قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ فَلَنۡ اَكُوۡنَ ظَهِيۡرًا لِّلۡمُجۡرِمِيۡنَ ۞- سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 17
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
قَالَ رَبِّ بِمَاۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَىَّ فَلَنۡ اَكُوۡنَ ظَهِيۡرًا لِّلۡمُجۡرِمِيۡنَ ۞
ترجمہ:
موسیٰ نے عرض کیا اے میرے رب ! چونکہ تو نے مجھ پر انعام فرمایا ہے سو اب میں کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنو گا
حضرت موسیٰ کے اس قول کی توجیہات کہ ” میں مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا “
اس کے بعد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے دعا میں عرض کیا : اے میرے رب چونکہ تو نے مجھ پر انعام فرمایا ہے سو اب میں کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنو گا۔ (القصص : ٧١)
انعام سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جو ان کو حکم اور علم عطا فرمایا تھا اور ان کو انبیاء سابقین کی سھرت اور ان کھ طریقہ پر شلایا تھا ‘ اور اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے قتل کرنے کو معاف فرما دیا تھا کیونکہ یہ وحی کے نزول سے پہلے کا واقعہ تھا ‘ اور اس وقت ان کو یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو معاف فرما دیا ہے۔ ثعلبی نے کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی مراد یہ تھی کہ چونکہ تو نے اس قتل کے بعد مجھ کو کوئی سزا نہیں دی ‘ اس کی ایک تفسیر یہ بھی ہے کہ چونکہ تو نے مجھے ہدایت پر برقرار رکھا اور مجھے استغفار کرنے کی توفیق عطا کی سو اس کے شکر میں ‘ میں اب کبھی مجرموں کا مددگار نہیں بنوں گا۔
مجرموں کی مدد نہ کرنے سے مراد یہ ہے کہ میں اب فرعون کے ساتھ نہیں رہوں گا ‘ کیونکہ حضرت موسیٰ ایک روایت کے مطابق فرعون کے ساتھ رہا کرتے تھے حتیٰ کہ وہ ابن فرعون کہلاتے تھے۔
اس کا دوسرا محمل یہ ہے کہ میں کسی شخص کی ایسی مدد نہیں کروں گا جو مجھے کسی جرم کے ارتکاب تک پہنچا دے ‘ جیسے میں نے اس اسرائیلی کی مدد کی جس کے نتیجہ میں ایک فرعونی میرے ہاتھوں قتل ہوگیا جس کو قتل کرنے کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا ‘ اور میں مجرمین کے خلاف مسلمانوں کی مدد ترک نہیں کروں گا۔ اس تفسیر کے مطابق وہ اسرائیلی مومن تھا اور مومن کی مدد کرنا تمام شریعتوں میں واجب ہے۔
اور اس کی دوسری تفسیر یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق وہ اسرائیلی کافر تھا اور قرآن شریف میں جو یہ فرمایا ہے کہ وہ ان کی جماعت سے تھا ‘ اس سے مراد دین میں موافقت نہیں ہے صرف نسب میں موافقت ہے ‘ اسی بناء پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نادم ہوئے کیونکہ انہوں نے ایک کافر کی کافر کے خلاف مدد کی تھی۔ پس انہوں نے کہا میں آئندہ مجرمین یعنی کافرین کی مدد نہیں کرونگا لیکن ان کا یہ اقدام گناہ نہیں تھا کیونکہ وہ اسرائیلی مظلوم تھا اور مظلوم خواہ کافر ہو اس کی مدد کرنا مستحسن ہے ‘ اور اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا نادم ہونا محض ان کی تواضع اور انکسار ہے۔
اس کی تیسری تفسیر یہ ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ قول خبر نہیں ہے بلکہ دعا ہے اور اس کا معنی یہ ہے اے میرے رب ! مجھے مجرموں کا مددگار نہ بنانا۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ٣١ ص ٢٤٢‘ زادالمسیر ج ٦ ص ٩٠٢۔ ٨٠٢)
قرآن مجید اور احادیث سے ظالم کی مدد کرنے کی ممانعت
اس آیت سے یہ مسئلہ مستنبط کیا گیا ہے کہ ظالموں کی مدد کرنا جائز نہیں ہے۔ عطا نے کہا کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ ظالم کی مدد کرے نہ اس کو کچھ لکھ کر دے اور نہ اس کی مجلس میں بیٹھے اور اگر اس نے ان میں سے کوئی کام کیا تو وہ ظالموں کا مددگار ہوجائے گا۔
قرآن مجید میں ہے :
ولا ترکنو الی الذین ظلمو افتمسکم النار۔ (ھود : ٣١١) ظالموں کی طرف مائل نہ ہو ورنہ تم کو بھی دوزخ کا عذاب پہنچے گا۔
اور اس سلسلہ میں حسب ذیل احادیث ہیں :
حضرت عبداللہ بن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی مقدمہ میں ظلم کے ساتھ مدد کی ‘ یا ظلم کی مدد کی تو جب تک وہ اس سے رجوع نہیں کرے گا ‘ وہ اللہ تعالیٰ کی ناراضگی میں ر ہے گا۔( سنن ابوداؤد رقم الحدیث : ٨٧٩٥٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٠٢٣٢‘ المستدرک ج ٤ ص ٩٩‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٧٩٢٠٢‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٨٤٩٤١‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٣٧٤٨ )
حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے کسی مقدمہ میں علم کے باوجود ظالم کی ظلم کے ساتھ مدد کی اس سے اللہ کا ذمہ اور اس کے رسول کا ذمہ بری ہوگیا۔ (تاریخ بغداد ج ٨ ص ٩٧٣‘ کنز العمال رقم الحدیث : ٩٤٩٤١ )
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے کسی ظالم کی مدد کی کہ اس کے باطل موقف کو ثابت کرنے کے لیے کسی کا حق ضائع کر دے تو اس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ذمہ بری ہوگا۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ٦٩٢٠٢‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٤٧٤٨‘ المستدرک ج ٤ ص ٠٠١‘ قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ٢٥٠٧‘ جدید۔ تاریخ دمشق الکبیر ج ٦٥ ص ٠٩ ١ رقم الحدیث : ٠٩٢٢١ )
تاریخ دمشق کی روایت میں اس کے بعد یہ اضافہ ہے :
اور جس نے مسلمانوں کے عہدہ پر مسلمان کو مقرر کیا حالانکہ اس کو علم تھا کہ مسلمانوں میں اس سے بہتر شخص موجود ہے ‘ جو اس سے زیادہ اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت کو جاننے والا ہے تو اس نے اللہ سے ‘ اس کے رسول سے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ خیانت کی ‘ اور جو شخص مسلمانوں کے کسی منصب پر فائز ہوا تو اس وقت تک اللہ تعالیٰ اس کی طرف نظر نہیں فرمائے گا جب تک کہ وہ مسلمانوں کے معاملات نہ نمٹائے اور ان کی ضرورت کو پورا نہ کرے ‘ اور جس نے ایک درہم بھی سود کھایا اس کو چھتیس (٦٣) بار زنا کا گناہ ہوگا اور جس کا گوشت حرام سے بنا ہو اس کے دوزخ زیادہ لائق ہے۔
حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے کسی ظالم کی مدد کی اللہ اس ظالم کو اس پر مسلط کر دے گا۔۔ اس کی سند ضعیف ہے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ٥٩٢٠٢‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٢٧٤٨‘ ضعیف الجامع للا لبانی رقم الحدیث : ٥٤٤٥ )
حضرت اوس بن شرجیل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص علم کے باوجود کسی ظالم کے ساتھ اس کی مدد کرنے کے لیے گیا تو وہ اسلام سے خارج ہوگیا۔ (الفردوس بماثور الخطاب رقم الحدیث : ٩٠٧٥‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٩١٦‘ مسند الشامیین رقم الحدیث : ١١٩١‘ شعب الایمان رقم الحدیث : ٥٧٦٧‘ مجمع الزوائد ج ٤ ص ٥٠٢‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٩٤٠٩‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٥٥٩٤١ )
حضرت معاذ بن جبل (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص کسی مظلوم کے ساتھ اس کا حق ثابت کرنے کے لیے گیا ‘ اللہ اس دن اس کو ثابت قدم رکھے گا جس دن لوگوں کے قدم پھسل جائیں گے۔ (الفردوس بماثور الخطاب رقم الحدیث : ٥٠٧٥‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ا ٤٧١٣٢‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ٤٠٦٥ )
ظالوں کی مدد نہ کرنے کے متعلق اور بھی بہت احادیث اور آثار ہیں لیکن میں اختصار کی وجہ سے ان کا ذکر نہیں کر رہا۔
القرآن – سورۃ نمبر 28 القصص آیت نمبر 17