أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنِّىۡ وَجَدتُّ امۡرَاَةً تَمۡلِكُهُمۡ وَاُوۡتِيَتۡ مِنۡ كُلِّ شَىۡءٍ وَّلَهَا عَرۡشٌ عَظِيۡمٌ ۞

ترجمہ:

میں نے دیکھا کہ ان پر ایک عورت حکومت کررہی ہے اور اس کو ہر چیز سے دیا گیا ہے اور اس کا بہت بڑا تخت ہے

ملکہ سبا کا تعارف 

ہد ہد نے کہا میں نے دیکھا کہ ان پر ایک عورت حکومت کر رہی ہے اور جس کو ہر چیز سے دیا گیا ہے اور اس کا بہت بڑا تخت ہے۔

امام ابو محمد الحسین بن مسعود الفرا البغوی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

اس عورت کا نام بلقیس بن شراحیل تھا، یہ یعرب بن قحطان کی نسل سے تھی، اس کا باپ عظیم الشان بادشاہ تھا، یہ تمام یمن کا مالک تھا، اس نے اردگرد کے بادشاہوں سے کہا تھا میں سے کوئی میرا کفو نہیں ہے اور ان کے ہاں شادی کرنے سے انکار کردیا، پھر انہوں نے ایک جنبیہ (جن عورت) سے اس کا نکاح کردیا اس کا نام ریحانتہ بنت السکن تھا پھر اس سے بلقیس پیدا ہوئی۔ حدیث میں ہے کہ بلقیس کے ماں باپ میں سے ایک جن ہے، جب بلقیس کے والد فوت ہوگئے تو اس کے علاوہ اس کا اور کوئی وارث نہیں تھا، بلقیس نے حکمرانی کی خواہش کی اکثر سرداروں نے اس کو ملکہ مان لیا، بعض نے مخلافت کی لیکن بلقیس ان پر غالب آگئی۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص 498-499 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام علی بن الحسن ابن عسا کر متوفی ٥٧١ ھ نے بلقیس کی مزید تفیل لکھی ہے :

یہ ملکہ سبا ہے اس نے نو سال یمن پر حکومت کی، پھر حضرت سلیمان کی طرف سے یہ یمن پر خلیفہ ہوگئی اور ان کی طرف سے مزید چار سال حکومت کی۔

مسلمہ بن عبداللہ بن ربعی نے بیان کیا کہ جب بلقیس مسلمان ہوگئی تو اس سے حضرت سلیمان بن دائود نے نکاح کرلیا اور بعلیک اس کو مہر میں دیا۔ (بعلبک ایک قدیم شہر ہے جو دمشق سے تین دن کی مسافت پر ہے، معجم البلدان (عربی) ج ١ ص ٤٥٤ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ بلقیس کے ماں باپ میں سے ایک جن ہے۔

حسن بصری سے ملکہ سبا کے متعلقہ پوچھا گیا اور لوگوں نے کہا اس کے ماں باپ میں سے ایک جن ہے، تو انہوں نے کہا انسان اور جن کے درمیان والدت نہیں ہوتی۔ (تاریخ دمشق ج ٧٣ ص ٥٠، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤٢١ ھ)

آیا جن اور انسان کا نکاح عقلاً ممکن ہے یا نہیں ؟

ہم نے ذکر کیا ہے کہ انسان اور جنیہ کے ملاپ کے نتیجہ میں بلقیس پیدا ہئوی اور اس سلسلہ میں امام ابن عسا کرنے حضرت ابوہریرہ سے حدیث بھی روایت کی ہے، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے اس حیدث کو ضعیف کہا ہے (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٤٧٠ دارالفکر، ١٤١٨ ھ) اس مقام پر دو بحثیں ہیں ایک یہ کہ انسان اور جنیہ کے ملاپ سے تولید ہونا عقلاً ممکن ہے یا نہیں، دوسری بحث یہ ہے کہ انسان اور جنیہ کے درمیان ناکح کا شرعاً کیا حکم ہے، ہم پہلے اس تولید کے عقلی امکان کا جائزہ لے رہے ہیں :

قاضی بدر الدین محمد بن عبداللہ الشبلی الحنفی المتوفی ٧٦٩ ھ لکھتے ہیں :

ہم کہتے ہیں کہ انسان کا جنیہ سے اور جن کا انسان عورت سے نکاح کرنا ممکن ہے،

اللہ تعالیٰ نے شیطان سے فرمایا :

(بنی اسرائیل : ٦٤) اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوجا اور ان سے جھوٹے وعدے کر۔

(جمہور مفسرین کے نزدیک شیطان کی مال میں شرکت سے مراد ہے حرام ذریعہ سے مال کمانا اور اولاد میں شرکت سے مراد ہے، زنا کرنا یا اولاد کے شرکیہ رکھنا جیسے عبدالعزیٰ وغیرہ یا ان کی غیر اسلامی تربیت کرنا یا بغیر بسم اللہ پڑھے جماع کرنا، اور جو علماء انسان اور جن کے درمیان مناکحت کے قائل ہیں ان کے نزدیک اولاد میں شرکت سے مراد ہے انسان اور جنیہ سے اولاد کا پیدا ہنا یا بالعکس۔ )

اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب کوئی شخص اپنی عورت سے جماع کرتا ہے اور بسم اللہ نہیں پھڑتا تو شیطان اس کے آلہ کے سوراخ میں داخل ہوجاتا ہے اور اس کے ساتھ جماع کرتا ہے۔ حافظ ابن جریر نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے جب کوئی شخص حالت حیض میں اپنی بیوی سے جماع کرتا ہے تو شیطان اس پر سبقت کرتا ہے اور اس کے نتیجہ میں مخنث پیدا ہوتا ہے، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن کے ساتھ نکاح کرنے سے منع کیا ہے اور فقہاء کا اس میں اختلاف ہے اور یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ نکاح ممکن ہے ورنہ ممانعت اور اختلاف کا کوئی م عنی نہیں ہے، کیونکہ جو چیز محال ہو اس سے ممانتع کی جاتی ہے اور نہ اس کے جواز میں اختلاف ہوتا ہے۔ 

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جن کو آگ سے پیدا کیا گیا ہے اور انسان کو عناصر اربعہ سے پیدا کیا گیا ہے اور آگ کا عنصر اس سے مانع ہے کہ جنیہ کے رحم میں انسان کا نطفہ ہو کیونکہ اس میں رطوبت ہوتی ہے اور آگ کی تیزی سے وہ رطوبت مضحمل ہوجائے گی، اس کا جواب یہ ہے کہ ہرچند کہ جنتا آگ سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن ان میں آگ کا عنصر باقی نہیں رہا وہ کھانے پینے اور توالد اور تناسل سے متغیر ہوگیا جیسا کہ بنو آدم مٹی سے پیدا کئے گئے ہیں لیکن ان میں مٹی کا جوہر باقی نہیں رہا، دوسرا جواب یہ ہے جو آگ سے پیدا کیا گیا تھا وہ جنات کا باپ تھا یعنی ابلیس، جیسے انسانوں کے باپ حضرت آدم مٹی سے پیدا کئے گئے تھے لیکن ابلیس کے علاوہ ہر جن آگ سے نہیں پیدا کیا گیا ہے جیسے حضرت آدم کے علاوہ ہر انسان مٹی سے نہیں پیدا کیا کئے گے تھے لیکن ابلیس کے علاوہ ہر جن آگ سے نہیں پیدا کیا گیا ہے جیسے حضرت آدم کے علاوہ ہر انسان مٹی سے نہیں پیدا کئے گئے تھے لیکن ابلیس کے علاوہ ہر جن آگ سے نہیں پیدا کیا گیا ہے جیسے حضرت آدھم کے علاوہ ہر انسان مٹی سے نہیں پیدا کیا گیا، نیز جب شیطان نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز میں حملہ آور ہوا تھا تو بعض روایات میں ہے کہ جب آپ اس کا گلا گھونٹنے لگے تو آپ نے اس کی زبان یا لگام کی ٹھنڈک محسوس کی، نیز حدیث میں ہے کہ شیطان بنو آدم کی رگوں میں خون کی طرح گردش کرتا ہے اگر شیطان آگ کے عنصر پر باقی ہوتا تو یہ کیسے ممکن تھا۔ (آکام المرجان فی احکام الجان ص 66-67 مکتبہ خیر کثیر کراچی)

آیا جن اور انسان کا نکاح شرعاً جائز ہے یا نہیں ؟

علامہ ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی مالکی متوفی ٥٤٣ لکھتے ہیں :

ہمارے علماء نے کہا ہے کہ بلقیس بنت شرحبیل ملکہ سبا کی ماں جنیہ تھی اس چیز کا ملحدین نے انکار کیا ہے، وہ کہتے ہیں کہ جن کھاتے ہیں نہ ان کی اولاد ہوتی ہے، اللہ تعالیٰ ان سب پر لعنت کرے انہوں نے جھوٹ کہا، یہ چیز صحیح ہے، جنات کا انسانوں سے نکاح عقلاً صحیح ہے اور اگر یہ شرعاً بھی صحیح ہو تو بہت اچھا ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص ٤٨١ مطبوعہ دار الکتب العلمیۃ بیروت، ١٤٠٨ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

جنات کے نکاح کے متعلق وشارکھم فی الموال والاولاد (بنی اسرائیل : ٦٤) میں اشارہ گزر چکا ہے اور عنقریب اس کی تفصیل آئے گی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٣ ص ١٧١، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں۔

امام ابن عساکر نے حسن بصری سے نقل کیا ہے کہ جنات اور انسانوں کے درمیان توالد اور تناسل ہے یعنی جن کا انسان عورت سے نکاح ہو، انسان مرد کا جنیہ سے نکاح ہو تو ان سے اولاد نہیں ہوتی، البتہ امام مالک کی بعض روایات سے اس کا جواز منقول ہے۔

علامہ ابن نجیم نے الاشباہ والنظائر میں لکھا ہے کہ ابو عثمان سعید بن دائود زبیدی نے روایت کیا ہے کہ اہل یمن سے کچھ لوگوں نے امام مالک سے سوال کیا کہ آیا جنات سے نکاح جائز ہے انہوں نے کہا میرے نزدیک اس میں کوئی حرج نہیں ہے، لیکن میں اس کو مکروہ قرار دیتا ہوں کہ کوئی عورت حاملہ پائی جائے اور اس عورت سے اس کے شوہر کے متعلق دریافت کیا جائے تو وہ کہے کہ میرا شوہر جن ہے اور اس سے اسلام میں بہت فساد پھیل جائے گا (یعنی جو عورت بھی زنا سے حاملہ ہوگی وہ کہہ سکے گی کہ میرا جن سے نکاح ہوا ہے، اور ظاہر ہے جن دکھائی تو نہیں دیتے کہ ان سے اس کی تفتیش اور تحقیق کی جاسکے) امام مالک سے اس نکاح کی کراہت کے خلاف کوئی چیز ثابت نہی ہے، اس پر یہ اشکال ہے کہ جب جنیہ انسان سے حاملہ ہوگی تو جن کی لطافت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دکھائی نہ دے اور حمل کی کثافت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ دکھائی دے اور جب وضع حمل کا وقت ہوگا تو وہ دکھائی دے گی، یا جب تک اس کے پیٹ میں حمل رہے گا وہ انسان کی شکل میں رہے گی اور پیٹ میں اس کو غذا اور نشو و نما حاصل ہوگی اور یہ تمام صورتیں استبعاد سے خالی نہیں ہیں۔ (روح المعانی ج ١٩ ص ٢٨٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

قاضی بدر الدین شبلی متوفی ٧٦٩ ھ لکھتے ہیں :

جہاں تک انسان اور جن کے درمیان نکاح کے مشروع ہونے کا تعلق ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کی ممانعت منقول ہے، زہری سیر ویات ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جن کے ساتھ نکاح کرنے سے منع فرماا ہے۔ یہ حدیث مرسل ہے اور اس کی سند میں ابن لھیعہ ہے اور حکم، قتادہ، حسن بصری، باو سعید، الحکم بن عتیبہ وغیرہم سے اس کی ممانعت میں بہ کثرت آثار ہیں اور فقہاء احناف میں سے شیخ سجستانی اور شیخ زاہدی نے اس نکاح سے منع کیا ہے اور فقہاء شافعیہ میں سے شیخ جمال الدین نے اس نکاح سے منع کیا ہے اور قرآن مجید کی ان آیتوں سے اس ممانعت پر استدلال کیا ہے۔

(النحل : ٧٢) اور اللہ نے تمہارے لئے تمہارے نفسوں سے بیویاں بنائی ہیں۔

(الروم : ٢١) (اللہ نے) تمہارے لئے تمہارے نفسوں سے بیویاں پیدا کی ہیں۔

ان آیات کا تقاضا یہ ہے کہ انسانوں کے لئے انسانوں کی نوع سے بیویاں بنائی ہیں اور جنتا انسانوں کی نوع سے نہیں ہیں۔

اور اعمش سے اس کا جواز معلوم ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے ایک انسان کی جنیہ سے شادی میں شرکت کی تھی، امام مالک سے بھی اس کا کراہت کے ساتھ جواز منقول ہے۔ (آکام المرجان ص ٧٤-٧١ مطبوعہ کراچی)

علامہ احمد بن محمد بن حجر شافعی ہیتمی مکی متوفی ٩٧٤ ھ لکھتے ہیں :

جنتا کے ساتھ نکاح کے شرعی جواز میں فقہاء کا اختلاف ہے، امام مالک سے اس کا جواز منقول ہے، لیکن انہوں نے اس وجہ سے اس کو مکروہ کہا ہے کہ پھر جو عورت زنا سے حاملہ ہوگی وہ یہ دعویٰ کرے گی کہ اس کو جن سے حمل ہے، اسی طرح الحکم بن عینیہ، قتادہ، حسن بصری، عقبتہ الاصم، اور الحجاج بن ارطاۃ نے بھی اس نکاح کو مکروہ کہا ہے۔

امام ابن جریر نے امام احمد اور امام اسحاق سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جنات کے ساتھ نکاح کرنے سے منع فرمایا ہے اور فہقاء احناف کی تصانیف میں سے فتاوی سراجیہ میں لکھا ہوا ہے کہ انسان اور جن کے درمیان اختلاف جنس کی وجہ سے نکاح جائز نہیں ہے۔

اور ہمارے ائمہ شافعیہ میں سے شیخ الاسلام لابارزی نے بھی یہی فتویٰ دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہم پر یہ احسان قرار دیا ہے کہ اس نے ہمارے نفسوں سے ہماری بیویاں بنائی ہیں (النحل : ٧٢) اور ابن العمار نے شرح الوجیز میں اس نکاح کو جائز کہا ہے اور اعمش نے کہا ہے کہ ایک جننی نے ہم سے شادی کی، میں نے اس سے پوچھجا کہ تم کو کون سا کھانا پندس ہے اس نے کہا چاول، ہم اس شادی میں گئے، میں نے دیکھا کہ چاول دستر خوان سے اٹھ رہے تھے، اور کھانے والے نظر نہیں آرہے تھے، میں نے اس سے پوچھا کیا تمہارے اندر بھی گمراہ فرقے ہتے ہیں ؟ اس نے کہا ہاں ! میں نے پوچھا پھر رافضیوں کا تمہارے ہاں کیا حکم ہے ؟ اس نے کہا وہ سب سے بدتر فرقہ ہے۔ (الفتاویٰ الحدیثیہ ص 97-98 مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٩ ھ)

بلقیس کی حکمرانی سے عورت کی حکمرانی پر استدلال کا جواب 

بعض علماء نے بلقیس کی حکمرانی سے عورت کی حکمرانی کے جواز پر استدلا کیا ہے لیکن یہ استدلال صحیح نہیں ہے، کیونکہ جس دور میں بلقیس حکمران تھی اس وقت وہ کافرہ تھی اور کافروں پر اس کی حکومت تھی جیسا کہ عنقریب قرآن مجید کی آیات سے واضح ہوجائے گا اور کافروں کا کوئی قول اور فعل حجت نہیں ہوتا ثانیاً اس لئے کہ ہمارے لئے حجت ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے اور آپ نے عورت کی حکمرانی کی مذمت فرمائی ہے جیسا کہ ہم عنقریب اس سلسلہ میں احادیث پیش کریں گے۔

عورت کے وزیراعظم ہنے کے جواز کے دلائل اور ان کے جوابات 

ہمارے ملک میں 1988 ھ اور 1992 ھ میں دو متربہ ایک عورت کو ملک کا وزیر اعظم بنایا جا چکا ہے اور جو لوگ عورت کا ملک کا سربراہ بنانے کو جائز کہتے ہیں ان کا اولین استدلال ملکہ سبا کی حکومت سے ہے اس کا جواب ہم نے بیان کردیا۔

دوسرا استدلال اس سے ہے کہ جنگ جمل حضرت عائشہ صدیقہ (رض) کی سربراہی میں لڑی گئی، استاذ العلماء ملک المدرسین قدس سرہ العزیز لھکتے ہیں :

اب بندہ اس امر پر چند دلائل مزید پیش کرتا ہے کہ بعض امور میں عورت سربراہ ہوسکتی ہے : 

دلیل؁ ول : جنگ جمل حضرت ام المومنین عائشہ صدیقہ (رضی اللہ عنہما) کی سربراہی میں لڑی گئی اور اس جنگ میں عائشہ صدیقیہ سربراہ لشکر تھیں اور ہزاروں فوجیوں نے اپنی ماں کے قدموں میں جانیں قربان کردیں ان میں صحابہ بھی تھے بلکہ بعض صحابہ عشرہ مبشرہ سے تھے۔ (عورت کی حکمرانی ص 40-41)

یہ استدلال درست نہیں ہے، حضرت عائشہ نے اس جنگ میں جو قایدت کی تھی انہوں نے اس سے رجوع فرما لیا تھا لہنذا اب ان کے اس فعل سے استدلال کرنا درست نہی ہے۔ حضرت عائشہ (رض) جب وقرن فی بیوتکن (الاحزاب : ٣٣) ” تم اپنے گھروں میں ٹھہری رہو “ کی تلاوت کرتیں تو اس قدر روتیں کہ آپ کا دوپٹہ آنسوئوں سے بھیگ جاتا۔ (الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٨١، مطبوعہ دارصادر بیروت، ١٣٨٨ ھ)

حافظ ذہبی لکھتے ہیں : اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ حضرت عائشہ اپنے بصرہ کے سفر اور جنگ جمل میں حاضری سے کھلی طور پر نادم ہوئیں۔ (سیر اعلام النبلاء ج ٢ ص ١٧٧ بیروت، ١٤٠٢ ھ)

حافظ زیلعی ابن عبدالبر کے حوالے سے لکھتے ہیں : ایک متربہ حضرت عائشہ نے حضرت عبداللہ بن عمر سے فرمایا : تم نے مجھے اس سفر میں جانے سے کیوں منع کیا ؟ حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا میں نے دیکھا کہ ایک صاحب (یعنی حضرت ابن الزبیر) کی رائے آپ کی رائے پر غالب آچکی تھی۔ (نصب الرایہ ج ٤ ص ٧٠ مطبوعہ ہند ١٣٥٧ ھ)

امام حاکم نیشا پوری قیس بن ابی حازم سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) اپنے دل میں سوچتی تھیں کہ انہیں ان کے حجرے میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر کے ساتھ دفن کیا جائے لیکن بعد میں انہوں نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بعد ایک بدعت کا ارتکاب کیا ہے، اب مجھے آپ کی دوسری ازواج کے ساتھ بقیع میں دفن کردینا، چناچہ آپ کو بقیع میں دفن کردیا گیا، امام حاکم کہتے ہیں کہ یہ حدیث امام بخاری اور امام مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔ (المستدرک ج ٤ ص ٦، مکہ مکرمہ)

حافظ ذہبی ان کے اس قول کی تشریح میں فرماتے ہیں : بدعت سے حضرت عائشہ کی مراد ان کا جنگ جمل میں جانا تھا، وہ اپنے اس فعل پر کلی طور پر نادم ہوئیں اور انہوں نے اس پر توبہ کرلی اگرچہ ان کا یہ اقدام اجتہاد پر مبنی تھا اور ان کی نیت نیک تھی۔ (سیرا علام النبلاء ج ٢ ص ١٩٣، بیروت ١٤٠٢ ھ)

حضرت عائشہ (رض) اپنے اجتہاد سے مسلمانوں کے دو گروہوں میں صلح کے قصد سے گھر سے نکلی تھیں لیکن بعد میں انہوں نے اپنے اس فعل کو بدعت اور خطا قرار دیا اور اس پر اس قدر نادم ہوئیں کہ روضہ رسول میں حضور کے جوار میں دفن ہونے سے بھی آپ کو شرم آئی اور تاحیات اس فعل پر ندامت سے آنسو بہاتی رہیں، لہٰذا حضرت عائشہ کے بصرہ کے سفر سے عورتوں کے گھروں سے نکلنے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے، عورت کی سربراہی کا تو اس واقعہ میں کوئی ذکر ہی نہی ہے، نہ آپ سربراہی کی مدعیہ تھیں، نہ جنگ میں پیشگوائی کر رہی تھیں، جنگ جمل تو ایک اتفاقی حادثہ تھا جو قاتلین عثمان کی سازش کے نتیجہ میں واقع ہا جیسا کہ علامہ آلوسی نے وقرن فی بیوتکن کی تفسیر میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔

استاذ العلماء قدس سرہ العزیز نے اس مسئلہ پر دوسری دلیل یہ قائم کی ہے :

دلیل دوم، فقہ میں مصرح ہے کہ عورت قاضیہ ہوسکتی ہے اور قاضی بھی ان لوگوں کے لئے جن کا وہ قاضی ہے سربراہ ہوتا ہے اور وہ لوگ اپنے امور قاضی کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ (عورت کی حکمرانی ص ٤١ )

فقہاء ثلاثہ تو مطلقاً عورت کی سربراہی اور امامت کو ناجائز کہتے ہیں البتہ فقہاء احناف یہ کہتے ہیں کہ جن امور میں عورت کی شہادت قبول کی جائے گی ان امور میں عورت کی قضا بھی قبول کی جائے گی اس کا شافی جواب فقہاء احناف کے مذہب کے عنوان میں انشاء اللہ العزیز بیان کریں گے۔

ہر چند کہ اساتذ العماء قدس سرہ العزیز نے ان دلیلوں سے عوتر کی امامت اور خلافت یا ملک کی سربراہی پر استدلال نہیں فرمایا بلکہ انتظامیہ کی سربراہ پر استدلا فرمایا ہے وہ فرماتے ہیں :

یہ کہنا کہ عورت مطلقاً سربراہ نہیں بن سکتی بالکل باطل اور غلط ہے کیونکہ وہ سربراہ جو عورت نہیں ہوسکتی اس کی تین تعریفیں گزر چکی ہیں اور یہ تینوں تعریفیں صدر مملکت پر صادق آتی ہیں وزیر اعظم پر صادق نہیں آتیں تو خلاصہ یہ ہے کہ عورت صرف صدر مملکت نہیں ہوسکتی اور وزیر اعظم ہوسکتی ہے۔ (عورت کی حکمرانی ص ٤٠ )

امامت اور خلافت کی تین تعریفیں اور ان پر بحث و نظر 

حضرت استاذ العلماء قدس سرہ العزیز نے امامت کی جن تین تعریفوں کا حوالہ دیا ہے وہ حسب ذیل ہیں :

(١) در مختار سے تعریف نقل فرماتے ہیں : خلاصہ تعریف یہ ہوا کہ امامت میں لوگوں پر تصرف عام کا استحقاق ہوتا ہے۔

(عورت کی حکمرانی ص ٢٥) (الدرالمختار مع ردا المختارج ٢ ص ٢٤٠، داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٩ ھ)

(٢) مواقف اور شرح مواقف سے نقل فرمایا، ایک شخص کے لئے دنیاوی امور میں ریاست اور سرداری عام حاصل ہو کوئی دینی اور دنیاوی شعبہ اس کی ریاست سے خارج نہ ہو۔ (الی قولہ) اس تعریف سے یہ واضح ہوگیا کہ شرعی امام صرف ایک ہوتا ہے۔ امام متعدد نہیں ہوسکتے۔ تعریف اول اور دوم تقریباً ایک جیسی ہیں۔ (عورت کی حکمرانی ص 26-27 ملحضاً ) (شرح مواقف ج ٨ ص 345 مطبوعہ ایران، ١٣٢٥ ھ)

اس کے بعد شرح مواقف سے ہی تیسری تعریف نقل فرماتے ہیں :

(٣) خلاصہ تعریف سوم یہ یہ کہ امامت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خلافت کا نام ہے، اور یہ خلافت اقامت دین میں ہے اور ملت کے مجموعہ کی حفاظت میں ہے اور اس کی اتباع (اطاعت) تمام امت پر واجب ہوتی ہے اس آخری قید سے قاضی اور مجتہد خارج ہوگئے کیونکہ قاضی اور مجتہد کی اتباع (اطاعت) ساری امت پر واجب نہیں بلکہ قاضی کی اتباع (اطاعت) صرف اس حلقہ کے لوگوں پر ہے جس حلقہ کا وہ قاضی ہے یا ان لوگوں پر ہے جن کا مقصد اور کیس قاضی کے پاس ہے، اسی طرح مجتہد کی اتباع (اطاعت) صرف اس کے مقلدین پر واجب ہے، اس تعریف پر وہ اعتراض نہیں ہوتا جو تعریف اول و دوم پر ہوتا ہے کہ ہر دو تعریف نبوت پر بھی صادق آتی ہیں حالانکہ امامت اور نبوت دو متغائر چیزیں ہیں۔ (شرح مواقف ج ٨ ص 345، مطبوعہ ایران، 1325 ھ)

اس تعریف پر اعتراض اس لئے نہیں ہوتا کہ نبوت کسی رسول کی خلافت نہیں ہے بلکہ نبوت شریعت مطہرہ کی بعثت ہے اور یہ جو کہا گیا ہے کہ عورت امام اور حاکم نہیں ہو سکتیاس سے مراد وہ حکومت اور امامت ہے جس کی تین تعریفیں ذکر کی گئی ہیں اس کے سوا بعض صورتوں میں عورت حاکم ہوسکتی ہے جیسے قاضی یا ملک کے کسی حصہ کی حکومت، البہت عورت جس طرح امامت کبریٰ کی اہل نہیں ہے امامت صغریٰ کی بھی اہل نہیں ہے۔ یعنی نماز کی امامت کی بھی اہل نہیں ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ امامت کی یہ مذکورہ تین تعریفیں صرف صدر پر صادق آتی ہیں یا صرف وزیر اعظم پر یا ہر ایک پر یا ہر دو کے مجموعہ پر، تو بندہ عرض کرتا ہے کہ یہ تعریفیں صرف اور صرف صدر پر صادق آتے ہیں کیونکہ تینوں تعریفوں کا خلاصہ یہ ہے کہ امام کے لئے ضرویر ہے کہ تمام لوگوں پر اس کا تصرف عام ہو اور تمام لوگوں پر اس کی اتباع (اطاعت) واجب ہو اور یہ امر صرف صدر مملکت ضر صادق آتا ہے۔ (عورت کی حکمرانی ص 27-28)

حضرت اساتذ العلماء قدس سرہ العزیز نے یہ تینوں تعریفیں امامت کبریٰ کی کی ہیں اور امام وہ ہے جس کی اطاعت تمام امت پر واجب ہو جیسا کہ خود اساتذ العلماء نے فرمایا ہے اور امام اور خلیفہ تمام عالم اسلام کا سربراہ ہوتا ہے اور صدر مملکت صرف کسی ایک ملک کا سربراہ ہوتا ہے اس لئے یہ تعریفیں صدر مملکت پر صادق نہیں آتیں بلکہ یہ امام اور خلیفہ ہی کی تعریفیں ہیں۔

آیا اس دور میں مسلمانوں پر خلیفہ کو مقرر کرنا واجب ہے یا نہیں ؟

علامہ تفتازنی، عامہ خیالی اور علامہ عبدالحکیم سیالکوٹینے یہ بیان کیا ہے کہ امت پر تمام عالم اسلام میں ایک خلیفہ قمرر کرنا اس وقت واجب ہے جب ان کی قدرت اور اختیار میں ایک خلیفہ کو مقرر کرنا ممکن ہو اور خل فاء راشدین کے بعد جب غلبہ اور جور سے مروانی حکومت پر قابض ہوگئے تو اس وقت خلیفہ کو نصب کرنا مسلمانوں کی قدرت اور اختیار میں نہیں تھا، اس لئے یہ ان پر واجب نہیں رہا۔ اسی طرح بنوامیہ میں سے عمر بن عبدالعزیز اور بنو عباس میں سے مہدی عباسی خلیفہ تھے لیکن ان کے بعد غلبہ اور جور سے ملوک اور سلاطین حکمران بن گئے اور اس وقت بھی ایک خلیفہ کو مقرر کرنا مسلمانوں کی قدرت میں نہیں تھا، اس لئے مسلمانوں پر ایک خلیفہ مقرر کرنا واجب نہ رہا، علی ہذا القیاس اب بر اعظم ایشیا اور افریقہ میں مسلمانوں کے انچاس ملک ہیں اور بیشتر ممالک کے درمیان بحری، بری اور فضائی رابطے کم ہیں، اکثر ممالک اسلامیہ میں مغربی طرز کی جمہوری حکومت ہے، بعض ممالک میں ملوک اور سلاطین کی حکومت ہے اور بعض جگہ فوجی حکومت ہے اور اب مسلمانوں کی قدرت اور اختیار میں یہ نہیں ہے کہ دنیا میں ان تممام ممالک کے حکمرانو کو معزول کر کے ان تمام ممالک اسلامیہ میں ایک حکومت قائم کردیں اور کسی ایک ملک میں مرکزی خلافت بنا کر تمام ممالک کو اس ملک کے صوبے بنادیں اور ان ممالک اسلامیہ کی ایک فوج ہو، ایک کرنسی ہو اور تمام ملکوں میں حکمرانوں کا تقرر خلیفہ کے حکم سے ہو اور تمام ملکوں میں اس ایک خلیفہ کا خطبہ پڑھا جائے لایکلف اللہ نفسا الاوسعھا ” اللہ تعالیٰ کسی شخص کو اس کی قوت اور طاقت سے زیادہ مکلف نہیں کرتا، اس لئے اب مسلمانوں پر خلیفہ کا مقرر کرنا واجب نہیں ہے اور دنیا کے جن جن علاقوں میں مسلمانوں کی حکومتیں قائم ہیں، وہاں کے مسلمانوں پر غیر معصیت میں ان حکمرانوں کی اطاعت لازم ہے۔

خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں پر صرف امیر کا مقرر کرنا واجب ہے اور اسلامی حکومت جہاں پر جس شکل میں بھی قائم ہو صحیح ہے اور مسلمانوں پر اپنے اپنے امیر کی اطاعت کرنا واجب ہے، ہاں اگر امیر خلاف شرع حکم دے تو اس میں اس کی اطاعت نہیں کی جائے گی، البتہ مسلمانوں کو چاہیے کہ ایک اسلامی بلاک بنائیں اور اسلامی ممالک کی ایک فیڈریشن قائم کرلیں اور اس کے لئے مسسل کوشش کرتے رہنا چاہیے اگر مسلمانوں کا ایک اسلامی بلاک بن گیا یا ایک فیڈریشن قائم ہوگئی تو یہ نظام خلافت اسلام کے قریب تر ہوگا۔

عورت کو مردوں کے کسی بھی ادارہ کی سربراہ بنانے کی ممانعت 

مجوزین یہ کہتے ہیں کہ عورت کو ریاست کا سربراہ یعنی صدر مملکت بنانا تو جائز نہیں ہے، لیکن انتظامیہ کا سربراہ یعنی وزیر اعظم بنانا جائز ہے اور قرآن مجید، احادیث صحیحہ اور فقہاء امت کی تصریحات کے اعتبار سے عورتوں کو مردوں کے کسی بھی ادارہ کا سربراہ بنانا جائز نہیں ہے، کیونکہ جب عورت مردوں کے کسی ادارہ کی سربراہ ہوگی تو لازماً عورت گھر سے نکلے گی اور عرف اور عادت یہ ہے کہ ایسی عور تگھر سے بےحجاب نکلتی ہے اور عورت اور مرد لازماً ایک دور سے کی طرف دیکھیں گے اور ایک دور سے سے باتیں کریں گے اور عرف اور معمول یہ ہے کہ عورت لوچ دار آواز میں باتیں کرتی ہے اور بلند آواز سے تقریر کرتی ہے حالانکہ عورت کے لئے یہ تمام امور شریعت میں ممنوع ہیں۔ ہم پہلے قرآن اور سنت سے عوتر کے بےپردہ گھر سے باہر نکلنے کی ممانعت پر دلائل پیش کریں گے، پھر پردے کے لزوم اور ایک دور سے کو دیکھنے اور ایک دوسرے سے باتیں کرنے کی ممانعت پر دلائل پیش کریں گے پھر عورت کی سربراہی کی ممانعت پر قرآن اور سنت سے دلائل پیش کریں گے اور آخر میں اس کی ممانعت پر مذاہب اربعہ کے فقہاء کی تصریحات پیش کیں گے۔

عورت کے گھر سے باہر بےپردہ نکلنے کے متعلق قرآن اور سنت کی تصریحات 

(الاحزاب : ٣٣) اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور پرانی جاہلیت کی طرح بےپردہ نہ پھرو۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا عورت واجب الستر ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے، وہ اپنے رب کی رحمت کے اس وقت زیادہ قریب ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کی کوٹھڑی میں ہو۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٩٤٨١، حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے تمام راویوں کی توثیق کی گئی ہے، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٣٥)

حضرت ابوموسٰی اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو عورت خوشبو لگا کر لوگوں کے پاس سے گزرے تاکہ انہیں اس کی خوشبو آئے وہ زانیہ ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥١٤١ : مسند احمد ج ٢ ص ٢٤٦ )

آج کل عرف اور معمول یہ ہے کہ جو خواتین بےپردہ گھر سے باہر نکلتی ہیں وہ خوشبو لگا کر باہر نکلتی ہیں۔

پردہ کے لزوم کے متعلق قرآن اور سنت کی تصریحات 

(الاحزاب : ٥٣) اور جب تم نبی کی ازواج (مطہرات) سے کوئی چیز مانگو تو پردے کے پیچھے سے مانگو، یہ تمہارے اور ان کے لئے پاکیزگی کا سبب ہے۔

نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

(الاحزاب : ٥٩) اے نبی ! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں کو یہ حکم دیں کہ وہ (گھر سے نکلتے وقت) اپنی چادروں کا کچھ حصہ (آنچ، پلویا گھونگٹ) اپنے چہروں پر لٹکائے رہیں، یہ پردہ ان کی اس شناخت کے لئے بہت قریب ہے (کہ یہ پاکدامن آزاد عورتیں ہیں آوارہ گرد باندیاں نہیں ہیں) سو ان کو ایذا نہ دی جائے اور اللہ بہت بخشنے والا بےحد رحم فرمانے والا ہے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : عورت (سراپا) واجب الستر ہے جب وہ گھر سے ابہر نکلتی ہے تو شیطان اس کو تاکتا ہے۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ١١٧٣، الترغیب والترہیب ج ١ ص ٢٧٧)

حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس وہ اور حضرت میمونہ حاضر تھیں، اسی اثناء میں حضرت ابن ام مکتوم آگئے یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب حجاب کے احکام نازل ہوچکے تھے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اس سے پردہ کرو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ نابینا نہیں ہے، ہم کو دیکھے گا نہ پہچانے گا، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کیا تم دونوں بھی نابینا ہو، کیا تم اس کو نہیں دیکھیتیں ؟ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

(سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٧٧٨، سنن ابو دائود رقم الحدیث ٤١١٢، مسند احمد ج ٦ ص ٢٩٦ السنن الکبریٰ للنسائی رقم الحدیث : ١٨٢٢٢، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٦٩٢٢ )

اجنبی مردوں اور عورتوں کے ایک دوسرے کی طرف دیکھنے کی ممانعت کے متعلق قرآن اور سنت سے دلائل 

(النور :30-31) آپ مسلمان مردوں سے فرما دیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لئے پاکیزہ طریقہ ہے، بلاشبہ اللہ ان کے کاموں سے باخبر ہے۔ اور آپ مسلمان عورتوں سے فرما دیجیے کہ وہ (بھی) اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنے بنائو سنگھار کو ظاہر نہ کریں سوا اس چیز کے جو ان سے خود ظاہر ہو، اور اپنے سروں پر اوڑھے ہوئے دوپٹوں کے آنچل اپنے گریبانوں پر ڈالے رہیں، اور اپنی زیبائش صرف ان لوگوں کے سامنے ظاہر کریں : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے، اپنے بھائی، بھتجیے، بھانجے، مسلمان عورتیں، باندیاں ایسے نوکر جنہیں عورتوں کی خواہش نہ ہو، اور وہ لڑکے جو عورتوں کی شرم کی باتوں پر مطلع نہیں ہوتے، اور وہ اپنے پائوں سے اس طرح نہ چلیں جس سے ان کی اس زینت کا لوگوں کو علم ہوجائے جس کو وہ چھپا کر رکھتی ہیں اور اے مسلمانو ! تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف توبہ کرو تاکہ تم سب فلاح کو پہنچ جائو۔

قال ابوہریرۃ عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قال ان اللہ کتب علی ابن ادم حظہ من الزناء ادرک ذلک لا محالۃ فزنی العین النظر وزنی اللسانی النطق والنفس تمنی وتشتھی والفرج یصدق ذلک ویکذبہ۔ حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اولاد آدم پر ان کی زنا کاری کا حصہ لکھ دیا ہے، جس کو وہ لامحالہ پائیں گے، آنکھوں کا زنا دیکھنا، زبان کا زنا بولنا ہے، نفس تمنا کرتا ہے اور شہوت کرتا ہے اور اس کی شرمگاہ اس کی تصدیق کرتی ہے یا تکذیب کرتی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٢٤٣، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٥٧ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢١٥٢ )

مردوں سے عورتوں کے کلام کی ممانعت 

شرعی ضرورت کے بغیر عورت کا اجنبی مردوں سے کلام کرنا ممنوع ہے، اگر نماز میں امام بھول جائے تو اس کو متنبہ کرنے کے لئے مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتوں کو سبحان اللہ کہنے سے بھی منع فرمایا ہے وہ تالی بجا کر امام کو متنبہ کریں حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مرد سبحان اللہ کہیں اور عورتیں تالی بجائیں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٢٠٣ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٤٢٢، سنن ابودائود رقم الحدیث : ٩٣٩، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٠٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٣٤)

عورت کو سربراہ مملکت بنانے کی ممانعت پر قرآن اور سنت سے استدلال 

(النسائ : ٣٤) مرد عورتوں پر قوام (نگران یا حاکم) ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک فریق کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔

قوام کا معنی ہے کسی چیز کی رعایت اور حفاظت کرنا (المفردات ج ٢ ص 538) اس کا معنی کفالت کرنا اور خرچ اٹھانا بھی ہے۔ (لسان العرب ج ١٢ ص ٥٠٣، تاج العروس ج ٩ ص ٣٥)

امام رازی شافعی لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ نے عورتوں پر مردوں کے غلبہ اور حاکمیت کی دو وجہیں بیان کی ہیں، پہلی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے ایک فریق کو دوسرے پر فضیلت دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر طبعاً اور شرعاً متعدد وجوہ سے فضیلت عطا کی ہے، طبعاً فضیلت اس طرح دی ہے کہ عقل و دانش اور قوت و طاقت کے اعتبار سے چند مستشنیات سے قطع نظر مرد عورتوں سے افضل ہوتے ہیں، اسی وجہ سے علم اور حکمت اور شجاعت اور بہادری کے کارناموں کا زیادہ ظہور مردوں سے ہوتا ہے اور شرعاً فضیلت یہ ہے کہ انبیاء اور رسل مردوں سے مبعوث ہوئے ہیں اور حکومت، خلافت، نماز کی امامت، جہاد کی امارت، اذان، خطبہ، اعتکاف اور حدود و قصاص میں شہادت یہ تمام احکام بالا تفاق مردوں کیساتھ مخصوص ہیں اور وراثت اور دیت میں مرد کا حصہ عورت سے دوگنا ہے، طلاق دینے، رجوع کرنے اور متعدد عورتوں سے نکاح کرنے کا حق بھی مردوں کو دیا ہے، ان تمام وجوہ سے مردوں کی عورتوں پر برتری اور فضیلت واضح ہے اور عورتوں پر مردوں کی حاکمیت کی دوسری وجہ یہ بیان کی ہے کہ وبما انفقوا من اموالھم ” اس وجہ سے کہ مرد عورتوں پر اپنا مال خرچ کرتے ہیں “ کیونکہ مرد عورت کو مہر دیتا ہے اور اس کی ضروریات کی کفالت کرتا ہے۔ (تفسیر کبیرج ٤ ص 70-71 داراحیاء التراث العربی بیروت)

علامہ آلوسی حنفی لکھتے ہیں ،

الرجان قوامون کا معنی یہ ہے کہ جس طرح حاکم رعایا پر اپنے احکام نافذ کرتا ہے، اسی طرح مرد عورتوں پر احکام نافذ کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت حاصل ہے، کیونکہ نبوت، رسالتخ حکومت، امامت، اذان اقامت، خطبات اور تکبیرات تشریق وغیرہ مردوں کے ساتھ مخصوص ہیں۔ (روح المعانی جز ٥ ص ٣٥، دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

مذاہب اربعہ کے مفسرین کی تصریحات سے یہ واضح ہوگیا کہ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں پر حاکم بنایا ہے، ہرچند کہ یہ آیت براہ راست خاگنی امور سے متعلق ہے لیکن اول تو اس آیت میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو اس آیت کو خانگی امور کے ساتھ خاص کرتا ہو، ثانیاً جب اللہ تعالیٰ نے ایک گھر کی ذمہ داری عورت پر نہیں ڈالی تو پورے ملک کی ذمہ داری اس پر کیسے ڈلای جاسکتی ہے ؟ اس لئے اول تو اپنے عموم کی بنئا پر یہ آیت عبارۃ النص سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو ملک کا حاکم یا سربراہ نہیں بنایا جاسکتا اور ثانیاً دلالتہ العص سے اس پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو ملک کا بلکہ کسی شعبہ کا بھی سربراہ نہیں بنایا جاسکتا۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں کا قوام یعنی نگران اور کفیل بنایا ہے اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ ملک کا سربراہ اور حاکم ملک کے مردوں اور عورتوں سمیت تمام عوام کا قوال یعنی نگراں اور کفیل ہوتا ہے پس اگر عورت کو ملک کا سربراہ اور حاکم بنادیا جائے تو وہ عورت ملک کے تمام مردوں کی نگراں اور کفیل ہوگی اور یہ چیز صراحتہ قرآن مجید کے خلاف ہے، اسی طرح اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مردوں کو عورتوں سیافضل قرار دیا ہے اور یہ ایک بدیہی بات ہے کہ حاکم محکوم سے منصب حکومت کے اعتبار سے افضل ہوتا ہے، سو اگر عورت ملک کا سربراہ اور حاکم بنادیا جائے تو اسے اپنے شوہر سمیت سب مردوں پر افضیلت حاصل ہوگی، اور یہ سرا سر قرآن مجید کے خلاف ہے، لہٰذا اگر عورت کو ملک کا سربراہ بنایا جائے خواہ ریاست کی سربراہ ہو یا اتنظامیہ کی تو ان دو وجہوں سے قرآن مجید کی مخالفت لازم آئے گی !

حضرت ابوبکر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچی کہ اہل فارس نے کسریٰ کی بیٹی کو حکمران بنا لیا ہے تو آپ نے فرمایا وہ قوم ہرگز فلاں نہیں پائے گی جس نے عورت کو اپنا امیر بنا لای۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٠٩٩، ٤٤٢٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٢٦٢، سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٤٠٣، مسند احمد ج ٥ ص ٤٣، المستدرک ج ٣ ص ١١٨، شرح السنتہ رقم الحدیث : ٢٤٨٥ سنن کبری للبیہقی ج ٣ ص ٩٠)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب تمہارے حکام نیک ہوں گے، اور تمہارے مالدار لوگ سخی ہوں گے اور تمہارے باہمی معاملات مشورے سے ہوں گے تو تمہارے لئے زمین کے اوپر کا حصہ نچلے حصہ سے بہتر ہوگا اور جب تمہارے حاکم بدکردار ہوں گے اور تمہارے مالدار بخیل ہوں گے اور تمہارے معاملات تمہاری عورتوں کے سپرد ہوں گے تو تمہارے لئے زمین کے نیچے کا حصہ زمین کے اوپر کے حصہ سے بہتر ہوگا۔ (سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٢٦٦ المسند الجامع رقم الحدیث : ١٤٦٧٩) 

عورت پورے ملک کی سربراہ ہو یا مردوں کے کسی ایک ادارہ کی سربراہ ہو تو بہرحال عورت مردں پر مقدم ہوگی حالانکہ حدیث میں حکم یہ ہے کہ عورتوں کو مردوں سے مئوخر رکھا جائے۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) نے فرمایا عورتوں کو مئوخر رکھو جس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کو مئوخر رکھا ہے۔

(مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٥١١٦، قدیم، ٥١٢٩، جدید المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٩٤٨٤ حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کے تمام راوی صحیح ہیں، مجمع الزوائد ج ٢ ص ٤ و)

عورتوں کی سربراہی کی ممانعت کے متعلق فقہاء مالکیہ کی تصریحات 

قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی المالکی المتوفی ٥٤٣ ھ لکھتے ہیں :

امام بخاری نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے کہ کسریٰ کے مرنے کے بعد جب اس کی قوم نے اس کی بیٹی کو اپنا حاکم بنا لیا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ارشاد فرمایا : وہ قوم فلاں نہیں پائے گی جس نے اپنے معاملات کا حاکم عورت کو بنادیا۔ اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ عورت خلیفہ نہیں ہوسکتی اور اس میں کسی کا اختلاف نہیں ہے۔ امام ابن جریر طبری سے یہ مقنلو ہے کہ عورت کو قاضی بنانا جائز ہے ان سے یہ نقل صحیح نہیں ہے (کیونکہ اس آیت النمل : ٢٣ کی تفسیر میں انہوں نے اس مسئلہ میں کچھ نہیں لکھا، اگر ان کے نزدیک عورت کو قاضی بنانا جائز ہوتا تو اس مقام پر اپنا مختار لکھ دیتے) اسی طرح امام ابوحنیفہ سے یہ مقنول ہے کہ جس معاملہ میں عورت کی گواہی جائز ہے اس معاملہ میں عورت کی قضا بھی جائز ہے، اگر یہ قول ثابت ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایک انفرادی معاملہ میں عورت کو فرقین حاکم بنالیں تو یہ جائز ہے نہ یہ کہ عورت کہ بہ طور عموم حاکم بنانا جائز ہے اور امام ابوحنیفہ اور امام ابن جریر سے حسن ظن بھی یہی ہے۔

ابن طرار شیخ الشافعیہ نے یہ اعتراض کیا کہ قاضی سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ گواہوں کے بیانات کو سنے اور فریقین کے درمیان فیصلہ کرے اور یہ کام جس طرح مرد کرسکتا ہے عورت بھی کرسکتی ہے، قاضی ابوبکر بن الطیب مالکی اشعری نے اس کے جواب میں کہا کہ خلیفہ اور حاکم سے مقصود یہ ہوتا ہے کہ وہ سرحدوں کی حفاظت کرے، ملک کے داخلی معاملات کا انتظام کرے، قوم کو متحد رکھے، زکوۃ اور خراج کو وصول کر کے مستحقین پر خرچ کرے اور ان کاموں کو عورت اس طرح انجام نہیں دے سکتی جس طرح ان کاموں کو مرد انجام دیتے ہیں۔

قاضی ابوبکر بن العربی فرماتے ہیں یہ دونوں بزرگ اپنے اپنے مئوقف پر کوئی قوی دلیل نہیں لاسکے، خلیفہ اور حاکم مجلس میں بیٹھ کر مل ک کے داخلی اور خارجی، انتظامی امور انجام دیتا ہے، اور عورت عام مجالس میں نہیں بیٹھ سکتی اور نہ مردوں کے ساتھ مل جل کر کوئی کام کرسکتی ہے (کیونکہ شرعاً ، وہ ستر اور حجاب کی پابند ہے) کیونکہ جو ان عورت کو دیکھنا اور اس سے کلام کرنا حرام ہے۔ (احکام القرآن ج ٣ ص ٤٨٣-٤٨٢) مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت، ١٤٠٨ ھ)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے بھی یہ عبارت نقل کر کے اس سے استدلال کیا ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٣ ص ١٧١ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ )

عورتوں کی سربراہی کی ممانعت کے متعلق فقہاء شافعیہ کی تصریحات 

امام ابومحمد الحسین بن مسعود البغوی الشافعی المتوفی ٥١٦ ھ لکھتے ہیں :

اس پر اتفاق ہے کہ عورت خلیفہ اور قاضی بننے کی صلاحیت نہیں رکھتی کیونکہ جہاد کرنے کے لئے امام کو باہر نکلنے کی ضرورت ہوتی ہے اور مسلمانوں کے امور کے انتظام کے لئے بھی اس کو باہر نکلنا پڑتا ہے اور قاضی کو بھی مقدمات کا فیصلہ کرنے کے لئے باہر نکلتا پڑتا ہے، اور عورت کے لیء گھر سے باہر نکلنا جائز نہیں ہے کیونکہ عورت واجب الستر ہے اور وہ اپنے طبعی ضعف کی وجہ سے اکثر کاموں کو انجام دیتے سے عاجز ہے اور اس لئے عورت ناقص ہے اور خلافت اور قضا کامل ولایت کے منصب ہیں اس لئے اس منصب کو کامل مرد ہی انجام دے سکتے ہیں۔ (شرح السنتہ ج ١٠ ج ٧٧ رقم الحدیث : ٢٤٨٦، مطبوعہ المتکب الاسلامی بیروت، ١٤٠٣ ھ)

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :

علامہ خطابی شافعی نے کہا ہے کہ عورت خلافت اور قضا کی اہلیت نہیں رکھتی یہی جمہور فقہاء کا مسلک ہے۔ (فتح الباری ج ٨ ص ٤٧٢، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤٢٠ ھ)

عورتوں کی سربراہی کی ممانعت کے متعلق فقہاء حنبیلہ کی تصریحات 

علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی ٦٢٠ ھ لکھتے ہیں :

قاضی کے لئے مرد ہونا شرط ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنا حاکم عورت کو بنادیا، نیز قاضی عدالت میں مردوں کے سامنے بیٹھتا ہے اور اس کی رائے، عقل اور ذہانت کا کامل ہونا ضرویر ہے اور عورت ناقص العقل اور قلیل الرائے ہے اور مردوں کی مجلس میں حاضر ہنے کی اہل نہیں ہے، اور جب تک اس کے ساتھ مرد نہ ہو اس کی شہادت مقبول نہیں ہے خواہ اس کے ساتھ ہزار عورتیں ہوں۔ اللہ نے ان کے نسیان کی تصریح فرمائی ہے :

؁(القرہ : ٢٨٢) کہ ان دو میں سے کوئی ایک (عورت) بھول جائے تو اس ایک کو دوسری یاد دلا دے۔

اور عورت امامت عظمیٰ (خلافت) کی صلاحیت نہیں رکھتی اور نہ شہروں میں حاکم (گورنر) بننے کی صلاحیت رکھتی ہے، اسی لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نہ خلفاء راشدین میں سے کسی نے کسی عورت کو کس شہر کا حاکم بنایا اور نہ کسی عورت کو منصب قضا سونپا اور اگر یہ جائز ہوتا تو ہر زمانہ میں عورت خلیفہ، گورنر یا قاضی بنی ہوتی۔ (المغنی ج ٠١ ص ٩٤ مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤٠٥ ھ الکافی ج ٤ ص ٢٢٢ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٤١٤ ھ)

شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ حنبلی متوفی ٧٢٨ ھ لکھتے ہیں :

عقلمند شخص کو عورتوں کی اطاعت سے گریز کرنا چاہیے۔

حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں نے اپنے بعد مردوں کے لئے عورتوں سے بڑا فتنہ کوئی نہیں چھوڑا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٠٩٦ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٤٠ )

حضرت ابوبکرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا وہ قوم فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنے معاملات کا حاکم عورتوں کو بنادیا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٢٥، ٧٠٩٩)

حضرت ابوبکرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے آ کر آپ کو خبر دی کہ ایک قوم نے اپنا حاکم عورت کو بنا لیا، آپ نے یہ سن کر تین بار فرمایا جب مرد عورتوں کی اطاعت کریں گے تو وہ ہلاک ہوجائیں گے۔

(مسند احمد ج ٥ ص ١٤٥ المستدرک ج ٤ ص ٢٩١ حاکم نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے اور ذہبی نے ان کی موافقفت کی، حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند حسن ہے، حاشیہ مسند احمد رقم، ٢٠٣٣٤ طبع قاہرہ)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے عوتوں سے فرمایا میں نے تم سے زیادہ کوئی ناقصات عقل اور (ناقصات) دین نہیں دیکھیں جو کسی ہوشیار مرد کی عقل کو ضائع کرنے والی ہوں ! عورتوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہمارے دین کا نقصان کیا ہے اور ہماری عقل کا نقصان کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا کیا عورت کی شہادت مرد کی شہادت کی نصف کی مثل نہیں ہے انہوں نے کہا کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا، یہ عورتوں کی عقل کا نقصان ہے ! کیا یہ بات نہیں ہے کہ جب عورت کو حیض آتا ہے تو وہ نماز پڑھتی ہے نہ روزے رکھتی ہے ! انہوں نے کہا کیوں نہیں ! فرمایا یہ ان کے دین کا نقصان ہے !

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٠٤ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٧٩٨٠ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٦٧٩، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٦١٣ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٥٧٦ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٠٠٣ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١٤٣٤، السنن الکبری ٰ ج ۃ ص 308، مسند حمد ج ۃ ص 363، المستدرک ج ٢ ص 190 مشکوۃ رقم الحدیث : ١٩ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٥٠٧٥ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٠٠٠ مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٢٠١٠٥ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٥٢٢ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٦٦، الشریعتہ الآجری رقم الحدیث : ١٠٠ شرح السنتہ رقم الحدیث : ١٧) (مجموعتہ الفتاویٰ ج ٢٥ ص ١٧٣ مطبوعہ دار الجیل بیروت، ١٤١٨ ھ)

علامہ منصور بن یونس بھوتی حنبلی متوفی ١٠٥١ ھ لکھتے ہیں :

قاضی کا مرد ہونا ضروری ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے وہ قوم ہرگز فلاح نہیں پاسکتی جس نے اپنے معاملات کا حاکم عورت کو بنا لیا اور اس لئے عورت ناقص العقل اور قلیل الرائے ہے، مردوں کی محفل میں حاض رہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ (کشاف القناع ج ٦ ص ٣٧٤ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

حدود اور قاصص کے سوا عورتوں کی قضاء کے جواز کے متعلق فقہاء احناف کا موقف 

علامہ علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی المتوفی ٥٩٣ ھ لکھتے ہیں :

عورت کو حدود اور قصاص کے سوا ہر چیز میں قاضی بنانا جائز ہے اس کا اعتبار عورت کی شہادت پر کیا گیا ہے اور اس کی وجہ گزر چکی ہے۔ (ہدایہ اخیرین ص ١٤١ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان) علامہ کمال الدین محمد بن عبدالواحد متوفی ٨٦١ ھ اس کی شرح میں لکھتے ہیں :

ائمہ ثلاثہ نے کہا ہے کہ عورت کو قاضی بنانا جائز نہیں ہے کیونکہ عورت مردوں کے نزاعی معاملات میں حاض رہونے کی اہلیت نہیں رکھتی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس قوم نے عورت کو اپنے معاملات میں حاکم بنایا وہ فلاح نہیں پاسکتی، مصنف نے کہا اس کی قضا کے جواز کی وجہ گزر چکی ہے اور وہ یہ ہے کہ مصنف نے قضا کی بحث میں کہا ہے کہ قضا بھی شہادت کی طرح باب ولایت سے ہے اور عورت شہادت کی اہل ہے اس لئے وہ ولایت کی اہل ہے۔ (فتح القدیر ج ٧ ص 279، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ محمد بن محمود بابرتی متوفی ٧٨٦ ھ لکھتے ہیں ،

مصنف نے کتاب ادب القاضی کے شروع میں کہا ہے کہ قضا کا حکم شہادت کے حکم سے مستفاد ہوتا ہے کیونکہ ان میں سے ہر ایک ولایت (تصرف) کے باب سے ہے، پس ہر وہ شخص جو شہادت دینے کا اہل ہے وہ قاضی بننے کا اہل ہے اور جو چیزیں شہادت دینے کی شرائط ہیں وہ قضا (فیصلہ) کرنے کی شرائط ہیں۔ (ہدایہ اخیرین ص ١٣٣) اور عورت حدود اور قصاص کے سوا باقی معاملات میں شہادت دینے کی اہل ہے، سو وہ حدود اور قصاص کے سوا باقی معاملات میں قاضی بننے کی بھی اہل ہے۔ (العنایہ مع فتح القدیر ج ٧ ص 279، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ بدر الدین عینی حنفی نے بھی اس عبارت کی اسی طرح شرح کی ہے۔ (لبانیہ ج ٨ ص ٥٢ مطبوعہ دالافکر بیروت، ٤١١ ھ)

عالمہ ابوبکر بن معسود کا سانی حفنی متوفی ٥٨٧ ھ لکھتے ہیں :

قاضی کے لئے مرد ہونے کی شرط نہیں ہے، کیونکہ عورت بھی فی الجملہ شہادت دینے کی اہل ہے، مگر وہ حدود اور قصاص میں شہادت نہیں دے سکتی اور قضا کی اہلیت شہادت کی اہلیت پر موقف ہے۔ (بدائع الصنالع ج ٩ ص ٨٦، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤١٨ ھ)

حدود اور قصاص کے ماسوا میں عورت کی قضا کا جواز اس کو مستزلم نہیں کہ اس کو دیوانی عدالت کا قاضی بنادیا جائے 

فقہاء احناف نے جو یہ کہا ہے کہ حدود اور قصاص (فوجداری مقدمات) کے سوا باقی معاملات (دیوانی مقدمات) میں عورت قاضی بن سکتی ہے اس سے بعض لوگوں کو یہ وہم ہوا ہے کہ فقہاء احناف کے نزدیک عورت امام، خلیفہ اور سربراہ مملکت بھی بن سکتی ہے، سو اس جگہ اس پر غور کرنا چاہیے کہ عورت دیوانی معاملات میں اکیلی گواہی نہیں دے سکتی بلکہ ایک عورت بھی گواہی نہیں دے سکتی صرف دو عورتیں مل کر ایک مرد کے ساتھ گواہی دے سکتی ہے، علامہ مرغینانی متوفی ٥٩٣ ھ فرماتے ہیں۔

زنا کے سوا باقی حدود اور قصاص میں دو مردوں کی گواہی قبول کی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : واستشھدوا شھیدین من رجالکم (البقرہ : ٢٨٢) دو مردوں کو گواہ بنائو اور ان میں عورتوں کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی (کیونکہ زہری نے کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد اور حضرت ابوبر اور عمر اور ان کے بعد سے یہ سنت جاری ہے کہ حدود اور قصاص میں عورتوں کی گواہی نہیں ہے۔ مصنف ابن ابی شیبہ ج ١١ ص ٧٩) اور ان کے علاوہ دیگر حقوق میں دو مردوں کی یا ایک مرد اور دو عورتوں کی ہشادت قبول کی جائے گی خواہ ان حقوق کا تعلق مال سے ہو یا معاملات سے جسے نکاح، طلاق، وکالت اور وصیت وغیرہ (مثلاً عتاق اور نسب) (ہدایہ اخیرین ص ز ٥ ۃ مطبوعہ مکتبہ شرکت علمیہ ملتان)

صرف ایک شخص کا بطور قاضی تقرر کیا جاتا ہے اور دیوانی معاملات میں صرف ایک عورت کی گواہی جائز نہیں ہے اس لئے دیوانی معاملات میں بھی عورت کو قاضی بنانا جائز نہیں ہے چہ جائیکہ اس کو سربراہ مملکت بنانا جائز ہو، ہاں بعض امور میں صرف ایک عورت کی گواہی جائز ہے سو اس صورت میں اس کی قضا بھی جائز ہے اور وہ صورت یہ ہے :

ولادت میں بکارت میں اور خواتین کے دیگر ان عیوب میں جن پر مرد مطلع نہیں ہوتے ان امور میں ایک عورت کی شہادت بھی قبول کی جائے گی۔ حضرت ابن عمر نے کہا تنہا عورتوں کی ہشادت دینا جائز نہیں ہے، ماسوا ان صورتوں کے جن پر مرد مطلع نہیں ہوتے۔ (سنن کبری للبیہقی ج ١٠ ص ١٥١ )

(ہدایہ اخیرین ص ١٥٥ مطبوعہ شرکت علمیہ ملتان، المبسوط للسرخسی ج ١٦ ص ١٧٠ دارالکتب العلمیہ بیروت، ١٤٢١ ھ)

ہدایہ اور مبسوط کی اس عبار سے واضح ہوگیا کہ صرف ایک عورت کی قضا صرف ولادت اور بکارت ایسے امور میں جائز ہے جیسے دائی یا لیڈی ڈاکٹر بتائے کہ یہ عورت کنواری ہے یا نہیں یا اس کو حمل ہے یا نہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی مخصوص مخاملہ میں جب اس کی تحقیق کی ضرورت ہو مثلاً کوئی یہ دعویٰ کرے کہ اس عورت کے ساتھ زنا بالجبر کیا گیا تو لیڈی ڈاکٹر معائنہ کر کے بتادے کہ واقعی اس کے ساتھ ایسا کیا گیا ہے یا یہ ہنواز کنواری ہے اور اس کی بکارت قائم ہے اور جزوی معاملہ میں عورت کی قضا اور اس کے قول کے حجت ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ عورت کو عمومی طور پر عدالت میں قاضی لگا دیا جائے یا اس کو سربراہ مملکت بنادیا جائے یہ فقہاء احناف پر بہتان عظیم ہے، اب ہم علامہ علائی اور علامہ شامی کی عبارات سے یہ واضح کر رہے ہیں کہ عوتر کے لئے امامت کبریٰ جائز نہیں ہے یعنی اس کو مسلمانوں کا امام خلیفہ یا سربراہ مملکت بنانا جائز نہیں ہے 

عورت کو سربراہ مملکت بنانے کے عدم جواز کے متعلق فقہاء احناف کی تصریحات 

علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :

لوگوں پر عام تصرف کے استحقاق کو امامت کبریٰ کہتے ہیں اور امام کو مقرر کرنا سب سے اہم واجبات میں سے ہے اس کی شرط یہ ہے کہ وہ شخص مسلمان ہو آزاد ہو، مرد ہو، عاقل بالغ ہو، صاحب قدرت ہو، قریشی ہو، اس کا ہاشمی ہونا یا علوی ہونا یا معصوم ہونا شرط نہیں ہے۔ (الدرالمختار مع ردالمختارج ٢ ص ٢٤٠ مطبوعہ داراحیاء التراث العرببی بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ لکھتے ہیں :

خلیفہ اور سربراہ مملکت کے لئے مرد ہونے کی شرط اس لئے لگائی گی ہے کہ عورتوں کو گھروں میں رہنے کا حکم دی ایا ہے، کیونکہ ان کے احوال ستر اور حجاب پر مبنی ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے وہ قوم کیسے فلاح پائے گی جس کی بادشاہ عورت ہو۔ (ردالمختارج ٢ ص ٢٤٠، مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٩ ھ)

نیز عالمہ شامی فرماتے ہیں :

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ عورت کو امام کیمنصب پر مقرر کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ وہ اس کی اہل نہیں ہے اور نہ اس کو امام کے قائم مقام مقرر کرنا جائز ہے۔ (ردالمختارج ٨ ص ١٢٧ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت، ١٤١٨ ھ)

عورت کی سربراہی کے متعلق ہم نے شرح صحیح مسلم ج ٥ ص 682-690 میں مفصل بحث کی ہے اور تبیان القرآن ج ٣ ص 656-658 میں بھی اس پر لکھا ہے، لیکن اس مقام پر سب سے زیادہ لکھا ہے۔

تخت بلقیس کی صفت 

نیز ہد ہد نے کہا اس کو ہر چیز سے دیا گیا ہے، یعنی اس دور میں بادشاہوں کو جن چیزوں کی ضرورت ہوتی تھی وہ سب اشیاء اس کے پاس موجود تھیں۔

اور ہد ہد نے کہا اس کا بہت بڑا تخت ہے۔

حضرت ابن عباس نے فرمایا وہ قیمتی اور خوبصورت تخت تھا، وہ سونے کا بنا ہوا تھا اور اس کے پائے جواہر اور موتیوں کے تھے۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٢٠٤٨٤، مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں۔

امام ابن حاتم نے زہیر بن محمد سے روایت کیا ہے کہ وہ سونے کا تخت تھا اور اس کے اوپر یاقوت اور زمرد جڑے ہوئے تھے اس کا طول اسی (80) ہاتھ کا اور عرض چالیس (٤٠) ہاتھ کا تھا، سوہ سات منزلہ تخت تھا، اس کی حقیقت کو اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے، ظاہر یہ ہے کہ عشر سے مراد تخت ہے، ہد ہد نے اس کو بہت عظیم اس لئے کہا کہ اس نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے ملک میں اتنا بڑا اور اتنا خوبصورت تخت نہیں دیکھا تھا، یا اور بادشاہوں کے پاس ایسا تخت نہیں دیکھا تھا، حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہرچند کہ بہت بڑے بادشاہ تھے لیکن ان کے پاس بھی اتنا عظیم الشان تخت نہیں تھا، ہد ہد نے اس تخت کی اس قدر تعریف اور توصیف اس لئے کی حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس کی باتوں کی طرف متوجہ ہوں اور ان کو یہ خیال آئے کہ ہد ہد جو غیر حاضر رہا تھا وہ یونہی وقت ضائع کرنے کے لئے نہیں گیا تھا بلکہ بہت قیمتی معلومات حاصل کر کے آیا ہے۔ (روح المعانی جز 19 ص 283 مطبوعہ دارالفکر بیروت، ١٤١٧ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 23