لوگ اپنے آپ کو صوفیہ کہتے ہیں وہ مخصوص قسم کا لباس پہنتے ہیں اور لھو اور رقص میں مشغول رہتے ہیں اور اپنے لیے معرفت کے ایک مرتبہ کے مدعی ہوتے ہیں تو علامہ الحلوانی نے کہا ان لوگوں نے اللہ پر جھوٹ اور بہتان باندھا ان سے پوچھا اگر وہ غیر شرعی کام کریں تو کیا ان کو شہر بدر کیا جائے گا ؟ تاکہ عام لوگوں کو ان کے فتنہ کا اثر نہ ہو تو انہوں نے کہا تکلیف دہ چیز کو راستہ سے ہٹانا اور خبیث کو طیب سے الگ کرنا ضروری ہے اس کا قصد کرنا اور اس کی مجلس میں بیٹھنا جائز نہیں ہے وہ اور غنا (گانا) اور ماز میر (ساز) برابر ہیں ان کو بناوٹی صوفیوں نے جائز کہا ہے اور متقدم مشائخ کے افعال سے استدلال کرتے ہیں الحلوانی نے کہا میرے نزدیک متقدمین مشائخ کے افعال ایسے نہیں تھے کیونکہ ان کے زمانہ میں ایسا شعر پڑھا جاتا تھا جو ان کے حال کے موافق ہوتا تھا تو جس کا دل نرم ہوتا تھا اس کے دل پر غشی طاری ہوجاتی تھی۔ وہ غیر اختیاری طور پر کھڑا ہوجاتا تھا اور اس سے اس کے ارادہ اور اختیار کے بغیر کچھ حرکات صادر ہوتی تھیں ان کے جواز کے متعلق کچھ استبعاد نہیں ہے اور ان افعال پر گرفت نہیں ہوگ یاور ان مشائخ کے متعلق یہ گمان نہیں کیا جائے گائے گا کہ ووہ اس قسم کے افعال کرتے تھے جس قسم کے افعال ہمارے زمانے کے فاسقین کرتے ہیں اور جن لوگوں کو احکام شرع کا کوئی علم نہیں استدلال صرف دین دار لوگوں کے افعال سے کیا جاتا ہے ‘ اسی طرح جواہر الفتاوی میں مذکور ہے 

امام ابو یوسف (رح) سے سوال کیا گیا کہ شادی کے علاوہ دیگر مواقع پر فسق کے بغیر عورتیں ڈھول بجائیں تو کیا آپ اسے مکروہ کہتے ہیں انہوں نے کہا میں اس مکروہ نہیں کہتا لیکن جس گانے میں لعب فاحش (بہت زیادہ ساز) ہوں میں اس کو مکروہ کہتا ہوں ‘ عید کے دن دف بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(فتاوی عالمگیری ج ٥ ص ٢٥٣‘ مطبوعہ مطیعہ امیر یہ کبریٰ بولاق مصر ‘ ٠١٣١)

علامہ سید محمد امین ابنین شامی حنفی متوفی ٢٥٢١ ھ لکھتے ہیں 

ہر لہو یعنی عبث اور لعب (لغو اور فضول کام) مکروہ ہے اس عبارس کا اطلاق نفس فعل کو بھی شامل ہے اور اس کے سننے کو بھی مثلا رقص کرنا ‘ مذاق اڑانا ‘ تالی بجانا ‘ ستار ‘ سارنگی اور وائلن کے تار بجانا ‘ ہارمونیم اور بانسری بجانا ‘ جھا نجھن بجانا اور بگل اور نر سنگھا بجانا (پیانو ‘ گیٹار اور آرکسٹرا بھی اسی حکم میں ہے) یہ تمام افعال مکروہ ہیں کیونکہ یہ افعال کفار کے مشابہ ہیں اور ڈھول اور بگل اور نر سنگھا بجانا (پیانو ‘ گیٹار اور آر کسٹرا بھی اسی حکم میں ہے یہ تمام افعال مکروہ ہیں کیونکہ یہ افعال کفار کے مشابہ ہیں اور ڈھول اور بانسری کی آواز سننا حرام ہے اور اگر کسی نے اچانک سن لیا تو وہ معذور ہوگا اور اس پر واجب ہے کہ وہ نہ سننے کی کوشش کرے (ردا لمحتار ج ٩ ص ٢٨٤‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)

نیز علامی شامی لکھتے ہیں 

آلات لھو بدا تھا حرام نہیں کیونکہ قیامت کے صور پر متنبہ کرنے کے لیے بگل بجانا جائز ہے اسی طرح عید اور شادی کے موقع پر دف بجانا جائز ہے سیعدی غفرلہ) بلکہ لھو و لعب کے قصد سے ناجائز ہیں ‘ خواہ ان کو سننے والا ہو یا ان کو بجانے والا ہو کیا تم نہیں دیکھتے کہ اختلاف نیت اور اختلاف مقاصد سے یہ آلات موسیقی کبھی حلال ہوتے ہیں اور کبھی حرام ‘ اور اس قول میں ہمارے سادات صوفیہ کی دلیل ہے جو سماع سے ان ہی امور کا قصد کرتے تھے جن کا ان ہی کو علم تھا ‘ لہذا معترض ان پر انکار کرنے میں جلد نہ کرے تاکہ ان کی برکتوں سے محروک نہ ہو کیونکہ وہ ہمارے بہترین سردار ہیں اللہ تعالیٰ ان کی امداد سے ہماری مدد فرمائے اور ان کی نیک دذعائوں اور بر کتوں کو ہم تک پہنچائے اس تمام بحث کو میں نے ملتقیٰ کے حواشی میں لکھا ہے حسن بصری سے مروی ہے کہ شادی کے مواقع پر دف بجانے میں کوئی حرج نہیں ہے اور میں کہتا ہوں کہ رمضان میں سوائے ہوئے لوگوں کو جگانے کے لیے طبل بجانا بھی حمام کے بگل بجانے کی طرح جائز ہے (ردا لمحتارج ٩ ص ٧٢٤-٦٢٤‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)

علامہ ابراہیم بن محمد حلبی متوفی ٦٥٩ ھ لکھتے ہیں 

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے منقول ہے کہ آپ نے قرآن مجید پڑھتے وقت ‘ جنازہ میں ‘ وعظ میں اور جہاد میں آواز بلند کرنے کو مکروہ قرار دیا ہے تو تمہارا اس غنا (گانے) کے متعلق کیا گمان ہے جس کو یہ لوگ وجد کہتے ہیں۔

(ملتقی الا بہرج ٤ ص ٩١٢‘ دا الکتب العلمیہ بیروت ‘ ٩١٤١ ھ)

اس کی شرح میں علامہ محمد بن محمد الحصکفی متوفی ٨٨٠١ ھ لکھتے ہیں 

جس غنا کو یہ لوگ وجد اور محبت کہتے ہیں یہ مکروہ ہے اس کی دین میں کوئی اصل نہیں۔ الجواہر میں مذکور ہمارے زمانہ میں بناوٹی صوفی جو کچھ کرتے ہیں وہ حرام ہے اس کا قصد کرنا اور انکی مجلس میں بیٹھنا جائز نہیں ہے اور ان سے پہلے لوگوں نے یہ کام نہیں کیے اسی طرح جو منقول ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اشعار سنے ہیں وہ غنا کی ابا حت پر دلالت نہیں کرتا ‘ وہ اشعار حکمت اور وعظ پر مبنی تھے۔ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تواجد کی حدیث صحیح نہیں ہے اور نصر ابادی سماع کرتے تھے ان کو ملامت کی گئی تو انہوں نے کہا سماع غیبت کرنے سے بہتر ہے ان سے کہا گیا ھہیات ! بلکہ سماع کی لغزش غیبت سے بدتر ہے سری سقطی نے کہا وجد کرنے شرط یہ ہے کہ وجد کرنے والا حالت وجد میں اس حد پر ہو کہ اس کے چہرے پر تلوار ماری جائے تو اس کو درد کا احساس نہ ہو۔ البتہ تنہائی میں بیٹھ کر گنگنا نا اور شادی اور دعوت کی موقع پر اشعار پڑھنا جائز ہے (الدر المثقیٰ فی شرح الملتقی ج ٤ ٠٠٢-٩١٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٩ ھ )

پرندوں اور جانوروں کو پالنے کے متعلق احادیث 

ہم نے اس بحث میں یہ بیان کیا ہے کہ کبوتروں اور دوسرے پرندوں کو اڑانا مکروہ تحریمی ہے اور اس مقصد کے بغیر ان کو پالنا اور گھروں میں کا بکوں میں بند کر کے رکھنا جائز ہے اسی سیاق میں ہم دوسرے جانوروں کو گھروں میں پالنے اور موذی جانوروں ‘ پرندوں اور حشرات الارض کو مارنے کا شرعی حکم بھی بیان کرنا چاہتے ہیں 

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم سے مل جل کر رہتے تھے حتیٰ کہ میرے چھوٹے بھائی سے فرماتے یام ابا عمیر مافعل النغیر (اے ابو عمبر نغیر نے کیا کیا) نغیر کے ساتھ ابو عمیر کھیلتے تھے۔

(صحیح البخار رقم الحدیث ٣٠٢٦-٩٢١٦‘ سنن الترمذی رقم الحدیث ٣٣٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٩ ص ١٤‘ مسند احمد ج ٣ ص ٩١١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٠٢٧٣‘ سنن کبریٰ ج ٥ ص ٣٠٢‘ دلائل النبوۃ ج ا ض ٣١٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٠٥١٢)

قاضی عیاض نے کہا نغیر سرغ رنگ کا چڑیا کے برابر ایک پرندہ ہے (فتح الباری ج ٢١ ص ٧٢٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جس شخص نے کھیتوں کی حفاظت ‘ مویشیوں کی حفاظت یا شکار کی ضرورت کے سوا کتا رکھا اس کے اجر سے ہر روز ایک قیراط کم ہوتا رہے گا (صحیح مسمل ‘ کتاب المساقاۃ ٢٥‘ الرقم المسلسل ٣٥٩٣)

موذی جانوروں اور حشرات الارض کو قتل کرنے کے متعلق احادیث 

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جانوروں میں سے پانچ کل کے کل فاسق ہیں ان کو حرم میں (بھی) قتل کردیا جائے ‘ کوا ‘ چیل ‘ بچوں ‘ چوہا ‘ کاٹنے والا کتا۔(صحیح البخاری رقم الحدیث ‘ ٩٢٨١‘ سنن النسائی رقم الحدیث ٩٢٨٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٧٨٠٣)

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ منیٰ کے ایک غار میں تھے۔ اس وقت آپ پر سورة المرسلات نازل ہوئی۔ آپ اس کو تلاوت کر رہے تھے اور میں آپ کے منہ سے سن کر اس کو یاد کررہا تھا اور آپ کا منہ اس کی تلاوت سے مرطوب تھا اچانک ہمارے اوپر ایک سانپ گرپڑا ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس کو قتل کردو ‘ ہم اس کی طرف جھپٹے تو وہ بھاگ گیا ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ تمہارے شر سے بچ گیا جس طرح تم اس کے شر سے بچ گئے (صحیح البخاری رقم الحدیث ٠٣٨٢‘ مسند احمد رقم الحدیث ٨٦٠٤‘ دارارقم بیروت )

حضرت عائشہ (رض) ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زوجہ بیان کرتی ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے وزغ (گرگٹ یا چھپکلی) کے لیے فرمایا ‘ یہ فویسق (چھوٹا فاسق) ہے اور میں نے نہیں سنا کہ آپ نے اس کے قتل کا حکم دیا ہے۔(صحیح البخاری رقم الحدیث ٠٣٨١‘ صحیح مسلم رقم الحدیث ٩٣٢٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث ٠٣٢٤ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے وزغہ (گرگٹ یا چھپکلی) کو پہلی ضرب میں قتل کردیا اس کے لیے اتنی اور اتنی نیکیاں ہیں جس نے اس کو دوسری ضرب میں قتل کیا اس کے لیے اتنی اور اتنی ہی نیکیاں ہیں پہلی سے کم اور جس نے اس کو تیسری ضرب میں قتل کیا اس کے لیے اتنی اور اتنی نیکیاں ہیں دوسری سے کم ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث :2240 الرقم المسلسل، 5738)

پرندوں اور جانوروں کو پالنے اور موذی جانوروں کو قتل کرنے کے متعلق فقہاء کی عبارات 

علامہ محمد بن محمد ابن البزار الکردری متوفی ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں 

مختار یہ ہے کہ چیونٹی جب اذیت پہنچانے کی ابتداء کرے تو اس کو ہلاک کرنا جائز ہے ‘ ورنہ اس کو ہلاک کرنا مکروہ ہے اور اس کو پانی میں ڈالنا مطلقاً مکروہ ہے جوں کو ہلاک کرنا مکروہ نہیں ہے اس کو اور بچوں کو آگ میں جلانا مکروہ ہے ‘ ٹڈیوں کو ہلاک کرنا جائز ہے ‘ بلی جب ایذاء پہنچائے تو اس کو ہلاک کرنا مکروہ ہے اس کو چھر سے ذبح کردیا جائے ‘ جس بستی میں کتے ہوں اور بستی والوں کو ان کتوں سے ضرر پہنچے تو بستی والے کتوں کے مالکوں سے کہیں کہ ان کتوں کو قتل کردیں اور اگر وہ انکار کریں تو حکم شہر ان کو قتل کرنے کا حکم دے گھروں میں کتوں کو چوروں اور دشمنوں سے حفا ظت یا شکار کے سوا نہ رکھا جائے اسی طرح شیر اور چیتے اور باقی درندوں کو ‘ اگر کوئی کتا راستہ سے گذر نے والوں کو کاٹتا ہو اور اگر کوئی شخص کاٹنے کے بعد اس کو قتل کر دے تو اس پر کوئی تاوان نہیں ہے اور اگر کاٹنے سے پہلے اس کو قتل کرے گا تو اس پر تاوان ہے اور ریشم کے کیڑوں کو پا لنا بھی جائز ہے۔(فتاویٰ بزازیہ علی ھامش الھندیہ ج ٢ ص ٠٧٣‘ مطبوعہ مطبعہ امیر یہ کبریٰ مصر ‘ ٠١٣١ ھ)

ان مسائل کو فتاویٰ عالمگیری میں زیادہ تفصیل سے لکھا ہوا ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 128