أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاَدۡخِلۡ يَدَكَ فِىۡ جَيۡبِكَ تَخۡرُجۡ بَيۡضَآءَ مِنۡ غَيۡرِ سُوۡٓءٍ‌ فِىۡ تِسۡعِ اٰيٰتٍ اِلٰى فِرۡعَوۡنَ وَقَوۡمِهٖؕ اِنَّهُمۡ كَانُوۡا قَوۡمًا فٰسِقِيۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور آپ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالیں تو وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا ‘ آپ نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جائیے ‘ بیشک وہ نافرمانوں کا گروہ ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور آپ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالیں تو وہ بغیر کسی عیب کے چمکتا ہوا نکلے گا۔ آپ نو نشانیاں لے کر فرعون اور اس کی قوم کے پاس جائیے بیشک وہ نافرمانوں کا گروہ ہے۔ سو جب ان کے پاس ہماری بصیرت افروز نشانیاں آگئیں تو انہوں نے کہا یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔ انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان نشانیوں کا انکار کردیا حالانکہ ان کے دل ان (نشانیوں کی صداقت) کا اعتراف کرچکے تھے۔ پس دیکھیے ان فتنہ پر لوگوں کا کیسا انجام ہوا۔ (النمل : ۱۴۔ ۱۲ )

عصا کے علاوہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے دیگر معجزات 

برص کے داغ بھی بہت زیادہ سفید ہوتے ہیں مگر ان کو عیب شمار کیا جاتا ہے ‘ اس لیے واضح فرمایا کہ آپ کا ہاتھ بغل میں ڈالنے کے بعد ہرچند کہ بہت سفید ہو کرنکلے گا ‘ مگر وہ برص کی طرح عیب دار نہیں ہوگا۔

اس کے بعد بتایا کہ آپ کی لاٹھی کا ڈالنے کے بعد اژدھا بن جانا اور بغل میں ڈالنے کے بعد آپ کے ہاتھ کا روشن اور سفید ہوجانا ‘ آ کو دی جانے والی نو نشانیوں اور آپ کے نو معجزات میں سے ہے ‘ باقی سات نشانیاں یہ ہیں ‘ فرعونیوں پر قحط کے سالوں کا مسلط کیا جانا ‘ پھلوں کا کم ہونا ‘ ٹڈیاں ‘ جوئیں ‘ مینڈک ‘ خون اور طوفان۔

پھر بتایا کہ آ پکو فرعون اور اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا گیا ہے کیونکہ یہ لوگ فاسق تھے یعنی ایمان اور اعمال صالحہ کی حدود سے نکل کر کفر اور بدکارویں میں داخل ہوچکے تھے ‘ فسق کا معنی ہے خروج۔

پھر بتایا کہ جب حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے ان کو کھلی کھلی نشانیاں دکھائیں تو انہوں نے نشانیوں کا انکار کیا اور کہا یہ تو کھلا ہوا جادو ہے۔

پھر بتایا کہ انہوں نے اپنی زبانوں سے ان چیزوں کو اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید کی نشانی قراردینے سے انکار کیا۔

جحود کا معنی ہے کسی چیز کو پہچاننے کے باوجو ہٹ دھرمی سے اس کا انکار کرنا ‘ حالانکہ ان کے دل یہ مانتے تھے کہ یہ چیزیں اللہ تعالیٰ کی الوہیت اور اس کی توحید کی پکی نشانی ہیں۔

ابو اللیث نے کہا ان کے دلوں میں ان نشانیوں کے سچی ہونے کا اس لیے یقین تھا کہ جب بھی ان پر کوئی عذاب آتا مثلاً ان کا گھر خون سے بھر جاتا ان کے پانی کے برتنوں میں پانی کی جگہ خون ہوتا تو پھر وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے فریاد کرتے کہ اس عذاب کو ان سے دور کردیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) دعا فرماتے تو وہ عذاب ان سے دور ہوجاتا۔ اس سے ان کے دلوں میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی صداقت کا یقین ہوجاتا ‘ اس طرح جب ان پر قحط سالی آتی یا ان کے گھر مینڈکوں اور ٹڈیوں سے بھر جاتے تو اس عذاب سے نجات کے لیے وہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے پاس جاتے تھے کیونکہ ان کو یقین تھا کہ آپ اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں اور آپ کی دعا سے ہی ان سے یہ مصیبت ٹلے گی۔ پھر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے ان کو اس عذاب سے نجات مل جاتی لیکن وہ اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہیں آتے تھے اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا اور ان کے پیغام کا مسلسل انکار کیے جاتے تھے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص اور قمیص میں بٹن لگانے کی تحقیق 

النمل : ۱۲ میں فرمایا ‘ اور آپ اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالیں۔

امام الحسین بن مسعود بغوی متوفی ٦١٥ ھ لکھتے ہیں :

جیب کے معنی ہیں گریبان ‘ اہل تفسیر نے کہا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کھلے ہوئے گریبان کی قمیص پہنے ہوئے تھے اس میں نہ آستین تھی نہ گھنڈیاں (بٹن) تھیں ‘ سو انہوں نے اپنا ہاتھ گریبان میں ڈالا۔ (معالم التنزیل ج ٣ ص ٢٩٤‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٠٢٤١ ھ)

بعض احادیث میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے گریبان کے بٹن کھل ہوئے ہوتے تھے :

معاویہ بن قرۃ بیان کرتے ہیں کہ میرے والد (رض) نے حدیث بیان کی کہ میں مزینہ کی ایک جماعت کے ساتھ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا ‘ پس ہم نے آپ سے بیع ت کی اس وقت آپ کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے ‘ پھر میں نے اپنا ہاتھ آپ کی قمیص کے گریبان میں ڈالا اور میں نے مہر نبوت کو چھوا ‘ عروہ کہتے ہیں کہ میں نے جب بھی معاویہ اور ان کے بیٹے کو دیکھا تو ان کی قمیصوں کے بٹن کھلے ہوئے ہوتے تھے ‘ خواہ سردی ہو یا گرمی اور وہ کبھی بھی اپنی قمیصوں کے بٹن نہیں لگاتے تھے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٨٠٤‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٨٧٥٣‘ شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٧٥‘ مسند احمد ج ٣ ص ٣٤٣ )

قمیص کے بٹن لگانے کے متعلق بھی احادیث ہیں :

حضرت زید بن ابی اوفیٰ (رض) نے ایک طویل حدیث روایت کی اس میں ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضر عثمان کو بلایا اور فرمایا :

اے عثمان قریب ہو ! اے عثمان قریب ہو ! پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کو مسلسل قریب ہونے کے لیے فرماتے رہے ‘ حتی کہ انہوں نے اپنے زانو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زانو کے ساتھ ملا لیے ‘ پھر آپ نے ان کی طرف دیکھا ‘ پھر آسمان کی طرف دیکھا پھر تین بار فرمایا : سبحان اللہ العظیم پھر حضرت عثمان کی طرف دیکھا تو ان کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے ‘ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنے ہاتھ سے ان کے بٹن بند کردیے ‘ پھر فرمایا اپنی چادر کو دہرا کر کے اپنے سینہ پر بادھ لو۔ (الحدیث) (المعجم الکبیر ج ٥ ص ١٢٢۔ ٠٢٢‘ رقم الحدیث : ٦٤١٥‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر (رض) کو دیکھا ان کی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے ‘ ان سے اس کا سبب پوچھا گیا تو انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس طرح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٤٦٥‘ مطبوعہ دارالمانمون للتراث ‘ بیروت ‘ ٨٠٤١ ھ)

امام ابو الشیخ حضرت ابن عمر (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسی قمیص نہیں بنائی جس میں گھنڈی (بٹن) ہو۔ (سبل الھدیٰ والرشاد ج ٧ ص ٥٩٢‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٤١٤١ ھ)

حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آستین پہنچے تک ہوتی تھی۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٦٧١‘ الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٥٥٣‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ١١٢)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص سوتی تھی۔ اس کی لمبائی کم تھی اور اس کی آستین چھوٹی تھی۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٧٥٣‘ الطبقات الکبریٰ ج ١ ص ٥٥٣‘ بیروت ٨١٤١ ھ)

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایسی قمیص پہنتے تھے جو ٹخنوں سے اوپر ہوتی تھی اور اس کی آستینیں انگلیوں تک ہوتی تھیں۔ (سبل الھدیٰ والرشاد ج ٧ ص ٤٩٢‘ مطبوعہ بیروت ‘ ٤١٤١ ھ)

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خاں فاضل بریلوی متوفی ٠٤٣١ ھ سے سوال کیا گیا :

اور حضور کے کرتہ شریف میں گھنڈی لگی تھی یا بٹن اور کرتہ شریف میں چاک کھلے تھے یا نہیں ؟ گھنڈی آپ کے کرتہ مبارک میں سامنے تھی یا ادھر ادھر تھی ؟

اعلیٰ حضرت اس جواب میں فرماتے ہیں :

کرتے مبارک میں بٹن ثابت ہیں ‘ چاک دونوں طرف تھے ‘ صحیح مسلم شریف میں اسماء بنت ابی بکر (رض) کی حدیث میں ہے : وفرجیھا مکفوفین بالدیبا ج گریبان مبارک سینہ اقدس پر تھا۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٢/٠١ ص ٣٩۔ ٢٩‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ کراچی ‘ ٢١٤١ ھ)

نیز اعلیٰ حضرت امام احمد رضاخاں فاضل بریلوی سے سوال کیا گیا :

حضور پر نور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کرتہ شریف کتنا نیچا تھا اور گریبان مبارک سینہ اقدس پر تھا یا دائیں بائیں اور چاک مبارک کھلی تھی یا دو ختہ اور بٹن لگے تھے ‘ یا گھنڈی۔ الخ 

اعلیٰ حضرت اس کے جواب میں لکھتے ہیں :

قمیص مبارک نیم ساق تک تھا۔ مواہب شریف میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص اور چادر کی لمبائی پنڈلیوں کے نصف تک تھی ‘ اور کم طول بھی وارد ہے ‘ حضرت انس (رض) بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص ہوتی تھی ‘ اس کی لمبائی اور آستینیں چھوٹی تھیں ‘ گریبان مبارک سینہ اقدس پر تھا ‘ دامن کے چاک کھلے ہونا ثابت ہے کہ اون پر ریشمی کپڑے کی گوٹ تھی اور گوٹ کھلے ہوئے چاکوں پر لگاتے ہیں ‘ اس زمانے میں گھنڈی ذ تکمے ہوتے تھے جن کو زرو عروہ کہتے ہیں ‘ بٹن ثابت نہیں نہ اون میں کوئی حرج (فتاویٰ رضویہ ج ١/٠١‘ ص ٤٠١‘ مطبوعہ مکتبہ رضویہ ‘ کراچی ‘ ٢١٤١ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قمیص کا گریبان کھلا ہوا ہوتا تھا اور اس میں گھنڈی یا بٹن لگے ہوئے نہیں ہوتے تھے اور آپ نے اسی طرح نماز پڑھی۔ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ‘ کا بھی یہی معمول تھا ‘ سنن ابودائود ‘ سنن ترمذی اور طبقات ابن سعد میں اسی طرح ہے ‘ البتہ امام طبرانی نے حضرت زید بن ابی اوفی سے روایت کیا ہے کہ حضرت عثمان کے کسی قمیص کے بٹن کھلے ہوئے تھے تو آپ نے ان کو بند کردیا ‘ اس زمانہ ‘ میں سیپ ‘ پلاسٹک یا اسٹیل کے بٹن نہیں ہوتے تھے۔ کپڑے کی بٹن نما ابھری ہوئی گول سی چیز ہوتی تھی جس کو کاج کے سوراخ میں ڈال دیتے تھے ‘ اس کو عربی میں زر اور اردو میں گھنڈی کہتے ہیں ‘ ہم نے اس کا ترجمہ بٹن کیا ہے۔

ہر چند کہ نماز اور غیر نماز میں گریبان کا کھلا رکھنا سنت ہے ‘ لیکن چونکہ آپ نے حضرت عثمان کے گریبان کے بٹن بند کردیئے تھے اس لیے نماز میں قمیص کے بٹن بند کرلینے چاہئیں اور یہ بھی آپ کی سنت ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 12