أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

كَذٰلِكَ سَلَكۡنٰهُ فِىۡ قُلُوۡبِ الۡمُجۡرِمِيۡنَؕ‏ ۞

ترجمہ:

اسی طرح ہم نے منکروں کے دلوں میں ان کے انکار کو داخل کردیا

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اسی طرح ہم نے منکروں کے دلوں میں انکار کو داخل کردیا ہے۔ وہ اس وقت تک اس پر ایمان نہیں لائیں گے حتیٰ کہ وہ دردناک عذاب کو نہ دیکھ لیں۔ ان پر اچانک وہ عذاب آئے گا اور ان کو اس کا شعور بھی نہ ہوگا۔ اس وقت وہ یہ کہیں گے کہ کیا ہمیں کچھ مہلت دی جائے گی ؟۔ کیا وہ ہمارے عذاب کو جلد طلب کررہے ہیں ؟۔ اچھا یہ بتایئے کہ اگر ہم ان کو کئی سالوں کی مہلت دے بھی دیں۔ پھر اس کے بعد ان پر وہی عذاب آجائے جس سے ان کو ڈرایا گیا تھا۔ تو وہ سامان ان کے کس کام آئے گا جس سے فائدہ اٹھانے کی ان کو مہلت دی گئی تھی !۔ ہم نے جس بستی کو بھی ہلاک کیا اس کے لئے عذاب سے ڈرانے والے (بھیجے گئے) تھے۔ ان کو یاد کرانے کے لئے اور ہم (ان پر) ظلم کرنے والے نہ تھے۔ اور اس قرآن کو شیاطین لے کر نہیں نازل ہوئے۔ اور نہ وہ اس کے لائق ہیں اور نہ وہ اس کی طاقت رکھتے ہیں۔ بیشک وہ (فرشتوں کا کلام) سننے سے محروم کردیئے گئے ہیں۔ (الشعرائ : ٢١٢۔ ٢٠٠)

کفار کی ہٹ دھرمیوں پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دینا 

ان آیتوں میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تسلی دی گئی ہے کہ اگر آپ کی پیہم تبلیغ کے باوجود یہ ایمان نہیں لاتے اور دلائل اور معجزات کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا تو آپ غم اور افسوس نہ کریں ‘ ان کے تکبر اور عناد کی سزا دینے کے لئے ہم نے ان کے دلوں میں کفر اور عناد کو داخل کردیا ہے اور جب ہم نے ان کے دلوں میں انکار کو داخل کردیا ہے تو پھر ان کو مومن بنانے کے لئے ان پر کوئی تدبیر کارگر نہیں ہوسکتی۔ اب ان پر اسی وقت اثر ہوگا جب یہ اپنی آنکھوں سے عذاب کو دیکھ لیں گے۔

امام عبدالرحمٰن بن محمد بن ابی حاتم متوفی ٣٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت انس بن مالک (رض) نے اس آیت کی تفسیر میں کہا اسی طرح ہم نے منکروں کے دلب میں شرک کو داخل کردیا ہے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٩٨٩‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ مکہ مکرمہ ١٤١٧ ھ)

عکرمہ نے کہا اس کا معنی ہے ہم نے ان کے دلوں میں سخت دلی کو داخل کردیا ہے۔ (تفسیر ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٩٩٠)

حضرت انس نے کہا قلوب المجرمین سے مراد ہے قلوب المشرکین اور حضرت ابن عباس (رض) نے کہا قلوب المجرمین سے مراد قلوب الکفار۔ (تفسیر ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٥٩١‘ ١٥٥٩٢)

قتادہ نے کہا جب انہوں نے اللہ کے رسولوں کی تکذیب کی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں یہ ڈال دیا کہ اس پر ایمان نہ لائیں۔ سدی نے کہا وہ اس پیغام پر ایمان نہیں لائیں گے جس کو سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) لے کر آئے ہیں۔

عبدالرحمٰن بن زید نے کہا ‘ ان کے کفر اور شرک پر اصرار کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں میں گمراہی کو پیدا کردیا اور ان کو ایمان لانے سے روک دیا۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ١٥٩٩٥‘ ١٥٩٩٤)

اس آیت کی یہ تفسیر بھی کی گئی ہے ہم نے اسی طرح مشرکین قریش کے دلوں میں قرآن کو داخل کردیا ‘ حتیٰ کہ انہوں نے اس کے معانی کو اور اس کے معجزہ ہونے کو پہچان لیا پھر بھی وہ اپنے عناد ‘ ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے اس پر ایمان نہ لائے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 26 الشعراء آیت نمبر 200