أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَـقَدۡ اٰتَيۡنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيۡمٰنَ عِلۡمًا‌ ۚ وَقَالَا الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ الَّذِىۡ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيۡرٍ مِّنۡ عِبَادِهِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور بیشک ہم نے دائود اور سلیمان کو عظیم علم عطا کیا تھا ‘ اور ان دونوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بےہم نے دائود اور سلیمان کو عظیم علم عطا کیا تھا ‘ اور ان دونوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ (النمل : ۱۵)

اس سورة میں انبیاء (علیہم السلام) کے قصص میں حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کا دوسرا قصہ 

اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا قصہ بیان فرمایا تھا ‘ اور اس آیت سے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کا قصہ شروع فرمایا ہے۔ حضرت موسیٰ اور حضر دائود اور حضرت سلیمان کے قصص تورات میں مذکور ہیں اور قریش مکہ کو معلوم تھا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تورات اور انجیل نہیں پڑھیں اور نہ آپ علماء اہل کتاب کی مجلس یا ان کے مدرسہ میں رہے ہیں۔ اس کے باوجود آپ انبیاء سابقین کے متعلق وہ چیزیں بیان فرماتے ہیں جس کی تصدیق ان کی کتابوں میں تھی اور اس سے یہ یقین حاصل ہوجاتا ہے کہ آپ کو ان انبیاء سابقین کے متعلق ان باتوں کا علم اللہ تعالیٰ کی وحی سے حاصل ہوا ہے ‘ اور یہ آیتیں آپ کی بنائی ہوئی نہیں ہیں بلکہ یہ اللہ کی نازل کی ہوئی آیتیں ہیں ‘ اور مختلف سورتوں میں اللہ تعالیٰ بار بار ان انبیاء (علیہم السلام) کا ذکر فرماتا ہے تاکہ اس کلام کے وحی الہٰی ہونے پر بار بار تنبیہ ہوتی رہے اور قریش کو بار بار یاد دہانی ہوتی رہے اور سننے والوں میں اور ان کے دماغوں میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلائل تازہ ہوتے رہیں۔ ہم اس آیت کی تفسیر شروع کرنے سے پہلے حضرت دائود (علیہ السلام) اور پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سوانح بیان کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق۔

حضرت دائود (علیہ السلام) کا نام و نسب اور ان کا جالوت کو قتل کرنا 

امام ابو القاسم علی بن الحسن المعروف با بن عسا کر المتوفی ١٧٥ ھ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

آپ کا نام : دائود بن ایشا بن عربد بن ناعربن سلمون بن بخشون بن غوینا دب بن ارم بن حصر ون بن کا رص بن یھو ذانب یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ہے ‘ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ آپ کا نام دائود بن زکریا بن بشوی ہے۔ (علیہ السلام) 

آپ اللہ کے نبی اور اس کی زمین میں اس کے خلیفہ ہیں اور اہل بیت المقدس سے ہیں۔ روایت ہے کہ آپ دمشق کی جانب سے آئے تھے اور آپ نے مرج الصفر میں قصرام حکیم کے پاس جالوت کو قتل کیا تھا۔

سعید بن عبدالعزیز نے اس آیت کی تفسیر میں روایت کیا ہے :

فلما فصل طالوت بالجنود لا قال ان اللہ مبتلیکم بنھر فمن شرب منہ فلیس منی ج ومن لم یطعمہ فانہ منی۔ (البقرہ : ٩٤٢) جب طالوت لشکر لے کر روانہ ہوئے تو انہوں نے کہا بیشک اللہ تم کو ایک دریا کے سبب سے آزمائش میں مبتلا کرنے والا ہے۔ سو جس نے اس میں سے پانی پی لیا وہ میرے طریقہ صحیحہ پر نہیں ہے ‘ اور جس نے اس میں سے پانی نہیں پیا وہ میرے طریقہ صحیحہ پر ہے۔

یہ وہ دریا ہے جو ام حکیم بنت الحارث بن ہشام کے پل کے پاس ہے اور سعید بن عبدالعزیز نے کہا میں نے سنا ہے یہ وہ دریا ہے جس میں حضرت یحییٰ نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے لیے غسل کیا تھا۔

متعدد اسانید کے ساتھ وہب بن منبہ سے روایت کیا کہ حضرت دائود کے چار بھائی تھے ‘ اور ان کے والد بہت بوڑھے تھے۔ حضرت دائود کے بھائی جالوت سے لڑنے کے لیے طالوت کے لشکر میں شامل ہوگئے اور ان کے والد گھر میں رہ گئے اور انہوں نے حضرت دائود کو بکریاں چرانے کے لیے روک لیا ‘ اس وقت لوگ جالوت سے لڑنے کو تیاری کررہے تھے۔

حسن نے بیان کیا کہ حضرت دائود کا قدم چھوٹا تھا ‘ نیلی آنکھیں تھیں اور سر کے بال کم تھے ‘ اور ان کا دل پاک اور صاف تھا ‘ جس وقت وہ بکریاں چرا رہے تھے انہوں نے ایک ندا سنی : اے دائود ! تم تو جالوت کو قتل کرنے والے ہو تم یہاں کیا کررہے ہو ؟ اپنی بکریاں اپنے رب عزوجل کی امان میں چھوڑ دو اور اپنے بھائیوں کے ساتھ جاملو ‘ کیونکہ طالوت نے کہا ہے کہ جو جالوت کو قتل کرے گا وہ اس کو اپنا نصف مال دے دے گا ‘ اور اس سے اپنی بیٹی کی شادی کردے گا۔ پھر حضرت دائود نے اپنی بکریاں اپنے رب کی امان میں چھوڑیں اور روانہ ہوگئے اور اپنے والد سے یہ کہا میں اپنے بھائیوں کو دیکھنے جارہا ہوں کہ ان کا کیا حال ہے اور ان کو اصل واقعہ بتانا پسند نہیں کیا۔

حضرت دائود اپنے بھائیوں کے لیے زاد راہ لے کر روانہ ہوئے ‘ ان کے ساتھ ان کا عصا تھا ‘ اور ان کا تو برا تھا اور پتھر مارنے کا آلہ تھا ‘ جس سے وہ درندوں کو اپنی بکریوں سے دور رکھنے کے لیے پتھر مارتے تھے۔ سفر کے دوران ایک پتھر نے ان کو آواز دی : اے دائود ! مجھے اٹھا کر رکھک لو میں تمہارے لیے جالوت کو قتل کردوں گا۔ حضرت دائود نے پوچھا تم کون ہو تو اس نے کہا میں وہ پتھر ہوں جس سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے فلاں فلاں کو ہلاک کردیا تھا ‘ اور میں اللہ کے اذن سے جالوت کو قتل کر دوں گا ‘ حضرت دائود نے اس پتھر کو اٹھا کر اپنے تو برے میں رکھ لیا ‘ حضرت دائود پھر چل پڑے پھر وہ ایک اور پتھر کے پاس سے گزرے اس نے بھی کہا اے دائود ! مجھے بھی اٹھا کر اپنے پاس رکھ لیجئے ‘ حضرت دائودنے پوچھا کون ہو ؟ اس نے کہا میں حضرت یعقوب کا پتھر ہوں ‘ میں اللہ عزوجل کے اذن سے جالوت کو قتل کردوں گا۔ حضرت دائود نے پوچھا تم اس کو کس طرح قتل کروگے ؟ اس نے کہا میں آندھی سے مدد لوں گا وہ مجھے اس کے خود پر ماردے گی میں اس کی پیشانی کے اندر گھس کر اس کو قتل کردوں گا۔ حضرت دائود نے اس کو بھی اٹھا کر اپنے تو بڑے میں رکھ لیا۔

وہب بن منبہ نے کہا کہ حضرت دائود آگے بڑھے تو انہوں نے تینوں پتھروں کو جوڑ کر ایک پتھر بنا لیا پھر اس کو اپنے گوپھیا ( پتھر مارنے کا آلہ اس کو فلاخن بھی کہتے ہیں) میں رکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں سے فرمایا میرے بندے دائود کی نصرت اور مدد کرو ‘ پھر حضرت دائود نے آگے بڑھ کر نعرہ تکبیر لگایا۔ فرشتوں ‘ حاملین عرش اور جنات اور انسانوں کے سوا سب مخلوق نے اس عرہ کا جواب دیا۔ جالوت اور اس کے لشکر نے جب اس نعرہ کا جواب سنا تو انہوں نے یہ گمان کیا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام مخلوق کو ان کے مقابلہ پر جمع کردیا ہے۔ پھر زبردست آندھی آئی جس سے اندھیرا چھا گیا اور جالوت کا خود گرگیا اور حضرت دائود نے اس پھر کو گو پھیی میں ڈال کر تاک کے اس کی پیشانی پر مارا تو وہ تینوں پتھر الگ الگ جا کر لگ ایک پتھر اس کی پیشانی میں گھس گیا اور اس کو ہلاک کرکے زمین پر گرادیا۔ دوسرا پتھر جالوت کے دائیں جانب کے لشکر یوں میں گھس گیا اور ان کو شکست دے دی ‘ اور تیسرا پتھر بائیں جانب کے لشکریوں میں گھس گیا اور ان کو شکست دے دی اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ ان کے اوپر پہاڑ آگرے ہیں ان میں افراتفری مچ گئی اور بھگدڑ میں انہوں نے ایک دوسرے کو کچل ڈالا۔ وہ ایک دوسرے کو روندتے ہوئے پیٹھ پھیر کر بری طرح بھاگے اور بہت سارے لشکری ایک دوسرے کے ہاتھوں مارے گئے۔ اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو فتح عطا فرمائی اور طالوت فتح اور کامرانی کے ساتھ بنی اسرائیل کے ساتھ واپس ہوا۔ طالوت نے حسب وعدہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے ساتھ اپنی بیٹی کا عقد کردیا اور ان کو اپنا نصف مال دے دیا۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٠٦۔ ٨٥ ملخصا ‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٢٤١ ھ ‘ البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٥٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

حضرت دائود (علیہ السلام) کی بعثت اور ان کی سیرت کے متعلق احادیث اور آثار 

امام ابوالقاسم علی بن الحسن المعروف با بن عسا کر المتوفی ١٧٥ ھ اپنی اسانید کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

بشربن حزن النصری بیان کرتے ہیں کہ اونٹوں والوں اور بکریوں والوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک دوسرے پر فخر کیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت دائود کو مبعوث کیا گیا (نبوت دے کر بھیجا گیا) حالانکہ وہ بکریاں چراتے تھے اور حضرت موسیٰ کو بھیجا گیا اور وہ بکریاں چراتے تھے ‘ اور مجھے مبعوث کیا گیا اور میں اس وقت محلہ اجیاد والوں کی بکریاں چراتا تھا۔ (دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٢ ص ٤٣١‘ تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ٣٣١٤‘ ج ٩١ ص ٠٦‘ مطبوعہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر رمضان کی دوسری تاریخ کو صحیفے نازل کیے گئے ‘ حضرت دائود (علیہ السلام) پر چھ رمضان کو زبور نازل کی گئی اور سید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر چوبیس رمضان کو فرقان نازل کیا گیا۔ (تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ٨٣١٤‘ ج ٩١ ص ١٦‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ حق یہ ہے کہ لقمان نبی نہ تھے لیکن وہ ثابت قدم بندے تھے ‘ بہت زیادہ فکر کرتے تھے ‘ لوگوں کے ساتھ نیک گمان رکھتے تھے ‘ وہ اللہ سے محبت کرتے تھے ‘ اللہ ان سے محبت کرتا تھا اور اللہ ان کے لیے حکمت کا ضامن ہوگیا تھا ‘ ایک دن وہ دوپہر کو سوئے ہوئے تھے کہ انکے پاس ندا آئی۔ اے لقمان ! تمہارا کیا خیال ہے اگر اللہ تمہیں زمین میں خلیفہ بنا دے ‘ تم لوگوں کے درمیانحق کے ساتھ فیصلے کرو گے ‘ لقمان نے بیدار ہو کر اس ندا کے جواب میں کہا اگر میرا رب مجھے اختیار دے گا تو میں قبول کرلوں گا ‘ کیونکہ مجھے یقین ہے کہ اگر اللہ نے ایسا کردیا تو وہ میری مدد کرے گا اور مجھے تعلیم دے گا اور میری حفاظت کرے گا اور اگر میرے رب نے مجھے اختیار دیا تو میں عافیت کو قبول کروں گا اور امتحان کو قبول نہیں کروں گا ‘ فرشتوں نے آواز سے کہا اور وہ ان کو نہیں دیکھ رہے تھے اے لقمان ! کس وجہ سے ؟ لقمان نے کہا کیونکہ حاکم سب سے زیادہ سختی اور مشکل میں ہوتا ہے اس کو ہر طرف سے ظلم گھیر لیتا ہے۔ اس کی مدد کی جائے تو وہ نجات پا لیتا ہے ‘ اگر وہ خطا کرے تو جنت کے راستہ سے خطا کرتا ہے ‘ اور دنیا کی سرداری سے بہتر ہے کہ وہ دنیا میں ذلت سے ہو ‘ اور جو شخص دنیا کو آخرت پر ترجیح دیتا ہے تو دنیا اس کو فتنہ میں ڈل دیتی ہے اور وہ آخرت میں اجر نہیں پاسکتا۔ فرشتوں کو ان کے حسن کلام سے تعجب ہوا وہ سو گئے پھر انکو حکمت سے بھر دیا گیا ‘ اور انہوں نے بیدار ہو کر حکمت سے کلام کیا۔ پھر حضرت دائود کو ندا کی گئی تو انہوں نے خلافت اور حکومت کو قبول کرلیا اور انہوں نے لقمان کی طرح کوئی شرط نہیں عائد کی ‘ اور انہوں نے کئی بار فیصلہ کرنے میں خطا کی ‘ اور ہر بار اللہ تعالیٰ نے ان کی خطا سے در گزر کیا اور ان کو معاف کردیا اور لقمان انکو اپنی حکمت اور اپنے علم سے مشورے دیتے تھے۔ حضرت دائود نے ان سے کہا اے لقمان ! تمہارے لیے خوشی ہو کیونکہ تم کو حکمت دی گئی اور تم کو امتحان سے بچا لیا گیا ‘ اور حضرت دائود کو خلافت دی گئی اور ان کو امتحان اور آزمائش میں ڈال دیا گیا۔ (لقمان نے حکمت کو طلب کیا ‘ اور حضرت دائود (علیہ السلام) نے خلافت اور حکومت کو طلب کیا ‘ اس سے لقمان کی حضرت دائود پر فضیلت ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ لقمان نے آسان اور بغیر خطرہ اور آزمائش کی راہ پر چلنے کی راہ کو اختیار کیا اور حضرت دائود نے پرخطر اور آزمائش والی راہ پر سفر کرنے کو اختیار کیا اور کمال اس کا ہے جو پرخطر راہ سے سلامتی کے ساتھ گزر جائے نہ اسکا جو پرامن راستے سے گزرے ‘ گویا حضرت دائود نے عزیمت کو اختیار کیا اور لقمان نے رخصت کو اور فضیلت عزیمت پر عمل کرنے میں ہے نہ کہ رخصت پر عمل کرنے میں) (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٢٦‘ رقم الحدیث : ٩٣١٤‘ تنزیہ الشر یعۃ ج ١ ص ٤٤٢ )

حضرت دائود (علیہ السلام) کی دعائوں کے متعلق احادیث اور آثار 

حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت دائود یہ دعا کرتے تھے : اے اللہ ! میں تجھ سے تیری محبت کا سوال کرتا ہوں اور جو تجھ سے محبت کرتا ہے اس کی محبت کا سوال کرتا ہوں اور اس عمل کا سوال کرتا ہوں جو مجھ تک تیری محبت کو پہنچا دے۔ اے اللہ ! تو اپنی محبت کو میرے نزدیک میرے نفس اور میرے اہل اور ٹھنڈے پانی سے زیادہ محبوب بنادے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٢٦‘ مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث : ٦٩٤٢ )

حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہترین روزے حضرت دائود کے روزے ہیں وہ نصف دہر کے روزے رکھتے تھے (وہ ایک دن روزہ رکھتے تھے اور ایک دن افطار کرتے تھے) اور بہترین نماز حضرت دائود کی نماز ہے۔ وہ رات کے نصف اول میں سوتے تھے اور رات کے آخری حصہ میں نماز پڑھتے تھے حتی کہ جب رات کا چھٹا حصہ رہ جاتا تو پھر سو جاتے تھے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٣٦ الدایہ والنہایہ ج ١ ص ٢٥٤‘ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت دائود کے اوپر (زبور کا) پڑھنا آسان کردیا گیا تھا ‘ وہ سواری کو تیار کرنے کا حکم دیتے اور سواری کے روانہ ہونے سے پہلے پڑھنا ختم کرلیتے تھے اور وہ صرف اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔

دوسری روایت میں سواری پر زین ڈالنے کے حکم کا ذکر ہے اور سواری پر زین ڈالے جانے سے پہلے پڑھنا ختم کرلیتے تھے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٥٦۔ ٤٦‘ رقم الحدیث : ١٤١٤۔ ٠٤١٤‘ مصابیح البغوی ١ ص ٨٨٢‘ البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٧٥٤ )

ثابت بیان کرتے ہیں کہ اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت دائود نے رات اور دن کے اوقات کو اپنے اہل پر تقسیم کر رکھا تھا ‘ اور رات اور دن کے اوقات میں سے جب بھی کوئی وقت ہو تو حضرت دائود کی آل میں سے کوئی نہ کوئی شخص اس وقت نماز پڑھ رہا ہوتا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے متعلق فرمایا :

اعملو آل داود شکرا ط و قلیل من عبادی الشکور۔ (سبا : ٣١) اے آل دائود ! لشکر ادا کرو ‘ میرے بندوں میں سے شکر کرنیوالے کم ہیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٧٦‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت دائود (علیہ السلام) کے شکر کی ادائیگی کا طریقہ 

المغیر ۃ بن عتیبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائودنے عرض کیا : اے میرے رب ! کیا آج رات تیری مخلوق میں سے کسی نے بھی مجھ سے زیادہ تیرا ذکر کیا ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی فرمائی : ہاں ! مینڈک نے ‘ اور پھر ان پر یہ آیت نازل فرمائی : اعملوآ ال داود شکرا ط (سبا : ٣١) حضرت دائود نے عرض کیا : اے میرے رب ! میں کیوں کر تیرا شکر ادا کرسکتا ہوں ؟ حالانکہ تو مجھ پر مسلسل انعام فرماتا ہے پھر کہا : اے میرے رب ! میں کس طرح تیرا شکر ادا کرسکتا ہوں ؟ حالانکہ تو مجھ کو نعمت عطا فرماتا ‘ پھر اس نعمت پر شکر کی ادئیگی کو بھی تو عطا فرماتا ہے ‘ پھر ایک نعمت کے اوپر اور نعمت کو زیادہ فرماتا ہے ‘ پس اے میرے رب ! نعمت بھی تیری طرف سے ہے اور شکر بھی تیری طرف سے ہے ‘ تو پھر میں کیوں کر تیرا شکر ادا کرسکتا ہوں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے دائود ! اب تم نے مجھے اس طرح پہچان لیا جس طرح مجھے پہچاننے کا حق ہے۔ (تاریخ دمشق الکبیرج ٩١ ص ٠٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

سعید مقبری اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت دائود نے عرض کیا : اے میرے رب ! تو نے مجھے بہت زیادہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں سو تو مجھے اس پر رہ نمائی کر ‘ کہ میں تیرا بہت زیادہ شکر ادا کروں۔ فرمایا تم مجھے بہت زیادہ یاد کرو ‘ جب تم نے مجھے یاد کرلیا تو تم نے میرا شکر ادا کرلیا ‘ اور جب تم نے مجھے بھلا دیا تو تم نے میری ناشکری کی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ١٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

ابوالجلد بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائودنے عرض کیا کہ اے میرے رب ! میں تیرا شکر کیوں کر ادا کرسکتا ہوں کیونکہ تیرے شکر کی ادائیگی بھی تو تیری ہی دی ہوئی نعمت ہے تب ان کے پاس وحی آئی کہ اے دائود ! کیا تم کو یہعلم نہیں کہ تم تک جو بھی نعمت پہنچتی ہے وہ مجھ سے پہنچتی ہے ‘ حضرت دائود نے کہا کیوں نہیں اے میرے رب ! فرمایا پس میں تیری طرف سے اس شکر پر راضی ہوں۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١‘ ص ١٧‘ البدایہ النہایہ ج ١ ص ١٦٤ )

حضرت دائود (علیہ السلام) کی خوش آوازی 

حضرت عبداللہ بن عامر (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائود کو اس قدر حسین آواز دی گئی تھی کہ اس قدر حسین آواز اور کسی کو نہیں دی گئی تھی ‘ حتی کہ پرندے اور وحشی جانور آپ کے پاس آکر بیٹھ جاتے تھے اور یونہی بھوکے پیاسے مرجاتے تھے اور دریائوں کی روانی رک جاتی تھی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٢٧‘ البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٦٥٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

وہب بن منبہ بیان کرتے ہیں کہ مزا میر ‘ برابط اور صنوج (بانسریاں ‘ سارنگیاں اور جھا کبھنیں) کی ابتداء حضرت دائود کی آواز سے ہوئی ہے ‘ وہ اس قدر حسین آواز کے ساتھ زبور پڑھتے تھی کہ اس سے پہلے کانوں نے اتنی حسین آواز نہیں سنی تھی ‘ جن ‘ انسان ‘ پرندے اور چرندے ان کی آواز سننے کے لیے بیٹھ جاتے تھے یہاں تک کہ بعض بھوکے مرجاتے تھے ‘ حتی کہ ایک دن ابلیس خوف زدہ ہو کر باہر نکلا کیونکہ اس نے دیکھا کہ انسان اور چوپائے حضرت دائود کی قرأت کے حسن سے بہت متاثر اور بہت مانوس ہورہے ہیں اس نے اپنے سرداروں کو بلایا اور کہا تمہارے ہوتے ہوئے یہ کیا ہو رہا ہے۔ انہوں نے کہا تم جو چاہتے ہو ہمیں اس کا حکم دو ‘ اس نے کہا ان کو زبور کے سننے سے صرف ایسی چیزروک سکتی ہے جس کی آواز کا حسن دائود کی آواز کے مشابہ ہو ‘ تب انہوں نے مزامیر ‘ برابط اور صنوج وغیرہ آلات غنا بنائے ‘ جب گمراہ لوگوں اور جنات نے ان آوازوں کو سنا تو وہ ان سازوں کی آوازوں کی طرف منتقل ہوگئے اور اسی طرح چو پائے اور پرندے بھی ‘ اور حضرت دائود بنو اسرائیل میں کھڑے ہو کر اللہ تعالیٰ کے احکام بیان کرتے رہے ‘ وہ نبی ‘ حکیم ‘ عابد اور مجتہد تھے اور تمام نبیوں سے زیادہ عبادت میں کوشش کرتے تھے اور بہت روتے تھے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٣٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) وہ شخص ہیں جنہوں نے سب سے پہلے امابعد کہا اور قرآن مجید میں جو فصل الخطاب ہے (ص : ٠٣) اس سے مراد یہی اما بعد کے کلمات ہیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٣٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت دائود (علیہ السلام) کی دعائیں 

کعب احبار بیان کرتے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) ہر صبح اور شام کو تین بار یہ کلمات پڑھتے تھے : اے اللہ ! مجھے ہر اس مصیبت سے محفوظ رکھ جو تو نے آج رات آسمان سے زمین کی طرف نازل کی ہے۔ اے اللہ ! مجھے ہر اس اچھائی سے حصہ عطا فرما جو تونے آج رات آسمان سیزمین کی طرف نازل کی ہے۔

سعید نے بیان کیا کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی ایک دعا یہ تھی : اے اللہ ! مجھے اتنی زیادہ چیزیں نہ دینا کہ میں سرکشی کروں اور نہ اتنی کم دینا کہ میں بھول جائوں ‘ کیونکہ جو چیز کم ہو اور کافی ہو وہ ان زیادہ چیزوں سے بہتر ہے جو بےپرواہ کردیں۔ اے اللہ ! مجھے ہر دن روزی عطا فرما ‘ اور جب تو دیکھے کہ میں ذکر کرنے والوں کی مجلس کو چھوڑ کر تکبر کرنے والوں کی مجلس میں جارہا ہوں تو میری ٹانگوں کو توڑ دے ‘ کیونکہ یہ بھی تیری مجھ پر ایک نعمت ہے جس سے تو مجھ پر احسان کرے گا۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٦٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

عطاء بن ابی مروان اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ کعب اس ذات کی قسم کھا کر کہتے تھے جس نے حضرت موسیٰ کے لیے سمندر کو چیر دیا تھا ‘ ہم نے تورات میں یہ لکھا ہوا دیکھا ہے کہ دائود نبی اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب نماز سے فارغ ہوتے تو یہ دعا کرتے : اے اللہ ! میرے دین کو درست رکھ جس کو تو نے میری حفاظت بنایا ہے اور میری دنیا کو درست رکھ جس کو تو نے میرا روزگار بنایا ہے ‘ اے اللہ ! میں تیری ناراضگی سے تیری رضا کی پناہ میں آتا ہوں ‘ اور تیری سزا سے تیری معافی کی پناہ میں آتا ہوں ‘ اے اللہ ! جس چیز کو تو عطا کرے اسے کوئی چھیننے والا نہیں ہے اور جس چیز کو تو واپس لے لے اس کو کوئی دینے ولا نہیں ہے اور تیرے مقابلہ میں کسی کی کوشش کامیاب ہوسکتی ہے نہ کسی کا بخت نہ کسی کا نسب۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٩١ ص ٧٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت دائود (علیہ السلام) کی عمر 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کو پیدا کیا اور ان میں روح پھونکی تو ان کو چھینک آئی تو انہوں نے کہا الحمد للہ ‘ سو انہوں نے اللہ کے اذن سے اس کی حمد کی ‘ ان سے ان کے رب نے کہا اے آدم ! آپ پر اللہ رحم کرے ‘ ان فرشتوں کی طرف جایئے ‘ ان کی ایک جماعت کی طرف جو بیٹھی ہوئی ہے ‘ اور کہیے السلام علیکم ! انہوں نے کہا وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ ‘ حضرت آدم پھر اپنے رب کی طرف لوٹ آئے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ آپ کا سلام اور آپ کی اولاد کا آپس میں سلام ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا درآں حالیکہ اس کی دونوں مٹھیاں بند تھیں ‘ ان میں جس مٹھی کو چاہو اختیار کرلو ‘ انہوں نے کہا میں اپنے رب کا دایاں ہاتھ اختیار کرتا ہوں اور میرے رب کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں ‘ دایاں ہاتھ مبارک ہے ‘ پھر اس ہاتھ کو کھولا تو اس میں حضرت آدم اور ان کی اولاد تھی۔ حضرت آدم نے پوچھا اے میرے رب ! یہ کیا ہے ؟ فرمایا یہ تمہاری اولاد ہے ! پھر اس میں ہر انسان کی عمر اس کی آنکھوں کے آگے لکھی ہوئی تھی ‘ ان میں ایک شخ صایسا تھا جو سب سے زیادہ روشن تھا ‘ حضرت آدم نے پوچھا : اے میرے رب ! یہ کون ہے ؟ فرمایا یہ تمہارا بیٹا دائود ہے میں نے اس کی عمر چالیس سال لکھی ہے۔ حضرت آدم نے کہا اے میرے رب ! میں اپنی عمر میں سے اس کو ساتھ سال دیتا ہوں ‘ فرمایا اس کا تمہیں اختیا رہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے جب تک چاہا حضرت آدم کو جنت میں رکھا ‘ پھر ان کو جنت سے اتار کر زمین پر لایا ‘ حضرت آدم اپنی عمر گنتے رہتے تھے ‘ پس جب ان کے پاس موت کا فرشتہ آیات و ان سے حضرت آدم نے کہا تم جلدی آگئے ہو میری عمر تو ایک ہزار سال لکھی گئی تھی۔ فرشتہ نے کہا کیوں نہیں ! لیکن آپ اپنے بیٹے دائود کو اپنی عمر میں سے ساٹھ سال دے چکے ہیں۔ حضرت آدم نے انکار کیا تو ان کی اولاد نے بھی انکار کیا اور حضرت آدم بھول گئے سو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٨٦٣٣‘ السنۃ لا بن ابی عاصم رقم الحدیث : ٦٠٢‘ عمل الیوم واللیلۃ للنسائی رقم الحدیث : ٨١٢‘ مسند ابو یعلی رقم الحدیث : ٨٥٦‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٦١٦‘ المستدرک ج ١ ص ٤٦‘ ج ٣٦٢‘ الاسماء والصفات ج ٢ ص ٦٥ )

امام ابو الکرم محمد بن محمد شیبانی المعروف با بن الا ثیر الجزری المتوفی ٠٣٦ ھ لکھتے ہیں :

جب حضرت دائود فوت ہوگئے تو ان کے ملک ‘ انکے علم اور ان کی نبوت کے حضرت سلیمان وارث ہوئے اور ان کے انیس (٩١) بیٹے تھے پس ان کو چھوڑ کر حضرت سلیمان ‘ حضرت دائود کے وارث ہوئے ‘ اور جب حضرت دائود فوت ہوئے تو ان کی عمر ایک سو سال تھی ‘ یہ صحت کے ساتھ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے ‘ اور ان کی حکومت کی مدت چالیس سال تھی۔ حضرت دائود کی عمر کے متعلق مؤرخین کی متعدد متعارض روایات ہیں لیکن ہمارے نزدیک راجح وہی روایت ہے جو سنن ترمذی میں ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ١ ص ٨٢١‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ٠٠٤١ ھ)

حافظ عمادالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی المتوفی ٤٧٧ ھ لکھتے ہیں :

حضرت آدم (علیہ السلام) کی تخلیق کے متعلق جو احادیث ہم نے پہلے ذکر کی ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم (علیہ السلام) کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا تو انہوں نے اپنی اولاد میں ایک روشن چہرے والا دیکھا ‘ پوچھا : اے رب ! یہ کون ہے ؟ فرمایا یہ آپ کا بیٹا دائود ہے۔ پوچھا اے رب ! اس کی عمر کتنی ہے ؟ فرمایا ساٹھ سال ‘ کہا اے رب اس کی عمر زیادہ کردے۔ فرمایا نہیں ‘ البتہ تم اپنی عمر میں سے کچھ اس کو دے دو ‘ اور حضرت آدم کی عمر ایک ہزار سال تھی۔ انہوں نے حضرت دائود کی عمر میں چالیس سال زیادہ کردیئے ‘ پس جب حضرت آدم کی عمر پری ہ گئی تو ان کے پاس موت کا فرشتہ آیا۔ حضرت آدم نے کہا ابھی تو میری عمر کے چالیس سال باقی ہیں ‘ اور حضرت آدم یہ بھول گئے کہ انہوں نے یہ چالیس سال حضرت دائود کو دے دیئے تھے پس اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم کے ایک ہزار سال اور حضرت دائود کے ایک سو سال پورے کردیئے ‘ اس حدیث کو امام احمد نے حضرت ابن عباس سے روایت کیا ہے اور امام ترمذی نے اس حدیث کو حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے ‘ اور امام ابن خزیمہ نے اور امام ابن حبان نے اس حدیث کو صحیح قرار دیا ہے۔ اما ابن جریر نے کہا کہ حضرت دائود کی عمر ستتر (٧٧) سال تھی ‘ ان کا یہ قول غلط اور مردود ہے اور انہوں نے کہا ان کی حکومت کی مدت چالیس سال تھی اور ان کی یہ نقل مقبول ہے کیونکہ ہمارے پاس کوئی ایسی ترصیح نہیں ہے جو اس کے منافی ہو یا اس کی مقتضی ہو۔ (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٦٤۔ ٣٦٤ ذ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

ہم اس سے پہلے سنن ترمذی (رقم : ٨٦٣٣) سے نقل کرچکے ہیں کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی عمر چالیس سال تھی اور حضرت آدم نے ان کی عمر میں جو ساٹھ سال کا اضافہ کیا تھا وہ واپس لے لیا ‘ اور سنن ترمذی میں یہ نہیں ہے کہ ان کی عمر ساٹھ سال تھی ‘ حضرت آدم نے ان کی عمر میں جو ساٹھ سال کا اضافہ کیا تھا وہ واپس لے لیا ‘ اور سنن ترمذی میں یہ نہیں ہے کہ ان کی عمر ساٹھ سال تھی ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) نے ان کی عمر میں چالیس سال کا اضافہ کیا پھر بھول گئے اور بالآخر اللہ تعالیٰ نے ان کی عمر سو سال کردی۔ یہ روایت مسند احمد وغیرہ میں ہے۔ حافظ ابن کثیر کا اس حدیث کو ترمذی کیحوالے سے بیان کرنا غلط ہے ‘ ہم ترمذی کا مکمل متن بیان کرچکے ہیں اور اب مسند احمد کا مکمل متن بیان کررہے ہیں۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سب سے پہلے جس نے (کسی بات کا) انکار کیا وہ حضرت آدم (علیہ السلام) ہیں۔ اللہ عزوجل نے جب ان کو پیدا کیا تو ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور ان کی اولاد کو نکالا۔ پھر حضرت آدم کی اولاد ان کو دکھائی۔ انہوں نے اپنی اولاد میں ایک شخص کو دیکھا جس کا چہرہ بہت روشن تھا۔ انہوں نے پوچھا اے میرے رب ! یہ کون ہے ؟ فرمایا یہ تمہارا بیٹا دائود ہے۔ پوچھا اس کی عمر کتنی ہے ؟ فرمایا ! ساٹھ سال۔ حضرت آدم نے کہا اے میرے رب ! اس کی عمر زیادہ کردے ‘ فرمایا نہیں ! ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ تم اپنی عمر میں سے (کچھ سال دے کر) اس کی عمر زیادہ کردو ‘ تو حضرت آدم نے اپنی عمر میں سے اس کی عمر میں چالیس سال کا اضافہ کردیا تو اللہ تعالیٰ نے اس کو لکھا اور اس پر فرشتوں کو گواہ بنادیا ‘ پھر جب حضرت آدم کی روح کو قبض کرنے کا ارادہ کیا تو حضرت آدم نے کہا ابھی تو میری عمر میں سے چالیس سال باقی ہیں ‘ تو ان سے کہا گیا کہ آپ اپنی عمر کے یہ چالیس سال اپنے بیٹے دائود کودے چکے ہیں۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا پس آدم (علیہ السلام) نے اس بات کا انکار کردیا۔ تب اللہ عزوجل نے وہ لکھا ہوا وثیقہ نکالا اور حضرت آدم (علیہ السلام) کے خلاف گواہ پیش کیے پھر حضرت دائود (علیہ السلام) کے سو سال پورے کردیئے اور حضرت آدم (علیہ السلام) کی عمر کے بھی ایک ہزار سال پورے کردیئے۔ (مسند احمد ج ١ ص ٢٥٢۔ ١٥٢‘ المعجم الکبیر للطبرانی ج ٤١ ص ٥٦١‘ رقم الحدیث : ٨٢٩٢١‘ مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٠١٧٢)

یہ حدیث سنن ترمذی (رقم الحدیث : ٨٦٣٣) کی روایت کے تین وجہ سے خلاف ہے ‘ اول اس وجہ سے کہ سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت دائود کی عمر چالیس سال تھی اور اس روایت میں ہے کہ ان کی عمر ساٹھ سال تھی۔ ثانی اس لیے کہ سنن ترمذی میں ہے کہ حضرت آدم نے اپنی عمر میں سے حضرت دائود کو ساٹھا سال دیئے ‘ اور اس روایت میں ہے حضرت آدم نے حضرت دائود کو اپنی عمر میں سے چالیس سال دیئے ‘ اور ثالث اس وجہ سے کہ اس روایت میں مذکور ہے کہ حضرت دائود کی عمر کے سو سال پورے کردیئے گئے اور یہ اضافہ سننترمذی میں نہیں ہے ‘ اور سنن ترمذی صحاح ستہ کی کتاب اور اس کی سند صحیح ہے اور یہ حدیث تین وجہ سے اس کے خلاف ہے۔ سو یہ حدیث منکر ہے۔ علاوہ ازیں محدثین نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے۔

اس حدیث کو حماد بن سلمہ سے علی بن زید نے روایت کیا ہے اور اس کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٢٥٨ ھ علی بن زید کے متعلق لکھتے ہیں :

ابن سعدنے کہا یہ نابینا پیدا ہوا تھا ‘ یہ بہت احادیث بیان کرتا تھا ‘ اور اس میں ضعف ہے اس سے استدلال نہیں کیا جاتا ‘ صالح بن احد نے کہا یہ قوی نہیں ہے ‘ امام احمد نے کہا یہ لیس بشیء ہے ‘ امام احمد اور یحییٰ بن معین نے کہا یہ ضعیف ہے ‘ دارمی نے کہا یہ قوی نہیں ہے ‘ امام ابن ابی خیشمہ نے یحییٰ سے نقل کیا کہ یہ ہر شے میں ضعیف ہے اور اس کی روایت اس پائے کی نہیں ‘ دوری نے کہا یہ حجت نہیں۔ الخ (تہذیب التہذیب ج ٧ ص ٥٧٢۔ ٤٧٢‘ رقم : ٥٠٩٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی کا مختار یہ ہے کہ یہ ضعیف ہے۔ (تقریب التہذیب رقم : ٠٥٧٤‘ نیز دیکھیے تہذیب الکمال رقم : ٠٧٠٤‘ التاریخ الکبیر ج ٦ رقم ٩٨٣٢‘ الجرح والتعدیل ج ٦ رقم : ١٢٠١‘ المیز ان ج ٣ رقم : ٤٤٨٥)

حافظ الہیشمی نے کہا ہے کہ اس کی سند میں علی بن زید ہے اور اس کو جمہور نے ضعیف قرار دیا ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٢ ص ٦٠٢)

مسند ابو یعلی کے محقق نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے۔ (مسند ابو یعلیٰ ج ٥ ص ١٠١)

خلاصہ یہ ہے کہ سنن ترمذی میں مذکور ہے کہ حضرت دائود کی عمر چالیس سال تھی اور مسند احمد ‘ المعجم الکبیر اور مسند ابو یعلیٰ میں مذکور ہے کہ ان کی عمر سو سال تھی لیکن ان کتابوں کی سند ضعیف ہے اور حافظ ابن کثیر نے ترمذی کی صحیح روایت کے مقابلہ میں ان کتابوں کی روایت پر اعتماد کیا ہے بلکہ ان کتابوں کی روایت کو بھی ترمذی کی طرف منسوب کردیا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ تحقیق کے سلسلہ میں حافظ ابن کثیر کی بہت شہرت ہے لیکن اس مقام پر حاف ظابن کثیر کو سخت لغزش ہوئی ہے۔

حضرت دائود (علیہ السلام) کی وفات 

حافظ ابو الفد اء اسماعیل بن عمر بن کثیر الدمشقی متوفی ٤٧٧ ھ لکھتے ہیں :

امام احمد اپنی سند کے ساتھ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت دائود (علیہ السلام) میں غیرت بہت زیادہ تھی ‘ جب وہ گھر سے باہر جاتے تو دروازوں کو بند کر کے تالا لگا دیتے تھے ‘ اور ان کے واپس آنے تک ان کے گھر میں کوئی نہیں داخل ہوتا تھا۔ ایک دن وہ حسب معمول دروازہ بند کر کے گئے ‘ ان کی اہلیہ گھر کی طرف دیکھ رہی تھی ‘ ایک شخص گھر کے وسط میں کھڑا ہوا تھا ‘ ان کی اہلیہ نے کہا : حضرت دائود کہیں گے یہ آدمی گھر میں کیسے آگیا ؟ گھر تو بند ہے ‘ اللہ کی قسم ! ہم تو حضرت دائود سے شرمندہ ہوں گے۔ پھر حضرت دائود آگئے اور وہ شخص اسی طرح گھر کے وسط میں کھڑ اہوا تھا۔ حضرت دائود نے اس شخص سے پوچھا : تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں وہ شخص ہوں جو بادشاہوں سے ڈرتا ہے اور نہ کوئی حجاب اس کا راستہ روک سکتا ہے۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے کہا پھر تم ضرور موت کے فرشتہ ہو۔ اللہ کے حکم پر تمہیں خوش آمدید ہو۔ پھر تھوڑی دیر کے بعد ان کی روح قبض کرلی گئی ‘ پھر جب ان کو غسل دیا گیا اور ان کے امور سے فراغت ہوگئی تو دھوپ نکل آئی۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے پرندوں سے کہا کہ حضرت دائود پر سایہ کرو ‘ تو پرندوں نے اپنے پر پھیلا لئے حتیٰ کہ زمین پر اندھیرا چھا گیا ‘ پھر حضرت سلیمان نے پرندوں سے کہا کہ اپنے پر سمیٹ تو پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے بازو پھیلا کر اور سمیٹ کر دکھایا کہ کس طرح پرندوں نے اپنے بازو پھیلائے تھے اور سمیٹے تھے۔ (مسند احمد رقم الحدیث : ٢٣٤٩‘ دارالفکر)

حافظ ابن کثیر نے حسن سے روایت کیا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) سو سال کی عمر میں فوت ہوئے، اور ان کو بدھ کے دن اچانک موت آئی، اور ابوالسکن الہجری نے کہا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اچانک فوت ہوئے، حضرت دائود اچانک فوت ہوئے اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان اچانک فوت ہوئے۔ اس کو حافظ ابن عسار کرنے روایت کیا ہے۔ ( مختصر تاریخ ومشق ج ٨ ص ٠٤١) امام ابن اثیر متوفی ٠٣٦ ھ نے بھی لکھا ہے کہ حضرت دائود کی عمر سو سال تھی اور یہ حدیث صحیح میں ہے ان کی حکومت کی مدت چالیس سال تھی اور ان کے اینس بیٹے تھے اور صرف حضرت سلیمان ان کے وارث ہوئے۔ (الکامل لابن اثیرج اص ٨٢١ )

بعض لوگوں سے روایت ہے کہ جس وقت ملک الموت آیا اس وقت حضرت دائود محراب (چوبارہ) سے اتر رہے تھے۔ حضرت دائود نے کہا مجھے اتنی مہلت دو کہ میں محراب سے اتر جائوں یا محراب کی طرف چڑھ جائوں۔ ملک الموت نے کہا اے اللہ کے نبی ! سال اور مہینے پورے ہوچکے ہیں۔ پھر حضرت دائود وہیں سیڑھی کے ایک ڈنڈے پر سجدہ میں گرگئے اور سجدہ کی حالت میں ملک الموت نے آپ کی روح قبض کرلی۔ (مختصر تاریخ و مشق ج ٨ ص ٠٤١) (البدایہ والنہایہ ج ا ص ٥٦٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ٨١٤١ ھ) 

مختصر تاریخ و مشق علامہ ابن منظور متوفی ١١٧ ھ نے مرتب کی ہے جس میں انہوں نے تاریخ مشق الکبیر کی تلخیص کی ہے، مگر مذکورالصدر روایات تاریخ و مشق الکبیر میں نہیں ہیں، اور غالباً حافظ ابن کثیر کے سامنے اصل تاریخ و مشق نہیں تھی کیونکہ یہ کتاب تو ابھی چند سال پہلے چھپی ہے، ہم نے دونوں کتابوں کا تقابل کیا ہے۔ علامہ ابن منظور نے اس مختصر میں کئی روایات اپنی طرف سے بھی داخل کردی ہیں جو اصل کتاب میں نہیں ہیں۔ (امام ابن اثیر اور حافظ ابن کثیر نے حضرت دائود کی عمر سو سال لکھی ہے لیکن سنن ترمذی میں تصریح ہے کہ ان کی عمر چالیس سال تھی)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام و نسب اور انبیاء مبعوثین کی ترتیب 

حافظ ابو القاسم علی بن الحسن المعروف بابن عسا کر متوفی ١٧٥ ھ لکھتے ہیں :

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا نام و نسب اس طرح ہے : سلیمان بن دائود بن افشی بن عوید بن ناعر بن سلمون بن یخشون بن عمیناذب بن ارم بن خضر ون بن فارص بن یھو دابن یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم ابو الربیع نبی اللہ بن نبی اللہ (علیہم السلام) بعض روایات میں ہے کہ حضرت سلیمان بن دائود (علیہما السلام) بھی دمشق میں آئے تھے۔

سب سے پہلے جس نبی کو مبعوث کیا گیا وہ حضرت ادریس تھے، پھر حضرت نوح، پھر حضرت ابراہیم، پھر حضرت اسماعیل، پھر حضرت اسحاق، پھر حضرت یعقوب، پھر حضرت یوسف، پھر حضرت لوط۔ (اس پر یہ اشکال ہے کہ حضرت لوط (علیہ السلام) تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے ہم عصر تھے) پھر حضرت ہود، پھر حضرت صالح، پھر حضرت شعیب، پھر حضرت موسیٰ ، پھر حضرت ہارون، پھر حضرت الیاس، پھر حضرت الیسع، پھر حضرت یونس، پھر حضرت ایوب، پھر حضرت دائود، پھر حضرت سلیمان، پھر حضرت زکریا، پھر حضرت یحییٰ ، پھر حضرت عیسیٰ ابن مریم، پھر سیدنا حضرت محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب بن ہاشم کو مبعوث کیا گیا۔ علیہم الصلوۃ والتسلیمات (تاریخ و مشق الکبیرج ٤٢، ص ٥٦١، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٢٤١ ھ)

قرآن مجید میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر 

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر قرآن مجید کی ان آیات میں ہے :البقرہ ۱۰۲، النسائ : ۱۲۳، الانعام : ۸۴، الانبیائ : ۸۱۷۸، انمل : ۲۴- ۱۵، سبا : ٢١ ص : ۴۰-۳۰

البقرۃ، انسائ، الانعام اور الانبیاء کی تفسیر گزر چکی ہے۔ انمل : ٤٢-٥١ کی تفسیر انشاء اللہ عنقریب اس رکوع میں آرہی ہے۔ اس لیے ہم یہاں پر ص : ۴۰-۳۰ کا ذکر کر رہے ہیں جن میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ذکر ہے۔

اور ہم نے دائود کو سلیمان (نام کا بیٹا) عطا فرمایا۔ وہ کیا ہی اچھے بندے تھے، بیشک وہ اللہ کی طرف بہت رجوع کرنے والے تھے۔ جب ان کے سامنے شام کے وقت تیز رفتار عمدہ گھوڑے پیش کیے گئے۔ سو انہوں نے کہا میں اس خیر (گھوڑوں) کی محبت میں اپنے رب کی یاد میں غافل رہا، حتیٰ کہ سورج پردہ (مغرب) میں چھپ گیا۔ ان گھوڑوں کو (دوبارہ) میرے سامنے لائو پھر ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پیرنا شروع کردیا۔ اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر جسم ڈال دیا، پھر انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا۔ انہوں نے دعا کی اے رب ! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسا ملک عطا فرماجو میرے علاوہ کسی اور کے لائق نہ ہو، بیشک تو ہی بہت عطا کرنے والا ہے۔ سو ہم نے ہوا کو ان کے ماتحت کردیا وہ ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے تھے ان کو نرمی سے لے جاتی تھی۔ اور قوی جنات کو بھی ان کے تابع فرمان کردیا جو ہر قسم کی عمارت بنانے والے اور غوطہ لگانے والے تھے۔ اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے رہتے تھے۔ یہ ہماری عطا ہے خواہ آپ (ان کو) کسی پر احسان کر کے دے دیں، یا اپنے پاس روک لیں ! آپ سے کوئی حساب نہیں ہوگا۔ بیشک اس کا ہمارے پاس (بہت) قرب ہے اور اس کے لیے (آخرت میں) اچھا ٹھکانا ہے۔ 

جہاد کے گھوڑوں کے معائنہ کی مشغولیت کی وجہ سے حضرت سلیمان کی عصر کی نماز کا قضا ہونا 

امام ابن عساکر نے روایت کیا ہے کہ جب گھوڑوں کے معائنہ میں مشغولیت کی وجہ سے حضرت سلیمان کی عصر کی نماز قضا ہوگئی تو انہوں نے اس کے غم و غصہ میں تمام گھوڑوں کو تلوار سے کاٹ ڈالا۔ (تاریخ دمشق ج ٤٢ ص ٣٧١)

حافظ عمادلدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٤٧٧ ھ لکھتے ہیں :

اکثر متقدمین مفسرین نے یہ کہا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کو دیکھنے کے شوق میں اس قدر مشغول ہوئے حتی کہ عصر کی نماز کا وقت نکل گیا اور سورج غروب ہوگیا ‘ اس کو حضرت علی بن ابی طالب روایت کیا ہے ‘ اور حتمی بات یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے بغیرعذر کیعمداً نماز کو ترک نہیں کیا تھا ‘ البتہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان کی شریعت میں جہاد اور اسباب جہاد کے حصول کے لیے نماز کو موخر یا قضا کردینا جائز تھا اور گھوڑے بھی اسباب جہاد میں سے ہیں اس لیے وہ گھوڑوں کے معائنہ میں اس قدر مشغول ہوگئے کہ سورج غروب ہوگیا اور جب وہ اس پر متوجہ ہوئے کہ انکے اس اشتعال کی وجہ سے عصر کی نماز کا وقت نکل گیا تو انہوں نے دوبارہ گھوڑوں کو بلوایا اور ان کی پنڈلیوں اور گرد نوں پر تلواریں مار کر ان کو قتل کردیا اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ انہوں نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر چمکا رنیکے لیے ہاتھ پھیرا اور پھر ان کے درمیان گھڑ دوڑ کا مقابلہ کرایا۔

بعض علماء نے کہا ہے کہ غزوہ خندق کے دن ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عصر کی نماز موخر کردی تھی کیونکہ یہ پہلے مشروع اور جائز تھا کہ جہاد کی مشغولیت کی وجہ سے نماز کو موخر کردیا جائے بعد میں صلوٰۃ خوف کا حکم نازل ہوا اور پھر جہاد کی کی مشغولیت کی وجہ سے نماز کا موخر کرنا منسوخ ہوگیا ‘ اور بعض علماء نے کہا ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس دن عصر کی نماز کو عمداً موخر نہیں کیا تھا بلکہ جہاد کی مشغولیت کی وجہ سے آپ بھول گئے تھے۔ اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے متلعق کہا جاتا ہے کہ وہ بھی گھوڑوں کے معائنہ کی وجہ سے عصر کی نماز پڑھنا بھول گئے تھے۔ (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٧٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) غزوہ تبوک یا غزوہ خیبر سے آئے ‘ حضرت عائشہ کے طاقچہ پر ایک پردہ تھا۔ ہوا سے پردہ اڑا تو اس میں حضرت عائشہ کی گڑیاں رکھی ہوئی نظر آئیں۔ آپ نے پوچھا یہ کیا ہے ؟ اے عائشہ ! حضرت عائشہ نے کہا یہ میری گڑیاں ہیں۔ آپ نے دیکھا ان گڑیوں کے درمیان ایک گھوڑا رکھا ہوا تھا جس کے پر بنے ہوئے تھے۔ آپ نے پوچھا ان گڑیوں کے درمیان میں کیا رکھا ہوا ہے ؟ حضرت عائشہ نے کہا یہ گھوڑا ہے ! آپ نے پوچھا اس کے اوپر کیا بنا ہوا ہے ؟ کہا وہ اس کے دو پر ہیں ‘ آپ نے فرمایا کیا گھوڑے کے پر ہوتے ہیں ؟ حضرت عائشہ نے کہا کیا آپ نے نہیں سنا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس پروں والے گھوڑے تھے ! حضرت عائشہ نے کہا پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہنسے حتیٰ کہ میں نے آپ کی داڑھیں دکھیں۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٣٩٤) (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٧٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ازواج کی تعداد 

ص : ۳۴ میں ہے : اور ہم نے سلیمان کی آزمائش کی اور ان کے تخت پر جسم ڈال دیا پھر انہوں نے اللہ کی طرف رجوع کیا ‘ اس سلسلہ میں یہ حدیث ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت سلیمان بن دائود نبی اللہ نے کہا میں آج رات ستر ازواج کے پاس جائوں گا ان میں سے ہر ایک سے ایک لڑکا پیدا ہوگا جو اللہ کی راہ میں جہاد کرے گا ‘ ان کے ساتھی یا کسی فرشتے نے کہا کہیے ان شاء اللہ ‘ وہ بھول گئے اور نہ کہا ‘ پھر انکی ازواج میں سے صرف ایک کے ہاں ادھورا لڑکا پیدا ہوا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر وہ انشاء اللہ کہتے تو ان کی قسم نہ ٹوٹتی ! اور ان کا مقصد پورا ہوجاتا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٠٢٧٦‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٥٦١‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٣١٧‘ عالم الکتب ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٦٨١‘ رقم الحدیث : ١٢١٥‘ ٩٢١٥‘ ٩١١٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ازواج کی تعداد کے بیان میں مضطرب روایات میں تطبیق 

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ازواج کی تعداد میں اضطراب ہے۔ بعض روایات میں ساٹھ ازواج کا ذکر ہے بعض میں ستر کا بعض میں نوے کا اور صحیح مسلم کے علاوہ صحیح بخاری میں ننانوے اور سوازواج کا بھی ذکر ہے۔ علامہ نووی نے اس کے جواب میں لکھا ہے کہ عدد میں مفہوم مخالف معتبر نہیں ہوتا اور عدد قلیل کے ذکر سے عدد کثیر کی نفی نہیں ہوتی۔ (شرح مسلم ج ٢ ص ٩٤‘ مطبوعہ کراچی)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے علامہ نووی کے جواب کو مسترد کردیا ہے اور لکھا ہے کہ بہت سے علماء کے نزدیک عدد میں مفہوم مخالف معتبر ہوتا ہے اس لیے صحیح جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان کی ساٹھ ازواج تھیں اور باقی باندیاں تھیں اور جن روایات میں ساٹھ سے زیادہ ازواج کا ذکر ہے ان میں مجاز اً باندیوں پر بھی ازواج کا اطلاق کیا گیا ہے ‘ یا اس کے برعکس ساٹھ باندیاں تھیں اور باقی ازواج تھیں ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ اصل میں ازواج نوے سے زیادہ اور سو سے کم تھیں ‘ جس روایت میں نوے کا ذکر ہے اس میں کسر کو حذف کردیا اور جس روایت میں سو کا ذکر ہے اس میں کسر کو پورا کردیا اور ساٹھ اور ستر کے ذکر سے کثرت میں مبالغہ مراد ہے کیونکہ عرب کثرت میں مبالبۃ کے لیے ساٹھ اور ستر کا عدد ذکر کرتے ہیں ‘ اور ہب بن منبہ سے روایت ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے پاس ایک ہزار عورتیں تھیں جن میں سے تین سو ازواج تھیں اور سات سو باندیاں تھیں۔ امام حاکمنے مستدرک میں اپنی ساد کے ساتھ محد بن کعب سے روایت کیا ہے کہ حضرت سلیمان کے پاس ایک ہزار شیشے کے لکڑی پر جڑے ہوئے گھر تھے سو ازواج کے تھے اور سات سو باندیوں کے۔ (فتح الباری ج ٣١ ص ٧٦٤‘ ٦٦٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ازواج کے عدد میں اختلاف راویں کے تصرف کا نتیجہ ہے ‘ ہوسکتا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسا عدد بیان کیا جو کثرت پر دلالت کرتا ہو اور ہر راوی نے اپنی سمجھ کے اعتبار سے اس کی دوسرے سے مختلف تعبیر کردی اور اس سے اصل حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ‘ کیونکہ ان کے نزدیک ازواج کے عدد کو محفوظ اور منضبط رکھنے کے ساتھ کوئی دینی اور دنیوی غرض متعلق نہیں بھی۔

حضرت سلیمان سے متعلق ایک حدیث صحیح پر سید مودودی کے اعتراض کے جوابات 

سید ابو اعلیٰ مودودی نے ایک رات میں ساٹھ ازواج سے جماع کرنے کو عقلاً مستبعد قرار دے کر ان احادیث ہی کا انکار کردیا ! لکھتے ہیں :

تیسرا گروہ کہتا ہے کہ حضرت سلیمان نے ایک روز قسم کھائی کہ آج رات میں اپنی ستر بیویوں کے پاس جائوں گا اور ہر ایک سے ایک مجاہد فی سبیل اللہ پیدا ہوگا مگر یہ بات کہتے ہوئے انہوں نے انشاء اللہ نہ کہا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ صرف ایک بیوی حاملہ ہوئیں اور ان سے بھی ایک ادھورابچہ پیدا ہوا جسے دائی نے لا کر حضرت سلیمان کی کرسی پر ڈال دیا۔ یہ حدیث حضرت ابوہریرہ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کی ہے اور اسے بخاری و مسلم اور دوسرے محدثین نے متعدد طریقوں سے نقل کیا ہے۔ خود بخاری میں مختلف مقامات پر یہ روایت جن طریقیوں سے نقل کی گئی ہی ان میں سے کسی میں بیویوں کو تعداد ساٹھ بیان کی گئی ہے ‘ کسی میں ٠٧‘ کسی میں ٠٩‘ کسی میں ٩٩ اور کسی میں ٠٠١‘ جہاں تک اسناد کا تعلق ہے ان میں سے اکثر روایات کی سند قوی ہے اور با اعتبار روایت اس کی صحت میں کلام نہیں کیا جاسکتا ‘ لیکن حدیث کا مضمون صریح عقل کے خلاف ہے اور پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ یہ بات نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس طرح ہرگز نہ فرمائی ہوگی جس طرح وہ نقل ہوئی ہے بلکہ آپ نے غالباً یہود کی یا وہ گوئیوں کا ذکر کرتے ہوئے کسی موقع پر اسے بطور مثال بیان فرمایا ہوگا ‘ اور سامع کو یہ غلطی لاحق ہوگئی کہ اس بات کو حضور خود بطور واقعہ بیان فرما رہے ہیں۔ ایسی روایات کو محض صحت سند کے زور پر لوگوں کے حلق سے اتروانے کی کوشش کرنا دین کو مضحکہ بنانا ہے ‘ ہر شخص خود حساب لگا کر دیکھ سکتا ہے کہ جاڑے کی طویل ترین رات میں بھی عشاء اور فجر کے درمیان دس گیارہ گھنٹے سے زیادہ وقت نہیں ہوتا۔ اگر بیویوں کی کم سے کم تعداد ساٹھ ہی مان لی جائے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس رات بغیر دم لیے فی گھنٹہ چھ بیویوں کے حساب سے مسلسل دس گھنٹے یا گیارہ گھنٹے مباشرت کرتے چلے گئے ‘ کیا یہ عملاً ممکن بھی ہے ؟ اور کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ حضور نے یہ بات واقعے کے طور پر بیان کی ہوگی ؟(تفہیم القرآن ج ٤ ص ٧٣٣‘ مطبوعہ لاہور ‘ ٧٧٩١ ئ)

سید ابو الاعلیٰ مودودی نے جس انداز سے اس حدیث صحیح کو مسترد کیا ہے اس میں ان کا اسلوب نگارش غلام احمد پرویز اور ڈاکٹر غلام جیلانی سے چنداں مختلف نہیں ہے حدیث کی جانچ اور پرکھ کا اصول محدثین اور مجہتدین کے نزدیک یہ ہے کہ اس کی سند صحیح ہو اور اس کا متن قرآن مجید ‘ سنت مشہورہ اور عقل صریح کیخلاف نہ ہو بایں طور کہ وہ کسی محال عقلی کو مستلزم نہ ہو ‘ اور اگر ہر شخص کی عقل کو حدیث کی صحت اور عدم صحت کے لیے ترازو مان لیا جائے تو دین کے اکثر اور بیشتر احکام سے اعتماد اٹھ جائے گا۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی نے اس حدیث پر جو اعتراض کیا ہے اس کے جواب میں پہلی گزارش یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی ازواج کی تعداد میں یہ فرض کرلینا صحیح نہیں ہے کہ وہ قطعی طور پر ساٹھ ہی تھیں ‘ کیونکہ ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کثرت پر دلالت کرنے والا کوئی لفظ ذکر کیا جس کو راویوں نے اپنی اپنی فہم کے مطابق ساٹھ ‘ ستر یا نوے سے تعبیر کرلیا۔ دوسری گزارش یہ ہے کہ اگر بارہ گھنٹے کی رات فرض کی جائے اور ساٹھ ازواج ہوں تو ایک گھنٹہ میں پانچ کا حساب آتا ہے اور یہ چنداں مستبعد نہیں ہے ‘ تیسری گزارش یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کے افعال مبارکہ کو عام آدمیوں کے افعال پر قیاس کرلیناہی گمراہی کا اولین سبب ہے ‘ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی امت کے ایک ولی (آصف بن برخیا) نے تین ماہ کی مسافت سے تخت بلقیس کو پلک جھپکنے سے پہلے لا کر حاضر کردیا اور جب سلیمان (علیہ السلام) کا ایک خاص امتی تین ماہ کے کام کو پلک جھپکنے سے پہلے کرسکتا ہے تو خود حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی قوت اور اختیار کا کیا عالم ہوگا ! سید ابو الاعلیٰ مودودی نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی کارکردگی کے لیے گھنٹوں اور منٹوں کا جو ٹائم ٹیبل بنایا ہے اس کے اعتبار سے کسی نبی کا معجزہ ثابت ہوسکتا ہے اور نہ کسی ولی کی کرامت ! !

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اجتہاد میں اصابت رائے 

اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے :

وداود و سلیمن اذیحکمن فی الحرث اذ نفشت فیہ غنم القوم ج وکنا لحکمھم شھدین۔ ففھمنھا سلیمن ج وکلا اتینا حکما و علما۔ (الانبیائ : ۷۸۔ ۷۹)

(حضرت) دائود اور (حضرت) سلیمان (علیہما السلام) جب اس کھیت کا فیصلہ کرنے لگے جس کی فصل کو ایک قوم کی بکریوں نے رات میں روند ڈالا تھا ‘ ان کا فیصلہ ہمارے سامنے تھا ‘ ہم نے (حضرت) سلیمان کو اس فیصلہ کی فہم دے دی تھی اور ہم نے دونوں کو حکومت دی تھی اور علم عطا فرمایا تھا۔

مفسرین نے لکھا ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کی خدمت میں ایک مقدمہ پیش ہوا کہ ایک شخص کے کھیت میں رات کے وقت دوسرے لوگوں کی بکریاں آگھسیں اور کھیت کا نقصان کردیا۔ حضرت دائود (علیہ السلام) نے یہ دیکھ کر بکریوں کی قیمت اس مالیت کے برابر ہے جس کا کھیت والے نے نقصان اٹھا یا تھا یہ فیصلہ کیا بکریاں کھیت والے کودے دی جائیں۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میری رائے یہ ہے کہ کھیت والا اپنے پاس بکریاں رکھے اور ان سے فائدہ اٹھائے اور بکریوں والے کھیت کو دوبارہ اصل حالت پر لانے کے لیے کھیتی باڑی کریں اور جب کھیت پہلی حالت پر واپس آجائے تو بکریاں ان کے مالکوں کو لوٹادیں اور کھیت والے اپنا کھیت لے لیں۔ اس میں دونوں کا نقصان نہ ہوگا۔ حضرت دائود نے یہ فیصلہ سن کر حضرت سلیمان کی تحسین فرمائی اور اپنی رائے سے رجوع کرلیا۔ فقہی اصطلاح میں حضرت دائود نے حضرت سلیمان کے استحسان کے مقابلہ میں اپنے قیاس سے رجوع فرمالیا۔

اس آیت سے معلوم ہو کہ کسی پیش آمدہ مسئلہ کو حل کرنے کے لیے اصول شرع کے مطابق اپنی رائے دینا اجتہاد ہے اور کبھی ایک مسئلہ میں اجتہاد سے دو حل معلوم ہوتے ہیں۔ ایک حل ظاہر اور دوسرا خفی ہوتا ہے۔ ظاہر کو قیاس اور خفی کو استحسان کہتے ہیں۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اجتہاد کی دوسری مثال اس حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ دو عورتیں اپنے اپنے بچے کو ساتھ لے جارہی تھیں ‘ اتنے میں بھیڑیا آکر ان میں سے ایک کے بچے کو لے گیا ‘ ایک عورت نے دوسری سے کہا بھیڑیا تمہارے بچہ کو لے گیا ہے ‘ دوسری نے کہا نہیں ‘ تمہارے بچہ کو لے گیا ہے وہ دونوں حضرت دائود کے پاس اپنا مقدمہ لے کر گئیں ‘ انہوں نے بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کردیا ‘ پھر وہ دونوں حضرت سلیمان بن دائود (علیہما السلام) کے پاس گئیں اور ان کو ماجرا سنایا۔ حضرت سلیمان نے فرمایا چھری لائو میں اس بچہ کے دو ٹکڑے کرکے تم دونوں کو دے دیتا ہوں ‘ چھوٹی نے کہا نہیں ‘ اللہ تم پر رحم کرے وہ اسی کا بچہ ہے ‘ پھر حضرت سلیمان نے چھوٹی کے حق میں اس بچہ کا فیصلہ کردیا۔ حضرت ابوہریرہ (رض) نے کہا بخدا ! (چھری کے لیے) سکین کا لفظ میں نے اسی دن سنا ہے۔ ہم اس سے پہلے ” مدیہ “ کہتے تھے۔(صحیح مسلم الاقضیہ : ٠٢‘ رقم الحدیث : بلاتکرار ٠٢٧‘ الرقم المسلسل ٥١٤٤‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٠٠٢‘ رقم الحدیث : ٣٣١٥)

اس حدیث میں ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) نے اس بچے کا بڑی عورت کے حق میں فیصلہ کردیا ‘ اس جگہ یہ سوال ہے کہ حضرت دائود نے کس قرینہ کی بنا پر بڑی عورت کی حق میں فیصلہ کیا۔ اسکاجواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ حضرت دائود کے خیال میں وہ بچہ بڑی عورت کے مشابہ ہو اور اس مشابہت کی بنا پر انہوں نے یہ فیصلہ کیا ہو ‘ بچہ بڑی عورت کے ہاتھ میں دیکھ کر یہ فیصلہ کردیاہو۔

حضرت سلیمان کا واقعاتی شہادت سے استدلال 

حضرت سلیمان نے حقیقت حال معلوم کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان دونوں سے کہا کہ میں چھری سے اس بچے کے دو ٹکڑے کردیتا ہوں تاکہ یہ دیکھیں کہ یہ فیصلہ کس پر دشوار ہوتا ہے اور جس عورت پر بچے کے دو ٹکڑے کرنے کا فیصلہ شاق ہوگا وہی عورت حقیقت میں بچہ کی ماں ہوگی اور جب بڑی عورت بچے کے ٹکڑے کرنے پر راضی ہوگئی اور چھوٹی عورت نے بچے کی جان بچانے کے لیے کہا کہ نہیں ‘ یہ اسی کا بچہ ہے تو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو معلوم ہوگیا کہ بچہ حقیقت میں چھوٹی عورت کا ہے اور انہوں نے چھوٹی عورت کے حق میں فیصلہ کردیا۔ درحقیقت اس مسئلہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے واقعاتی شہادت اور قرینہ خارجیہ سے استدلال کیا ہے کیونکہ یہاں اور گواہی نہیں تھی اور علماء نے کہا ہے کہ حکام کو اس قسم کے معاملات میں واقعاتی شہادتوں سے استدلال کرنا چاہیے۔

ایک مجتہد دوسرے مجتہد سے کب اختلاف کرسکتا ہے ؟

ایک سوال یہ ہے کہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلہ کے بعد اسی مقدمہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کیوں فیصلہ کیا ‘ اور انکے فیصلہ کو کیوں تبدیل کیا ‘ حالانکہ ایک مجتہد دوسرے مجتہد کے فیصلہ کو تبدیل نہیں کرتا ؟ اس کے متعدد جواب ہیں :

(١) یہ حضرت دائود (علیہ السلام) کو اس فیصلہ پر یقین نہیں تھا۔

(٢) یہ حضرت دائود (علیہ السلام) کا فتویٰ تھا ‘ فیصلہ نہیں تھا۔

(٣) ہوسکتا ہے کہ ان کی شریعت میں یہ جائز ہو کہ جب دوسرے حاکم کے پاس مقدمہ پہنچے تو وہ پہلے حاکم کے خلاف فیصلہ کردے۔

(٤) حضرت سلیمان نے جب حیلہ سے یہ معلوم کرلیا کہ بچہ چھوٹی عورت کا ہے تو انہوں نے بڑی عورت سے اقرار کر الیا اور اقرار حجت ملزمہ ہے ‘ کیونکہ جب اس نے حضرت دائود (علیہ السلام) کے فیصلہ کیخلاف خود ہی اقرار کرلیا کہ حق چھوٹی عورت کا ہے تو اب حضرت سلیمان پر فیصلہ تبدیل کرنے کا اعتراض نہیں ہے۔

اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایک مجتہد کا دوسرے مجتہد سے اختلاف کرنا جائز ہے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ انبیاء (علیہم السلام) اجتہاد کرتے ہیں اور بعض اوقات انبیاء (علیہم السلام) سے اجتہادی خطا بھی ہوجاتی ہے جیسا کہ اس مسئلہ میں حضرت دائود (علیہ السلام) سے اجتہادی خطا ہوگئی ‘ لیکن وہ اجتہادی خطا ہوگئی ‘ لیکن وہ اجتہادی خطا پر برقرار نہیں رہتے اللہ تعالیٰ ان پر حق واضح کردیتا ہے۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو ایسا ملک عطا فرمانا جو دوسروں کو نہ دیا گیا ہو 

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب حضرت سلیمان نے بیت المقدس بنا لیا تو اپنے رب عزوجل سے تین چیزوں کا سوال کیا۔ اللہ تعالیٰ نیان کو ان میں سے دو چیزیں عطا فرمادیں اور ہمیں امید ہے کہ تیسری چیز ہمیں مل جائے گی۔ انہوں نے سوال کیا کہ وہ ایسا فیصلہ کریں جو اللہ تعالیٰ کے فیصلہ کے موافق ہو تو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ان کو عطا فرما دیا ‘ اور انہوں نے یہ سوال کیا کہ اللہ تعالیٰ ان کو ایسا ملک عطا فرمائے جو انکے بعد اور کسی کے سزاوار نہ ہو اللہ تعالیٰ نے یہ بھی ان کو عطا فرمادیا ‘ اور انہوں نے یہ سوال کیا کہ جو بھی اپنے گھر سے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے آئے اور اس ارادہ صرف اس مسجد میں نماز پڑھنا ہو تو وہ اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجائے جیسے وہ اپنی ماں کے بطن سے ابھی پیدا ہواہو ‘ ہمیں امید ہے کہ یہ چیز اللہ تعالیٰ نے ہمیں عطا کردی ہے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٩٦‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٠٤١‘ مسند احمد ج ٢ رقم الحدیث : ٥٥٦٦‘ دارالفکر ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢‘ ص ١١٢‘ رقم الحدیث : ٥٣١٥)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے ہوا کو مسخر فرمانا 

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی تھی :

قال رب الغفرلی وھب لی ملکالا ینبغی لاحد من بعدی ج انک انت الوھاب۔ (ص : ٥٣) اے میرے رب ! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسا ملک عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کے لائق نہ ہو ‘ بیشک تو ہی بہت عطا فرمانے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی اس دعا کو قبول کر کے فرمایا :

فسخرنالہ الریح تجری بامرہ رخآء حیث اصاب (ص : ٦٣) سو ہم نے ہواکو ان کے ماتحت کردیا ‘ وہ ان کے حکم سے جہاں وہ چاہتے تھے ان کو نرمی سے لے جاتی تھی۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جب محض اللہ کی رضا کے لیے اپنے شوق کے باوجود گھوڑوں کے ساتھ دلچسپی لینے اور ان میں مشغولیت کو ترک کردیا اور ایک تفسیر کے مطابق گھوڑوں کو قتل کردیا تو اللہ تعالیٰ نے ہوا کو ان کے لیے سواری بنادیا جو گھوڑوں کی رفتار سے کہیں زیادہ تیز تھی ‘ حضرت سلیمان کے پاس لکڑی کا ایک بہت بڑا تخت تھا ‘ اسکے علاوہ ان کی ضرورت کی تمام چیزیں ان کے پاس موجود تھیں ‘ انکے پاس مکان ‘ محل ‘ خیمے اور سازو سامان تھا ‘ گھوڑے تھے ‘ انسان اور جن ان کے خدمت گار تھے۔ حیوانات اور پرندے ان کے تابع تھے ‘ اور ہر قسم کی خوبصورت چیزیں ان کے پاس مہیا تھیں ‘ جب وہ کسی سفر پر جانے کا قصد کرتے ‘ تو ضرورت کی ساری چیزیں ‘ انواع و اقسام کا سازو سامان اور خدام ‘ سب اس تخت پر آجاتے ‘ پھر آپ ہوا کو حکم دیتے وہ اس تخت کے نیچے داخل ہو کر اس تخت کو اوپر اٹھا لیتی۔ پھر جب وہ تخت زمین سے کافی بلندی پر چلا جاتا تو آپ نے جہاں جانا ہوتا ہوا آپ کو بہت تیزی اور سرعت کے ساتھوہاں پہنچادیتی۔ آپ صبح کے وقت بیت المقدس سے سفر کرتے اور ہوا آپ کو ایک ماہ کی مسافت کے فاصلہ پر پہنچا دیتی۔ قرآن مجید میں ہے :

ولسلیمن الریح غدوھا شھرو رواحھا شھر ج واسلنا لہ عین الفطرط (سبا : ٢١ )

اور ہم نے سلیمان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا کہ وہ صبح کی سیر میں ایک ماہ کی مسافت طے کرلیتی اور شام کی سیر میں ایک ماہ کی مسافت طے کرلیتی ‘ اور ہم نے ان کے لیے تانبے کا چشمہ بہادیا (تاکہ تانبے کی دھات سے وہ جو چاہیں بنائیں)

بے شک یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا بہت عظیم معجزہ تھا ‘ ہوا انکو صبح کے وقت میں ایک ماہ کی مسافت پر لے جاتی تھی ‘ اور ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس سے زیادہ عظیم معجزہ عطا فرمایا کیونکہ حضرت سلیمان کو تخت پر بیٹھ کر جانا پڑتا تھا اور ہمارے نبی جہاں چاہتے تھے وہ جگہ خود آپ کے سامنے آجاتی تھی۔ حضرت ثوبان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرمایا :

ان اللہ زوی لی الارض فرایت مشارقھا ومغاربھا۔ بیشک اللہ تعالیٰ نے میرے لیے تمام روئے زمین کو لپیٹ دیا اور میں نے اس کے تمام مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔

(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٨٨٢‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٥٢٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٧١٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٥٩٣)

رہا یہ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مختلف اغراض اور مقاصد کے لیے سفر بھی کیے ہیں اور آپ متعدد علاقوں میں گئے ہیں اسکا جواب یہ ہے کہ آپکو کہیں جانے کی حاجت نہیں تھی۔ اللہ تعالیٰ نے تمام علاقے آپ کو دکھا دیئے تھے ‘ آپ کا سفر کرنا اور مختلف علاقوں میں جانا محض اس لیے تھا کہ سفر کرنا اور مختلف علاقوں میں جانا ہمارے لیے سنت اور کارثواب ہوجائے اور اس باب میں آپ کا اسوہ اور نمونہ فراہم ہوجائے۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوۃ حسنۃ لمن کان یرجوا اللہ والیوم الاخر وذکر اللہ کثیرا ط۔ بیشک رسول اللہ میں تمہارے لیے عمدہ نمونہ ہے ‘ ہر اس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم قیامت کی امید رکھتا ہے اور اللہ کا بہت زیادہ ذکر کرتا ہے۔ (الاحزاب : ١٢)

حضرت سلیمان کے لیے جنات کو مسخر کرنا 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

الشیطین کل بنآء و غواص۔ (ص : ٧٣) اور قوی جناتکو بھی ان کے تابع فرمان کردیا جو ہر قسم کی عمارت بنانے والے اور غوطہ لگانے والے تھے۔

ومنالجن من یعمل بین یدیہ باذن ربہ ط ومن یزغ منھم عن امرنا نذقہ من عذاب السعیر۔ (سبا : ٢١) اور بعض جنات بھی ان کے رب کے حکم سے ان کے سامنے ان فرمان کے موافق کام کرتے تھے ‘ اور ان میں جو بھی ہمارے حکم سے سرتابی کرے گا ‘ ہم اس کو بھڑکتی ہوئی آگ کا مزہ چکھائیں گے۔

اللہ تعالیٰ نے جنات کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مسخر کردیا تھا وہ جو کام چاہتے تھے ان سے کر الیتے تھے ‘ وہ ان کی اطاعت سے انحراف نہیں کرتے تھے ‘ اگر وہ سرمو بھی ان کی حکم عدولی کرتے تو اللہ تعالیٰ ان کو سخت عذاب میں مبتلا کردیتا۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گزشتہ رات ایک بہت بڑا جن (نماز میں) مجھ پر حملہ آور ہوا تاکہ میری نماز توڑدے ‘ اللہ تعالیٰ نے مجھ کو اس پر قدرت دے دی ‘ میں نے اس کو پکڑ لیا ‘ اور میں نے یہ ارادہ کیا کہ میں اس کو مسجد کے ستونوں میں سے کسی ایک ستون کے ساتھ باندھ دوں ‘ پھر مجھے اپنے بھائی سلیمان کی یہ دعا یاد آئی :

رب اغفرلی وھب لی ملکا لا ینبغی لاحد من بعدی ج۔ (ص : ٥٣) اے رب ! میری مغفرت فرما اور مجھے ایسا ملک عطا فرما ‘ جو میرے علاوہ کسی اور کے لائق نہ ہو۔

تو میں نے اس (بہت بڑے جن) کو ناکام اور نامراد لوٹا دیا۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٢٤٣‘ ١٦٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٤٥‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٠٤٤١‘ مسند رقم الحدیث : ٤٧٩٧‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٩٨١‘ رقم الحدیث : ٢٢١٥‘ مطبوعہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت ابو الدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز پڑھ رہے تھے ‘ ہم نے نماز میں آپ کو تین بار یہ دعا کرتے ہوئے سنا :” میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں اور تجھ پر اللہ کی لعنت کرتاہوں “ اور آپ نے (نماز میں) اس طرحہاتھ بڑھایا جیسے کسی چیز کو پکڑ رہے ہوں ‘ جب آپ نماز سے فارغ ہوگئے تو ہم نے عرض کیا یارسول اللہ ! ہم نے آپ کو نماز میں ایک دعا کرتے ہوئے سنا ہم نے اس سے پہلے نماز میں آپ سے وہ دعا نہیں سنی ‘ اور ہم نے آپ کو نماز میں اپنا ہاتھ بڑھاتے ہوئے دیکھا ‘ آپ نے فرمایا اللہ کا دشمن ابلیس نماز میں میرے چہرے پر آگ کا ایک گولامارنے کے لیے آیا ‘ میں نے تین بار کہا میں تجھ سے اللہ کی پناہ میں آتا ہوں ‘ پھر میں نے کہا میں تجھ پر اللہ کی لعنت کرتا ہوں ‘ وہ تین بار پیچھے نہیں ہٹا ‘ پھر میں نے اس کو پکڑنے کا ارادہ کیا ‘ اللہ کی قسم ! اگر ہمارے بھائی سلیمان دعانہ کی ہوتی تو وہ صبح کو زنجیروں سے جکڑا ہوا ہوتا اور اہل مدینہ کے بچے اس سے کھیل رہے ہوتے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٤٥‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٤١٢١ )

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صبح کو نماز پڑھا رہے تھے اور میں آپ کے پیچھے نماز پڑھ رہا تھا ‘ آپ نے قرأت کی تو آپ پر قرأت مشتبہ ہوگئی ‘ جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ نے فرمایا کاش تم مجھے ابلیس کے ساتھ دیکھتے میں اپنے ہاتھ سے اس کا گلا گھونٹنے لگا اور اس وقت تک اس کا گلا گھونٹتا رہا حتیٰ کہ میں نے اس کے لعاب کی ٹھنڈک اپنی ان دو انگلیوں اور ان کے ساتھ انگوٹھے میں محسوس کی اور اگر میرے بھائی سلیمان کی دعا نہ ہوتی تو یہ صبح کو مسجد کے ستونوں میں سے کسی ایک ستون کے ساتھ بندھا ہوا ہوتا اور مدینہ کے بچے اس کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ‘ پس تم میں سے جو شخص اس کی استطاعت رکھتا ہو کہ اسکے اور قبلہ کے درمیان کوئی چیز حائل نہ ہو تو وہ ایسا کرے (یعنی صف اول میں نماز پڑھے) (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩٩٦‘ مسند احمد ج ٤ رقم الحدیث : ٠٨٧١‘ دارالفکر بیروت)

اس حدیث پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہے کہ قرآن مجید میں ہے :

بے شک شیطان اور اس کا لشکر تم کو اس طرح دیکھتا ہے کہ تم اس کو نہیں دیکھتے (الاعراف : ٧٢)

اس آیت میں یہ تصریح ہے کہ عام لوگ شیطان اور اس کی ذریات کو نہیں دیکھ سکتے ‘ پھر آپ نے یہ کیسے فرمایا کہ تم اس کو مسجد کے کسی ستون کے ساتھ بندھا ہوا دیکھتے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ غالب احوال اور عام اوقات میں ہم اس کو نہیں دیکھ سکتے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نیجس وقت اہل مدینہ کے دیکھنے کا فرمایا ہے وہ اس عموم سے مستثنی ہے اور وجہ استثناء نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے۔

اس حدیث پر دوسرا اعتراض یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نیتو یہ دعا کی تھی کہ اے رب ! مجھے ایسا ملک عطا فرما جو کسی اور کے لائق نہ ہو اور جب ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی اس بہت بڑے جن کو باندھنے اور اس کو بھگانے پر قدرت تھی تو آپ کی بھی جنات پر سلطنت ثابت ہوگئی اور یہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی خصوصیت نہ رہی !

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی جنات پر سلطنت یہ تھی کہ وہ ان سیہر قسم کی خدمت لینے اور کام پر لگانے پر قادر تھے اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صرف اتنی مقدار پر قادر تھے کہ اس کو باندھ دیتے یا اس کو بھگادیتے ‘ لہٰذا جن پر آپ کے اس تصرف سے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی عمومی سلطنت اور ان کے ساتھ اختصاص میں کوئی فرق نہیں آتا۔ (فتح الباری ج ٧ ص ٦٢١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

علامہ بدر الدین عینی نے لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو بھی جنات پر وہ قوت عطا کردی تھی جو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو عطا کی تھی اس کے باوجودآپ نے اس جن کو نہیں باندھا تاکہ جنات پر تصرف کرنے کی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی انفرادیت اور خصوصیت باقی رہے۔ ( عمدۃ القاری ج ٤ ص ٥٣٢‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المیز یہ مصر ‘ ٨٥٣١ ھ)

اس سے معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نیجودعا کی تھی کہ مجھے ایسی سلطنت عطا فرما جو میرے بعد اور کسی کو سزاوار نہ ہو یعنی وہ سلطنت صرف آپ میں منحصر ہو اس دعا میں حصر سے مراد حصر حقیقی نہیں تھا حصراضافی تھا یعنی ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ اور کسی نبی یا ولی یا کسی بھی شخص کو جنات پر ایسی ہمہ گیر سلطنت حاصل نہیں تھی اور یہ حصر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ اور کسی نبی یا ولی یا کسی بھی شخص کو جنات پر ایسی ہمہ گیر سلطنت حاصل نہیں تھی اور یہ حصر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے علاوہ اور کسی نبی یا ولی یا کسی بھی شخص کو جنات پر ایسی ہمہ گیر سلطنت حاصل نہیں تھی اور یہ حصر ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ماسوا کے اعتبار سے ہے ‘ اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ کے محبوب ہیں ‘ سید خلق ہیں اور قائد المرسلین ہیں ‘ اور تمام نبیوں اور رسولوں کے کمالات اور ان کے معجزات کے جامع ہیں۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کسی نبی کو کوئی سلطنت اور کمال حاصل ہو اور وہ آپ کو حاصل نہ ہو بلکہ حقیقت یہ ہے کہ نبوت یا کوئی نعمت ہو جس کو بھی جو چیز ملتی ہے وہ آپ ہی کے وسیلہ سے ملتی ہے۔ اللہ تعالیٰ مطلقاً عطا فرماتا ہے اور آپ مطلقاً تقسیم کرتے ہیں ابتداء آفرینش عالم سے جس فرد کو جو چیز ملتی ہے وہ آپ ہی کی تقسیم سے ملتی ہے۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے معمولات اور ان کے احوال و کوائف کے متعلق احادیث 

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حضرت سلیمان کی انگوٹھی میں نقش تھا : لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ۔ (جامع البیان جز ٣٢ ص ٩٧١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ٥١٤١ ھ ‘ تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ٥١١٥‘ ج ٤٢ ص ٢٨١‘ مطبوعہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت عبادہ بن الصامت (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت سلیمان بن دائود (علیہ السلام) کی انگوٹھی کا نگینہ آسمانی تھا انکی طرف وہ نگینہ گرایا گیا تو انہوں نے اس کو اٹھا کر اپنی انگوٹھی میں رکھ لیا اس پر یہ عبارت نقش تھی :

انا اللہ لا الہ الا انا محمد عبدی ورسولی۔ میں اللہ ہوں میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے ‘ محمد میرے بندے اور میرے رسول ہیں۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٢٨١‘ رقم الحدیث : ٦١١٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

سلامان بن عامر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا تم نے دیکھا کہ اللہ تعالیٰ نے سلیمان بن دائود کو کتنا بڑا ملک عطا کیا تھا پھر بھی وہ اللہ کے خوف کی وجہ سے آسمان کی طرف نظر نہیں اٹھاتے تھے حتی کہ ان کی روح قبض کرلی گئی۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٦٩١ رقم الحدیث : ٤٢١٥‘ مطبوعہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب اللہ تعالیٰ نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو جو ملک عطا کیا جو عطا کیا تو انہوں نے اللہ عزوجل کے خوف کی وجہ سے آسمان کی طرف نظر نہیں اٹھاءی ۔ تاریخ دمشق الکبیر 

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم نے دیکھا کہ اللہ نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو جو ملک عطا فرمایا  تو اس ملک اور سلطنت نے ان میں اللہ کے خوف کے سوا اور کسی چیز کو زیادہ نہیں کیا اور وہ اپنے رب عزوجل کے خوف کی وجہ سے آسمان کی طرف نظر نہیں اٹھاتے تھے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٧٩١‘ رقم الحدیث : ٦٢١٥‘ حلیۃ الاولیاء ج ٠١ ص ٨٢١ )

حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت سلیمان علیہ السلام کو مال ملک اور علم کے درمیان ( کسی ایک انتخاب کا ) اختیار دیا گیا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے علم کو اختیار کرلیا ۔ تاریخ دمشق الکبیر

حضرت جابررضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی والدہ نے حضرت سلیمان سے کہا اے بیٹے ! رات کو زیادہ نہ سو یا کرو کیونکہ جو رات کو زیادہ سوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملاقات کرتا ہے کہ وہ فقیر ہو۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٨٩١‘ رقم الحدیث : ٨٢١٥‘ المعجم و لصغیر ج ١ ص ١٢١ )

حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ پہلے شخص جن کے لیے حمام (نہان کے لیے گرم پانی) بنایا گیا وہ حضرت سلیمان بن دائود ہیں جب وہ حمام میں داخل ہوئے اور اس کی گرمی محسوس کی تو کہا اور وہ ! اللہ کے عذاب سے۔ (تاریخ دمشق الکبیر رقم الحدیث : ١٣١٥‘ ٠٣١٥‘ ٩٢١٥‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ٧٠٢‘ الضعفاء للعقیلی ج ١ ص ٨٦)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ انبیاء میں سے ایک نبی بارش کی دعا مانگنے کے لیے لوگوں کو لے کر گئے اچانک دیکھا کہ ان میں ایک چیونٹی بھی آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے ہوئے تھی تو اس نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا واپس آجائو کیونکہ اس چیونٹی کی وجہ سے تمہاری دعا قبول ہوگئی ہے۔ (تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٧٠٢‘ رقم الحدیث : ٤٣١٥‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات 

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :

فلما قضینا علیہ الموت مادلھم علی موتہ الا دآبۃ الارض تاکل منساتہ ج فلما خر تبینت الجن ان لوکانوا یعلمون الغیب مالبثوا فی العذاب المھین۔ (سبا : ٤١) پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیج دیا تو سوائے گھن کے کیڑے (دیمک) کے کسی نے ان کی موت پر رہنمائی نہیں کی جو انکے عصا کو کھا رہا تھا ‘ پس جب وہ (سلیمان) گرپڑے تو اس وقت جنات نے جان لیا کہ اگر وہ غیب کو جانتے ہوتے تو وہ اس ذلت والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ حضرت سلیمان جب بھی نماز پڑھتے تھے تو انکے سامنے ایک درخت اگ جاتا تھا ‘ وہ اس سے دریافات کرتے کہ تیرا نام کیا ہے تو وہ بتاتا کہ میرا فلاں فلاں نام ہے ‘ پھر وہ اس سے پوچھتے کہ تو کس لیے ہے ؟ تو وہ بتاتا کہ میں اس فائدہ کے لیے پیدا کیا گیا ہوں ‘ اگر وہ درخت کسی دوا کے لیے پیدا کیا گیا ہوتا تو وہ انہیں بتادیتا کہ میں اس مرض کی دوا کے لیے پیدا کیا گیا ہوں۔ ایک دن حضرت سلیمان نے نماز پڑھی اور ایک درخت ان کے سامنے اگ گیا ‘ حضرت سلیمان نے اس درخت سے پوچھا تمہارا کیا نام ہے ؟ اس نے کہا میرا نام الخرنوب ہے ‘ یا الخروب کہا ‘ پوچھا تم کس لیے ہو ؟ اس نے کہا میں اس گھر کو ویران کرنے کے لیے ہوں۔ پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے دعا کی : اے اللہ ! جنات کو میری موت سے اندھا کر دے ‘ حتی کہ انسانوں کو یہ گمان نہ ہو کہ جنات غیب کو جانتے ہیں۔ پھر حضرت سلیمان نے ایک عصار تر اشا اور اس پر ٹیک لگا کر پورا کی سال کھڑے رہے ‘ اور جنات کو یہ پتا نہ تھا کہ حضرت سلیمان پر موت آچکی ہے ‘ پھر دیمک نے اس عصا کو کھالیا اور وہ عصا ٹوٹ کر گرگیا ‘ اور حضرت سلیمان بھی گرگئے ‘ تب جنات کو معلوم ہوا کہ حضرت سلیمان فوت ہوچکے ہیں ‘ تو انہوں نی اس دیمک کا شکر ادا کیا اور انہوں نے اندازہ کیا کہہ دیمک ایک سال سے اس عصا کو کھا رہی تھی۔ (تایرخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٢١٢‘ رقم الحدیث : ٨٣١٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حسن بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) بیت المقدس کو بنانے سے فارغ ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی روح کو قبض کرنے کا ارادہ کیا۔ حضرت سلیمان مسجد میں داخل ہوئے اس وقت ان کی آنکھوں کے سامنے قبلہ کی جانب ایک سرسبز درخت تھا ‘ جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو درخت کہنے لگا : کیا آپ مجھ سے یہ نہیں معلومکریں گے کہ میں کون ہوں ‘ حضرت سلیمان نے فرمایا ‘ تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں فلاں فلاں درخت ہوں اور فلاں فلاں بیماری کی مجھ میں دوا ہے۔ حضرت سلیمان نے فرمایا ‘ تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں فلاں فلاں درخت ہوں اور فلاں فلاں بیماری کی مجھ میں دوا ہے۔ حضرت سلیمان نیخ اس درخت کو کاٹنے کا حکم دیا۔ اگلے دن پھر اسی کی مثل درخت اگا ہوا تھا۔ حضرت سلیمان نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ اس نے بتایا کہ میں فلاں فلاں درخت ہوں اور فلاں فلاں بیماری کی مجھ میں دوا ہے۔ حضرت سلیمان نے اس درخت کو بھی کاٹنے کا حکم دیا ‘ پھر ہر روز جب وہ مسجد میں داخل ہوتے تو ان کے سامنے ایک درخت اگا ہوا ہوتا ‘ وہ اس کا نام اور اس کا فائدہ معلوم کرتے اور اس کو کٹوا دیتے اور ایک کتاب میں ان درختوں کے نام اور ان کے فوائد لکھ لیتے۔ جب وہ طب کی ایک کتاب مرتب کرچکے تو ایک دن وہ مسجد میں آئے اور نماز کے بعد پھر اپنے سامنے ایک درخت دیکھا ‘ اس سے پوچھا کہ تم کون ہو ؟ اس نے کہا میں الخرنوب ہوں ‘ حضرت سلیمان نے پوچھا الخرنوب کس لیے ہوتا ہے ؟ اس نے کہا الخرنوب جس گھر میں پیدا ہوتا ہی وہ گھر بہت جلد ویران ہوجاتا ہے۔ حضرت سلیمان نے پوچھا الخرنوب کس لیے ہوتا ہے ؟ اس نے کہا الخرنوب جس گھر میں پیدا ہوتا ہے وہ گھر بہت جلد ویران ہوجاتا ہے۔ حضرت سلیمان نے کہا اب مجھے علم ہوگیا کہ اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کو کھنڈر بنانے کا اور اس سلطنت کو ختم کرنے کا حکم دے دیا ہے۔ پھر حضرت سلیمان نے اس درخت سے ایک عصا بنا لیا اور اس پر ٹیک لگانے لگے اور سی عصا کو دیمک نے کھالیا تھا۔

حضرت سلیمان ہر سال چالیس روز خصوصی عبادت کرتے تھے اور کئی کئی روز تک اپنے حجرے سے لوگوں سے ملنے کے لیے باہر نہیں آتے تھے ‘ اور ان ایام کو پورا کرتے تھے جن ایام میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ سے کلام کیا تھا اور جن ایام میں حضرت دائود (علیہ السلام) کی تو بہ قبول کی تھی۔ وہ موٹے کپڑے پہنتے تھے ‘ اور روزے رکھتے تھے اور اپنی محراب میں قیام کرتے تھے اور دو آدمیوں کے درمیان صف میں کھڑے ہوتے تھے ‘ اور بعض اوقات اپنے عصا پر ٹیک لگاتے تھے اور وصال کے روزے رکھتے تھے اور جب وہ فتنہ میں مبتلا ہوگئے اور اللہ تعالیٰ نے ان کی مغفرت فرمادی اور ان کا ملک ان کو لوٹا دیا تو انہوں نے عبادت میں زیادہ کوشش کی پھر ہور سال اسی (٠٨) دن خصوصی عبادت کرتے تھے ‘ پھر جب اللہ تعالیٰ نے ان کی روح قبض کرنے کا ارادہ کیا تو وہ محراب میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے لگے اور اپنے عصا پر ٹیک لگالی ‘ اللہ تعالیٰ نے ملک الموت کو بھیجا اور اس نے ان کی روح اسی حالت میں قبض کرلی اور وہ اسی طرح ایک سال تک ٹیک لگائے رہے ‘ لوگ اسی (٠٨) دن تک ان کا انتظار کرتے رہے اور آپ حجرے سے باہر نہیں آئے۔ لوگوں نے کہا وہ عبادت کرنے میں بہت کوشش کررہے ہیں۔ پہلے وہ چالیس روز تک عبادت کرتے تھے ‘ پھر انہوں نے اس کی میعاد زیادہ کی اور اسی (٠٨) روز تک عبادت کرنے لگے ‘ اور لگتا ہے کہ اب وہ اسی (٠٨) دن سے بھی زیادہ عبادت کررہے ہیں اور ان کی موت کا کسی کو علم نہیں ہوا ‘ جنات کو نہ انسانوں کو اور جنات اور شیاطین مختلف قسموں کے کاموں میں مصروف تھے اور ان میں سے کسی کو حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی وفات کا علم نہیں ہوا ‘ حتیٰ کہ جس عصا پر وہ ٹیک لگائے ہوئے تھے اس عصا پر اللہ تعالیٰ نے دیمک کو مسلط کردیا ‘ دیمک اس عصا کو کھا گئی وہ ٹوٹ کر گرپڑا اور اس کے ساتھ حضرت سلیمان بھی گرپڑے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

فلما قضینا علیہ الموت مادلھم علی موتہ الا دآباۃ الارض تاکل منساتہ ج فلما خر تبیینت الجن ان لو کانوا یعلمون الغیب ما لبثوا فی العذاب المھین۔ (سبا : ٤١) پھر جب ہم نے سلیمان پر موت کا حکم بھیج دیا تو سوائے گھن کے کیڑے (دیمک) کے کسی نے ان کی موت پر رہنمائی نہیں کی جو ان کے عصا کو کھا رہا تھا ‘ پس جب (وہ) سلیمان گرپڑے تو اس وقت جنات نے جان لیا کہ اگر وہ غیب جاننے والے ہوتے تو اس ذلت والے عذاب میں مبتلا نہ رہتے۔

الزہری وغیرہ نے بیان کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) باون سال زندہ رہے اور ان کی حکومت چالیس سال رہی اور حضرت ابن عباس (رض) سے روایت ہے کہ ان کی حکومت بیس سال رہی واللہ اعلم بالصواب !

(تاریخ دمشق الکبیر ج ٤٢ ص ٤١٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ ‘ البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٣٨٤۔ ١٨٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٨١٤١ ھ)

امام ابن اثیر نے بھی حضرت سلیمان کی وفات کا واقعہ اسی طرح لکھا ہے اور انہوں نے حضرت سلیمان کی عمر ترپپن (٣٥) سال لکھی ہے۔ (الکامل فی التاریخ ج ١ ص ٧٣١۔ ٦٣١‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ٠٠٤١ ھ)

امام بغوی نے لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی حکومت سات سو سال چھ ماہ رہی۔ (معالم اتنزیل ج ٣ ص ٤٩٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور بیشک ہم نے دائود اور سلیمان کو عظیم علم عطا کیا تھا ‘ اور ان دونوں نے کہا تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں ‘ جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے۔ (النمل : ٥١ )

حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کے عظیم علم کے مصداق کے متعلق مفسرین کے اقوال 

حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو اللہ تعالیٰ نے جو عظیم علم عطا فرمایا اس کے مصداق میں علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوروی المتوفی ٠٥٤ ھ نے حسب ذیل اقوال ذکر کیے ہیں :

(١) قتادہ نے کہا اس سے مراد فہم ہے (٢) اس سے مراد صنعت کیمیا ہے اور یہ قول شاذ ہے (٣) اس سے مراد مقدمات کے فیصلے کرنے کا علم ہے (٤) اس سے مراد اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات کی معرفت ‘ عقائد صحیحہ اور احکام شرعیہ کا علم ہے (٥) اس سے مراد پرندوں کی بولیاں ہیں (٦) اس سے مراد بسم اللہ الرحمن الرحیم ہے۔ (النکت و العیون ج ٤ ص ٨٩١‘ مطبوعہ مؤسستہ الکتب الثقافیہ ‘ بیروت)

یوں تو علم کی یہ تمام اقسام اللہ تعالیٰ کی نعمت ہیں لیکن سب سے عظیم نعمت جس پر شکر کرنا حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کی شان اور انکے حال کے موافق ہے وہ اللہ تعالیٰ کی دات وصفات ‘ اس کے متعلق ضروری عقائد اور احکام شرعیہ کا علم ہے۔

بعض علماء نے بیان کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سات افراد کو سات قسم کا علم عطا فرمایا۔ (١) حضرت آدم (علیہ السلام) کو اشیاء کے اسماء کو علم عطا فرمایا جس کی وجہ سے وہ فرشتوں کی تعظیم اور ان کے سجدہ کے مستحق قرار پائے (٢) حضرت خضر (علیہ السلام) کو تکوینی امور اور غیب کا علم عطا فرمایا جس کی بنا پر ان کو حضرت موسیٰ اور حضرت یوشع ایسے تلمیذ میسر ہوئے (٣) حضرت یوسف (علیہ السلام) کو خوابوں کی تعبیر کا علم عطا فرمایا جس کی وجہ سے ان کے اپنے والدین سے ملاقات ہوئی ‘ ان کے بھائیوں نے ان کو سجدہ کیا اور ان کو مصر کی باد شاہی حاصل ہوئی (٤) حضرت دائود (علیہ السلام) کو لو ہے سے زرہ بننے کا علم عطا فرمایا جس کی وجہ سے ان کو ریاست اور درجات عظیمہ حاصل ہوئے (٥) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو پرندوں کی بولیوں کا علم عطا فرمایا اور یہ ملک سبا کی ملکہ بلقیس اور اس کو مومن بنانے اور اس کو اپنا مطیع کرنے کا وسیلہ بنا (٦) حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حکمت اور تورات اور انجیل کا علم عطا فرمایا جس کی وجہ سے انہوں نے اپنی والدہ سے بدکاری کی تہمت کو دور کیا اور بہت سے بنی اسرائیل ان کی تبوت پر ایمان لائے (٧) ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ماکان ومایکون اور کتاب و حکمت کا علم عطا فرمایا اور سب سے زیادہ اپنی ذات وصفات کی معرفت عطا فرمائی ‘ جس کی وجہ سے آپ پر ایمان لانے والے سب سے زیادہ ہیں اور آپ کی شریعت تمام شرائع سابقہ کی ناسخ ہے۔

علم کی فضیلت 

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یا رسول اللہ ! کون سا عمل سب سے افضل ہے ؟ آپ نے فرمایا اللہ کا علم ‘ اس نے پھر دوبارہ آکر وہی سوال کیا ‘ آپ نے اس کو وہی جواب دیا ‘ اس نے کہا یا رسول اللہ ! میں نے تو آپ سے صرف عمل کے متعلق سوال کیا ہے ‘ آپ نے فرمایا عمل کم ہو یا زیادہ اس کے ساتھ تمہیں علم نفع دے گا اور جہل تم کو نفع نہیں دے گا خواہ اس کے ساتھ عمل کم ہو یا زیادہ۔(نو ادرالاصولج ٤ ص ١٠١‘ مطبوعہ دارالجیل بیروت ‘ ٢١٤١ ھ ‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٠٤٢١‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٩٥٦٣‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ١٣٨٢‘ اس حدیث کی سند ضعیف ہے لیکن فضائل اعمال میں اس سے استدلال صحیح ہے)

علامہ عبد الرئوف المناوی المتوفی ٣٠٠١ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

انسان پر اللہ تعالیٰ کی معرفت واجب ہے ‘ اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا علم افضل الاعمال ہے اور اشرف العلوم ہے ‘ کیونکہ جب تک صانع (اس دنیا کو بنانے والا) عالم اور قادر کا علم نہ ہو جو رسولوں کو بھیجنے والا ہے اور کتابوں کو نازل کرنیوالا ہے اس وقت تک علم فقہ کا تصور ہوگا نہ علم حدیث کا نہ علم تفسیر کا ‘ پس تمام علوم اس علم اصول پر موقوف ہیں اور یہ علم تمام علوم کا ریئس ہے ‘ پس اللہ تعالیٰ کی معرفت اور اس کا علم ‘ مکلف کے اوپر سب سے پہلا واجب ہے اور مقصود لذاتہ ہے لیکن اس معرفت سے اللہ تعالیٰ کی حقیقت کا علم مراد نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی حقیقت کسی بشر کو معلوم نہیں ہے ‘ اور نہ اس سے یہ مراد ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کو دیکھ لے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ صرف آخرت میں دکھائی دے گا ‘ اور دنیا میں بیداری میں اس کا دیدار ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی کو حاصل نہیں ہوا اور خواب میں چند اکابر اولیاء اور علماء کو اس کا دیدار حاصل ہوا ہے ‘ بلکہ ہم صرف اس کے مکلف ہیں کہ ہمیں دلائل سے اللہ تعالیٰ کے وجود کا علم ہے اور ہم کو یہ معلوم ہو کہ اللہ تعالیٰ کے لیے کیا چیزیں واجب ہیں اور کیا چیزیں اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہے اور کذب اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے ‘ صفات کمال اور حسن اللہ تعالیٰ کے لیے واجب ہے اور عیب اور نقص اللہ تعالیٰ کے لیے محال ہے۔

سائل نے آپ سے عمل کے متعلق سوال کیا تھا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے ؟ آپ نے جواب میں علم کا ذکر فرمایا آپ نے فرمایا سب سے افضل عمل اللہ کا علم ہے ‘ اس نے کہا میں نے تو عمل کے متعلق سوال کیا تھا۔ آپنے فرمایا : بیشک علم تمہیں نفع دے گا خواہ اس کے ساتھ عمل کم ہو یا زیادہ کیونکہ عبادت علم پر موقوف ہے ‘ پس اہم مطلوب اور اعظم مقصود اللہ تعالیٰ کا علم ہے۔ بعض علماء نے کہا عقلمند شخص کو چاہیے کہ اس علم کو حاصل کرے جو اس کے ساتھ برزخ میں بھی رہے نہ کہ وہ علم جو موت کے بعد اس سے الگ اور زائل ہوجائے ‘ اور اس علم کو حاصل کرے جو اس کے ساتھ آخرت میں منتقل ہو اور آخرت میں صرف وہ علم اس کے ساتھ منتقل ہوگا جو اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات اور اس کے بتائے ہوئے احکام شرعیہ کا علم ہوگا ‘ نیز آپ نے فرمایا کہ جہل تمہیں نفع نہیں دے گا خواہ اس کے ساتھ عمل کم ہو یا زیادہ ‘ جب کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی ذات وصفات سے جاہل ہو اور اس کو احکام شرعیہ کا علم نہ ہو تو اس کا کوئی عقیدہ صحیح ہوگا نہ عمل۔ (فیض القدیر ج ٣ ص ١٧١١۔ ٠٧١١‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ٨١٤١ ھ)

جہل کی مذمت 

علامہ اسماعیل حقی متوفی ٧٣١١ ھ لکھتے ہیں :

جو شخص بغیر علم کے عبادت کرتا ہے وہ چکی کے گدھے کی طرح ہے وہ اس کے گرد گھومتا رہتا ہے اور مسافت کو قطع نہیں کرتا۔ (روح البیان ج ٦ ص ٠٢٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان فاضل بریلوی قدس سرہ العزیز متوفی ٠٤٣١ ھ لکھتے ہیں :

اعلیٰ حضرت سے سوال کیا گیا کہ بعض لوگ تفسیر حدیث پڑھے بغیر بےخواندہ ‘ بےاجازت اساتذہ بر سر بازار و مسجد وغیرہ بہ طور وعظ و نصائح کے بیان کرتے ہیں ‘ حلان کہ مطلب و معنی میں کچھ مس نہیں فقط اردو کی کتابیں دیکھ کے کہتے ہیں ‘ یہ کہنا اور بیان کرنا ان لوگوں کے لیے شرعاً جائز ہے یا نہیں۔ بینوا توجروا۔

اعلیٰ حضرت اس کے جواب میں لکھتے ہیں :

حرام ہے اور ایسا وعظ سننا بھی حرام۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : جس نے بغیر علم کے قرآن مجید کے متعلق کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے۔ یہ حدیث امام ترمذی نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کی ہے۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١ / ٠١ ص ٨٨١‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ ٢١٤١ ھ)

نیز اعلیٰ حضرت امام احمد رضا قدس سرہ العزیز لکھتے ہیں :

زید جاہل کا اپنے آپ کو مولوی صاحب کہنا دونا گناہ ہے کہ اس کے ساتھ جھوٹ اور جھوٹی تعریف کا پسند کرنا بھی شامل ہواقال اللہ عزوجل لا تحسبن الذین یفرحون بما اتوا ویحبون ان یحمدوا بما لم یفعلوا فلا تحسبنھم بمفا زۃ من العذاب ولھم عذاب الیم۔ ہرگز نہ جانیو تو انہیں جو اتراتے ہیں اپنے کام پر اور دوست رکھتے ہیں اسے کہ تعریف کیے جائیں اس بات سے جو انہوں نے نہ کی تو ہرگز نہ جانیوا نہیں عذاب سے پناہ کی جگہ میں اور انکے لیے دکھ کی مار ہے۔ معالم شریف میں عکرمہ تابعی شاگرد عبد اللہ بن عباس (رض) سے اس آیت کی تفسیر میں منقول : یفرحون با ضلالھم الناس و بنسبۃ الناس ایا ھم الی العلم و لیسوا باھل العلم خوش ہوتے ہیں لوگوں کو بہکانے پر اور اس پر کہ لوگ انہیں مولوی کہیں حالانکہ مولوی نہیں۔ جاہل کی وعظ گوئی بھی گناہ ہے۔ وعظ میں قرآن مجید کی تفسیر ہوگی۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حدیث یا شریعت کا مسئلہ اور جاہل کو ان میں کسی چیز کا بیان جائز نہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں من قال فی القرآن بغیر علم فلیتبوا مقعدہ من النار جو بےعلم قرآن کی تفسیر بیان کرے وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنالے رواہ الترمذی و صححہ عن ابن عباس (رض) ‘ احادیث میں اسے صحیح و غلط ثابت و موضوع کی تمیز نہ ہوگی ‘ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں من یقل علی مالم اقل فلیتبوا مقعدہ من النار جو مجھ پر وہ بات کہے جو میں نے نہ فرمائی اور اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔ رواہ البخاری فی صحیحہ عن سلمۃ بن الا کو ع (رض) ۔ اور فرماتے ہیں (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) افتوا بغیر علم فضلوا واضلوا بےعلم مسئلہ بیان کیا سو آپ بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا رواہ الائمۃ احمد والشیخان والترمذی وابن ماجہ عن عبداللہ بن عمرو (رض) ۔ اور فرماتے ہیں صلی اللہ تعالیٰ علیہوسلم افتوا بغیر علم فضوا واضلوا بےعلم مسئلہ بیان کیا سو آپ بھی گمراہ ہوئے اور لوگوں کو بھی گمراہ کیا رواہ الائمۃ احدمد والشیخان والتمرمذی وابن ماجہ عن عبد اللہ بن عمرو (رض) ‘ دوسری حدیث میں آیا حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السما والارض جو بےعلم فتویٰ دے اسے آسمان و زمین کے فرشتے لعنت کریں رواہ ابن عساکر عن امیر المومنین علی کرم اللہ وجھہ یونہی جاہل کا پیر بننا لوگوں کو مرید کرنا چادر سیزیادہ پائوں پھیلانا ‘ چھوٹا منہ بڑی بات ہے ‘ پیر ہادی ہوتا ہے اور جاہل کی نسبت ابھی حدیثوں سے گزرا کہ ہدایت نہیں کرسکتا نہ قرآن سے نہ حدیث سے نہ فقہ سے ‘ کہ بےعلم نتواں خداراشناخت۔ زید کا مشرکین کی مدح و ستائش علی الا علان خصوصاً منبر ذکر شریف پر بیان کرنا خصوصاً انہیں مسلمانوں پر ترجیح دینا سخت ناپسند رب العزۃ جل و علا ہے حدیث میں ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں اذا مدح الفاسق غضب الرب واھتز لذلک العرش جب فاسق کی تعریف کی جاتی ہے رب جل و علا غضب فرماتا اور عرش الہٰی ہل جاتا ہے۔ رواہ ابن ابی الدنیا فی ذم الغیبۃ و ابو یعلی والبیھقی فی السنن و انس بن مالک وابن عدی عن ابی ہریرہ (رض) اس بیان سے تمام مراتب مسئولہ سائلین کا جواب ہوگیا زید پر لازم کہ توبہ کرے اللہ عزوجل توفیق دینے والا ہے واللہ تعالیٰ اعلم۔ (فتاویٰ رضویہ ج ١/٠١ ص ٦٩‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ ٢١٤١ ھ)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی اس موضوع پر مزید تحریر فرماتے ہیں :

جاہل عالم کی فضیلت کسی طرح نہیں پہنچ سکتا جبکہ وہ عالم عالم دین ہو قال اللہ تعالیٰ قل ھل یستوی الذین یعلمون والذین لایعلمون تم فرمائو کیا برابر ہوجائیں گے علم والے اور بےعلم۔ جاہل بوجہ جہل اپنی عبادت میں سو گناہ کرلیتا ہے۔ اور مصیبت یہ کہ انہیں گناہ بھی نہیں جانتا اور عالم دین اپنے گناہ میں بھی وہ حصہ خوف و ندامت کا رکھتا ہے کہ اسے جلد نجات بخشتا ہے و لہٰذا حدیث میں ارشاد ہوا کہ عالم کا ہاتھ رب العزت کے دست قدرت میں ہے اگر وہ لغزش بھی کرے تو اللہ تعالیٰ جب چاہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم ( فتاویٰ رضویہ ج ٢/٠١‘ ص ٢٧‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ ٢١٤١ ھ)

نیز اعلیٰ حضرت عظیم البرکت فرماتے ہیں :

(پھر فرمایا) صوفیائے کرام فرماتے ہیں صوفی بےعلم مسخرہ شیطان است وہ جانتا ہی نہیں شیطان اپنی باگ ڈور پر لگا لیتا ہے۔ حدیث میں ارشاد ہوا المتعبد بغیر فقہ کا لھمارفی الطاحون بغیر فقہ کے عابد بننے والا (عابد نہ فرمایا بلکہ عابد بننے والا فرمایا یعنی بغیر فقہ کے عبادت ہو ہی نہیں سکتی) عابد بنتا ہے وہ ایسا ہے جیسے چکی میں گدھا کہ محنت شاقہ کرے اور حاصل کچھ نہیں۔ ایک صاحب اولیائے کرام میں سے تھے قدسنا اللہ تالیٰ باسرارھم انہوں نے ایک صاحب ریاضت و مجاہدہ کا شہرہ سنا ان کے بڑے بڑے و عاوی سننے میں آئے ان کو بالایا اور فرمایا یہ کیا دعوے ہیں جو میں نے سنے ‘ عرض کی مجھے دیدار الہٰی روز ہوتا ہے۔ ان آنکھوں سے سمندر پر خدا کا عرش بچھتا ہے اور اس پر خدا جلوہ فرما ہوتا ہے اب اگر انکو علم ہوتا تو پہلے ہی سمجھ لیتے کہ دیدار الہٰی دنیا میں بحالت بیداری ان آنکھوں سے محال ہے سوائے سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اور حضور کو بھی فسوق السموت والعرش دیدار ہوا۔ دنیا نام ہے سماوات وارض کا۔ خیر ان بزرگ نے ایک عالم صاحب کو بلایا اور ان سے فرمایا کہ وہ حدیث پڑھوجس میں حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے کہ شیطان اپنا تخت سمندر پر بچھاتا ہے۔ انہوں نے عرض کی بیشک سید عالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے ان ابلیس یضع عرشہ علی البحر شیطان اپنا تخت سمندر پر بچھاتا ہے۔ انہوں نے جب یہ سنا تو سمجھے کہ اب تک میں شیطانکو خدا سمجھتا رہا اسی کی عبادت کرتا رہا ‘ اسی کو سجدے کرتا رہا ‘ کپڑے پھاڑے اور جنگل کو چلے گئے پھر انکا پتا نہ چلا۔ سیدی ابوالحسن جو سقی (رض) ‘ خلیفہ ہیں حضرت سیدی ابوالحسن علی بن ہیتی (رض) کے اور آپ خلیفہ ہیں حضور سید نا غوث اعظم (رض) کے آپ نے اپنی ایک مرید کو رمضان شریف میں چلے بٹھایا۔ ایک دن انہوں نے رونا شروع کیا آپ تشریف لائے اور فرمایا کیوں روتے ہو ؟ عرض کیا حضرت شب قدر میری نظروں میں ہے ‘ شجروحجر اور دیوار ودرسجدہ میں ہیں نور پھیلا ہوا ہے۔ میں سجدہ کرنا چاہتا ہوں ایک لوہے کی سلاخ حلق سے سینے تک ہے جس سے میں سجدہ نہیں کرسکتا اس وجہ سے روتا ہوں۔ فرمایا ایفرزندہ وہ سلاخ نہیں وہ تیر ہے جو میں نے تیرے سینے میں رکھا ہے اور یہ سب شیطانکا کرشمہ ہے شب قدروغیرہ کچھ نہیں۔ عرض کی حضور میری تشفی کے لیے کوئی دلیل ارشاد ہو۔ فرمایا اچھا دونوں ہاتھ پھیلا کر تدریجاً سمیٹو۔ سمیٹنا شروع کیا ‘ جتنا سمیٹتے تھے اتنی ہی روشنی مبدل بہ ظلمت ہوتی جاتی تھی۔ یہاں تک کہ دونوں ہاتھ مل گئے بالکل اندھیرا ہوگیا۔ آپ کے ہاتھوں میں سیشوروغل ہونے لگا حضرت مجھے چھوڑئیے میں جاتا ہوں۔ تب انمرید کی تشفی ہوئی (پھر فرمایا) بغیر علم کے صوفی کو شیطانکچے تاگے کی لگا ڈالتا ہے۔ ایک حدیث میں ہے بعد نماز عصر شیاطین سمندر پر جمع ہوتے ہیں ابلیس کا تخت بچھتا ہے ‘ شیاطین کی کار گزراری پیش ہوتی ہے ‘ کوئی کہتا ہے اس نے اتنی شرابیں پلائیں ‘ کوئی کہتا ہے اس نے اتنے زنا کرائے سب کی سنیں۔ کسی نے اس نے آج فلاں طالب کو پڑھنے سے بازرکھا۔ سنتے ہی تخت پر سے اچھل پڑا اور اس کو گلے سے لگا لیا اور کہا انت انت تو نے کام کیا ‘ اور شیاطین یہ کیفیت دیکھ کر جل گئے کہ انہوں نے اتنے بڑے بڑے کام کیے ان کو کچھ نہ کہا اور اس کو اتنی شاباش دی۔ ابلیس بولا تمہیں نہیں معلوم جو کچھ تم نے کیا سب اسی کا صدقہ ہے۔ اگر علم ہوتا تو وہ گناہ نہ کرتے۔ بتائو وہ کونسی جگہ ہے جہاں سب بڑاعابد رہتا ہے مگر وہ عالم نہیں اور وہاں ایک عالم بھی رہتا ہو۔ انہوں نے ایک مقام کا نام لیا۔ صبح کو قبل طلوع آفتاب شیاطین کو لیے ہوئے اس مقام پر پہنچا اور شیاطین مخفی رہے اور یہ انسان کی شکل بن کر رستہ پر کھڑا ہوگیا۔ عابد صاحب تہجد کی نماز کے بعد فجر کے واسطے مسجد کی طرف تشریف لائے۔ راستہ میں ابلیس کھڑا ہی تھا ‘ السلام علیکم ‘ وعلیکم السلام حضرت مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے عابد صاحب نے فرمایا جلد پوچھو مجھے نماز کو جانا ہے۔ اس نے اپنی جیب سے ایک شیشی نکال کر پوچھا اللہ تعالیٰ قادر ہے کہ ان سماوات وارض کو اس چھوٹی سی شیشی میں داخل کردے۔ عابد صاحب نے سوچا اور کہا کہاں آسمان و زمین اور کہاں یہ چھوٹی سی شیشی۔ بولا بس یہی پوچھنا تھا تشریف لے جائیے اور شیاطین سے کہا دیکھو اس کی راہ ماردی ‘ اس کو اللہ کی قدرت پر ہی ایمان نہیں عبادت کس کام کی۔ طلوع آفتاب کے قریب عالم صاحب جلدی کرتے ہوئے تشریف لائے اس نے کہا السلام علیکم ‘ وعلیکم السلام مجھے ایک مسئلہ پوچھنا ہے۔ انہوں نے فرمایا جلدی پوچھو نماز کا وقت کم ہے۔ اس نے وہی سوال کیا۔ فرمایا ملعون تو ابلیس معلوم ہوتا ہے ارے وہ قادر ہے کہ یہ شیشی تو بہت بڑی ہے ایک سوئی کے ناکے کے اندر اگر چاہے تو کروڑوں آسمان و زمین داخل کردے۔ ان اللہ علی کل شیء قدیر۔ عالم صاحب کے تشریف لے جانے کے بعد شیاطین سے بولا ‘ دیکھو یہ علم ہی کی برکت ہے۔ (ملفوظات حصہ سوم ص ١٧٢۔ ٩٦٢‘ مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی لاہور) 

اپنے آپ کو عالم کہنے یا جنتی کہنے کی تحقیق 

یحییٰ بن ابی کثیر نے کہا جس شخص نے کہا کہ میں عالم ہوں وہ جاہل ہے اور جس شخص نے کہا میں جاہل ہوں وہ بھی جاہل ہے اور جس شخص نے کہا میں جنت میں ہوں ‘ وہ دوزخ میں ہے اور جس نے کہا میں دوزخ میں ہوں وہ بھی دوزخ میں ہے۔ (المعجم الصغیر ج ١ ص ٠٢١‘ رقم الحدیث : ٦٧١‘ احیاء العلوم ج ١ ص ٠٢١‘ حافظ الہیشمی متوفی ٧٠٨ ء نے کہا اس حدیث کی سند میں ایک راوی محمد بن ابی عطاء الثقفی ہے اس کو امام احمد نے ضعیف قراردیا ‘ اور کہا کہ یہ منکر الحدیث ہے ‘ اور امام ابن حباننی اس ثقات میں ذکر کیا ہے اس کے باوجود یہ یحییٰ بن ابی کثیر کا قول ہے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد یا کسی صحابی کا اثر نہیں ہے بلکہ تابعی کا قول ہے اور یہ حدیث مقطوع ہے۔ مجمع الزوائد ج ١ ص ٦٨١)

ہر چند کہ یہ قول ضعیف ہے ‘ علامہ سیوطینی اس کو باطل اور موضوع قرار دیا ہے تاہم اپنے آپ کو یا کسی اور کو بغیر کسی قطعی دلیل کے جنتی یا دوزخی کہنا جائز نہیں ہے ‘ جنت اور دوزخ میں ہونے کا علم بغیر وحی کے نہیں ہوسکتا اور سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد وحی منقطع ہوچکی ہے لہٰذا کوئی شخص اپنے یا کسی اور کے متعلق اپنی عقل سے قطعی طور پر شرعاً یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ جنتی ہے یا دوزخی ہے ‘ حدیث صحیح میں ہے :

حضرت ام العلاء انصاریہ (رض) بین کرتی ہیں کہ جب انصار نے مہاجرین کو اپنے گھروں میں رکھنے کے لیے قرعہ اندازی کی تو حضرت عثمان بن مظعون کو رکھنے کے لیے ہمارے نام قرعہ نکلا ‘ پس حضرت عثمان بنمظعون ہمارے گھر میں رہے ‘ وہ بیمار ہوگئے تو ہم نے ان کا علاج کیا حتیٰ کہ جب وہ فوت ہوگئے تو ہم نے ان کو انکے کپڑوں میں لپیٹ دیا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے گھر تشریف لائے تو میں نے کہا اے ابو السائب ! تم پر اللہ کی رحمت ہو ‘ میری تمہارے متعلق شہادت ہے کہ تم کو اللہ نے عزت دی ہے تو مجھ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم کو کس نے بتایا کہ ان کو اللہ نے عزت دی ہے ! میں نے کہا آپ پر میرے ماں باپ فدا ہوں ‘ یا رسول اللہ ! میں اپنی عقل سے نہیں جانتی۔ تب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : رہے عثمان تو اللہ کی قسم انکے پاس یقین آچکا ہے ‘ اور میں انکے لیے نیک توقع رکھتا ہوں اور اللہ کی قسم ! میں ازخود ‘ اپنی عقل سے نہیں جانتا حالانکہ میں اللہ کا رسول ہوں کہ میرے ساتھ کیا کیا جائے گا (یعنی میں بغیر وحی کے نہیں جانتا اور وحی کے ذریعہ مجھے اپنے جنتی ہونے اور دوسرے مسلمانوں کے جنتی ہونے کا علم الیقین ہے۔ ) حضرت ام العلاء کہتی ہیں پس اللہ کی قسم میں نے اس کے بعد کبھی کسی کی ایسی تعریف اور ستائش نہیں کی ( کہ فلاں شخص جنتی ہے) اور مجھے اپنے اس قول نے غمزدہ کیا۔ حضرت ام العلاء کہتی ہیں کہ پھر میں سو گئی اور میں نے خواب میں دیکھا کہ حضرت عثمان کے لیے ایک چشمہ جاری ہے ‘ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں جا کر یہ خواب سنایا تو آپ نے فرمایا یہ چشمہ ان کا عمل ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٨٦٢‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٠٠٨٢)

اس سے پہلے ہم نے علم کے متعلق یحییٰ بن ابی کثیرکا قول نقل کیا تھا لیکن اس کے متعلق رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ ارشاد مروی ہے : حضرت ابنعمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس نے کہا میں عالم ہوں وہ جاہل ہے۔ (المعجم الاوسط ج ٧ ص ٣٣٤ رقم الحدیث : ٢٤٨٦‘ مطبوعہ مکتبۃ المعارف ریاض ٥١٤١ ھ)

امام ابن الجوزی اس حدیث کو موضوعات میں درج کیا ہے ‘ قرآن مجید میں ہے حضرت یوسف (علیہ السلام) نے کہا انی حفیظ علیم (یوسف : ٥٥) میں بہت حفاظت کرنے والا اور بہت جاننے والا ہوں۔ اسی طرح حضرت علی ‘ حضرت ابن مسعود ‘ حضرت معاویہ اور حضرت ابنعباس سے منقول ہے کہ انہوں نے کا میں عالم ہوں۔ حافظ سیوطی نے متعدد شواہد اور دلائل سے اس حدیث کے متن اور سند کو باطل قراردیا ہے۔ (الحاوی للنتاویٰ ج ٢ ص ٩۔ ٧‘ مطبوعہ لائل پور)

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے حدیث ہونے کی تحقیق 

علامہ اسماعیل حقی متوفی ٧٣١١ ھ نے اس آیت کی تفسیر میں لکھا ہے کہ حضرت علی نے فرمایا :

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ۔ جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔ صروح البیان ج ٦ ص ٩١٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

عرف عام میں یہ قول بہ طور حدیث کے مشہور ہے اس لیے ہم یہاں یہ تحقیق کرنا چاہتے ہیں کہ آیا یہ حدیث ہے یا نہیں !

علامہ شمس الدین محمد بن عبدالرحمن السخاوی المتوفی ٢٠٩ ھ اس قول کے متلعق لکھتے ہیں :

یہ قول رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد نہیں ہے۔ یہ یحییٰ بن معاذ الرازی کا قول ہے ‘ علامہ نووی نے کہا یہ ثابت نہیں ہے ‘ اس کی تاویل میں یہ کہا گیا ہے کہ جس نے اپنے نفس کے حادث ہونے کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کے قدیم ہونے کو پہچان لیا اور جس نے اپنے نفس کے فانی ہونے کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کے باقی ہونے کو پہچان لیا۔ (المقاصد السحنۃ ص ٦١٤‘ رقم الحدیث : ٩٤١١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٧٠٤١ ھ)

حافظ جلال الدین السیوطی المتوفی ١١٩ ھ اس کے متعلق لکھتے ہیں :

علامہ نودی نے کہا یہ غیر ثابت ہے ‘ ابنالسمعانی نے کہا یہ یحییٰ بن معاذ الرازی کے کلام سے ہے۔

(الدررالمنتشرہ ص ٨٥٢‘ رقم الحدیث : ٠٢٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

علامہ محمد طاہر بن علی پٹنی الہندی المتوفی ٦٨٩ ھ لکھتے ہیں :

علامہ نووی نے کہا ہے کہ من عرف نفسہ فقد عرف ربہ ثابت نہیں ہے ‘ ابن تیمیہ نے کہا یہ موضوع ہے ‘ اور یہ اسی طرح ہے جس طرح اس نے کہا ہے ‘ مقاصد میں مذکور ہے یہ حدیث مرفوع نہیں ہے ‘ یحییٰ بن معاذ کا قول ہے۔ (تذکرۃ الموضاعات ص ١١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

ملاعلی بن سلطان محمد القاری متوفی ٤١٠١ ھ لکھتے ہیں :

ابن تیمیہ نے کہا یہ موضوع ہے ‘ السمعانی نے کہا یہ حدیث مرفوع نہیں ہے ‘ اس کے متعلق حکایت کی جاتی ہے کہ یہ یحییٰ بن معاذ رازی کا قول ہے۔ علامہ نووی نے کہا کہ یہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت نہیں ہے ‘ ورنہ اس کا معنی ثابت ہے ‘ اس کا معنی یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کے جہل کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کے علم کو پہچان لیا ‘ اور جس نے اپنے نفس کی فنا کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی بقا کو پہچان لیا ‘ اور جس نے اپنے نفس کے ضعف اور عجز کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی قوت اور قدرت کو پہچان لیا۔ (الاسرار المرفوعۃ ص ٨٣٢‘ رقم الحدیث : ٧٣٩‘ مطبوعہ دارالباز مکہمکرمہ ‘ ٥٠٤١ ھ)

علامہ اسماعیل بن محمد العجلونی المتوفی ٢٦١١ ھ لکھتے ہیں :

ابن تیمیہ نے کہا یہموضوع ہے اور اس سے پہلے علامہ نووی نے کہا یہ ثابت نہیں ہے ‘ ابوالمظفر بن السمعانی نے القواطع میں کہا یہ حدیث مرفون نہیں ہے ‘ اس قول کو یحییٰ بنمعاذالرازی سے نقل کیا جاتا ہے ‘ ابن الفرس نے علامہ نووی کا قول نقل کرنے کے بعد لکھا لیکن صوفیہکو کتابیں اس قول سے بھری ہوئی ہیں وہ اس کو بہ طور حدیث لکھتے ہیں جیسے شیخمحی الدین بن عربی وغیرہ اور ہمارے شیخ حجازی جو الجامع الصغیر کے شارح ہیں ‘ انہوں نے کہا شیخ محی الدین بن عربی کا بھی حفاظ میں شمار کیا جاتا ہے ‘ اور بعض اصحاب نے ذکر کیا ہے کہ شیخ محی الدین بن عربی نے کہا ہے کہ یہ حدیث ہرچند کہ بہ طریق روایت ثابت نہیں ہے لیکن ہمار نزدیک بہ طریق کشف یہ حدیث صحیح ہے ‘ علامہ سیوطی نے اس پر ایک رسالہ لکھا ہے جس کا نام ہے : القول الاشبہ فی حدیث من عرف نفسہ فقد عرف ربہ اور علامہ ماوردی کی کتاب ” ادب الدین والدنیا “ میں حضرت عائشہ (رض) سے روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ اپنے رب کو پہچا ننے والا کون ہے ؟ آپ نے فرمایا جو سب سے زیادہ اپنے نفس کو پہچاننے والا ہے۔ (کشف الخفا و مزیل الا لباس ج ٢ ص ٢٦٢‘ رقم الحدیث : ٢٣٥٢‘ مطبوعہ مکتبۃ الغزالی دمشق)

من عرف نفسہ فقد عرف ربہ کے معانی اور محامل 

علامہ العجلونی نے حافظ سیوطی کے جس رسالہ کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے :

علامہ نومی نے اپنے فتاویٰ میں لکھا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کے ضعف اور اللہ کی طرف محتاج ہونے کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی قوت ‘ ربوبیت ‘ کمال مطلق اور صفات علیہ کو پہچان لیا۔ شیخ تاج الدین نے لطائف المنن میں کہا کہ شیخ ابو البع اس المرسی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں دو تاویلیں ہیں۔ (١) جس شخص نے اپنے نفس کی ذلت ‘ عجز اور اتقار کو پہچان لیا اس نے اپنے رب کی عزت ‘ قدرت اور غنا کو پہچان لیا پس پہلے اپنے نفس کی معرفت ہوگی پھر اپنے رب کی معرفت ہوگی (٢) جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا تو یہ اس کی دلیل ہے کہ وہ اپنے رب کو پہچان چکا ہے ‘ پس پہلا سالکین کا حال ہے اور دوسرا مجذو بین کا حال ہے۔ ابو طالب مکی نے قوت القلوب میں کہا ہے اس کا معنی یہ ہے کہ جب تم نے مخلوق کے ساتھ معاملات میں اپنے نفس کی صفات کو پہچان لیا کہ تم اس کو ناپسند کرتے ہو کہ تمہارے افعال پر اعتراض کیا جائے اور تمہارے کاموں کی مذمت کی جائے تو تم بھی اللہ کی قضا اور قدر پر اعتراض نہ کرو اور تقدیر راضی ہو جائو اور اللہ کے ساتھ وہی معاملہ کرو جس کو تم اپنے لیے پسند کرتے ہو۔

شیخ عزالدین نے کہا مجھ پر اس حدیث کا راز ظاہر ہوا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ سبحانہ نے اس روح لطیف کو اس جسم کثیف میں رکھا ہے ‘ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی ربانیت پر کئی وجہ سے دلائل ہیں :

(١) یہ ہیکل انسانی ایک مدبر اور محرک کا محتاج ہے اور اس کا مدبر اور محرک کا محتاج ہے اور اس کا مدبر اور محرک اسکی روح ہے ‘ اس سے ہم نے جان لیا کہ اس جہان کا بھی مدبر اور محرک ہونا ضروری ہے۔

(٢) جب اس ہیکل انسانی کا مدبر واحد ہے اور وہ اس کی روح ہے تو ہم نے جان لیا کہ اس جہان کا مدبر بھی واحد ہے : جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

لوکان فیھمآ الھۃ الا اللہ لفسدتا ج۔ (الانبیائ : ٢٢) اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا عبادت کے مستحق ہوتے تو آسمان اور زمین کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔

قل لو کان معہ الھۃ کما یقولون اذ الا بتغوا الی ذی العرش سبیلا۔ (بنی اسرائیل : ٢٤) آپ کہیے اگر اللہ کے ساتھ اور بھی عبادت کے مستحق ہوتے جیسا کہ یہ کہتے ہیں تو وہ اب تک ضرور مالک عرش کی راہ ڈھونڈ چکے ہوتے۔

ما اتخذ اللہ من ولد وماکان معہ من الہ اذالذھب کل الہ بما خلق ولعلا بعضھم علی بعض ط سبحن اللہ عما یصفون۔ (المؤ منون : ١٩) اللہ نے کسی کو بیٹا نہیں بنایا ‘ نہ اس کے ساتھ کوئی اور عبادت کا مستحق ہے ‘ ورنہ ہر معبود اپنی مخلوق کو الگ کرلیتا اور ہر معبود دوسرے پر غالب ہونے کی کوشش کرتا اللہ ان اوصاف سے پاک ہے جو یہ اس کے لیے بیان کرتے ہیں۔

(٣) جبکہ یہ جسم صرف روح کے ارادہ اور اس کی تحریک سے حرکت کرتا ہے تو ہم نے جان لیا کہ اس جہان کا بھی کوئی محرک ہے جس کے ارادہ اور اس کی قضا اور اس کی تقدیر سے اس جہان کا نظام چل رہا ہے۔

(٤) جبکہ اس جسم کی کوئی چیز روح کے علم اور اس کیشعور کے بغیر حرکت نہیں کرتی تو ہم نیجان لیا کہ اس جہان کی ہر حرکت کا اللہ تعالیٰ کو علم ہے اور کوئی چیز اس کے علم سے باہر نہیں ہے خواہ وہ چیز زمین میں ہو یا آسمان میں۔

(٥) جبکہ روح جسم کے سب سے زیادہ قریب ہے تو ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ بھی اس جہان کے سب سے زیادہ قریب ہے۔

(٦) روح اس جسم کے موجود ہونے سے پہلے تھی اور اس جسم کے معدوم ہونے کے بعد بھی رہے گی تو ہم نے جان لیا کہ اللہ تعالیٰ اس جہان کو پیدا کرنے سے پہلے بھی تھا اور اس جہان کے فنا ہونے کے بعد بھی رہے گا۔

(٧) روح اس جسم میں کس کیفیت سے ہے اس کا کسی کو علم نہیں ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی کیفیت سے پاک اور برتر اور منزہ ہے۔

(٨) روح جسم میں ہر جگہ موجود ہے ‘ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ وہ جسم میں کس جگہ ہے اور کس کیفیت سے ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ بھی اس جہان میں ہر جگہ موجود ہے لیکن وہ زمان ‘ مکان اور کیفیت سے منزہ ہے۔

(٩) جس طرح روح جسم میں ہے لیکن وہ آنکھوں سے دکھائی نہیں دیتی اور نہ اس کی کوئی مثال اور صورت ہے اسی طرح اللہ اس جہان میں ہے لیکن آنکھیں اس کا ادراک نہیں کرسکتیں اور نہ اس کی کوئی مثال اور صورت ہے۔

(۱۰) جبکہ جسم میں روح ہے لیکن اس کا حواس خمسہ سے ادراک نہیں ہوتا اسی طرح اللہ تعالیٰ اس جہان میں ہے لیکن اس کا حواس خمسہ سے ادراک نہیں ہوتا۔

یہی معنی اس حدیث کا ہے جس نے اپنے نفس کو ان وجوہ سے پہچان لیا اس نے ان وجوہ سے اپنے رب کو پہچان لیا۔

اس حدیث کی تفسیر ایک اور طریقہ سے بھی ہے کہ جس شخص نے اپنے نفس کی صفات کو پہچان لیا تو وہ جان لے گا کہ اس کے رب کی صفات اس کی صفات کے برعکس ہیں ‘ مثلاً جس نے جان لیا کہ اس کا نفس فانی ہے تو وہ جان لے گا کہ اس کا رب باقی ہے ‘ اور جس نے جان لیا کہ اس کا نفس جفا کرنے والا اور خطا کرنے والا ہے تو وہ جان لے گا کہ اس کا رب وفا کرنے والا اور عطا کرنے والا ہے ‘ اور جس طرح کوئی شخص اپنے نفس (روح) کی حقیقت کو نہیں جان سکتا اسی طرح وہ اپنے رب کی حقیقت کو نہیں جان سکتا گویا کہ اس حدیث میں ایک محال کو دوسرے محال پر معلق کیا ہے پس وہ روح جو تمہارے جسم کے اندر ہے جب تم اس کی حقیقت کو نہیں جان سکتے تو اپنے رب کی حقیقت کو کیسے جان سکتے ہو۔

علامہ قونوی نے شرح العرف میں اس کو مزید وضاحت سے لکھا ہے کہ اس حدیث میں محال کو محال پر معلق کیا ہے کیونکہ روح کی حقیقت کی معرفت محال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمادیا ہے قل الروح من امر ربی (بنی اسرائیل : ٥٨) آپ کہیے کہ روح میرے رب کے امر سے ہے ‘ علماء نیروح کی تعریف میں ستر سے زیادہ اقوال ذکر کیے ہیں اور کسی ایک تعریف پر ان کا اتفاق نہیں ہے تو اس حدیث میں اس پر تنبیہ کی ہے کہ جب تم روح کی حقیقت کا ادراک کرنے سے عاجز ہو جو اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے اور تمہارے سب سے زیادہ قریب ہے تو پھر تم اپنے خالق کی حقیقت کا ادراک کیسے کرسکتے ہو ‘ سو اس لیے فرمایا جس نے اپنے نفس کی حقیقت کو پہچان لیا اسنی اپنے رب کی حقیقت کو پہچان لیا یعنی جس طرح اپنینفس کی حقیقت کو پہچاننا محال ہے اسی طرح اپنے رب کی حقیقت کو پہچاننا محال ہے۔الحادی للفتاوی

حضرت دائود اور حضرت سلیمان کا اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شکر ادا کرنا 

اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو عظیم علم عطا فرمایا اس کا شکر ادا کرتے ہوئے ان دونوں نے کہا :

الحمد للہ الذی فضلنا علی کثیر من عبادہ المؤمنین۔ (لنمل : ٥١) تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہم کو اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی۔

کسی شخص کا اپنے قلب ‘ اپنے فعل یا اپنے قول سے منعم کی تعظیم کا اظہار کرنا اس کا شکر کہلاتا ہے ‘ حضرت دائود اور حضرت سلیمان نے اپنے اس قول سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کی اور ان کا اس قول سے اللہ کی تعظیم کرنا دل سے اللہ کی تعظیم کرنے اور اپنے افعال سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کو بھی مستلزم ہے اور یہی کامل شکر ہے۔ دل سے اللہ تعالیٰ کی تعظیم کرنے کا معنی یہ ہے کہ دل میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی صفات کمالیہ کا اعتقاد ہو اور زبان سے اس کی تعظیم کرنے کا معنی یہ ہے کہ جن کاموں کے کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہ کام کیے جائیں اور جن کاموں سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے ان سے باز رہا جائے۔

شکر کا ایک معنی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بندے کو جس قدر نعمتیں عطا کی ہیں ان تمام نعمتوں کو ان مقاصد میں صرف کیا جائے جن مقاصد کے لیے وہ نعمتیں عطا فرمائی ہیں مثلاً زبان اس لیے دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی تسبیح اور حمد کرے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی عظمت اور ثناء کرے ‘ عام مسلمانوں کی خیر خواہی کرے ‘ نیک اور اچھی باتیں کرے اگر وہ اس طرح کرے گا تو وہ زبان کا شکر ادا کرے گا۔ اگر وہ خاموش رہے گا اور اس طرح کا کلام نہیں کرے گا تو وہ زبان کی ناشکری کرے گا اور اگر وہ زبان سے بد کلامی کرے گا ‘ مسلمانوں کی دل آزاری کرے گا ‘ ظالمانہ احکام جاری کرے گا ‘ دین کو نقصان پہنچانے کی باتیں کرے گا تو وہ زبان کا کفر کرے گا۔

اللہ تعالیٰ کی تمام نعمتوں میں نعمت علم کی خصوصیت 

حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) نے کہا اللہ نے ہمیں اپنے بہت سے ایمان والے بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے ‘ یہ نہیں کہ اس نے اپنے سب بندوں پر فضیلت عطا فرمائی ہے ‘ اس کا معنی یہ ہے کہ ان کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے ان سے زیادہ علم عطا فرمایا ہے اگرچہ ان کو بہت لوگوں سے زیادہ علم عطا فرمایا ہے ‘ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ انہوں نے تواضع اور انکسار کو اختیار کیا ‘ کیونکہ جب کوئی شخص یہ کہے گا کہ مجھے سب سے زیادہ علم دیا گیا ہے تو اس ایک گونہ افتخار اور تعلی کا پہلو نکلتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) کبر اور بڑائی کے شائبہ سے بھی دوررہتے ہیں۔

حضرت دائود اور حضرت سلیمان (علیہما السلام) کو اللہ تعالیٰ نے انواع و اقسام کی بیشمار نعمتیں عطا فرمائی تھیں ‘ حضرت دائود (علیہ السلام) کو جالوت پر فتح عطا فرمائی ‘ ان کو نبوت سے سرفراز فرمایا ‘ ان کو حسن صورت عطا فرمایا ‘ زبور عطا فرمائی ‘ لوہے کو انکے ہاتھ پر نرم کردیا اور بہت نعمتیں عطا فرمائیں ‘ اسی طرح حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو نبوت عطا فرمائی ‘ پرندوں کی بولیاں سکھائیں ‘ حکومت عطا فرمائی ‘ جنات کو انکے تابع کردیا اور کثیر انعامات کیے لیکن انہوں نے نعمتوں کا شکر ادا کرتے وقت ‘ جس نعمت کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا وہ علم کی نعمت ہے۔

بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے مطلقاً علم کی نعمت کرنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا ہے ‘ لیکن ایسا نہیں ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کا علم باقی علوم سے اشرف اور اعلیٰ ہے ‘ اس کے بعد احکام شرعیہ کا علم ہے ‘ اور یہ علم دیگر مومنین کو بھی حاصل ہیں لیکن ہر ایک کا علم اپنے درجہ اور مقام کے اعتبار سے ہوتا ہے انبیاء (علیہم السلام) کے علم کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں مستغرق ہوتے ہیں ‘ ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی ذات کے متعلق کوئی شبہ نہیں ہوتا اور ان کا دل کسی آن اور کسی لمحہ اللہ تعالیٰ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 15