أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَلَمَّا جَآءَهَا نُوۡدِىَ اَنۡۢ بُوۡرِكَ مَنۡ فِى النَّارِ وَ مَنۡ حَوۡلَهَا ؕ وَسُبۡحٰنَ اللّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

پھر جب وہ اس جگہ پہنچے تو ان کی ندا کی گئی کہ جو لوگ آگ (کی تجلی) میں ہے اور جو اس کے آس پاس ہے وہ برکت والا ہے ‘ اور اللہ سبحان ہے جو تمام جہانوں کا رب ہے

حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے درخت میں جو آگ دیکھی وہ اصل میں کیا چیز تھی 

النمل : ٨ میں فرمایا : ان کو ندا کی گئی جو آگ (کی تجلی) میں ہے اور اس کے پاس ہے وہ برکت والا ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اس سے مراد اللہ عزوجل کی ذات ہے۔ انہوں نے فرمایا رب العلمین کا نور درخت میں تھا۔ (جامع البیان رقم الحدیث : ٥٢٤٠٢)

امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے اس کے علاوہ اور بھی اقوال ذکر کیے ہیں وہ کہتے ہیں دوسراقول یہ ہے کہ جو آگ میں ہے اس سے مراد اللہ کا نور ہے اور جو اس کے آس پاس ہے اس سے مراد فرشتے ہیں ‘ یہ قتادہ اور زجاج کا قول ہے۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس کلام سے ندا کی جس کو انہوں نے اس مبارک سرزمین میں ایک درخت سے سنا۔ پس وہ درخت آگ میں تھا اور اس کے آس پاس فرشتے تھے اس لیے فرمایا اس کو برکت دی گئی جو آگ میں تھا اور جو اس کے آس پاس تھے۔ یہ جبائی کا قول ہے ‘ چوتھا قول یہ ہے کہ جو آگ میں ہے اس سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ہیں کیونکہ وہ آگ کے قریب تھے ‘ اور جو اس کے پاس ہے اس سے مراد فرشتے ہیں ‘ اور یہ قول زیادہ قریب ہے کیونکہ جو شخص کسی چیز کے قریب ہو اس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اس میں ہے ‘ پانچواں قول صاحب کشاف کا ہے کہ جس کو برکت دی گئی ہے یہ وہ مبارک سرزمین ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے :

فلمآ اتھا نودی من شاطیء الواد الایمن فی البقعۃ المبرکۃ من الشجرۃ ان یموسی انی انا اللہ رب العلمین۔ (القصص : ٠٣) پس جب موسیٰ وہاں پہنچے تو اس برکت والی زمین کے میدان کے دائیں کنارے کے درخت سے ان کو آواز دی گئی کہ اے موسیٰ ! بیشک میں اللہ رب العلمین ہوں۔

(تفسیر کبیر ج ٨ ص ٤٤٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

علامہ ابوعبد اللہ قرطبی متوفی ٨٦٦ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابن عباس ‘ حسن بصری اور محمد بن کعب نے کہا وہ آگ اللہ عزوجل کا نور ہے ‘ اس کی تاویل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ایک عظیم نور کو دیکھا اور اس کو آگ گمان کیا ‘ اور یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لیے اپنی آیات اور اپنے کلام کو آگ سے ظاہر فرمایا۔ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی جہت اور کسی سمت میں تھا جیسے قرآن مجید میں ہے :

وھو الذی فی السمآء الہ فی الارض الہ ط (الزخرف : ٤٧) وہ ذات جو آسمان میں عبادت کا مستحق ہے اور زمین میں عبادت کا مستحق ہے۔

اس آیت کا معنی نہیں ہے کہ آسمان اور زمین اللہ تعالیٰ کے لیے ظرف اور محل ہیں ‘ اسی طرح اس آگ میں اللہ تعالیٰ کے ہونے کا یہ معنی نہیں ہے کہ وہ آگ اللہ تعالیٰ کے لیے ظرف اور محل ہے ‘ لیکن ہر فعل میں اللہ تعالیٰ کا ظہور ہوتا ہے جس سے فاعل کا علم ہوتا ہے ‘ اس آیت کا یہ معنی بھی ہے کہ جس کو آگ میں برکت دی گئی وہ اللہ تعالیٰ کی سلطنت اور اس کی قدرت ہے۔(الجامع الاحکام القرآن جز ٣١‘ ص ٨٤١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٥١٤١ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) نے جو یہ فرمایا ہے جو آگ میں ہے اس سے مراد اللہ عزوجل کی ذات ہے یعنی رب العلمین کا نور درخت میں تھا اس کی تائید سب ذیل احادیث سے ہوتی ہے :

حضرت ابو موسیٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ سوتا نہیں ہے اور نہ سونا اس کی شان کے لائق ہے وہ (اعمال کے) ترازو (کے پلڑے) کو جھکا تا ہے اور اوپر اٹھاتا ہے ‘ اس کا حجاب نور ہے ‘ اگر وہ اس نور کو منکشف کر دے تو اس کے چہرے کی تجلیات انتہاء بصر تک ہر چیز کو جلادیں گی۔(سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٩١‘ سنن ابودائود الطیالسی رقم الحدیث : ١٩٤‘ مسند احمد ج ٤ ص ٥٩٣‘ صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٩١‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٦٢‘ الشریعۃ للآ جری رقم الحدیث : ٤٠٣‘ الاسماء والصفات رقم الحدیث : ٠٨‘ شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٩)

حضرت ابو موسیٰ ٰ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہماری مجلس میں کھڑے ہوئے اور آپ نے پانچ باتیں بتائیں۔ آپ نے فرمایا اللہ عزوجل سوتا نہیں ہے اور نہ سونا اس کی شان کے لائق ہے ‘ وہ ترازو (کے پلڑے) کو جھکاتا ہے اور اس کو اوپر اٹھاتا ہے۔ دن کے اعمال سے پہلے اس کی طرف رات کیا عمال بلند کیے جاتے ہیں اور رات کے اعمال اس کی طرف دن کے اعمال سے پہلے بلند کیے جاتے ہیں۔ اس کا حجاب نور ہے ‘ اور ابوبکر کی روایت میں نار کا لفظ ہے ‘ اگر وہ اپنے چہرے کی تجلیات کو منکشف کردے تو وہ منتھاء بصر تک اس کی مخلوق کو جلادیں گی۔(صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٧١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٥٩١)

اس حدیث میں جو ترازو کے پلڑے کو جھکانے اور اوپر اٹھانے کا ذکر ہے ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن بندوں کے اعمال کو وزن کیا جائے گا۔ بع ضبندوں کے نیک اعمال کا وزن کم ہوگا اور بعض بندوں کے نیک اعمال کا وزن زیادہ ہوگا اور اس حدیث میں سبحات وجھہ کا ذکر ہے۔ اس سے مراد ہے اس کے نور کا جلال ‘ اور اس حدیث میں ہے اس کا حجاب نور ہے۔ حقیقت میں حجاب اجسام محدودہ کا ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ جسم اور حد سے منزہ اور پاک ہے۔ حجاب سے مراد یہاں پر وہ چیز ہے جو رویت سے مانع ہو ‘ اور اس مانع کو نور یا نار سے تعبیر فرمایا ہے کیونکہ نور کی شعاعیں عادۃً ادراک کرنے اور دیکھنے سے مانع ہوتی ہیں اور وجہ (چہرہ) سے مراد اس کی ذات ہے اور انتہاء بصر تک کی مخلوقات سے مراد تمام مخلوقات ہیں ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی بصر تمام مخلوقات کو محیط ہے۔ اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ جو چیز اللہ تعالیٰ کی رویت اور اس کے دکھائی دینے سے مانع ہے اگر اللہ تعالیٰ اس مانع کو ہٹادے اور اپنی مخلوق پر تجلی فرمائے تو اس کی ذات کا جلال تمام مخلوق کو جلا کر خاکستر کردے گا۔

ابن جریج نے کہا ہے کہ نار اللہ تعالیٰ کے حجابات میں سے ایک حجاب ہے اور یہ سات حجابات ہیں :

(١) حجاب العزۃ (٢) حجاب الملک (٣) حجاب السلطان (٤) حجاب النار (٥) حجاب النور (٦) حجاب الغمام (٧) حجاب المائ۔ حقیقت یہ ہے کہ مخلوق محجوب ہے اور کوئی چیز اللہ کے لیے حجاب نہیں بن سکتی۔ قرآن مجید کی اس آیت میں جس نار کا ذکر ہے اس سے مراد نور ہے اور اس کو نار سے اس لیے تعبیر فرمایا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس نور کو آگ گمان کیا تھا ‘ اور عرب نور اور نار میں سے ہر لفظ کو دوسرے کی جگہ استعمال کرتے ہیں۔

سعید بن جبیر نے کہا یہ بعینہ آگ تھی اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اپنا کلام اس آگ کی ہر جانب سے سنایا اور اس کی ہر طرف سے اپنی ربوبیت کو ظاہر فرمایا۔

اس سلسلہ میں دیگر احادیث یہ ہیں : امام ابن ابی حاتم متوفی ٧٢٣ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا اللہ نور میں ہے ‘ اور نور سے ندا کی گئی۔

حضرت ابن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا درخت میں اور اس کے گردرب العلمین کا نور تھا۔

ابو صخر اس آیت کی تفسیر میں روایت کرتے ہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اس وادی کے کنارے اپنی بکریوں کو چرا رہے تھے ‘ جب ان بکریوں نے اس آگ کو دیکھا تو وہ متوحش ہو کر بھا گیں۔ حضرت موسیٰ نے کھڑے ہو کر ان بکریوں کو آوازدی تو وہ جمع ہوگئیں۔ پھر دوبارہ بھاگیں۔ پھر حضرت موسیٰ کے آواز دینے سے پھر جمع ہوگئیں۔ پھر سہ بارہ بھا گیں پھر حضرت موسیٰ نے کھڑے ہو کر اس آگ کو دیکھا۔ ابو صخر نے کہا یہ آگ نہیں تھی لیکن یہ اللہ عزوجل کا نور تھا اور وہی اس نور میں تھا اور یہ نور اسی سے تھا ‘ اور حضرت موسیٰ اس کے گرد تھے۔ (تفسیر امام بان ابی حاتم ‘ ملتقطا ‘ ج ٩ ص ٦٤٨٢‘ ٥٤٨٢‘ مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ بیروت ‘ ٧١٤١ ھ)

تورات میں بھی ان آیتوں کے مضمون کو بیان کیا گیا ہے :

اور خداوند کا فرشتہ ایک جھاڑی میں سے آگ کے شعلہ میں اس پر ظاہر ہوا۔ اس نے نگاہ کی اور کیا دیکھتا ہے کہ ایک جھاڑی میں آگ لگی ہوئی ہے ہر وہ جھاڑی بھسم نہیں ہوتی۔ تب موسیٰ نے کہا میں اب ذرا ادھر کترا کر اس بڑے منظر کو دیکھوں کہ یہ جھاڑی کیوں نہیں جل جاتی۔ جب خداوندنے دیکھا کہ وہ دیکھنے کو کترا کر آرہا ہے تو خدا نے اسے جھاڑی میں سے پکارا اور کہا اے موسیٰ ! اے موسیٰ ! اس نے کہا میں حاضر ہوں۔ تب اس نے کہا ادھر پاس مت آ۔ اپنے پائوں سے جوتا اتار کیونکہ جس جگہ تو کھڑا ہے وہ مقدس زمین ہے۔ پھر اس نے کہا میں تیرے باپ کا خدا یعنی ابرا ھام کا خدا اور اضحاق کا خدا اور یعقوب کا خدا ہوں۔ موسیٰ نے اپنا منہ چھپا یا کیونکہ وہ خدا پر نظر کرنے سے ڈرتا تھا۔ (پرانا عہد نامہ ص ٦٥‘ خروج باب : ٢ آیت : ٧۔ ٢‘ مطبوعہ بائبل سوسائٹی ‘ لاہور ‘ ٢٩٩١ ئ)

تورات کے اس اقتباس سے ظاہر ہوگیا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بغیر کسی کتاب کو پڑھے اور بغیر کسی عالم سے سنے وہی مضمون بیان فرمایا جو تورات میں لکھا ہوا تھا اور بنو اسرائیل کو معلوم تھا۔ اس سے ثابت ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ واقعہ اللہ تعالیٰ کی وحی سے معلوم ہوا اور یہ آپ کی نبوت اور قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ قرآن مجید کتب سابقہ کا مصدق ہے۔ قرآن مجید میں ہے :

وانزلنا الیک الکتب بالحق مصدقالما بین یدیہ من الکتب۔ (المائدہ : ٨٤) اور ہم نے حق کے ساتھ آپ کی طرف یہ کتاب نازل فرمائی ہے جو اس سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 8