أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَيَـعۡلَمَنَّ اللّٰهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَلَيَـعۡلَمَنَّ الۡمُنٰفِقِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور اللہ ایمان والوں کو ضرور ظاہر فرما دے گا اور منافقوں کو (بھی) ضرور ظاہر فرما دے گا

امام ابو محمد الحسین بن مسعود الفراء البغوی متوفی ٥١٦ ھ نے اس آیت کے متعدد شان نزول بیان کئے ہیں :

سدی اور ابن زید نے کہا اس سے مراد منافق ہے ‘ جب اس کو اللہ کی راہ میں کوئی اذیت پہنچتی تو وہ دین اسلام سے منحرف ہو کر کفر کو اختیار کرلیتا۔ اور جب اللہ کی طرف سے کوئی مدد آتی یعنی جب مسلمان فتح یاب ہوتے اور ان کو مال غنیمت حاصل ہوتا تو منافقین مومنوں سے کہتے ‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے دشمنوں کے مخالف ہیں ‘ ہم پہلے بھی مسلمان تھے اور ہم نے اس سے پہلے جو دین اسلام سے انحراف کے متعلق کہا تھا ‘ اس کی وجہ کفار کا جبر کرنا تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی تکذیب کرتے ہوئے فرمایا ‘ کیا اللہ ان چیزوں کو سب سے زیادہ نہیں جانتا جو تمام جہانوں والوں کے سینوں میں ہیں اور اللہ ایمان والوں کو ضرور ظاہر فرمادے گا اور منافقوں کو (بھی) ضرور ظاہر فرمادے گا (العنکبوت : ١١۔ ١٠)

اس آیت کے سبب نزول کے متعلق کافی اختلاف ہے : مجاہد نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرتے تھے اور جب لوگوں کی طرف سے ان کو کوئی اذیت پہنچتی یا ان پر کوئی مصیبت آتی تو وہ منحرف ہوجاتے۔

عکرمہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جنہوں نے اسلام لانے کے بعد ہجرت نہیں کی ( جیسا کہ تفسیر امام ابن ابی حاتم کے حوالے سے تفصیلاً گزر چکا ہے) ۔

قتادہ نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے متعلق نازل ہوئی ہے جن کو کفار مکہ واپس لے گئے تھے۔ اسی وجہ سے امام شعبی نے یہ کہا ہے کہ ابتداء سورت سے لے کر یہاں تک دس آیتیں مدنی ہیں اور باقی سورت مکی ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 11