أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَثَلُ الَّذِيۡنَ اتَّخَذُوۡا مِنۡ دُوۡنِ اللّٰهِ اَوۡلِيَآءَ كَمَثَلِ الۡعَنۡكَبُوۡتِ ‌ۖۚ اِتَّخَذَتۡ بَيۡتًا ‌ؕ وَ اِنَّ اَوۡهَنَ الۡبُيُوۡتِ لَبَيۡتُ الۡعَنۡكَبُوۡتِ‌ۘ لَوۡ كَانُوۡا يَعۡلَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور مددگار بنا لئے ان کی مثال مکڑی کی طرح ہے جس نے (جالوں کا) گھر بنایا ‘ اور بیشک سب سے کمزور گھر ضرور مکڑی کا گھر ہے ‘ کاش یہ لوگ جانتے

مکڑی کے گھر کا سب سے کمزور گھر ہونا۔

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جن لوگوں نے اللہ کو چھوڑ کر اور مددگار بنا لئے ‘ ان کی مثال مکڑی کی طرح ہے جس نے (جالوں کا) گھر بنایا اور بیشک سب سے کمزور گھر ضرورمکڑی کا گھر ہے۔ (العنبکوت : ٤١)

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بیان فرمایا تھا کہ جن لوگوں نے دنیا میں شرک کیا اور اس کے نبیوں اور رسلوں کی تکذیب کی اور اسی پر اصرار کرتے رہے تو اللہ تعالیٰ نے ان پر آسمانی عذاب بھیجا اور جن باطل خدائوں کو وہ اللہ عزوجل کا شریک قرار دیتے تھے اور ان کو اپنا مددگار اور کار ساز سمجھتے تھے جن کے متعلق ان کا عقیدہ تھا کہ وہ ان کو ہر قسم کے ضرر سے بچا لیں گے وہ ان کے کسی کام نہ آسکے اور وہ لوگ اللہ کے عذاب میں ہلاک ہوگئے ‘ اس سے واضح ہوگیا کہ مشرکین نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑکر جو اور معبود بنا رکھے ہیں ‘ وہ بالکل بےبس اور لاچار ہیں وہ کسی کے بھی کام نہیں آسکتے ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اسی چیز کو اس مثال سے واضح کیا ہے کہ مشرکین کے خود ساختہ مددگار تو مکڑی کے جالوں کی طرح کمزور ہیں اور وہ کسی کے کام نہیں آسکتے۔

مکڑی کا گھر سب سے کمزور گھر حسب ذیل وجوہ سے ہے :۔

(١) گھر میں دیواریں ‘ چھت اور دروازے ہوتے ہیں ‘ چھت کی وجہ سے گھر والے بارش اور دھوپ سے محفوظ رہتے ہیں ‘ دیواروں کی وجہ سے وہ سرد ہوائوں کے تھپیڑوں س محفوظ رہتے ہیں اور دروازوں کی وجہ سے وہ اجنبی لوگوں کے آنے اور دشمنوں اور مخالفوں سے محفوظ رہتے ہیں اور مکڑی جو جالوں سے گھر بناتی ہے اس میں ان میں سے کوئی چیز نہیں ہوتی اس لئے وہ سب کمزور اور سب سے زیادہ غیر محفوظ گھر ہوتا ہے ‘ سورج کی شعاعیں اس سے آر پار گذرجاتی ہیں اور تیز آندھی یا ہوائوں کے تھپیڑوں سے وہ ٹوٹ کر بکھر جاتا ہے۔

(٢) اینٹوں ‘ ریت ‘ بجری ‘ سیمنٹ اور لوہے سے جو گھر بنایا جائے وہ سب سے زیادہ مضبوط ہے ‘ وہ انسان کو آگ سے بارش سے اور آندھیوں سے محفوظ رکھتا ہے اور اگر لکڑی کا گھر بنایا جائے تو وہ انسان کو آگ سے تو محفوظ نہیں رکھتا لیکن دھوپ ‘ بارش اور آندھیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔

(٣) تیسرے درجہ کا گھر وہ ہے جو کپڑے کا خیمہ ہو وہ انسان کو سایہ فراہم کرتا ہے ہرچند کہ وہ آگ ‘ بارش اور تیز ہوائوں کے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔

(٤) اور ان گھروں میں سب سے کمزور مکڑی کا گھر ہے جو نہ صرف یہ کہ کسی آفت سے بچا نہیں سکتا ہے بلکہ اس کو ثبات اور قرار بھی نہیں ہوتا جس گھر میں مکڑی کے جالے لگے ہوں جب گھر والا اپنے گھر کی صفائی کرتا ہے تو دیواروں سے مکڑی کے جالوں کو صاف کردیتا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بتوں کی عبادت کو مکڑی کے گھر سے تشبیہ دی ہے کیونکہ جس طرح تیز آندھی مکڑی کے جالوں کو اڑا کرلے جاتی ہے اور اس کو بکھرے ہوئے غبار کی طرح ریزہ ریزہ کردیتی ہے اسی طرح کفار نے بتوں کی خاطر جو عمل کئے ہیں وہ بھی قیامت کے دن ریزہ ریزہ کردیئے جائیں گے ‘ قرآن مجید میں ہے :

اور ہم ان کے کیے ہوئے کاموں کی طرف قصد فرمائیں گے پھر ہم ان کو بکھرے ہوئے ذرات کی طرح بنادیں گے (الفرقان : ٢٣ )

غار ثور کے منہ پر مکڑی کا جالا بنانا۔

اور یاد کیجئے جب کفار آپ کے خلاف سازش کررہے تھے کہ آپ کو قید کرلیں یا آپ کو قتل کردیں یا آپ کو وطن سے نکال دیں ‘ وہ سازشیں کررہے تھے اور اللہ اپنی تدبیر کررہا تھا اور اللہ سب سے بہتر تدبیر کرنے والا ہے (الانفال : ٣٠) 

حضرت ابن عباس (رض) اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں ایک رات قریش نے مکہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے خلاف باہمی مشورہ کیا ‘ بعض نے کہا جب آپ صبح کو اٹھیں تو آپ کو زنجیروں سے باندھ لیا جائے بعض نے کہا آپ کو قتل کردیا جائے اور بعض نے کہا آپ کو مکہ سے نکال دیا جائے اللہ عزوجل نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ان کی اس سازش سے مطلع کردیا ‘ سو اس رات حضرت علی (رض) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بستر پر سو گئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھر سے نکل کر غار میں چلے گئے اور مشرکین رات بھر حضرت علی کا پہرہ دیتے رہے وہ حضرت علی پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا گمان کررہے تھے ‘ جب صبح ہوئی تو وہ گھر میں گھس گئے جب انہوں نے حضرت علی کو دیکھا تو اللہ تعالیٰ نے ان کی سازش ان پر الٹ دی ‘ انہوں نے پوچھا تمہارے پیغمبر کہاں ہیں ؟ حضرت علی نے کہا میں نہیں جانتا ‘ پھر وہ آپ کے پائوں کے نشانات پر چلتے رہے ‘ حتیٰ کہ وہ غار (ثور) تک پہنچ گئے ‘ اور یہاں انہیں اشتباہ ہوگیا وہ پہاڑ پر چڑھے اور غار کے پاس سے گزرے انہوں نے دیکھا کہ مکڑی نے غار کے منہ پر جالا بنایا ہوا تھا ‘ انہوں نے کہا اگر وہ اس غار میں ہوتے تو اس کے منہ پر جالانہ ہوتا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس غار میں تین راتیں رہے۔(مصنف عبدالرزاق ج ٥ ص ٣٨٩ رقم الحدیث : ٩٧٤٣‘ مکتب اسلامی بیروت ١٣٩٠ ھ ‘ مجمع الزوائد ج ٧ ص ٢٧‘ دارالکتاب العربی بیروت ‘ مسند احمد ج ا ص ٣٤٨ طبع قدیم ‘ اس حدیث کی سند پر عثمان جزری کی وجہ سے اعتراض کیا گیا ہے ‘ حافظ احمد شاکر نے کہا امام بن حبان نے اسے ثقہ کہا ہے اور دوسروں نے اس کو ضعیف کہا ہے اور اس کی سند کے باقی راوی حدیث صحیح کے رجال ہیں حاثیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٣٢٥١‘ دارالحدیث قاہر ١٤١٦ ھ ‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ١٢١٥٥‘ جامع البیان رقم الحدیث : ١٢٣٩٥‘ الکشف والبیان للثعلبی ج ٤ ص ٣٤٩‘ تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٣٤٢‘ الدر المنثور ج ٤ ص ٤٧‘ فتح القدیر للثوکانی ج ٢ ص ٤٣٧‘ فتح البیان ج ٣ ص ٢٩‘ ان تمام مفسرین نے الانفال : ٣٠ کی تفسیر میں اس حدیث کو درج کیا ہے) ۔

مکڑی کے جالوں کے متعلق احادیث اور ان کے شرعی احکام 

یزید بن المرثد المرعی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا العنکبوت (مکڑی) شیطان ہے اس کو قتل کردو۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ٧٣٢٢‘ الدرالمثور ج ٦ ص ٤١٠)

عطا اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ عنکبوت نے دو مرتبہ جالا بنایا ایک مرتبہ حضرت دائود (علیہ السلام) کے لئے اور ایک مرتبہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے۔ (تفسیر امام ابن ابی حاتم رقم الحدیث : ٧٣٢٣‘ الدر المثور ج ٦ ص ٤١٠)

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں :

ظاہر یہ ہے کہ عنکبوت سے مراد وہ (کیڑا) ہے جو فضا میں جالے سے اپنا گھر بناتا ہے اور اس سے مراد وہ کیڑا نہیں ہے جو زمین کو کھود کر اپنا گھر بنا تا ہے (دیمک) اور یہ زہر یلے کیڑوں میں سے ہے اس لئے اس کو قتل کرنا مسنون ہے نہ کہ اس روایت کی وجہ سے جس کو امام ابودائود نے اپنی مراسیل میں یزید بن المرثد سے روایت کیا ہے کہ عنکبوت شیطان ہے اس کو اللہ تعالیٰ نے مسخ کردیا ہے سو جو شخص اس کو پائے وہ اس کو قتل کر دے ‘ علامہ دمیری کی تصریح کے مطابق یہ حدیث ضعیف ہے۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کو قتل کرنا مسنون نہیں ہے ‘ کیونکہ خطیب نے حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے روایت کیا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا میں اور ابوبکر غار (ثور) میں داخل ہوئے تو مکڑیوں نے جمع ہو کر غار پر جالا بنادیا سو تم ان کو قتل نہ کرنا ‘ اس حدیث کو حافظ جلال الدین سیوطی نے الدر المثور ( ج ٦ ص ٤١٠‘ داراحیاء التراث العربی بیروت) میں ذکر کیا ‘ اس حدیث کی صحت کا اللہ تعالیٰ ہی کو علم ہے اور اس بات کا کہ یہ استدلال ک کی صلاحیت رکھتی ہے یا نہیں ‘ ہاں فقہاء نے اس کی تصریح کی ہے کہ اس کا بنایا ہوا جالا طاہر ہے اور یہ بھی ذکر کیا ہے کہ گھروں کو مکڑی کے جالوں سے پاک اور صاف رکھنا مستحسن ہے حدیث میں ہے :۔

امام ابو اسحٰق احمد بن محمد بن ابراہیم ثعلبی نیشا پوری متوفی ٤٢٧ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت علی ابن ابی طالب (رض) نے فرمایا اپنے گھروں کو مکڑی کے جالوں سے پاک رکھو کیونکہ گھروں میں مکڑی کے جالوں کو چھوڑ دینے سے فقر پیدا ہوتا ہے۔ (الکثف والبیان ج ٧ ص ٢٨٠‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)

اگر حضرت علی (رض) سے یہ نقل صحیح ہے تو فبہا ورنہ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھروں کو مکڑی کے جالوں سے پاک کرنا ‘ صفائی اور ستھرائی کے زیادہ قریب ہے لہذا مکڑی کے جالوں کو زائل کرنے کے مستحب ہونے میں کوئی شک نہیں ہے۔ (روح المعانی جز ٢٠ ص ٢٤١۔ ٢٤٠‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 29 العنكبوت آیت نمبر 41