رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیۡنِ لَکَ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِنَاۤ اُمَّۃً مُّسْلِمَۃً لَّکَ۪ وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیۡنَاۚ اِنَّکَ اَنۡتَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ﴿۱۲۸﴾

ترجمۂ کنزالایمان:اے رب ہمارے اور کر ہمیں تیرے حضور گردن رکھنے والے اور ہماری اولاد میں سے ایک امت تیری فرمانبردار اور ہمیں ہماری عبادت کے قاعدے بتا اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی ہے بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان۔
ترجمۂ کنزالعرفان:اے ہمارے رب:اورہم دونوں کو اپنا فرمانبردار رکھ اور ہماری اولاد میں سے ایک ایسی امت بنا جو تیری فرمانبردار ہو اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا دے اور ہم پر اپنی رحمت کے ساتھ رجوع فرما بیشک تو ہی بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
{وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیۡنِ: اور ہمیں فرمانبردار رکھ۔} سبحان اللہ ،وہ حضرات اللہ تعالیٰ کے مطیع و مخلص بندے تھے پھر بھی یہ دعا اس لیے مانگ رہے ہیں کہ مزید اطاعت و عبادت و اخلاص اور کمال نصیب ہو۔ حضرت ابراہیم اور حضرت اسمٰعیل عَلَیْہِمَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام معصوم ہیں ،آپ کی طرف سے توبہ تواضع یعنی عاجزی ہے اور اللہوالوں کے لیے تعلیم ہے۔ خانہ کعبہ اور اس کا قرب قبولیت کا مقام ہے ،یہاں دعا اور توبہ کرناسنت ِابراہیمی ہے۔
{وَاَرِنَا مَنَاسِکَنَا: اور ہمیں ہماری عبادت کے طریقے دکھا۔} معلوم ہوا کہ عبادت کے طریقے سیکھنا حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی سنت ہے۔اس کیلئے دعا بھی کرنی چاہیے اور کوشش بھی۔ بغیر طریقہ سیکھے عبادت کرنا اکثر عبادت کو ضائع کرتا ہے۔

حضرت انس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے،رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا:’’ ہر مسلمان پر علم سیکھنا فرض ہے۔(ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فضل العلمائ۔۔۔ الخ، ۱/۱۴۶، الحدیث: ۲۲۴) فرض عبادت کا طریقہ و مسائل سیکھنا بھی اسی میں داخل ہے۔