{عقائد متعلقہ ذات وصفات ِ الہٰی جل جلالہٗ}

اللہ تعالیٰ وحدہ لاشریک ہے }

القرآن : ترجمہ :تم فرماؤ وہ اللہ ہے وہ ایک ہے ، اللہ بے نیاز ہے ، نہ اس کی کوئی اولاد ہے اورنہ وہ کسی سے پیدا ہوا اور نہ اس کے جوڑ کا کوئی ۔(سورۂ اخلاص)

اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے }

اللہ تعالیٰ واجب الوجود ہے یعنی اس کا وجود ضروری اورعدم محال ہے اس کو یوں سمجھئے کہ اللہ تعالیٰ کو کسی نے پیدا نہیں کیا بلکہ اسی نے سب کو پیدا کیا ہے وہ خود اپنے آپ سے موجود ہے اورازل سے ہے اوراَبدتک رہے گا یعنی ہمیشہ سے ہے اورہمیشہ رہے گا اس کی تمام صفات اس کی ذات کی طرح ازلی وابدی ہیں۔

سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں۔اللہ تعالیٰ سب کا خالق ومالک ہے اس کا کوئی شریک نہیں۔ وہ جِسے چاہے زندگی دے ، جسے چاہے موت دے، جِسے چاہے عزت دے، جِسے چاہے ذِلت دے ، وہ کسی کا محتاج نہیں سب اس کے محتاج ہیں ، وہ جِسے چاہے جو چاہے اور جیسا چاہے کرے اُسے کوئی روک نہیں سکتا ، سب کچھ اُسی کے قبضۂ قدرت میں ہے ۔

ہر عیب اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے }

تمام خوبیاں اورکمالات اللہ تعالیٰ کی ذات میںموجود ہیں اورہر وہ بات جس میں عیب یا نقص یا نقصان یا جس سے کسی دوسرے کا حاجت مند ہونا لازم آئے اللہ تعالیٰ کے لئے محال وناممکن ہے جیسے یہ کہنا کہ ’’اللہ تعالیٰ جھوٹ بول سکتاہے ‘‘(العیاذ باللہ)کیونکہ اس مقدس پاک،بے عیب ذات کو عیبی بتانا ہے درحقیقت اللہ تعالیٰ کاانکار کرنا ہے خوب یادر کھئے کہ ہر عیب اللہ تعالیٰ کے لئے محال ہے اوراللہ تعالیٰ ہر محال سے پاک ہے ۔

اللہ تعالیٰ جسم و زمان و مکان سے پاک ہے }

اللہ تعالیٰ کی تمام صفات اس کی شان کے مطابق ہیں، بے شک وہ سنتا ہے ، دیکھتا ہے ، کلام کرتا ہے ، ارادہ کرتاہے مگر وہ ہماری طرح دیکھنے کے لئے آنکھ ، سُننے کے لئے کان ، کلام کے لئے زبان ارادے کے لئے ذہن کا محتاج نہیںکیونکہ یہ سب اجسام ہیں اوروہ اجسام اورزماں ومکان سے پاک ہے نیز اس کا کلام آواز والفاظ سے بھی پاک ہے ۔

قرآن وحدیث میں جہاں ایسے الفاظ آئے ہیں جو بظاہر جسم پر دلالت کرتے ہیں جیسے یَدْ، وَجھہ، استوا وغیرہ ان کے ظاہری معنیٰ لینا گمراہی وبد مذہبی ہے ۔ ایسے متشابہ الفاظ کی تاویل کی جاتی ہے کیونکہ ان کا ظاہری معنیٰ رب تعالیٰ کے حق میںمحال ہے مثال کے طور پر یَدْ کی تاویل قدرت سے ، وَجھہ کی ذات سے اور استواء کی غلبہ وتوجہ سے کی جاتی ہے بلکہ احتیاط اس میں ہے کہ بلا ضرورت تاویل کرنے کی بجائے ان کے حق ہونے پر یقین رکھے۔ ہمارا عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ یَدْ حق ہے ، استوا ء حق ہے مگر اس کا یَدْ مخلوق کا سایَدْ نہیں اوراس کا استواء مخلوق کاسا استواء نہیں ۔

اللہ تعالیٰ کے ہر فعل میں حکمت ہے }

اللہ تعالیٰ کے ہر فعل میں کثیر حکمتیں ہوتی ہیں خواہ وہ ہماری سمجھ میں آئیں یانہ آئیں۔ اس کی مشیت اورارادے کے بغیر کچھ نہیں ہوسکتا مگر وہ ہر نیک کام سے خوش ہوتاہے اوربرائی سے ناراض ہوتاہے ۔ بُرے کام کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنا بے ادبی ہے ۔بُرا کام کرکے تقدیر یا مشیت الہٰی کی طرف منسوب کرنا بہت بُری بات ہے اس لئے اچھے کام کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا چاہئے اوربُرے کام کو شامت ِ نفس سمجھنا چاہئے اللہ تعالیٰ کے وعدہ ووعید تبدیل نہیں ہوتے ، اس نے اپنے کرم سے وعدہ فرمایا ہے کہ وہ کُفر کے سوا ہر چھوٹے بڑے گناہ کو جسے چاہے معاف فرمادے گا، مسلمانوں کو جنت میں داخل فرمائے گا اورکفار کو اپنے عدل سے جہنم میں ڈالے گا۔ 

تقدیر کا بیان}

اللہ تعالیٰ نے جو کچھ عَالَم(جہان) میں ہونے والا تھا اورجو کچھ بندے کرنے والے تھے اُس کو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی جان کر لکھ دیا کسی کی قسمت میںبھلائی لکھی اورکسی کی قسمت میں بُرائی لکھی اس لکھ دینے نے بندے کو مجبور نہیںکردیا کہ جو اللہ تعالیٰ نے لکھ دیا وہ بندہ کو مجبوراً کرنا پڑتا ہے بلکہ بندہ جیساکرنے والا تھا ویسا ہی اُس نے لکھ دیا۔اسی کا نام تقدیر ہے۔

مسئلہ : تقدیر کے مسئلہ میں غور وبحث منع ہے بس اتنا سمجھ لینا چاہئے کہ آدمی پتھر کی طرح بالکل مجبور نہیںہے کہ اس کا ارادہ کچھ ہوہی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کوایک طرح کااختیار دیا ہے کہ نیک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اسی اختیار کی بناء پر نیکی بَدی کی نسبت بندے کی طرف ہے اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے ۔ 

اللہ تعالیٰ کو تو کہنا کیسا}

مسئلہ : اللہ تعالیٰ کی ذات میں کثرت کا شائبہ بھی نہیں ہوسکتا اس لئے اللہ تعالیٰ کے لئے ایسے الفاظ استعمال نہ کئے جائیں جن میں کثرت کا شائبہ ہوقرآن میں کسی نبی سے کوئی ایسی بات یا جُملہ منقول نہیںہے جو اللہ تعالیٰ کے لئے جمع کا صیغہ پر مشتمل ہوہر جگہ واحد کا صیغہ استعمال ہوا ہے اوراللہ تعالیٰ نے خود اپنے لئے جو جمع کے صیغے استعمال کئے ہیں وہ اس لئے کہ متکلّم خود اپنے لئے جب جمع کا صیغہ استعمال کرتاہے تو اس سے مقصود مخاطب پر اپنی عظمت ظاہر کرکے فرمانبرداری کرنے پر مائل کرنا ہوتاہے لہٰذا اللہ تعالیٰ کے لئے ’’تو‘‘ کاصیغہ یعنی صیغہ واحد استعمال کرنا چاہئے جب کہ تم کا صیغہ استعمال نہیں کرنا چاہئے کیونکہ اس میںکثرت کاشائبہ ہے اس سے بچا جائے۔(ملخصاً از:وقار الفتاویٰ جلد اوّل)