قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيۡنَ اصۡطَفٰىؕ ءٰۤللّٰهُ خَيۡرٌ اَمَّا يُشۡرِكُوۡنَؕ۞- سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 59
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰهِ وَسَلٰمٌ عَلٰى عِبَادِهِ الَّذِيۡنَ اصۡطَفٰىؕ ءٰۤللّٰهُ خَيۡرٌ اَمَّا يُشۡرِكُوۡنَؕ۞
ترجمہ:
آپ کہیے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ‘ کیا اللہ اچھا ہے یا وہ (بت) جن کو وہ اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں ؏
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ سب تعریفیں اللہ ہی کے لیے ہیں ‘ اور اس کے برگزیدہ بندوں پر سلام ہو ‘ کیا اللہ اچھا ہے یا وہ جن کو وہ اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں۔ (النمل : ٥٩ )
ہر اہم کام کی ابتداء بسم اللہ ‘ الحمدللہ اور صلوٰۃ وسلام سے کرنے میں قرآن ‘ حدیث اور سلف صالحین کی اتباع ہے
اس آیت کا سابقہ آیات سے اس وجہ سے ارتباط ہے ‘ کہ آپ اس لیے اللہ کا شکرادا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت لوط (علیہ السلام) کی قوم کے کافروں اور بدکاروں کو ہلاک کردیا اور اس کے ان پسندیدہ بندوں پر سلام بھیجئے جن کو اس نے رسول بنا کر بھیجا اور ان کو کافروں کے عذاب سے نجات دی۔
اس آیت کا دوسرا محمل یہ ہے کہ یہ الگ مستقل کلام ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو انبیاء (علیہم السلام) کے احوال سنائے کہ ان کی قوموں پر ان کے کفر کی وجہ سے عذاب نازل کیا گیا اور آپ کی قوم کو اللہ تعالیٰ نے آسمانی عذاب سے محفوظ رکھا اور فرمایا :
وماکان اللہ لیعذبہم وانت فیھم (الانفال : ٣٣) اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ آپ کے ہوتے ہوئے ان پر عذاب نازل فرمائے۔
سو آپ اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کو شکرادا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو یہ خصوصیت عطا فرمائی ‘ اور انبیاء سابقین (علیہم السلام) پر سلام بھیجئے جنہوں نے انتہائی نامساعد حالات میں مشقت کر کے اور تکلیفیں اٹھا کر اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچایا اور کاررسالت انجام دیا۔
اس کے بعد جو آیات آرہی ہیں (٦٥- ٦٠) ان میں توحید پر دلائل دیئے گئے ہیں اور اس کے بعد (٧٢- ٦٦) کی آیتوں میں موت کے بعد دوبارہ زندہ کیے جانے پر دلائل دیئے گئے ہیں۔ اب آپ سے فرمایا کہ توحید اور بعث بعدالموت کے دلائل کو بیان کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کیجیے اور اس کے نبیوں پر اور ان کے بعد آنے والے نیک اور پسندیدہ بندوں پر سلام بھیجیے اور اس میں مقبولان بارگاہ ربالعزت کے ادب اور احترام کی تعلیم ہے اور اللہ تعالیٰ اور انبیاء اور صالحین کے ذکر سے برکت اور رحمت حاصل کرنے کی تلقین ہے ‘ اور ان کے مرتبہ اور مقام پر تنبیہ ہے کہ اصل مضامین کو شروع کرنے سے پہلے ان پر سلام بھیجنے سے ابتداء کی جاتی ہے اور سامعین کے دلوں اور دماغوں کو اس طرف متوجہ کرنا ہے کہ یہ بہت اہم پیغام ہے جس کو سنانے سے پہلے اللہ کی حمد جارہی ہے اور اس کے رسولوں اور پسندیدہ بندوں پر سلام بھیجا جا رہا ہے اور تو اتر اور تسلسل سے علمائ ‘ خطباء اور واعظین کا یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ وہ اپنے خطاب اور تقریر سے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد کرتے ہیں اور اس کے رسولوں پر سلام بھیجتے ہیں بلکہ اپنی کتابوں کے شروع میں بھی پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد بیان کرتے ہیں اور اس کے رسولوں پر سلام بھیجتے ہیں اس کے بعد کتاب کے مضامین شروع کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث بھی ہیں :
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر وہ عظیم الشان کام جس کو بسم اللہ الرحمن الرحیم سے شروع نہیں کیا وہ منقطع ہوجاتا ہے ‘ وہ ناقص رہتا ہے اور قلیل البرکۃ ہوتا ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٥٧٦١‘ کنز العمال رقم الحدیث : ٢٤٩١‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٦٢٨٤)
حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں :
اس حدیث کو حافظ عبدالقادر الرہاوی نے الاربعین میں ذکر کیا ہے اور یہ حدیث حسن ہے۔ (نتائج الافکارفی تخریج احادیث الاذکارج ٣ ص ٢٧٧‘ مطبوعہ دارابن کثیر ‘ دمشق ‘ ٤٢١ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہر وہ عظیم الشان کام جس کو الحمد سے نہ شروع کیا جائے وہ ناقص اور قلیل البرکۃ ہے۔
امام ابو دائود نے روایت کیا ہے ہر وہ کلام جس کو اللہ کی حمد سے نہ شروع کیا جائے وہ ناقص اور قلیل البرکۃ ہے۔ (سننابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٨٤٠‘ مسند احمد ج ٢ ص ٣٥٩‘ عمل الیوم واللیلۃ رقم الحدیث : ٤٩٤- ٤٩٥‘ صیحح ابن حیات رقم الحدیث : ١٩٩٣‘ ٥٧٨‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٦٢٨٣‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٥٧٦‘ سنن الدار قطنی ج ١ ص ٢٢٩‘ سنن کبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٢٠٨)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کی متعدد اسانید بیان کی ہیں۔ (نتائج الافکارج ٣ ص ٢٨١- ٢٨٠‘ مطبوعہ دارابن کثیر ‘ دمشق ‘ ٤٢١ ھ)
حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس عظیم الشان کام کی ابتداء اللہ کی حمد اور مجھ پر صلوٰۃ سے نہ کی جائے وہ ناقص ‘ نا تمام اور برکت سے کلیۃ محروم ہے۔ اس کو عبدالقادر رہاوی نے الاربعین میں ذکر کیا ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ١٥٧٦٢‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٦٢٨٥‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٥١٠)
حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کو دارقطنی کی کتاب العلل اور امام نسائی کی عمل الیوم واللیلۃ کے حوالے سے بھی ذکر کیا ہے۔ (نتائج الافکارج ٣ ص ٤٨٢‘ دارابن کثیر ‘ دمشق ‘ ١٤٢١ ھ)
اس اعتراض کا جواب کہ کفار کے خود ساختہ معبودوں میں بھی کوئی اچھائی ہے
اس کے بعد فرمایا : کیا اللہ اچھا ہے یا وہ بت جن کو وہ اللہ کا شریک قرار دیتے ہیں !
اس آیت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ اس آیت میں ضیر کا لفظ ہے اور خیر کا معنی بہتر اور زیادہ اچھا ‘ اور اب معنی اس طرح ہوگا کہ کیا اللہ زیادہ اچھا ہے یا کفار کے خودساختہ شرکائ ‘ گویا کفار کے خود ساختہ شرکاء بھی اچھے ہیں لیکن اللہ زیادہ اچھا ہے ‘ حالانکہ کفار کے خود ساختہ شرکاء میں کوئی اچھائی نہیں ہے۔
علامہ قرطبی نے فرمایا یہاں خیر کا معنی اسم تفصیل کا نہیں ہے یعنی اس کا ترجمہ زیادہ اچھا اور بہتر نہیں ہے بلکہ اس کا معنی ہے اچھا ‘ یعنی اللہ اچھا ہے یا کفار کے خود ساختہ شرکائ ‘ اور اگر یہ اسم تفصیل کے معنی میں ہو تو پھر اس کا معنی ہوگا کیا اللہ کی عبادت کا ثواب بہتر ہے یا اس کا شریک بنانے کا عذاب۔ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں مشرکین کے اعتقاد کے اعتبار سے خطاب کیا گیا ہے کیونکہ ان کا اعتقاد یہ تھا کہ بتوں کی عبادت کرنے میں بھی اچھائی ‘ اور بہتری ہے۔
اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب اس آیت کی تلاوت کرتے تھے تو فرماتے تھے :
بل اللہ خیر وابقی واجل واکرم (الجامع لاحکام القرآن جز ١٣ ص ٢٠٤‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت) بلکہ اللہ ہی اچھا ہے ‘ اور باقی رہنے والا ہے اور زیادہ بزرگی والا اور زیادہ مکرم ہے۔
امام محمد بن عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ تحریر فرماتے ہیں :
اس آیت میں مشرکین کو زجروتوبیخ ہے ‘ انہوں نے اللہ کی عبادت کے اوپر بتوں کی عبادت کو ترجیح دی تھی ‘ اور جب کوئی صاحب عقل ایک چیز کو دوسری چیز پر ترجیح دیتا ہے تو زیادہ خیر اور زیادہ نفع کی وجہ سے ترجیح دیتا ہے تو اس لیے ان کی گمراہی ‘ بےعقلی اور جہالت پر تنبیہ کرنے کے لیے فرمایا کہ تم جو اللہ کو چھوڑ کر اپنے خود ساختہ خدائوں کی عبادت کر رہے ہو تو کیا تمہارے زعم میں ان کی عبادت کرنے میں اللہ کی عبادت کرنے کی بہ نسبت زیادہ نفع اور زیادہ خیر ہے۔ (تفسیر کبیرج ٨ ص ٥٦٣‘ داراحیاء التراث العرلی بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 27 النمل آیت نمبر 59
[…] سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا : کیا اللہ اچھا ہے یا وہ […]