وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰى قَوۡمِهٖ فَلَبِثَ فِيۡهِمۡ اَ لۡفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمۡسِيۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوۡفَانُ وَهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ۞- سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 14
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
وَلَقَدۡ اَرۡسَلۡنَا نُوۡحًا اِلٰى قَوۡمِهٖ فَلَبِثَ فِيۡهِمۡ اَ لۡفَ سَنَةٍ اِلَّا خَمۡسِيۡنَ عَامًا ؕ فَاَخَذَهُمُ الطُّوۡفَانُ وَهُمۡ ظٰلِمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال رہے پس ان لوگوں کو طوفان نے پکڑ لیا اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والے تھے
تفسیر:
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال رہے پس ان لوگوں کو طوفان نے پکڑ لیا اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والے تھے پھر ہم نے نوح کو اور کشتی والوں کو نجات دے دی ‘ اور ہم نے اس کشتی کو جہان والوں کے لئے نشانی بنادیا بیشک ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا وہ ان میں ساڑھے نو سو سال رہے پس ان لوگوں کو طوفان نے پکڑ لیا اس حال میں کہ وہ ظلم کرنے والے تھے (العنکبوت : ١٥۔ ١٤)
حضرت نوح (علیہ السلام) کی حیات کا اجمالی خاکہ
علامہ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ حضرت نوح (علیہ السلام) کے تعارف میں لکھتے ہیں :
حضرت نوح (علیہ السلام) کے ماں باپ دونوں مومن تھے ان کی ماں کا نام قیثوش بنت برکا ییل تھا ‘ اور ان کے والد کا نام ثیث تھا ‘ ان کو قابیل کی اولاد کی طرف مبعوث کیا گیا تھا ‘ بعثت کے وقت حضرت نوح کی عمر میں اختلاف ہے۔ بعض نے کہا اس وقت ان کی عمر ٥٠ سال تھی اور بعض نے کہا اس وقت ان کی عمر ٣٥٠ سال تھی اور بعض نے کہا اس وقت ان کی عمر ٤٨٠ سال تھی۔ اسی طرح ان کے مقام بعثت میں بھی اختلاف ہے مجاہد نے کہا ان کو ہند میں مبعوث کیا گیا ‘ حسن بصری نے کہا ان کو ارض بابل (عراق کا ایک شہر جو کوفہ اور بغداد کے درمیان ہے) اور کوفہ میں مبعوث کیا گیا۔ امام ابن جریر نے کہا حضرت نوح ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کی وفات کے ایک سو چھبیس سال بعد پیدا ہوئے ‘ مقاتل نے کہا حضرت آدم اور حضرت نوح کے درمیان ایک سو سال کا عرصہ ہے اور حضرت نوح اور حضرت ادریس کے درمیان بھی ایک سو سال کا عرصہ ہے ‘ اور یہ حضرت ادریس (علیہ السلام) کے بعد پہلے نبی ہیں۔
مقاتل نے کہا ان کا نام السکن ہے ‘ ایک قول ہے ان کا نام الساکن ہے ‘ طبری نے کہا ان کا نام عبدالغفار ہے اور بہت زیادہ رونے کی وجہ سے ان کا نام نوح ہوگیا ‘ نوح کا معنی نوحہ کرنا اور رونا ہے ‘ ان کے زیادہ رونے کی وجہ یہ ہے کہ ایک دن انہوں نے کتے کو دیکھ کر دل میں کہا یہ کس قدر بد شکل ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کتے کو گویائی دی اس نے کہا اے مسکین ! آپ نے کس پر عیب لگایا ہے نقش پر یا نقاش پر۔ اگر نقش پر عیب ہے تو اگر میرا بنانا میرے اختیار میں ہوتا تو میں خود کو حسین بنا لیتا اور اگر نقاش پر عیب ہے تو وہ اللہ تعالیٰ ہے اور اس کی ملک پر اعتراض کرنا جائز نہیں۔ حضرت نوح (علیہ السلام) نے جان لیا کہ اس کتے کو اللہ تعالیٰ نے گویائی دی ہے ‘ پھر وہ اپنے اس خیال پر چالیس سال تک روتے رہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٥ ص ٢٩٩‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت نوح نے دل میں کہا کہ یہ کس قدر بد شکل ہے تو اللہ تعالیٰ نے ان سے فرمایا تم اس سے زیادہ حسین مخلوق پیدا کر کے دکھائو ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) اپنی اس خطا پر عرصہ تک روتے رہے۔ (الجامع لا حکام القرآن جز ١٣ ص ٣٠٧‘ دارالفکر ‘ ١٤١٥ ھ ‘ جز ١٣ ص ٢٩٦‘ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٢٠ ھ)
اس وقعہ کا ذکر کسی حدیث میں نہیں ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) اللہ کے برگزیدہ نبی ہیں ان کا مقام اس سے بلند ہے کہ وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت پر اعتراض کریں یا اس کو برا جانیں ‘ علاوہ ازیں دل میں جو غیر اختیاری طور پر خیالات آتے ہیں ان پر انسان کو قدرت نہیں ہے اور نہ اس سے ان پر باز پرس ہوتی ہے۔ اس لئے ہمارے نزدیک یہ واقعات صحیح نہیں ہیں۔
علامہ بدر الدین عینی متوفی ٨٥٥ ھ فرماتے ہیں ان کے نام کی دوسری وجہ تسمیہ یہ ہے کہ وہ اپنی قوم کے ایمان نہ لانے پر ساڑھے نو سو سال تک افسوس کرتے رہے اور روتے رہے۔
سدی نے کہا حضرت نوح کی عمر کی عمر ایک ہزار سات سو سال تھی ( کیونکہ بعثت کے بعد ساڑھے نو سو سال تک انہوں نے تبلیغ کی تھی ‘ پھر طوفان آیا ‘ اس کے بعد بھی وہ ایک عرصہ تک زندہ رہے) حضرت نوح موصل کی مشرقی جانب میں فوت ہوئے تھے یہ وہی جگہ ہے جہاں ان کی کشتی جو دی پہاڑ کے پاس ٹھہری تھی ‘ امام ابن اسحاق نے کہا وہ ہند میں فوت ہوئے تھے ‘ عبدالرحمان بن ساباط نے کہا حضرت ھود ‘ حضرت صالح ‘ حضرت شعیب اور حضرت نوح علیہم الصلوۃ والسلام کی قبریں زمزم ‘ رکن اور مقام کے درمیان ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ وہ بابل میں فوت ہوئے ‘ ایک قول یہ ہے کہ وہ بعلبک (شام کا ایک شہر) کی کرک نام کی ایک بستی میں فوت ہوئے اور اب بھی وہاں پر ان کی قبر معروف ہے ‘ اس کو کرک نوح کہا جاتا ہے ‘ حافظ ابن کثیر نے کہا کہ امام ابن جریر اور امام ازرقی نے روایت کیا ہے کہ ان کی قبر مسجد حرام میں ہے اور یہ قول دوسرے متاخرین کے اقوال کی بہ نسبت زیادہ قوی اور زیادہ ثابت ہے۔ (عمدۃ القاری ج ١٥ ص ٢٩٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)
اہل کتاب کا قول یہ ہے کہ جس وقت حضرت نوح (علیہ السلام) کشتی میں سوار ہوئے تھے اس وقت ان کی عمر چھ سو سال تھی اور حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ وہ اس کے بعد تین سو پچاس سال زندہ رہے لیکن اس پر یہ اعتراض ہے کہ قرآن مجید میں تصریح ہے کہ وہ بعثت کے بعد اپنی قوم میں نو سو پچاس سال تک رہے۔ پھر اس کے بعد ان ظالموں پر طوفان آیا۔ پھر اللہ ہی جانتا ہے کہ وہ طوفان آنے کے بعد کتنا عرصہ زندہ رہے۔ حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ چور اسی سال کی عمر میں ان کی بعثت ہوئی اور طوفان کے بعد وہ ساڑھے تین سو سال زندہ رہے اس حساب سے ان کی عمر ایک ہزار سات سو اسی سال ہے۔ امام ابن جریج ‘ امام ازرقی اور دیگر مورخین نے کہا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قبر مسجد حرام میں ہے اور یہ قوی قول ہے۔ (البدایہ والنہایہ ج ١ ص ١٢٠۔ ١٠٠‘ ملخصا ‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت)
بعض محققین نے لکھا ہے کہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم اس علاقہ میں رہتی تھی جو آج دنیا میں عراق کے نام سے مشہور ہے اور اس کی جائے وقوع موصل کے نواح میں ہے اور جو روایات کر دستان اور آرمینیہ میں زمانہ قدیم سے تو اتر کے ساتھ منقول ہیں ان سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ طوفان کے عبد حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی اسی علاقہ میں کسی مقام پر ٹھہری تھی۔
اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ حضرت نوح (علیہ الصلوۃ والسلام) ساڑھے نوسوسال تک اپنی قوم کو تبلیغ کرتے رہے اور ان کی قوم کی اکثریت نے ان کی رسالت اور نبوت کون ہیں مانا اور بالآخر ان پر ایک طوفان بھیج کر ان کو غرق کردیا گیا ‘ اس میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ تسلی دی ہے کہ آپ کو مکہ میں تبلیغ کرتے ہوئے چند سال ہوئے ہیں اگر یہ لوگ آپ پر ایمان نہیں لائے یا آپ کے ساتھ بد سلوکی کررہے ہیں تو آپ رنج اور افسوس نہ کریں ‘ حضرت نوح (علیہ السلام) کو دکھیں وہ ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے اور اسی افراد کے سوا اور کوئی ایمان نہیں لایا تو حضرت نوح (علیہ السلام) کی بہ نسبت آپ صبر کرنے کے زیادہ لائق ہیں کیونکہ آپ کی تبلیغ کی مدت ان سے بہت کم ہے اور آپ کے متبیعین ان کی بہ نسبت بہت زیادہ ہیں۔
اس کی تحقیق کہ طوفان نوح تمام زمین پر آیا تھا یا بعض علاقوں پر
حضرت نوح (علیہ السلام) کے زمانہ میں جو طوفان آیا تھا سا میں یہ اختلاف ہے کہ آیا وہ طوفان صرف ان ہی کے علاقہ میں آیا تھا یا تمام روئے زمین پر وہ طوفان آیا تھا ‘ مسلم مورخین اور مفسرین کے زیادہ تر اقوال یہ ہیں کہ یہ طوفان پوری روئے زمین پر آیا تھا اور بعض نے یہ کہا کہ یہ طوفان صرف انہی کے علاقہ میں آیا تھا ‘ تورات سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر بھیجا گیا تھا۔ ہم پہل تورات کی آیات نقل کریں گے اس کے بعد مسلم مورخین اور مفسرین کی عبارات نقل کریں گے اور اخیر میں ان بعض علماء کی عبارات کا ذکر کریں گے جن کے نزدیک یہ طوفان صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم کے ساتھ مخصوص تھا۔
طوفان نوح کا تمام روئے زمین کو محیط ہونا
تورات میں لکھا ہے : اور چالیس دن تک زمین پر طوفان رہا اور پانی بڑھا اور اس نے کشتی کو اوپر اٹھا دیا سوکشتی زمین پر سے اٹھ گئی اور پانی زمین پر چڑھتا ہی گیا اور بہت بڑھا اور کشتی پانی کے اوپر تیرتی رہی اور پانی زمین پر بہت ہی زیادہ چڑھا اور سب اونچے پہاڑ جو دنیا میں ہیں چھپ گئے پانی ان سے پندرہ ہاتھ اور اوپر چڑھا اور پہاڑ ڈوب گئے اور سب جانورجو زمین پر چلتے تھے پرندے اور چوپائے اور جنگلی جانور اور زمین پر کے سب رینگنے والے جاندار اور سب آدمی مرگئے اور خشکی کے سب جاندار جن کے نتھنوں میں زندگی کا دم تھا مرگئے بلکہ ہر جاندار شے جو روئے زمین پر تھی مرمٹی۔ کیا انسان کیا حیوان کیا رینگنے والا جانور کیا ہوا کا پرندہ یہ سب کے سب زمین پر سے مرمٹے۔ فقط ایک نوح باقی بچایا وہ جو اس کے ساتھ کشتی میں تھے اور پانی زمین پر ایک سو پچاس دن تک چڑھتا رہا (تورات پیدائش باب ٧‘ آیت : ٢٤۔ ١٧‘ کتاب مقدس ‘ بائبل سوسائٹی لاہور)
امام ابو القاسم علی بن الحسن ابن عسا کر متوفی ٥٧١ ھ ‘ امام عبدالرحمان بن علی الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ ‘ امام محمد بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٣٠ ھ ‘ ان سب نے لکھا ہے :
فسارت بھم السفینۃ فطافت بھم الارض کلھا فی ستۃ اشھر لا تستقر علی شیء حتی اتت الحرم فلم تدخلہ ‘ ودارت بالحرم اسبوعاً ورفع البیت الذین بناہ ادم رفع من الغرق۔
وہ کشتی چھ ماہ تک تمام روئے زمین کے اوپر تیرتی رہی وہ کسی چیز پر نہیں ٹھہری حتیٰ کہ حرم میں پہنچی اور اس میں داخل نہیں ہوئی اور حرم کے گرد ایک ہفتہ تک گھومتی رہی اور جس بیت کو حضرت آدم نے بنایا تھا سا کو اٹھا لیا گیا اور وہ غرق ہونے سے بلند رہا۔(تاریخ دمشق الکبیر ج ٦٥ ص ١٨٧‘ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ ‘ المنتظم ج ١ ص ١٣٢‘ دارالفکر ‘ بیروت ١٤١٥ ھ ‘ الکامل فی التاریخ ج ا ص ٤١‘ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٠ ھ)
حافظ عمادالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :
قال جماعۃ من المفسرین ارتفع الماء علی اعلی جبل الارض خمسۃ عشر ذرا عاوھوالذی عند اھل الکتاب وقیل ثمانین ذراعا وعم جمیع الارض طولھا والعرض سھلھا و حزنھا و جبالھا وقفارھا ورمالھا ولم یبق علی وجہ الارض ممن کان بھا من الا حیاء عین تطرف ولا صغیر ولا کبیر۔ مفسرین کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ پانی زمین کے بلند ترین پہاڑ سے بھی پندرہ ہاتھ اونچا ہوگیا تھا اور یہ مقدار اہل کتاب کے نزدیک ہے اور ایک قول یہ ہے کہ اسی ہاتھ اونچا ہوگیا تھا اور یہ طوفان تمام روئے زمین پر چھا گیا تھا ‘ زمین کے طول وعرض پر ‘ خواہ نرم زمین ہو یا سخت ‘ اس کے پہاڑوں پر ‘ میدانوں پر ‘ ریگستانوں پر اور روئے زمین پر کوئی زندہ شخص دکھائی دیتا تھا ‘ چھوٹا اور نہ بڑا۔ (البدایہ والنہایہ ج ا ص ١٧٥‘ دارالفکر بیروت ١٤١٨ ھ ‘ طبع جدید)
نیز حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے :
بعض جاہل فارسیوں اور اہل ہند نے وقوع طوفان کا انکار کیا اور بعض نے اقرار کیا اور کہا ہے کہ یہ طوفان صرف ارض بابل (عراق) میں آیا تھا یہ بےدین مجوسیوں کا قول ہے ورنہ تمام اہل ادیان کا اس پر اتفاق ہے او تمام رسولوں سے منقول ہے اور تواتر سے ثابت ہے کہ طوفان آیا تھا اور یہ تمام روئے زمین پر چھا گیا تھا۔ (البدلیۃ والنہایہ ج ١ ص ١٨٢‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٨ ھ ‘ طبع جدید)
حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں بھی لکھا ہے :
لما اغرق اھل الارض کلھم الا اصحاب السفینۃ۔ جب اللہ تعالیٰ نے کشتی والوں کے سوا تمام روئے زمین والوں کو غرق کردیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٤٩٦ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)
علامہ ابوالحسن ابراہیم بن عمر البقاعی المتوفی ٨٨٥ ھ نے لکھا ہے : اس سے بڑا ادثہ دنیا میں کبھی رونما نہیں ہوا کہ زمین کے تمام طول وعرض پر طوفان کا پانی چھا گیا تھا اور اس میں کشتی والوں کے سوا دنیا کے تمام جاندار اور بےجان غرق ہوگئے تھے۔ صنظم لدررج ٥ ص ٥٤٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)
علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ نے لکھا ہے :
یہ طوفان تمام روئے زمین پر چھا گیا تھا۔ (روح البیان ج ٦ ص ٥٨١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)
شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٤ ھ ھود : ٤٣ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
ہرچند کہ بعض عدم عموم طوفان کے قائل ہوئے ہیں لیکن ظاہر آیات سے جن کو مؤول کہنا بعید ہے عموم معلوم ہوتا ہے ‘ (الصفت : ٧٧) اور نوح کی اولاد کو ہم نے باقی رہنے والا بنادیا۔ (نوح : ٢٦) اور نوح نے دعا کی اے میرے رب ! تو روئے زمین پر کسی کافر رہنے والے کو چھوڑ۔ اور عموم طوفان پر ظاہراً جو بعض اشکالات واقع ہوتے ہیں سب کے جواب قریب ہیں مثلاً یہ کہ تمام انواع حیوانات کے ایک متعارف مقدار کشتی میں کیسے سما سکتے ہیں ؟ جس کا جواب یہ ہے کہ جو پانی میں رہتے ہیں یقیناً خارج ہیں جو محتاج تناسل نہیں وہ بھی خارج ہیں ‘ رہے اور اقسام سو ان میں س ممکن ہے کہ وہی سوار کئے گئے ہوں جن سے انسانی حاجت متعلق ہوتی ہے جیسے ماکولات و مرکوب ات و عوامل و حوامل تاکہ بعد ختم طوفان کے بقیہ افراد انسانی کو تکلیف نہ ہو ‘ سوا ی سے جانور بہت قلیل ہیں ہر ایک کا جوڑا رکھنا کچھ مشکل نہیں اور جن سے حاجت انسانی متعلق نہیں جیسے سباع وغیرہ وہ سوار نہ کئے گئے ہوں اور ان کو اللہ تعالیٰ نے دوبارہ پیدا کردیا ہو یا یہ کہ بہ طورخرق عادت کے ان کی بھی جگہ ہوگئی ہو اور یہ اشکال کہ نابالغ بچے کیسے غرق ہوگئے تو ہوسکتا ہے کہ چند سال پہلے تو الد و تناسل بند ہوگیا ہو پس پرانے نابالغ بالغ پیدا نہ ہوا جیسا کہ ابن عسا کر کی روایت میں ہے کہ چالیس سال قبل توالد و تناسل بند ہوگیا تھا ‘ اور مثلاً یہ اشکال کہ جانوروں نے کیا خطا کی تھی اس کا یہ جواب ہے کہ یہ طوفان کفار کے حق میں عذاب تھا اور جانوروں کے لئے بہ منزلہ موت طبعی تھا جو ہر روز واقع ہوتی ہے۔ (بیان القرآن ج ١ ص ٤٥٨‘ مطبوعہ تاج کمپنی لاہور)
شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ ھود : ٤٤ کی تفسیر میں لکھتے ہیں : اس میں اختلاف ہے کہ طوفان نوح تمام دنیا میں آیا یا خاص ملکوں میں ‘ اس کے فیصلہ کا یہاں موقع نہیں ‘ مگر یاد رہے کہ دائرۃ المعارف میں بعض محققین یورپ کے ایسے اقوال و دلائل نقل کئے ہیں جو عموم طوفان کی تائید کرتے ہیں۔(حاشیۃ القرآن ص ٢٩٩‘ مطبوعہ سعودی عربیہ)
علامہ امجد علی متوفی ١٣٧٦ ھ عقائد کے بیان میں لکھتے ہیں :
طوفان آیا اور ساری زمین ڈوب گئی صرف وہ گنتی کے مسلمان اور ہر جانور کا ایک ایک اجوڑا جو کشتی میں لے لیا گیا تھا بچ گئے۔ (بہارشریعت حصہ اص ١٠‘ مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز ‘ ١٤١٦ ھ)
طوفان نوح کا صرف بعض علاقوں پر آنا۔
علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : اور جس چیز کی طرف قلب مائل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ طوفان عام نہیں تھا جیسا کہ بعض نے کہا ہے اور حضرت نوح (علیہ السلام) نے کشتی میں ان ہی جانوروں کو سوار کیا تھا جن کی انسان کو ضرورت پڑسکتی ہے ‘ اور اگر یہ کہا جائے کہ طفان کا عموم اپنے اطلاق پر ہے اور حضرت نوح نے کشتی میں ان ہی جانروں کو رکھا تھا جن کے بغیر چارہ کار نہیں ‘ اور باقی سب جانور غرق ہوگئے اور ان جانوروں کی نظیروں کو اللہ تعالیٰ نے محض لفظ ” کن “ سے دوبارہ پیدا کردیا تو اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کے سامنے یہ کیا بعید ہے۔ (روح المعانی جز ٢٠ ص ٨١‘ مطبوعہ دار الفکر بیروت ‘ ٤١٩ ١ ھ)
دراصل اشکال یہ ہوتا تھا کہ اگر تمام زمین پر طوفان آیا ہو تو تمام زمین کے جانوروں ‘ چرندوں ‘ درندوں اور کیڑوں مکوڑوں کو کشتی میں رکھنا تو عادۃ محال ہے ‘ اس کے علامہ آلوسی نے دو جواب دیے ایک یہ کہ یہ طوفان مخصوص علاقے میں آیا تھا اس لئے تمام زمین کے جانوروں کا کشتی میں رکھنا لازم نہیں آتا ‘ دوسرا جواب یہ دیا کہ ہرچند کہ یہ طوفان تماا زمین پر آیا تھا لیکن تمام عانوروں کا کشتی میں رکھنا لازم نہیں آتا اور کشتی میں صرف ان ہی جانوروں کو رکھا گیا تھا جن کی انسان کو ضرورت ہوسکتی ہے ‘ اور طوفان رک جانے کے بعد باقی جانوروں کو پیدا کرنا اللہ کے لئے کیا مشکل ہے !
شیخ محمد حفظ الرحمان سیوھاری لکھتے ہیں :
کیا طوفان نوح تمام کرئہ ارضی پر آیا تھا یا کسی خاص خطہ پر ؟ اس کے متعلق علماء قدیم و جدید میں ہمیشہ سے دوررائے رہی ہیں ‘ علماء اسلام میں سے ایک جماعت ‘ علماء یہودونصاریٰ اور بعض ماہرین علوم فلکیات ‘ طبقات الارض ‘ اور تاریخ طبیعات کی یہ رائے ہے کہ یہ طوفان تمام کرئہ ارضی نہیں آتا تھا بلکہ صرف اسی خط میں محدود تھا جہاں حضرت نوح (علیہ السلام) کی قوم آباد تھی اور یہ علاقہ مساحت کے اعتبار سے ایک لاکھ چالیس ہزار کلو میٹر مربع ہوتا ہے۔
ان کے نزدیک طوفانِ نوح کے خاص ہونے کی وجہ یہ ہے کہ اگر یہ طوفان عام تھا تو اس کے آثار کرئہ ارضی کے مختلف گوشوں اور پہاڑوں کی چوٹیوں پر ملنے چاہیں تھے۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے ‘ نیز اس زمانہ میں انسانی آبادی بہت ہی محدود تھی اور وہی خطہ تھا جہاں حضرت نوح ( علیہ السلام) اور ان کی قوم آباد تھی ‘ ابھی حضرت آدم (علیہ السلام) کی اولاد کا سلسلہ اس سے زیادہ وسیع نہ ہوا تھا جو کہ اس علاقہ میں آباد تھا ‘ لہذا وہی مستحق عذاب تھے ان ہی پر طوفان کا یہ عذاب بھیجا گیا ‘ باقی کرئہ زمین کو اس سے کوئی علاقہ نہ تھا۔
اور بعض علماء اسلام اور ماہرین طبقات الارض اور علماء طبیعات کے نزدیک یہ طوفان تمام کرئہ ارضی پر حاوی تھا اور ایک یہ ہی نہیں بلکہ ان کے خیال میں اس زمین پر متعدد ایسے طوفان آئے ہیں ‘ ان ہی میں سے ایک یہ بھی تھا اور وہ پہلی رائے کے تسلیم کرنے والوں کو آثار سے متعلق سوال کا یہ جواب دیتے ہیں کہ “ جزیرہ “ یا عراق عرب کی اس سرزمین کے علاوہ بلند پہاڑوں پر ایسے احیوانات کے ڈھانچے اور ہڈیاں بکثرت پائی گئی ہیں جن کے متعلق ماہرین علم طبقات الارض کی یہ رائے ہے کہ یہ حیوانات مائی ہی ہیں اور صرف پانی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں ‘ پانی سے باہر ایک لمحہ بھی ان کی زندگی دشوار ہے ‘ اس لئے قرائہ ارض کے مختلف پہاڑوں کی ان بلند چوٹیوں پر ان کا ثبوت اس کی دلیل ہے کہ کسی زمانہ میں پانی کا ایک ہیبت ناک طوفان آیا جس نے پہاڑوں کی ان چوٹیوں کو بھی اپنی غرقابی سے نہ چھوڑا۔
ان ہر دو خیالات وآراء کی ان تمام تفصیلات کے مبعد جن کا مختصر خاکہ مضمون زیر بحث میں درج ہے اہل تحقیق کی یہ رائے ہے کہ صحیح مسلک یہی ہے کہ طوفان خاص تھا عام نہ تھا۔ اور یہ مسئلہ بھی محل نظر ہے کہ تمام کائنات انسانی صرف حضرت نوح (علیہ السلام) کی نسل سے ہے ‘ اور آیت ان تذرھم یضلوا عبادک بھی کچھ اسی طرح اشارہ کرتی ہے۔ (قصص القرآن ج اول ص ٧٧۔ ٧٦‘ مطبوعہ دار الاشاعت کراچی)
شیخ سیوھاری نے طوفان نوح کے عام نہ ہونے پر جو دلیل قائم کی ہے وہ ان کے اس اعتراف سے ساقط ہوجاتی ہے کہ جزیرہ عرب یا عراق عرب کی اس سر زمین کے علاوہ بلند پہاڑوں پر بھی ایسے حیوانات کے ڈھانچے اور ہڈیاں بہ کثرت پائی گئی ہیں جن کے متعلق ماہرین علم طبقات الارض کی یہ رائے ہے کہ یہ حیوانات مائی ہی ہیں اور صرف پانی ہی میں زندہ رہ سکتے ہیں ‘ پانی سے باہر ایک لمحہ بھی ان کی زندگی دشوار ہے اس لئے کرئہ ارض کے مختلف پہاڑوں کی ان بلند چوٹیوں پر ان کا ثبوت اس کی دلیل ہے کسی زمانہ میں پانی کا ایک ہیبت ناک طوفان آیا جس نے پہاڑوں کی ان چوٹیوں کو بھی اپنی غرقابی سے نہ چھوڑا۔
سید ابو الا علیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ لکھتے ہیں :
یہ طوفان ‘ جس کا ذکر یہاں کیا گیا ہے ‘ عالم گیر طوفان تھا یا اس خاص علاقے میں آیا تھا جہاں حضرت نوح کی قوم آباد تھی ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا فیصلہ آج تک نہیں ہوا۔ اسرائیلی روایات کی بنا پر عام خیال یہی ہے کہ یہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا تھا (پیدائش ٧ : ١٨۔ ٢٤) مگر قرآن میں یہ بات کہیں نہیں کہی گئی ہے۔ قرآن کے اشارات سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ بعد کی انسانی نسلیں انہی لوگوں کی اولاد سے ہیں جو طوفان نوح سے بچالئے گئے تھے ‘ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ طوفان تمام روئے زمین پر آیا ہو ‘ کیونکہ یہ بات اس طرح بھی صحیح ہوسکتی ہے کہ اس وقت تک بنی آدم کی آبادی اسی خطہ تک محدود رہی ہو جہاں طوفان آیا تھا اور طوفان کے بعد جو نسلیں پیدا ہوئی ہوں وہ بتدریج تمام دنیا میں پھیل گئی ہوں۔ اس نظریہ کی تائید دو چیزوں سے ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ دجلہ وفرات کی سرزمین میں تو ایک زبردست طوفان کا ثبوت تاریخی روایات سے ‘ آثار قدیمہ سے اور طبقات الارض سے ملتا ہے ‘ زمین کے تمام خطوں میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ملتا جس سے کسی عالم گیر طوفان کا یقین کیا جاسکے ‘ دوسرے یہ کہ روئے زمین کی اکثر و بیش تر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانے سے مشہور ہیں ‘ حتی کہ آسٹریلیا ‘ امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اسکا ذکر ملتا ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آبائو اجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا۔ اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھیلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں۔ (نفہیم القرآن ج ٢ ص ٣٤٢‘ ٣٤١‘ مطبوعہ ادراہ ترجمان القرآن لاہور ‘ ١٩٨٢)
سید مودودی کی دلیل بھی ان کے اپنے بیان سے ساقط ہوجاتی ہے کیونکہ انہوں نے لکھا ہے کہ روئے زمین کی اکثر و بیشتر قوموں میں ایک طوفان عظیم کی روایات قدیم زمانہ سے مشہور ہیں حتی کہ آسٹریلیا ‘ امریکہ اور نیوگنی جیسے دور دراز علاقوں کی پرانی روایات میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے ‘ اس عبارت کا صاف اور صریح مطلب یہی ہے کہ ان علاقوں کی پرانی روایات میں ایک طوفان عظیم آنے کا ذکر اس لئے ہے کہ ان علاقوں میں وہ عظیم طوفان آیا تھا اور یہ اس کی دلیل ہے کہ یہ عالم گیر طوفان تھا ‘ سید مودودوی نے جو اس کا یہ مطلب نکالا ہے کہ کسی وقت ان سب قوموں کے آبائو اجداد ایک ہی خطہ میں آباد ہوں گے جہاں یہ طوفان آیا تھا اور پھر جب ان کی نسلیں زمین کے مختلف حصوں میں پھلیں تو یہ روایات ان کے ساتھ گئیں۔ سو یہ بہت دور کی تاویل ہے اور طوفان نوح کو مختصر کرنے کی تقریباً ناکام کوشش ہے۔
علامہ پیر محمد کرم شاہ الازہری متوفی ١٤١٨ ھ لکھتے ہیں :
یہ چیز غور طلب ہے کہ کیا یہ طوفان روئے زمین پر آیا تھا اور کیا آپ نے دنیا بھر کے حیوانات کا ایک ایک جوڑا اپنے ساتھ لے لیا تھا۔ محققین کا قول یہ ہے کہ طوفان صرف اس علاقہ میں آیا جہاں نوح (علیہ السلام) اور آپ کی قوم آباد تھی۔ اگرچہ ایسی تصریحات بھی کتب میں موجود ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ یہ طوفان عالمگیر تھا لیکن یہ اسرائیلی روایات ہیں یا ان سے اخذ کئے ہوئے علماء کے اقوال ‘ کتاب و سسنت سے کوئی ایسی نص پیش نہیں کی جاسکتی جس سے صراحتہً اس طوفان کا عالمگیر ہونا ثابت ہو۔ بغض نے اس آیت سے استدلال کیا ہے بر لاتذر علی الارض من الکافرین دیارا (اے رب زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ) لیکن ہوسکتا ہے الارض جو معرف با للام ہے اس سے مراد آپ کی قوم کی سرزمین نہیں بلکہ ملک مصر مراد ہے ‘ نیز من الکافرین بھی معرف باللام ہے یعنی وہ مخصوص کافر جو آپ کی قوم سے تھے۔ قرآن کریم میں ہمیں یہ بھی تصریح ملتی ہے کہ آپ کی بعثت صرف آپ کی قوم کے لئے تھی ولقد ارسلنا نوحا الی قومہ ہم نے نوح (علیہ السلام) کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تھا۔ البتہ یہ ہوسکتا ہے کہ اس وقت تک نسل انسانی زیادہ پھیلی نہ ہو بلکہ اسی علاقہ میں ہی بس رہی ہو۔ اس اعتبار سے تمام انسانی افراد اس طوفان کی زد میں تھے اور اس وجہ سے اس کو عالمگیر کہہ دیا گیا ہو۔ یہ بات قابل فہم ہے۔ لیکن اگر یہ اندازہ درست ہو کہ آپ کی پیدائش آدم (علیہ السلام) سے تئیس سو سال بعد ہوئی تو اتنے عرصئہ دراز تک اولاد آدم کا ایک تنگ سے رقبہ میں محدود رہنا دل میں کھٹک پیدا کرتا ہے۔ انہیں امور کے پیش نظر علامہ سید آلوسی (رح) نے بڑے محتاط پیرایہ میں لکھا ہے :
والذی یمیل القلب الیہ ان الطوفان لم یکن عاما۔ یعنی دل اس طرف مائل ہے کہ طوفان عام نہیں تھا۔ (روح المعانی)
اگر اس قول کو راجح قرار دیا جائے تو پھر نوح (علیہ السلام) کو دنیا بھر کے حیوانات کشتی میں لے جانے کی ضرورت نہ تھی بلکہ وہ جانور اپنے ہمراہ لئے ہوں گے جن کی فوری ضرورت تھی اور جن دور دراز کے علاقوں سے جو طوفان کی زد سے محفوظ تھے لے آنا مشقت اور تکالیف کا موجب تھا۔ بل امر بحمل مایحتاج الیہ اذا انجاو من معہ من الغرق لئلا یغتمو الفقدہ ویتکلفوا مشقۃ جلبہ من الا صقاع النائیۃ التی لم یصلھا الغرق (روح المعانی)
امام فخرالدین رازی (رح) نے بھی سورة المومنون کی آیت فاسلک فیھا من کل زوجین اثنین کی تفسیر کرتے ہوئے یہی فرمایا ہے : ای کل زوجین من الحیوان الذی یحضرہ فی الوقب اثنین الذکر والا نثی لکی لا ینقطع نسل ذالک الحیوان واللہ تعالیٰ اعلم (کبیر) (ضیاء القرآن ج ٢ ص ٣٦١)
یہ درست ہے کہ کتاب و سنت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ یو طوفان عام تھا یا خاص تھا ‘ لیکن کتاب و سنت میں اس کے مذکور نہ ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس سلسلہ میں تورات کی روایت کو مردود قرار دیا جائے جب کہ عام اصول یہی ہے کہ سابقہ شرائع کے وہ احکام حجت ہوتے ہیں جو ہماری شریعت کے خلاف نہ ہوں ‘ حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ صرف بےدین مجوسیوں نے یہ کہا ہے کہ یہ طوفان عام نہیں تھا ورنہ تمام اہل ادیان کا اس پر اتفاق ہے اور تمام رسولوں سے منقول ہے اور تواتر سے ثابت ہے کہ طوفان آیا تھا اور تمام روئے زمین پر چھا گیا تھا (البدایہ و النہا یہ ج ١ ص ١٨٢) حضرت نوح (علیہ السلام) نے جو دعا میں کہا تھا اے رب ! زمین پر کسی کافر کو زندہ نہ چھوڑ اس میں زمین سے مراد صرف ان کا مخصوص علاقہ مراد لینے کو پیر صاحب نے بہ طور احتمال ذکر کیا ہے اور احتمال دلیل نہیں ہوتا ‘ کیونکہ اس کے برعکس احتمال بھی موجود ہے ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کے لئے ارشاد ہے۔ انی جاعل فی الارض خلیفۃ (البقرہ : ٣٠) اور حضرت آدم کو تمام روئے زمین کے لئے خلیفہ بنایا گیا تھا کسی خاص علاقے کے لئے نہیں اور وہی الارض کا لفظ حضرت نوح (علیہ السلام) کی دعا میں بھی ہے۔ رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیا را (نوح : ٢٦) تو کوئی وجہ نہیں کہ یہاں بھی الارض سے عموم ہی مراد ہو !
علامہ آلوسی کی عبارت پر ہم تبصرہ کرچکے ہیں اور امام رازی کی جو عبارت پیر صاحب نے نقل کی ہے وہ ان کو مفید نہیں ہے کیونکہ امام رازی نے لکھا ہے کہ اس وقت جتنے بھی حیوان موجود تھے ان سب کا ایک ایک جوڑا کشتی میں رکھ لیں۔ اور اس وقت کے حیوانوں کا کشتی میں رکھنا یہی ثابت کرتا ہے کہ وہ طوفان تمام روئے زمین پر آنا تھا۔ اور نہ امام رازی یوں لکھتے کہ اپنے مخصوص علاقے کے تمام حیوانوں کو کشتی میں رکھ لیں ‘ شاید اسی لئے پیر صاحب نے اس عبارت کا ترجمہ نہیں کیا۔
تبیان القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 14
[…] تفسیر […]