أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَجَحَدُوۡا بِهَا وَاسۡتَيۡقَنَـتۡهَاۤ اَنۡفُسُهُمۡ ظُلۡمًا وَّعُلُوًّا‌ ؕ فَانْظُرۡ كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الۡمُفۡسِدِيۡنَ۞

ترجمہ:

انہوں نے ظلم اور تکبر کی وجہ سے ان نشانیوں کا انکار کردیا حالانکہ ان کے دل ان (نشانیوں کی صداقت) کا اعتراف کرچکے تھے ‘ پس دیکھئے ان فتنہ پرور لوگوں کا کیسا انجام ہوا ؏

کفار اور مشرکین کو تنبیہ 

اللہ تعالیٰ نے فرعونیوں کے متعلق بتایا کہ انہوں نے کھلے کھلے اور روشن معجزات دیکھنے کے باوجود ظلم اور تکبر کی بنا پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت کا نکار کیا ‘ اس میں کفار مکہ کو تنبیہ کرنا ہے کیونکہ وہ سید نامحمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے روشن معجزات دیکھنے کے باوجود ظلم اور تکبر کی بنا پر آپ کی نبوت کا انکار کرتے تھے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کردیا سو جو فرعون اور اس کی قوم کو ہلاک کرچکا ہے اس کے لیے کفار مکہ کو ہلاک کرنا کیا مشکل ہے۔ اس لیے عقل والوں کو چاہیے کہ قوم فرعون کے حال سے نصیحت حاصل کریں اور ان کاموں کو ترک کردیں جن کاموں کی وجہ سے قوم فرعون کو عذاب میں مبتلا کرکے ہلاک کردیا گیا تھا ‘ اور ظلم اور تکبر کو چھوڑ کر عدل اور تواضع کو اختیار کریں اور نفس کے تقاضوں پر عمل کرنے کے بجائے ضمیر کی پکار پر لبیک کہیں۔

اور اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کے فیض کو قبول کرنے کی فطری صلاحیت اور استعداد کو ضائع کردیا اور وہ چوپایوں ‘ اور درندوں کے پست گڑھے میں گرگئے ان کا انجام یہ ہے کہ وہ آخرت میں شیاطین کے ساتھ دوزخ کی اٹھاہ گہرائیوں میں جا گرے۔ اللہ کے قرب اور اس کی معرفت کی بلندی میں چڑھنا مشکل ہوتا ہے اور نفس کی پستی میں اترنا آسان ہوتا ہے جیسے کسی پتھر کو آپ اوپر اچھالیں تو اپنی طبیعت کے تقاضے کے خلاف اس کے لیے اوپر جانا مشکل ہوتا ہے اور اپنے طبعی تقاضے کے موافق نیچے آنا اس کے لیے آسان ہوگا ‘ سو یہی حال کافروں کا ہے وہ شرک اور کفر کے خو گر اور عادی ہوچکے ہیں اور کفر ان کی طبیعت ثانیہ بن چکا ہے لہٰذا ان کے لیے کفر اور شرک کو چھوڑ کر اسلام اور توحید کی طرف آنا مشکل ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 14