أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاَقِمۡ وَجۡهَكَ لِلدِّيۡنِ حَنِيۡفًا ‌ؕ فِطۡرَتَ اللّٰهِ الَّتِىۡ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيۡهَا ‌ؕ لَا تَبۡدِيۡلَ لِخَـلۡقِ اللّٰهِ‌ ؕ ذٰ لِكَ الدِّيۡنُ الۡقَيِّمُ ۙ وَلٰـكِنَّ اَكۡثَرَ النَّاسِ لَا يَعۡلَمُوۡنَ ۞

ترجمہ:

سو آپ باطل پرستوں سے کنارہ کش ہو کر اپنے آپ کو دین حق پر قائم رکھیں (اے لوگو ! ) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی اس خلقت پر قائم رکھو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ‘ اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ‘ یہی صحیح دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو آپ باطل پرستوں سے کنرہ کش ہو کر اپنے آپ کو دین حق پر قائم رکھیں ‘(اے لوگو ! ) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی اس خلقت پر قائم رکھو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے ‘ اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ‘ یہی صحیح دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے (الروم : ٣٠)

ایک انسان کے اعضاء کے ساتھ کسی دوسرے انسان کے اعضاء کی پیوندکاری کی تحقیق 

اس آیت میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ آپ اپنا چرہ دین مستقیم یعنی دین اسلام کی طرف قائم اور متوجہ رکھیں ‘ چہرے کو قائم رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ اپنی پوری قوت کے ساتھ دین اسلام کے احکام پر عمل کریں اور چہرہ کا خصوصیت سے اسے لیے ذکر کیا کہ وہ انسان کے حواس کا جامع ہے اور اس کے اعضاء میں سب سے اشرف ہے ‘ اور تمام مفسرین کے نزدیک اس خطاب میں اپ کی امت بھی داخل ہے اور حنیف کا معنی ہے تمام ادیان محرفہ اور شرائع منسوخہ سے اعراض کرتے ہوئے۔

اس آیت میں فرمایا ہے : (اے لوگو ! ) اپنے آپ کو اللہ کی بنائی ہوئی خلقت پر قائم رکھو جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے (الروم : ٣٠)

فطرت کا لغوی معنی 

فطر کا معنی ہے پھاڑنا ‘ پیدا کرنا ‘ شروع کرنا ‘ فطرالعجین کا معنی ہے گندھے ہوئے آٹے کے خمیر ہونے سے پہلے روٹی پکانا ‘ فطر ناب البعیر کا معنی ہے اونٹ کے دانت کا ظاہر ہونا ‘ فطر الرجل الشاۃ کا معنی ہے انگلیوں کے اطراف سے بکری کو دوہنا ‘ فطر الصائم کا معنی ہے روزہ دار کا روزہ افطار کرانا ‘ تفطر کا معنی ہے پھٹنا۔(المنجد ص ٥٨٨۔ ٥٨٧‘ ایران ‘ ١٣٧٩ ھ)

امام لغت خلیل بن احمد فراھیدی متوفی ١٧٥ ھ لکھتے ہیں :

فطر اللہ الخلق کا معنی ہے مخلوق کو پیدا کیا ‘ اور اشیاء بنانے کی ابتدائی کی اور فطرت کا معنی ہے وہ دین جس پر ان پیدا کیا گیا ‘ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی ربوبیت کی معرفت پر پیدا کیا۔ (کتاب العین ج ٣ ص ١٤٠٤‘ مطبعہ باقری قم ‘ ١٤١٤ ھ)

امام محمد بن ابی بکر الرازی لحنفی المتوفی ٦٦٠ ھ لکھتے ہیں : فطر کا معنی ہے ابتداء اور اختراع۔(مختار الصحاح ص ٢٩٩‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ٩ ١٤١ ھ)

علامہ مجد الدین محمد بن یعقوب الفیروز آبادی المتوفی ٧٢٩ ھ لکھتے ہیں : فطر کا معنی ہے اللہ تعالیٰ کا پیدا کرنا۔(القاموس المحیط ج ٢ ص ١٥٧‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

فطرۃ اللہ التی فطرالناس علیھا (لروم : ٣٠) میں اس کی طرف اشارہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا اور لوگوں کے دل و دماغ میں اللہ تعالیٰ کی معروفت کو مرکوز کردیا ‘ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ ” اگر آپ ان سے پوچھیں کہ ان کو کس نے پیدا کیا ہے تو وہ ضرور کہیں گے کہ اللہ نے ان کو پیدا کیا ہے۔ “ (الزخرف : ٨٧) اور قرآن مجید میں ہے : الحمد للہ فاطرالسموت والا رض (فاطر : ١) تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام آسمانوں اور زمینوں کو ابتدائً پیدا کرنے والا ہے اور فرمایا الذی فطرھن (الانبیاء : ٥٦) جس نے آسمانوں اور زمینوں کو ابتداء پیدا کیا۔ (المفردات ج ٢ ص ٤٩٤‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٨ ھ)

علامہ جار اللہ محمود بن عمر الز مخشری المتوفی ٥٨٣ ھ لکھتے ہیں :

الفطر کا معنی ہے ابتدا اور اختراع ‘ حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں فاطرالسموات والارض کا معنی مجھ پر اس وقت منکشف ہوا جب دواعرابی میرے پاس ایک مقدمہ لے کر آئے ہر ایک کا ایک کنویں کے متعلق یہ دعویٰ تھا انا فطر تھا یہ کنواں میں نے ابتداء کھودا ہے۔ فطرت کا معنی ہے جس نوع کی پیدائش پر انسان کو پیدا کیا گیا ہے اور وہ اللہ کی فطرت ہے ‘ یعنی انسان کو خوش سے دین حنیف کو قبول کرنے کی استعداد اور صلاحیت پر پیدا کیا گیا اور یہ چیز اس میں طبعاً ہے تکلفاً نہیں ہے ‘ اگر انسان کو بہکا نے والے سیاطین جن و انس سے الگ رکھا جائے تو وہ صرف اسی دین کو قبول کرے گا اور اس کے سوا اور کسی دین کو قبول نہیں کرے گا ‘ اور اس کی مثال جمعاء سے دی گئی ہے یعنی وہ جانور جو سلیم الاعضاء پیدا ہوا ‘ بعد کے کسی حادثہ سے جس کا کوئی عضو ٹوٹا نہ ہو ‘ ایک حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے میں نے اپنے بندوں کو حنفاء ( ادیان باطلہ سے اعراض کرنے والے) پیدا کیا ‘ پھر شیاطین نے ان کو ان کے دین سے پھیر دیا اور میں نے ان ان کو جو رزق عطا کیا تھا وہ حلال تھا ‘ پھر شیطان نے ان پر وہ رزق حرام کردیا جس کو میں نے ان کے لیے حلال کیا تھا صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٦٥) یعنی انہوں نے بحیرہ اور سائبہ (بتوں کے نام پر چھوڑے ہوئے جانور) وغیرہ بنا لیے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی اور نصرانی بنا دیتے ہیں اور اللہ کی خلقت (فطرت) میں کوئی تبدیلی نہیں ہے۔ (الفائق ج ٣ ص ٣٩‘ دارالکتب العملمیہ بیروت ‘ ١٤١٧ ھ ‘ الکشاف ج ٣ ص ٤٨٥۔ ٤٨٤‘ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ المبارک بن محمد المعروف بابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ ‘ اور علامہ محمد طاہر پٹنی المتوفی ٩٨٦ ھ نے بھی یہی لکھا ہے۔(النہا یہ ج ٣ ص ٤٠٩ ذ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ ‘ مجمع بخارلانورا ج ٤ ص ١٥٨ ذ مطبوعہ متبہ دار الایمان المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ طاہر پٹنی نے فطرت کے معنی میں مزید لکھا ہے :

علامہ نووی نے شرح مسلم میں لکھا ہے کہ فطرت سے مراد وہ عہد ‘ ہے جو لوگوں سے اس وقت لیا گیا جب وہ اپنے آباء کی پشتوں میں تھے ‘ یا فطرت سے مراد لوگوں کی شعادت یا شقاوت کی تقدیر ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ اگر انسان پیدا ہونے کے بعد اسی حال پر رہے تو وہ دین اسلام پر ہوگا ‘ علامہ ابن اثیر نے نہایہ میں کہا حیدث میں ہے کہ دس چیزیں فطرت سے ہیں یعنی سنت سے ہیں اور یہ انبیاء (علیہم السلام) کی وہ دس سنتیں ہیں جن کی قتداء کا ہمیں حکم دیا گیا ہے ‘ علامہ کرمانی نے کہا فطرت سے مراد انبیاء (علیہم السلام) کی قدیم سنتیں ہیں۔ جن کو انہوں نے اختیار کیا اور جس پر تمام شریعتیں متفق ہیں گویا یہ جبلی (طبعی) امر ہے جس پر لوگوں کو پیدا کیا گیا ہے ‘ ان میں سے مونچھوں کو کم کرنا اور ڈاڑھی کو بڑھانا ہے اور ختنہ کرنا ہے ‘ نیز جب شب معراج رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے شراب کو ترک کر کے دودھ کو پیا تو جبریل نے کہا آپ نے فطرت کو اختیار کیا ‘ یعنی آپ نے اسلام اور استقامت کی علامت کو اختیار کیا ‘ نیز حدیث میں ہے تم فطرت پر مرو گے یعنی اسلام اور دین حق پر۔(مجمع بحار لانوارج ٤ ص ١٥٩۔ ١٥٨‘ ملخصا ‘ مطبوعہ مکتبہ دارالایمان المدینہ المنورہ ‘ ١٤١٥ ھ)

ہر بچہ کی فطرت پر پیدائش کی حدیث 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں جیسے ایک جانور سالم پیدا ہوتا ہے کیا تم اس میں کوئی ٹوٹ پھوٹ دیکھتے ہو ؟ پھر حضرت ابوہریرہ (رض) نے اس آیت کو پڑھا : فطرت اللہ التی فطرالناس علیھا۔ (الروم : ٣٠) (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٥٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٦٥٨‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٧١٤‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧١٨١ عالم الکتب ‘ بیروت)

اس پر اعتراض ہے کہ اس آیت میں ہے لا تبدیل لخلق اللہ (الروم : ٣٠) اللہ کی خلقت میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ‘ حالانکہ تبدیلی تو ہوجاتی ہے بعض بچے بڑے ہو کر یہودی یا نصرانی ہوجاتے ہیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق میں کوئی تبدیلی نہیں ہے ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ یہ صورۃ خبر ہے اور معنی نہی ہے اس کا معنی ہے اس سرشت کو تبدیل نہ کرو جس پر اللہ نے پیدا کیا ہے ‘ اور اس کا تیسرا جواب یہ ہے کہ فطرت سے مراد اسلام کو قبول کرنے کی صلاحیت ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔

اگر فطرت سے مراد دین حق یا اسلام ہو تو پھر یہ حدیث عموم پر نہیں رہے گی۔

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :

(١) علماء کی ایک جماعت نے کہا ہے کہ اس حدیث میں فطرت سے مراد عموم نہیں ہے اور اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے کہ بنو آدم کے تمام بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں خواہ ان کے ماں باپ کافر ہوں ‘ سو جب بچے نابالغ ہوں تو ان پر وہی حکم لگایا جاتا ہے جو ان کے ماں باپ کا ہے۔ اگر ان کے ماں باپ یہودی ہوں تو وہ یہودی ہوں گے اور اگر ان کے ماں باپ نصرانی ہوں تو وہ نصرانی ہوں گے اور ان کے وارث ہوں گے ‘ اور ان کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ حضرت ابی بن کعب (رض) نے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس لڑکے کے متعلق فرمایا جس کو حضرت خضر (علیہ السلام) نے قتل کردیا تھا ‘ جس دن وہ پیدا ہوا ‘ اللہ تعالیٰ نے اس پر کفر کی مہر لگا دی تھی (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٧٠٥‘ سنن ترمذی رقم الحدیث : ٣١٥٠‘ مسند احمد ج ٥ ص ١٢١) اور امام سعید بن منصور نے اپنی سند کے ساتھ حضرت ابو سعید (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا سنو ! جب بنو آدم کو پیدا کیا گیا تو ان کے کئی طبقات تھے ان میں سے بعض ایمان پر پیدا ہوتے ہیں ‘ ایمان پر زندہ رہتے ہیں اور ایمان پر مرتے ہیں ‘ اور بعض کفر پر پیدا ہوتے ہیں ‘ کفر پر زندہ رہتے ہیں اور کفر پر مرتے ہیں ‘ پس اس حدیث میں اور حضرت ابی بن کعب کی حدیث میں یہ دلیل ہے کہ جس حدیث میں مذکور ہے کہ ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس حدیث میں عموم مراد نہیں ہے کیونکہ بعض بچے فطرت پر پیدا نہیں ہوتے ‘ اسی طرح قرآن مجید کی بعض آیات میں کل کا لفظ ہے اور وہاں عموم مراد نہیں ہے۔ حضرت ھود (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے فرمایا تھا :

وہ (عذاب کی ہوا) اپنے رب کے حکم سے ہر چیز کو ہلاک کر دے گی۔ (الاحقاف : ٢٥ )

حالانکہ اس ہوا نے آسمان اور زمین کو ہلاک نہیں کیا تھا۔

پھر جب وہ کفار ان چیزوں کو بھولے رہے جس کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھو دیئے۔ (الانعام : ٤٤) حالانکہ ان پر رحمت کے دروازے نہیں کھولے گئے تھے۔

(١) دوسرے علماء نے یہ کہا یہ حدیث اپنے عموم پر ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک خواب دیکھا اور فرشتوں نے اس کی تعبیر بتائی انہوں نے کہا آپ نے جو دراز قامت انسان دیکھا وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تھے اور آپ نے ان کے گرد جو بچے دیکھے تو یہ ہر وہ بچہ ہے جو فطرت پر مرگیا ‘ بعض مسلمانوں نے پوچا ‘ یا رسول اللہ ! مشرکین کی اولاد بھی ؟ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مشرکین کی اولاد بھی ! ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٧٠٤٧‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٢٧٥)

اور امام سعید بن منصور کی حدیث دو وجہوں سے صعیف ہے اول اس لیے کہ اس کی سند میں ابن جدعان ہے ‘ ثانی اس وجہ سے کہ یہ حدیث دعوی عموم کے معارض نہیں ہے کیونکہ چاروں قسمیں اللہ تعالیٰ کے علم کی طرف راجع ہیں کیونکہ کبھی کوئی بچہ مسلمانوں کے ہاں پیدا ہوتا ہے اور العیاذ با للہ ‘ اللہ کے علم میں وہ مسلمان نہیں ہوتا ‘ اور حضرت خضر نے جس بچہ کو قتل کیا تھا اس کا یہی محمل ہے ‘ اسی طرح کبھی کوئی بچہ کافروں کے ہاں پیدا ہوتا ہے اور اسللہ کے علم میں وہ کافر نہیں ہوتا۔

میں کہتا ہوں کہ علامہ عینی کے اس جواب کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر بچہ فطرت پر ہوتا ہے لیکن اس سے وہ بچے مستثنی ہیں جو اللہ کے علم میں مسلمان نہیں ہیں جیسے وہ بچہ جس کو حضرت خضر (علیہ السلام) نے قتل کیا تھا تو پھر مآل تو یہی نکلا کہ یہ حدیث اپنے عموم پر نہیں ہے۔ فتدبر (عبدۃ القاری ج ٨ ص ٢٥٨‘ مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

نیز علامہ عینی نے علی بن جدعان کی وجہ سے اس حدیث کا اعتبار نہیں کیا لیکن اس حدیث کو صرف امام سعید بن منصور نے روایت نہیں کیا بلکہ یہ حدیث متعدد کتب حدیث میں ہے : سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢١٩١‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٨٧٣‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٧٥٢‘ مسند احمد ج ٣ ص ٧‘ میں یہ حدیث ہے ‘ اور علی بن زید بن جدعان سے امام بخاری نے الادب المفرد میں ‘ امام مسلم نے اپنی صحیح میں اور چاروں اصحاب سنن نے استدلال کیا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ اگر اس حدیث میں فطرت کا معنی ایمان یا دین اسلام کیا جائے تو یہ عموم پر نہیں رہے گی الایہ کہ اس حدیث میں فطرت کا معنی یہ کیا جائے کہ ہر بچہ صحیح وسالم عیوب سے خالی اور کامل خلقت اور ہیئت پر پیدا ہوتا ہے۔

الروم : ٣٠ اور اس حدیث میں فطرت سے مراد کامل ہیئت اور صحیح وسالم خلقت ہے 

حافظ یوسف بن عبد اللہ بن محمد بن عبدالبر المالکی القرطبی المتوفی ٤٦٣ ھ لکھتے ہیں :

بعض علماء نے کہا کہ فطرت کا معنی خلقت ہے او فاطر کا معنی خالق ہے ‘ اور انہوں نے اس کا انکار کیا کہ مولود کو کفر یا ایمان یا معرفت یا انکار پر پیدا کیا جائے انہوں نے کہا اعم اور اغلب طور پر مولود ‘ جسم کی سلامتی کے ساتھ خلقۃ ‘ اور طبعاً پیدا ہوتا ہے اور اس کے ساتھ ایمان ہوتا ہے نہ کفر ‘ نہ انکار اور نہ معرفت ‘ پھر جب وہ بالغ ہوجاتا ہے اور اشیاء میں تمیز کرنے کا اہل ہوتا ہے تو پھر وہ کفر یا ایمان کا اعتقاد رکھتا ہے ‘ اور ان کا اس موقف پر استدلال اس سے ہے کہ حدیث میں ہے ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے ‘ جیسے جانور صحیح وسالم پیدا ہوتا ہے کیا تم اس میں کوئی کٹی ہوئی یا ٹوٹی ہوئی چیز دیکھتے ہو یعنی کیا اس کے کان کٹے ہوئے ہوتے ہیں۔ آپ نے بنو آدم کی جانوروں کے ساتھ مثال دی کیونکہ جب جانور پیدا ہوتے ہیں تو ان کی خلقت کامل ہوتی ہے ان میں کوئی کمی نہیں ہوتی پھر بعد میں ان کی ناک یا کان کاٹ دئیے جاتے ہیں اور کہا جاتا ہے یہ بحیرہ ہے اور یہ سائبہ ہے۔ اسی طرح جب بچے پیدا ہوتے ہیں تو ولادت کے وقت ان میں کفر ہوتا ہے نہ ایمان ‘ نہ انکار ہوتا ہے نہ معرفت جیسے صحیح وسالم جانور پیدا ہوتے ہیں اور جب وہ بالغ ہوجاتے ہیں تو شیطان ان کو گم راہ کردیتا ہے تو ان میں سے اکثر کفر کرتے ہیں اور کم کو اللہ تعالیٰ محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا اگر بچے ابتداء کفر یا ایمان پر پیدا ہوتے تو وہ اس سے کبھی منتقل نہ ہوتے ‘ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ایمان لاتے ہیں پھر کفر کرتے ہیں ‘ اور انہوں نے کہا یہ محال ہے کہ بچہ ولادت کے وقت کفر یا ایمان کو سمجھتا ہو کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو جس حال میں پیدا کیا اس حالل میں وہ کچھ نہیں سمجھتے تھے ‘ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم اس وقت کچھ نہیں جانتے تھے۔ (النحل : ٧٨)

اور جو اس وقت کچھ بھی نہ جانتا ہو اس کا اس وقت کفر یا ایمان یا انکار یا معرفت پر ہونا محال ہے۔

امام ابو عمر ابن عبدالبر مالکی نے کہا فطرت کے معنی میں جتنے اقوال ذکر کیے گئے ہیں ان میں صحیح ترین قول ہے ‘ یعنی ہر مولود کو صحیح اور سالم جسم کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ (التمہید ج ٧ ص ٢٤٠۔ ٢٣٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ٩ ١٤١ ھ)

محققین کے نزدیک فطرت کا معنی کامل خلقت ہی ہے۔

علامہ ابو عبد اللہ محدم بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

حافظ ابن عبدالبر نے فطرت کے جس معنی کو اختیار کیا ہے اور اس پر دلائل قائم کیے ہیں بہ کثرت محققین کا وہی مختا رہے ‘ ان میں سے قاضی عبدالحق بن غالب بن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ ہیں وہ لکھتے ہیں فطرت کی معتمد تفسیر یہ ہے کہ اس سے مراد بچہ کی وہ خلقت اور ہیئت ہے جس میں استعداد اور صلاحیت ہوتی ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کی مصنوعات کو باہم ممتاز اور ممیزکر سکے اور ان مصنوعات سے اپنے رب کے وجود پر استدلال کرسکے اور اللہ تعالیٰ کی شرائع کو پہچانے اور ان پر ایمان لائے ‘ گویا کہ اللہ تعالیٰ نے یوں فرمایا : اپنے چہرے کو دین حنیف کے رخ کی طرف قائم رکھیں اور یہی اللہ تعالیٰ کی فطرت ہے یعنی وہ صلاحیت جس پر اس نے بشر کو پیدا کیا ہے ‘ لیکن ان کو عوارض پیش آجاتے ہیں اس وجہ سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہر مولود فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اس کے ماں باپ اس کو یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں ‘ آپ نے ان عوارض کا بہ طور مثال ذکر کیا ہے ورنہ عوارض بہت ہیں۔ ( المحر رالو جیز ج ١٢ ص ٢٥٨‘ مطبوعہ المتبۃ التجار یہ مکۃ المکرمہ ‘ ١٤٠٨ ھ)

اور ہمارے شیخ حافظ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المتوفی ٦٥٦ ھ نے کہا کہ حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے بنو آدم کے قلوب کو حق قبول کرنے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے جیسے ان کی آنکھوں کو اور کانوں کو دیکھنے اور سننے کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ہے ‘ پس جب تک ان میں یہ صلاحیت رہے گی وہ دین حق اور اسلام کا ادراک کرسکیں گے اور حدیث صحیح میں اس کی تصریح ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی معرفت پر پیدا کیا ‘ پھر شیاطین نے ان کو گمراہ کردیا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٨٦٥) (اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو اپنی معرفت کی استعداد اور صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا ‘ کیونکہ قرآن مجید میں ہے : اللہ نے تم کو تمہاری مائوں کے پیٹوں سے اس حال میں نکالا کہ تم اس وقت کچھ بھی نہیں جانتے تھے، النحل : ٧٨‘ پس پیدائش کے وقت ان میں بالفعل اللہ تعالیٰ کی معرفت نہیں تھی بلکہ اس کی معرفت کی استعداد اور صلاحیت تھی) اور اس حدیث میں بھی رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے جیسے جانور سے صحیح وسالم جانور پیدا ہوتا ہے کیا تم اس کا کوئی عضو کٹا ہوا دیکھتے ہو ‘ یعنی جانور کامل خلقت کے ساتھ پیدا ہوتا ہے اور تمام آفتوں سے سلامت ہوتا ہے ‘ اگر اس کو اسی حالت پر بر قرار رکھا جائے تو وہ تمام عیوب سے سلامت اور کامل رہے گا لیکن اس جانور میں تصرف کیا جاتا ہے اس کے کان کاٹ دیئے جاتے ہیں اور اس کے چہرے پر داغ لگا دیا جاتا ہے ‘ پھر اس میں آفات اور نقائص آجاتے ہیں اور وہ اپنی اصل سے نکل جاتا ہے ‘ اور اسی طرح انسان ہے (یعنی اس کو اس کے تمام اعضاء کے ساتھ مکمل اور عیوب سے خالی پیدا کیا جاتا ہے پھر جب وہ بالغ ہوجاتا ہے اور اشیاء میں تمیز کے قابل ہوجاتا ہے تو پھر وہ ماں باپ کی اتباع اور تقلید یا کسی اور عارضہ اور سبب سے کفر یا ایمان میں سے کسی ایک کو اختیار کرلیتا ہیض پس یہ تشبیہ واقع کے مطابق ہے اور اس کی وجہ بالکل واضح ہے۔ (المفھم ج ٦ ص ٦٧٦‘ مطبوعہ دارابن کثیر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

(الجامع الا حکام القرآن جز ١٤ ص ٢٨۔ ٢٧‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ بدرالدرین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ نے بھی فطرت کے اسی معنی کو برقرار رکھا ہے جس کو حافظ ابن عبدالبر نے بیان کیا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٨ ص ٢٥٩۔ ٢٥٨‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

اپنے جسم کے بعض اعضاء نکلوا کر کسی کو دے دینا ‘ اللہ کی تخلیق کو بدلنا ہے 

حافظ ابن عبدالبر مالکی متوفی ٤٦٣ ھ ‘ قاضی ابن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ ‘ حافظ ابوالعباس قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ ‘ علامہ ابو عبداللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ اور علامہ بدرالدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ نے فطرت کے معنی پر بحث کی ہے او دلائل سے واضح کیا ہے کہ جس خلقت اور جس ہیئت پر اللہ تعالیٰ نے انسان کو صحیح اور سالم اور تمام جسمانی نقائص اور عیوب سے خالی پیدا کیا وہی فطرت ہے ‘ اس کے بعد فرمایا لا تبدیل لخلق اللہ یعنی اللہ کی خلقت اور بناوٹ میں کوئی تبدیلی نہیں ہے یہ صورۃ خبر ہے اور معنی نہیں ہے ‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی خلقت اور ہیئت میں تبدیلی نہ کرو ‘ اپنے ہاتھ اور پائوں کاٹ کر اللہ تعالیٰ کی خلقت میں تبدیلی اور تغیر نہ کرو جو لوگ اپنے بعض اعضاء مثلاً گردہ وغیرہ نکلوا کر کسی کودے دیتے ہیں ان کا یہ فعل بھی اس آیت کی رو سے ممنوع اور حرام ہے۔ اس پر مزید دلائل اور بحث و تمحیص ہم آئندہ سطور میں پیش کررہے ہیں ‘ ہرچند کہ کتب لغت ‘ کتب تفسیر اور شروح حدیث میں فطرت کے دیگر معانی کا بھی ذکر کیا گیا ہے لیکن وہ تمام معانی اس آیت کی تفسیر اور اس حدیث کی تشریح میں درست نہیں ہیں ‘ قرآن مجید میں فاطر کا معنی خالق اور فطر کا معنی خلق ہے اور فطرت کا معنی خلقت ہے اور ” لاتبدیل لخلق اللہ “ اس پر قرینہ ہے ‘ اور حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ” جانور کی جانور سے صحیح وسالم پیدائش ہوتی ہے “ اس معنی پر واضح دلیل ہے ‘ اپنے جسم کے اعضاء نکلوانے کے حرام ہونے پر دوسری دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے۔

اپنے جسم کے بعض اعضاء کو نکلوانا کٹوانا تغیر خلق اللہ ہے 

قرآن مجید میں اللہ تعالی نے شیطان کا قول نقل فرمایا :

اور مجھے قسم ہے میں ضرور ان کو گمراہ کردوں گا اور ضرور ان کے دلوں میں (جھوٹی) آرزوئیں ڈالوں گا اور میں ضرور ان کو حکم دوں گا تو وہ ضرور مویشیوں کے کان چیر ڈالیں گے اور میں ان کو ضرور حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی بنائی ہوئی صورتوں کو تبدیل کریں گے ‘ اور جس نے اللہ کے بجائے شیطان کو اپنا مطاع بنا لیا تو وہ کھلے ہوئے نقصان میں مبتلا ہوگیا۔ (النساء : ١١٩)

جو مرد ڈاڑھی منڈواتے ہیں ‘ عورتوں کی طرح چوٹی رکھتے ہیں اور جو عورتیں مردوں کی طرح بال کٹواتی ہیں یا سر منڈاتی ہیں اور جو بوڑھے مرد بالوں پر سیاہ خضاب لگاتے ہیں اور جو مرد خصی ہوجاتے ہیں یا کسی کو دینے کے لیے اپنے بعض اعضاء نکلواتے ہیں یہ سب شیطان کے حکم پر عمل کر کے تغییر خلق اللہ کررہے ہیں اور اللہ کی تخلیق کو تبدیل کررہے ہیں ‘ سو یہ تمام افعال ناجائز اور حرام ہیں ‘ سفید بالوں کو عنابی ‘ زرد یا مہندی کے رنگ سے رنگنا اس حکم میں داخل نہیں ہے کیونکہ اس رنگ کا خضاب حدیث سے ثابت ہے اور مطلوب اور مستحسن ہے۔

تغیر خلق اللہ کے حرام ہونے کے متعلق یہ حدیث ہے :

علقمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود (رض) نے ان عورتوں پر لعنت کی جو اپنے جسم کو گودواتی ہیں اور اپنے بال اکھاڑتی ہیں اور خوب صورتی کے لیے اپنے دانتوں کے درمیان جھریاں کرواتی ہیں اور اللہ کی تخلیق کو بدلتی ہیں ‘ ام یعقوب نے کہا آپ ان پر کیوں لعنت کرتے ہیں ؟ حضرت ابن مسعود نے کہا میں ان پر کیوں لعنت نہ کروں جن پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت کی اور اللہ کی کتاب میں ان پر لعنت ہے ‘ اس عورت نے کہا میں نے تو پورا قرآن پڑھا ہے ‘ مجھے اس میں یہ آیت نہیں ملی ‘ حضرت ابن مسعود نے فرمایا اگر تم قرآن پڑھتیں تو تم کو یہ آیت مل جاتی ‘ کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی : وما اتا کم الرسول فخذوہ وما نھا کم عنہ فانتھوا اور رسول تم کو جو احکام دیں وہ لے لو اور جن کاموں سے تم کو منع کریں ان سے رک جائو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٣٩‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤١٦٩‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٦٧٨٢‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٦٥٠‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٢٥٢‘ مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٩٧‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ١١٥٨٩‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٤٣٤٣ عالم الکتب)

انسانی اجزاء کے ساتھ پیوند کاری کی تحریم اور ممانعت کے متعلق احادیث 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کسی عورت کے بالوں میں دوسری عورت کے بالوں کا پیوند لگانے والی اور اپنے بالوں میں دوسری عورت کے بالوں کو پیوند لگوانے والی اور گود نے والی اور گدوانے والی عورتوں پر اللہ نے لعنت کی ہے۔ ( صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٣٣‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٨٤٥٤ )

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ انصار کی ایک لڑکی کی شادی ہوئی وہ بیمار ہوگئی اور اس کے بال جھڑ گئے ‘ اس کے گھر والوں نے ارادہ کیا کہ اس کے بالوں کے ساتھ کسی دوسری عورت کے بالوں کو پیوند کردیں ‘ انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا آپ نے فرمایا : بالوں میں پیوند کرنے والی اور بالوں میں پیوند کرانے والی پر اللہ نے لعنت کی ہے۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٤٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٢٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٠٩٥)

انسانی اجزاء کے ساتھ پیوندکاری کی تحریم اور ممانعت کے متعلق فقہاء مذاہب کی تصریحات 

علامہ یحییٰ بن شرف نواوی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں :

واصلہ کا معنی ہے وہ عورت جو کسی عورت کے بالوں میں دوسرے بالوں کا پیوند لگائے اور مستو صلہ کا معنی ہے وہ عورت جو اپنے بالوں میں دوسری عورت کے بالوں کا پیوند لگوائے۔

ہمارے اصحاب نے اس مسئلہ کی تفصیل کی ہے اور یہ کہا کہ اگر عورت نے اپنے بالوں کے ساتھ کسی آدمی کے بالوں کو پیوند کیا ہے تو یہ بالا تفاق حرام ہے ‘ خواہ وہ مرد کے بال ہوں یا عورت کے اور خواہ وہ اس کے محرم کے بال ہوں یا شوہر کے یا ان کے علاوہ کسی اور کے ‘ اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کیونکہ احادیث میں عموم ہے اور اس لیے بھی کہ آدمی کے بالوں اور اس کے سارے اجزاء سے اس کی تکریم کی وجہ سے نفع حاصل کرنا حرام ہے ‘ بلکہ اس کے بالوں ‘ ناخنوں اور اس کے تمام اجزاء کو دفن کیا جائے گا۔ (صحیح مسلم بشرح النوادی ‘ ج ٩ ص ٥٧٦٨‘ مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز مکہ مکرمہ ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم القرطبی المالکی المتوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ بالوں کے ساتھ بالوں کا پیوند لگانا حرام ہے ( الی قولہ) البتہ عورتیں جو کنگھی چوٹی کرتے وقت رنگین ریشمی چٹلے (پراندے) بالوں کے ساتھ باندھتی ہیں وہ اس ممانعت میں داخل نہیں ہیں۔ (المفھ ج ٥ ص ٤٤٣‘ مطبوعہ دارابن کثیر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ محمد بن خلیفہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ اور علامہ محمد بن محمد النسوسی مالکی متوفی ٨٩٥ ھ نے بھی یہی لکھا ہے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٧ ص ٢٧٦‘ مکمل اکمال ج ٧ ص ٢٧٦‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ بد رالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں : بالوں کے بالوں کے ساتھ پیوند لگانے کے حرام ہونے کی علت یہ ہے کہ وہ فاجرات (بدکار عورتوں) کے بال ہوتے ہیں یا اس لیے کہ وہ تدلیس کرتی ہیں (لمبے بالوں کا وہم ڈالتی ہیں اور دھوکا دیتی ہیں) اور یا یہ تغییر خلق اللہ کی وجہ سے حرام ہے ‘ ابو عبید نے فقہاء سے نقل کیا ہے کہ بالوں کے علاوہ اور دیگر چیزوں کے ساتھ بالوں کو جوڑنا جائز ہے۔(عمدۃ القاری ج ٢٠ ص ٢٧٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

ملاعلی بن سلطان محمد القاری الحنفی المتوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں : جو عورتیں کسی عورت کے بالوں کے ساتھ دوسری عورتوں کے بال پیوند کرتی ہیں یا جو عورتیں اس فعل کو طلب کرتی ہیں ان پر اس لیے لعنت کی گئی ہے کہ یہ فعل صورۃ جھوٹ ہے۔ (مرقات ج ٨ ص ٣١٢‘ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان ‘ ١٣٩٠ ھ)

حافظ ابوالفضل عیاض بن موسیٰ مالکی اندلسی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :

بالوں کو بالوں کے ساتھ پیوند کرنا ممنوع ہے اور اون یا ریشمی داگوں کے ساتھ بالوں کو جوڑنا جائز ہے ‘ اس حدیث کی فقہ یہ ہے کہ بالوں کا بالوں کے ساتھ پیوند کرنا مطلقاً ممنوع ہے ‘ خواہ ضرورت کی وجہ سے ہو یا بغیر ضرورت کے ہو ‘ یا شادی کی وجہ سے ہو اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے (کیونکہ اس حدیث میں اس لڑکی کا ذکر ہے جس کے بال بیماری کی وجہ سے جھڑ گئے تھے اور اس کی شادی ہونی تھی) ۔ (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٦ ص ٦٥٢‘ مطبوعہ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

خلاصہ یہ ہے کہ حدیث صحیح میں انسان کے اجزاء کی دوسرے انسان کے اجزاء کے ساتھ پیوند کاری پر اللہ تعالیٰ کی لعنت کی گئی ہے خواہ کسی مرض کی ضرورت کی وجہ سے پیوند کاری کی جائے ‘ اور فقہا مذاہب نے اس کو حرام قرار دیا ہے اور جس انسان کے بالوں کے ساتھ دوسرے انسان کے بالوں کی پیوند کاری ممنوع ہے تو پھر انسان کے اعضاء کے ساتھ دوسرے انسان کے اعضاء کی پیوند کاری بہ طریق اولیٰ ممنوع اور حرام ہوگی ‘ البتہ سونے کی دھات سے یہ پیوند کاری ہوسکتی ہے ‘ حدیث میں ہے :

عبدالرحمن بن طرفہ بیان کرتے ہیں کہ ان کے دادا حضرت عرفجہ بن اسعد کی جنگ کلاب میں ناک کاٹ دی گئی تھی انہوں نے چاندی کی ناک لگائی وہ سڑگئی اور اس سے بدبو آنے لگی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حکم دیا کہ وہ اس کی جگہ سونے کی ناک لگالیں۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٢٣٢‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٧٠ ١٧‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥١٧٦)

انسان کے بالوں سے پیوندکاری کی ممانعت پر ایک شبہ کا جواب 

جدید طبی مسائل کے مئولف ڈاکٹر ابوالخیر محمد زبیر صاحب نے اس دلیل کا یہ جواب دیا ہے کہ امام ترمذی نے اس باب میں ایک اور حدیث ذکر کی ہے جس سے اس حدیث کا معنی واضح ہوجاتا ہے بیشک نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جسم گودنے والی ‘ اور گدوانے والی عورتوں پر لعنت کی ہے اور ان پر بھی جو اپنے چہرے کے بال کو چنتی ہیں حسین بننے کے لیے اور اللہ کی خلقت کو بدلتی ہیں (جامع ترمذی ابواب الاستیذان) پھر لکھتے ہیں : اس حدیث مبارک میں للحسن کا لفظ صاف بتارہا ہے کہ یہ جسم پر تغیر و تبدل اور کسی دو سے کے لیے بال لگانا اس وقت منع ہے جب کہ بغیر کسی ضرورت کے صرف زیب وزینت اور حسن و جمال کے لیے ہو اور وہ احادیث جو اس سلسلہ میں مطلق آئی ہیں ان کو بھی اسی پر محمول کیا جائے گا۔ (جدید طبی مسائل ص ٦٤۔ ٦٣ )

یہ جواب تین وجہ سے مردود ہے اول اس لیے فقہاء احناف کے نزدیک مطلق کو مقید پر محمول کرنا جائز نہیں ہے ‘ ثانیا اس وجہ سے کہ ہم ذکر کیا ہے کہ ایک لڑکی کے بیماری کی وجہ سے بال جھڑ گئے اس کی شادی ہونی تھی اس کے گھر والوں نے ارادہ کیا کہ اس کے بالوں کے ساتھ کسی دوسری عورتوں کو بالوں کو پیوند کردیں انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا آپ نے فرمایا بالوں کو پیوند کرنے والی اور بالوں میں پیون کرانے والی پر اللہ نے لعنت کی ہے۔ صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٩٤٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢١٢٣‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ٥٠٩٥) اور قاضی عیاض نے لکھا ہے کہ اس حدیث کی فقہ یہ ہے کہ (مرض کی) ضرورت کی وجہ سے بھی انسان کے بالوں کے ساتھ پیوند کاری جائز نہیں ہے (اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٦ ص ٦٥٢) علاوہ ازیں یہ بخاری کی حدیث ہے اور معترض کی پیش کر دہروایت ترمذی کی ہے او بخاری ترمذی پر مقدم ہے۔ ثالثا اس وجہ سے کہ جسم گود نے اور گودوانے والی عورت پر حسن کی طلب کی وجہ سے لعنت نہیں کی گئی عورت کے لیے حسن اور زیب وزینت کو طلب کرنا ممنوع نہیں ہے بلکہ جائز اور مستحسن ہے اسی وجہ سے عورتوں کے لیے سونے اور چاندی کے زیورات اور ریشم پہننے کو حلال کیا گیا ہے او انہیں مہندی لگانے اور اپنے خاوند کے لیے بننے سنورنے کی ترغیب دی گئی ہے ‘ بلکہ اس حدیث میں ان پر لعنت اس لیے کی گئی ہے کہ انہوں نے طلب حسن کے لیے وہ طریقہ اختیار کیا جس سے تغییر خلق اللہ لازم آتی ہے اور شیطان کے حکم پر عمل کرنا ہے ‘ شیطان نے اللہ کو چیلنج کر کے کہا تھا اور میں ان کو ضرور حکم دوں گا تو وہ ضرور اللہ کی تخلیق کو تبدیل کردیں گے (النساء : ١١٩) اور ان مجوزین نے بھی اپنے جواب میں اعتراف کیا ہے کہ یہ جسم میں تغیر و تبدل ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان عورتوں پر لعنت کرنے کی یہی وجہ بیان فرمائی ہے کہ یہ جسم گودوا کر یا چہرے کے بال نوچ کر اللہ کی تخلیق میں تغیر کرتی ہیں ‘ سو واضح ہوگیا کہ اللہ کی تخلیق میں تغیر کرنا شیطان کے حکم پر عمل کرنا ہے ‘ اور لعنت کا مستحق بننا ہے اور جو شخص اپنے جسم کا کوئی عضو کٹوا کر دوسرے کو دے رہا ہے وہ بھی اللہ کی تخلیق میں تغیر کر رہا ہے ‘ شیطان کے حکم پر عمل کررہا ہے اور زبان رسالت سے اللہ کی لعنت کا مصداق بن رہا ہے ‘ العیاذ باللہ ! پھر جو شخص مسلمانوں کو اعضاء کٹوانے کی ترغیب دے اس کا کیا حکم ہوگا !

مثلہ کی تحریم سے استدلال پر ایک اعتراض کا جواب 

ہم نے شرح صحیح مسلم میں یہ لکھا تھا کہ زندہ یا مردہ کے اعضاء کاٹ ڈالنا یہ مثلہ ہے اور اس سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے اور پیوندکاری کے لیے جس زندہ یا مردہ کے اعضاء کاٹ دیئے جاتے ہیں اس عمل سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمان کی صریح مخالفت ہوتی ہے۔ (شرح صیح مسلم ج ٢ ص ٨٦٥۔ ٨٦٤ )

مئولف مذکور نے اس پر یہ اعتراض کیا ہے کہ مثلہ کی تعریف دنیا کی ہر عربی لغت میں ملے گی کہ ” اعضاء کا کاٹنا “ لیکن احادیث مبارکہ میں جس انسانی مثلہ سے ممانعت کی گئی ہے اس میں یہ معنی یقیناً شامل ہیں کہ کسی کو قتل کر کے اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے اس کے اعضا کاٹ کر اس کی لاش کو مسخ کرنا۔ (جدید طبی مسائل ص ٥٨ )

مئولف مذکور کا یہ لکھنا ان کی لغت ‘ حدیث اور فقہ سے ناوقفیت کی دلیل ہے۔ الغت حدیث کے امام مجدالدین المبارک بن محمد ابن الاثیر الجذری المتوفی ٦٠٦ ھ مثلہ کا معنی بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

منہ الحدیث من مثل بالشعر فلیس عند اللہ خالق یوم القیامۃ مثلۃ الشعر حلقہ من الخدود وقیل نتفہ او تغیرہ بالسواد۔

مثلہ کے متعلق حدیث ہے جس نے بالوں کا مثلہ کیا قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کے پاس (اس کے اجر کا) کوئی حصہ نہیں ہوگا ‘ بالوں کے مثلہ کا معنی ہے بالوں کو چہرے سے مونڈنا ‘ ایک قول ہے بالوں کو چہرے سے نوچنا یا بالوں پر سیاہ خضاب لگانا۔ (النہایہ ج ٤ ص ٢٥١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

امام ابن اثیر نے جس حدیث کا ذکر کیا ہے وہ ان کتابوں میں ہے : مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٤٠‘ المعجم الکبیر ج ١ ارقم الحدیث : ١٠٩٧٧‘ مجمع الزوائد ج ٨ ص ١٢١‘ الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٩٠٤٢‘ کنزالعمال رقم الحدیث : ١٧٢٧٥)

فقہاء کرام نے بھی یہ تصریح کی ہے کہ ڈاڑھی منڈانا مثلہ ہے۔ (ہدایہ اولین ص ٢٥٥‘ مطبوعہ ملتان ‘ الجرلرائق ج ٢ ص ٣٥٥‘ مطبوعہ مصر ‘ النھر الفائق ج ٢ ص ٩٩ مطبوعہ کر اچیذ روالمختار ج ٣ ص ٤٨٩‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

اب جو لوگ روز صبح ذوق و شوق سے اپنی ڈاڑھی مونڈھی مونڈتے ہیں یا جوہر ہفتہ دل چسپی کے ساتھ اپنے بالوں پر کالا خضاب لگاتے ہیں آیا وہ اپنے انتقام کی آگ بجھانے کے لیے اپنی لاش کو مسخ کررہے ہیں یا اپنے زعم میں بننے سنورنے اور خوب صورت نظر آنے کے لیے ایسا کررہے ہیں !

انسان کی اپنے جسم پر عدم ملکیت سے استدلال پر اعتراض کا جواب 

مؤلف مذکور لکھتے ہیں ‘ مانعین کی ایک دلیل یہ ہے کہ کوئی آدمی اپنے جسم کا مالک نہیں ہوتا لہٰذا وہ اپنے جسم کے متعلق وصیت نہیں کرسکتا کیونکہ وصیت اپنی ملک میں کی جاتی ہے اور دلیل کے طور پر وہ یہ آیت پیش کرتے ہیں :

(التوبہ : ١١١) کہ اللہ تعالیٰ نے مومنین سے جنت کے عوض ان کی جانوں اور مالوں کو خرید لیا لہٰذا اب ان کی جان اللہ کی ملکیت ہوگئی اب اس میں تصرف کا انہیں کوئی حق نہیں (الیٰ قولہ) اس کا جواب یہ ہے کہ بیشک مندر جہ بالا آیہ کریمہ کی رو سے صرف ہمارا جسم ہی نہیں بلکہ ہمارے اموال بھی اللہ نے خرید لیے ہیں اور ان کا بھی وہ مالک ہوگیا ہے (بلکہ وہ پہلے سے ہی حقیقی مالک ہے۔ سعیدی غفرلہ) لیکن اس نے ہمیں یہ چیزیں دی ہیں اور ہمیں ان کا مالک بنادیا ہے اور اس میں تصرف کا ہمیں اختیار بھی دیا ہے ( الیٰ قولہ) لہٰذا عدم ملک سے انفس اور اموال میں عدم تصرف اور اعضاء کی وصیت کے عدم جواز پر استدلال درست نہیں۔(جدید طبی مسائل ص ٦٣۔ ٦٠ ملخصا)

یہ درست ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ظاہری طور پر ہمیں اپنی جان و مال کا مالک بنادیا ہے لیکن ہمارا اپنی جان و مال میں تصرف کرنا اللہ تعالیٰ کے احکام کے تابع ہے علی الاطلاق نہیں ہے ‘ ہم اپنی جان ومال کے مالک ہیں لیکن ہمارے لیے یہ جائز نہیں کہ نماز جمعہ کے وقت دکان پر بیٹھ کر سودا بیچیں یا نماز کے اوقات میں دنیاوی کاموں میں مشغول رہیں اور نماز نہ پڑھیں ‘ یا اپنے پیسے کو سودی کا وبار میں لگائیں ‘ بدکاری کریں ‘ جوا کھیلیں اور شراب پئیں ‘ مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہم وہی کام کرسکتے ہیں جس کا اللہ تعالیٰ نے یا اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا ہے یا اس کی اجازت دی ہے ‘ اور اپنے اعضاء کٹوا کر کسی کو دینے کا ہمیں حکم دیا ہو نہ اس کی اجازت دی ہو بلکہ اس سے منع فرمایا ہے کہ یہ اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا ہے اور اس کو شیطان کی اطاعت قرار دیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر اللہ کی لعنت کی ہے۔

ہم بہ ظاہر اپنے مال کے مالک ہیں لیکن ہم تہائی مال سے زیادہ کی وصیت نہیں کرسکتے ‘ اپے اعضاء کی وصیت کرنے کا کیا سوال ہے۔

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) میری عیادت کے لیے تشریف لائے اس وقت میں مکہ میں بیمار تھا ‘ میں نے عرض کیا میرے پاس مال ہے آیا میں اپنے تمام مال کی وصیت کردوں ؟ آپ نے فرمایا نہیں ! میں نے پوچھا : آدھے مال کی ‘ فرمایا نہیں ! میں نے پوچھا پھر تہائی کی ‘ آپ نے فرمایا تہائی کی ؟ اور تہائی مال بہت ہے ‘ اگر تم اپنے ورثاء کو خوش حال چھوڑو تو یہ اس سے بہتر ہے کہ تم ان کو فقراء چھوڑو اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلاتے رہیں ‘ اور تم جس جگہ بھی خرچ کرو گے وہ تمہارے لیے صدقہ ہے حتیٰ کہ وہ لقمہ جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھتے ہو۔(صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٥٤‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٢٢٨‘ سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٨٦٤‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١١٦‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٠٨‘ سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٦٢٦‘ السنن الکبری للنسائی رقم الحدیث : ٦٤٥٣ )

صدر الشر یعۃ علامہ امجد علی متوفی ١٣٦٧ ھ لکھتے ہیں : میت نے وصیت کی تھی کہ میری نماز فلاں پڑھائے یا مجھے فلاں شخص غسل دے تو یہ وصیت باطل ہے۔ یعنی اس وصیت سے ولی کا حق جاتا نہ رہے گا ہاں ولی کو اختیار ہے کہ خود نہ پڑھائے اس سے پڑھوادے۔(بہار شریعت حصہ چہارم ص ٨٥‘ مطبوعہ ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور ‘ عالم گیری ج ١ ص ١٦٣‘ مطبوعہ مصر ‘ ١٣١٠ ھ)

میت کو تو شرعاً یہ بھی اختیار نہیں ہے کہ وہ اپنی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے یا غسل دینے کے لیے کسی کی وصیت کردے تو اس بےچارے کو یہ اختیار کہاں سے ہوگا کہ وہ اپنی آنکھیں یا کسی اور عضو کو نکلوا کر کسی کو دینے کی وصیت کرے ؟

ایک صحابی کے ہاتھ کاٹنے پر مواخذہ سے اعضاء کی پوندکاری کی ممانعت پر استدلال :۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو حضرت طفیل بن عمر دوسی بھی اپنی قوم کے ایک شخص کے ساتھ ہجرت کر کے مدینہ آگئے ‘ حضرت طفیل کا ساتھی بیمار ہوگیا اور جب بیماری اس کی قوت برداشت سے باہر ہوگئی تو اس نے ایک لمبے تیر کے پھل سے اپنی انگلیوں کے جوڑ کاٹ ڈالے جس کی وجہ سے اس کے دونوں ہاتھوں سے خون بہنے لگا اور اسی سبب سے اسکا انتقال ہوگیا۔ حضرت طفیل نے خواب میں اسے اچھی حالت میں دیکھا لیکن اس نے اپنے دونوں ہاتھ لپیٹے ہوئے تھے۔ حضرت طفیل نے پوچھا کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے ساتھ کیا معاملہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کرنے کے سبب بخش دیا حضرت طفیل نے پوچھا ہاتھوں کو کیوں لیپے ہوئے ہو ؟ اس نے کہا مجھے سے یہ کہا گیا ہے کہ جس چیز کو تم نے خود بگاڑا ہے ہم اس کو درست نہیں کریں گے ‘ حضرت طفیل نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ خواب بیان کیا خواب سن کر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے اللہ ! اس کے ہاتھوں کو بھی بخش دے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٧٤‘ مطبوعہ کراچی)

اس حدیث سے واضع ہوا کہ انسان اپنے اعضاء کا مالک نہیں ہے اور ان کو کاٹ نہیں سکتا ‘ پورا عضو کا ٹنا تو کجا صرف انگلیوں کے جوڑ کاٹنے پر اللہ تعالیٰ ناراض ہوا اور فرمایا :” لن نصلح منک ما افسدت جس عضو کو تم نے بگاڑا ہے ہم اس کو درست نہیں کریں گے۔ “ جو لوگ زندگی میں اللہ تعالیٰ دیئے ہوئے اعضاء کو کٹوادیتے ہیں یا مرنے کے بعد کاٹ دیئے جانے کی وصیت کرتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ لوگ آخرت میں ان اعضاء سے محروم کردیئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے کٹے ہوئے جوڑوں کو ٹھیک نہیں کیا تو ماوشما اگر اپنے پورے اعضاء کٹوادیں تو کیا وہ اس خطرہ میں نہیں ہیں کہ آخرت میں ان کا ان اعضاء کی محرومی کے ساتھ حشر ہو ؟ اللہ تعالیٰ بصیرت عطا فرمائے اور قبول حق کی توفیق دے۔ (شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٨٦٦ ص مطبوعہ لاہور)

استدلال مذکور پر اعتراض کا جواب 

مؤلف مذکور لکھتے ہیں :

اس حدیث مبارک سے اعضاء کی پیوند کاری کے عدم جواز پر استدلال درست نہیں کیونکہ اس حدیث مبارک کی رو سے وہ صحابی اپنے آرام کی خاطر اور اپنی تکلیف کی نجات کی خاطر اپنے اعضاء کو بگاڑنے اور خودکشی جیسیحرام فعل کے مرتکب ہوئے جس کی حرمت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں جب کہ یہاں ایک انسان اپنی خاطر نہیں بلکہ اپنے بھائی کی تکلیف رفع کرنے کی خاطر بلکہ اس کو زندگی عطا کرانے کی خاطر ایک ایسے فعل کا ارتکاب کرتا ہے جس میں خود کشی یا ہلاکت تو کجا اس کی زندگی اور صحت پر بھی کوئی خاص اثر نہیں پڑتا۔

وہاں انگلیوں کے قطع سے جان چلی گئی جب کہ یہاں گردے کے قطع کرنے سے نہ جان جاتی ہے نہ صحت جاتی ہیایس صورت میں اس حدیث سے پیوندکاری کے عدم جواز پر کیسے استدلال درست ہوسکتا ہے ایک اعضاء کا کاٹنا مذموم ہے اور ایک اعضاء کا کٹنا محمود ہے۔ ( جدید مسائل ص ٤٥ )

اس حدیث سے ظاہر ہے کہ حضرت طفیل دوسی (رض) کے ساتھی سے خود کشی کا جو فعل سر زد ہوا تھا اس کو اللہ تعالیٰ نے ازراہ کرم ازخود معاف فرمادیا تھا ‘ اور جس فعل کو ازخود نہیں معاف فرمایا بلکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے معاف فرمایا وہ ان کا اپنے ہاتھوں کو کاٹنا تھا جس کو مؤلف مذکور نے ابھی اپنے ہاتھوں کو بگاڑنے سے تعبیر کیا ہے ‘ اور ان کا یہی فعل اللہ کی تخلیق کو بدلنا اور شیطان کی اتباع تھا اور خودکشی کو معاف کرنے کے باوجود اس فعل کے متعلق فرمایا لن نلح منک ما افسدت ” جس عضو کو تم نے بگاڑا ہے ‘ ہم اس کو ہرگز درست نہیں کریں گے “ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دعا سے کرم فرمایا اور اس کو بھی معاف کردیا۔ اب جو لوگ کسی کو گردہ دینے کے لیے اپنا گردہ کٹوائیں گے کیا وہ اس خطرہ میں نہیں ہیں کہ وہ اللہ کی تخلیق کو بگاڑ کر اور شیطان کی اطاعت کر کے اور پیوند کاری میں معاونت کرکے اپنے اوپر اللہ کی لعنت کا طوق ڈال رہے ہیں۔

مؤلف مذکور کا یہ لکھنا کہ ” ایک اعضاء کا کٹنا محمود ہے “ نہ صرف فعل حرام کو حلال لکھنا ہے بلکہ حرام کی تحسین کرنا ہے ‘ العیاذ باللہ ! مؤلف مذکور کا یہ لکھنا کہ ” ایک اعضاء کا کٹنا محمود ہے “ نہ صرف فعل حرام کو حلال لکھنا ہے بلکہ حرام کی تحسین کرنا ہے ‘ العیاذ باللہ ! مؤلف مذکور نے اس عبارت میں پیوندکاری کے لیے گردہ کٹوانے والے کو زندگی عطا کرنے والا لکھا ہے ‘ زندگی عطا کرنے والا صرف اللہ تعالیٰ ہے ہرچند کہ اس عبارت میں اسناد مجازی کی تاویل کی گنجائش ہے لیکن ایسے مشتبہ الفاظ سے احتراز لازم ہے۔

تکریم انسانیت سے اعضاء کی پیوندکاری کی ممانعت پر استدلال 

اور یہ عمل تکریم آدمیت کے بھی خلاف ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ولقد کرمنا بنی ادم اللہ تعالیٰ نے بنو آدم کو تکریم دی ہے ‘ اس کو احسن تقویم میں بنایا ہے اور اعضاء کٹوانے سے انسان کی احسن تقویم کو بگاڑ دیا جاتا ہے اور اس کی تکریم کی مخالفت ہوتی ہے ‘ رہا یہ کہنا کہ دوسرے اندھے آدمی کو بینائی دینا یا جو گردوں سیمحروم ہو اس کو گردہ دینا یہ بھی ادمیت کی تکریم ہے محض مغالطہ آفرینی ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ اختیار نہیں دیا کہ ہم اپنے اعضاء بانٹتے پھریں ‘ اپنی آنکھیں نکلوا کر خود مثلہ کرا کر اور تکریم بنو آدم اور احسن تقویم کو بگاڑ کر دوسرے شخص کے لیے بینائی یا دوسرے اعضاء کے حصول میں مولانا طاسین صاحب کے استدلال کی مثال ایسے ہے جیسے کوئی شخص ڈاکہ زنی اور قتل و غارت گری سے لاکھوں رو وپے کمھائے اور ان پیسوں سے یتیم خانے اور دارالامان ککھول لے اور کہے کہ میں انسانیت کی خدمت کررہا ہوں ‘ اور اگر اس پر یہ اعتراض ہے کہ وہ جن ذرائع سے انسانیت کی یہ خدمت انجام دے رہا ہے وہ ناجائز ہیں تو بیعنہ جو شخص اپنے اعضاء سے کسی کو بینائی اور گردے فراہم کررہا ہے اور انسانیت کی خدمت کررہا ہے اس کی اس خدمت کا ذریعہ بھی ناجائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان کو پانے اعضاء کٹوانے کی اجازت دی ہے نہ دوسروں کے مال لوٹنے اور قتل و غارت گری کی۔ ( شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٨٦٥‘ مطبوعہ لاہور)

استدلال مذکور پر ایک اعتراض کا جواب 

اس پر مؤلف مذکور نے ایک اعتراض تو یہ کیا ہے کہ فقہاء نے لکھا ہے کہ حاملہ عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو تو اس عورت کا پیٹ چاک کرکے اس بچہ کو نکال لیا جائے گا ‘ اس کا مفصل جواب ہم اضطرار کی بحث میں پیش کریں گے ‘ دوسرا اعتراض یہ کیا ہے کہ بعض حنفی اور شافعی علماء نے یہ کہا ہے کہ زندہ اپنی جان بچانے کے لیے مردہ انسان کا گوشت کھا سکتا ہے یہ دونوں صورتیں بھی احترام آدمیت کے خلاف ہیں ‘ اس کا مفصل جواب بھی ہم اضطرار کی بحث میں دیں گے ‘ تیسرا ایک لغو اعتراض کیا ہے کہ عرف کے بدلنے سے احترام کی علامت بھی بدلتی رہتی ہے کہ مغرب میں ننگے سررہنا احترام کے خلاف نہیں ہے اور مشرق میں ہے ‘ اس کا رد بھی عنقریب آئے گا اور چوتھے اعتراض کی عبارت یہ ہے :

آدمیت کی حرمت کی تو اسلام میں یہ حیثیت ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی کا متی نگل لیا اور وہ آدمی مرگیا تو بعض حالات میں اس شخص کا موتی دلوانے کے لیے اس میت کے پیٹ کو چاک رکنے کی فقہاء نے اجازت دی ہے چناچہ فقہ حنفی کی معتبر کتاب درمختار میں ہے اور اگر کسی شخص نے کسی کا مال نگل لیا اور پھر مرگیا تو کیا اس کا پیٹ چاک کیا جائے گا ؟ اس میں دو قول ہیں لیکن اولیٰ یہ ہے کہ چاک کیا جائے گا۔ (جدید طبی مسائل ص ٥٣ )

مؤلف مذکور نے علامہ ابن ہمام اور علامہ شامی کی پوری عبارت نہیں لکھی اور جو عبارت ان کے خلاف تھی اس کو چھوڑ دیا ‘ علامہ ابن ہمام نے لکھا ہے کہ جرجانی نے کہا ہے کہ جس شخص نے کسی کا موتی نگل لیا اور مرگیا اور اس کا کوئی ترکہ نہیں ہے تو وہ شخص ظالم ہے اور حد سے تجاوز کرنے والا ہے مرنے کے بعد اس کا پیٹ چاک رک کے وہ موتی اس کے پیٹ سے نکالاجائے گا اور یہ میت کے احترام کے خلاف نہیں ہے کیونکہ اس نے ظلم کر کے اور حد سے تجاوز کر کے اپنے احترام کو خود ساقط کردیا ہے ‘ رد المختار میں بھی اسی طرح لکھا ہے۔ ( فتح القدیر ج ٢ ص ١٥٠ ذ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ ‘ رد المختار ج ١ ص ٨٤٠ طبع قدیم)

احیاء نفس سے اعضاء کی پیوندکاری کے جواز پر استدلال اور اس کا جواب۔

جدید طبی مسائل کے مؤلف لکھتے ہیں ہیں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جس نے کوئی جان قتل کی بغیر جان کے بدلے یا زمین میں فسادیے تو گویا اس نے سب لوگوں کو قتل کیا اور جس نے ایک جان کو جلایا اس نے گویا سب لوگوں کو جلایا۔ (المائدہ، ٣٢)

اس آیت کے تحت تفسیر ابن کثیر میں ہے :

وقال مجاھد فی روایۃ ومن احیاھا ای انجا ھا من غرق اور حرق اور ھلکۃ : یعنی حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ” ومن احیا ھا “ کے معنی یہ ہیں کہ کسی آدمی نے کسی کو غرق ہونے سے یا جلنے سے یا کسی بھی قسم کی ہلاکت سے بچا لیا تو گویا اس نے ساری انسانیت کو بچا لیا۔ (تفسیر ابن کثیر ج ٢ ص ٨٠)

ذرا غور فرمایئے کہ اسلام اور قرآن کی نظر میں ایک انسانی جان کی کس قدر اہمیت اور قدرو قیمت ہے کہ ایک جان کا بچانا پوری انسانیت کا بچانا ‘ ایک کو زندگی بخشنا پوری نوع انسانی کو زندگی بخشنا اور ایک کو جلانا پوری نسل انسانیت کو جلانا شمار کیا جارہا ہے ‘ اور ایک کو نہ بچا کر ہلاک کرنا پوری انسانیت کو ہلاک کرنا شمار کیا جاہا ہے ‘ اصل میں بتانا یہ مقصد ہے کہ انسانی جان بڑی قیمتی چیز ہی اگر تم کسی انسانی جان کو بچانے کی قدرت رکھتے ہو تو اس اہم معاملہ میں ہرگز تساہل نہ کرنا اس کی زندگی بچانے میں کوئی کس اٹھا نہ رکھنا اس کو ہر چیز پر فوقیت دینا یہ تمام فرضوں میں سب اہم فرض ہے۔

اس واضح آیہ مبارکہ کے باوجود جو مفتیان کرام یہ فرماتے ہیں کہ نہیں ! جو شخص مرتا ہے تو اس کو مرنے دو لیکن گردہ لگا کر اس کو نہ بچائو اس کو زندگی نہ بخشو وہ نہ صرف یہ کہ اس آیہ مبارکہ کا صریح انکار کررہے ہیں بلکہ اس آیہ میں ارشاد رب العزت کے بمو جب وہ ساری انسانیت کے قاتل ہیں ! (جدید طبی مسائل ص ٣٣۔ ٣٢ ملخصا)

جس شخص کے دونوں گردے فیل ہوگئے ہوں وہ اس مرض سے فوراً مر نہیں جانتا بلکہ اپنی حیات طبعی پوری کرتا ہے ‘ اور ڈائی لیسز کے ذریعہ زندگی گزارتا ہے اس لیے پیوندکاری سے منع کرنے والوں کو ساری انسانیت کا قاتل اور اس آیت کا منکر قرار دینا درست نہیں ہے۔

ثانیا حضرت مجاہد نے احیاء نفس کا معنی بیان کیا ہے کسی شخص کو ڈوبنے سے یا جلنے سے یا ہلاک ہونے سے بچانا ‘ اور ظاہر ہے ڈوبنے سے بچانا اس شخص کے حق میں مستحب اور مسحسن ہے جس کو تیرنا آتا ہو اور جس کو تیرنا نہ آتا ہو وہ کسی ڈوبنے والے کو بچانے کے لیے دریا یا سمندر میں کود پڑے تو وہہ خود ہی ڈوب کر ہلاک ہوجائے گا اور اس کا یہ فعل بجائے خود ناجائز اور حرام ہوگا۔ اسی طرح کسی بھی مرتے ہوئے شخص کو مت سے بچانا اس وقت مستحسن ہے جب اس میں اس کو کسی ضرر کا خطرہ نہ ہو ‘ اور جو شخص اپنا گردہ کٹوا کر دوسرے کو دے دے گا وہ خود اس ضررر کے خطرہ میں مبتلا ہوگا کہ ہوسکتا ہے کسی وقت اس کا یہ باقی ماندہ گردہ نکارہ ہوجائے۔ ثالثا جواب یہ ہے کہ کسی جان بچانے کی کوشش کرنا اس وقت درست ہے جب یہ کوشش کسی حرام قطعی پر موقوف نہ ہو اور اپنا گردہ کٹوانا ‘ اللہ کی تخلیق کو مغیر کرنا اور شیطان کی اطاعت کرنا ہے ‘ اور انسان کے اجزاء کے ساتھ کسی انسان کی پیوندکاری پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے تو یہ لعنتی بننے کی کوشش کرنا ہے ‘ اور یہ فعل حرام قطعی ہے۔

چوتھا جواب یہ ہے کہ جس شخص کے دونوں گردے فیل ہوگئے ‘ اس کا اس بیماری سے فوراً مرجانا یقینی اور قطعی نہیں ہے ‘ وہ ڈائی لیسز کے ذریعہ عرصہ ذراز تک زندہ رہتا ہے ‘ خود مؤلف کے استاذ(ڈاکٹر ابو الخیر محمد زبیر صاحب کے استاذ گرامی مولانا عبودالرزق صاحب (رح) کے متعلق باوثوق ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ وہ ١٩٩٤ ء میں اس عارضہ میں مبتلا ہوئے ‘ ان کو علاج کے لیے حیدرآباد سے کراچی لایا گیا تو ابتداء میں ایک ہفتہ میں دو بار ڈائلی لیسز کراتے تھے ‘ پھر کبھی مہینہ میں چار بار ‘ کبھی دو بار ڈائی لیسز کراتے تھے ‘ چھ ماہ بعد انہوں نے تقریر اور درس وغیرہ شروع کردیا تھا ‘ اور ہر ماہ کی آخری جمعرات کو تقریر کرتے تھے۔ اور شہر میں بھی خطابات کے لیے جاتے تھے۔ ایک سال بعد وہ حیدر آباد گئے اور جمعہ پڑھایا۔ اس کے بعد متعدد بار حیدر آباد گئے ‘ مفتی سیعد احمد کی نماز جنازہ پڑھانے اور ان کے چہلم کے جلسہ میں شرکت کے لیے کراچی سے حیدر آباد گئے اور تقریر کی ‘ دارالعلوم نعیمیہ کراچی میں بھی ہم سے ملاقات کے لیے آئے ان کو یہاں تدریس کی بھی پیش کش کی گئی تھی ١٤ جون ١٩٩٩/١ ربیع الاول ١٤٢٠ ھ کو ان کا انتقال ہوگیا ‘ ڈاکٹر صاحب کا یہ رسالہ ١٩٩٦ ر میں شائع ہوا ‘ اور اس رسالہ کی اشاعت کے بعد ان کے استاذ محترم تقریاً چار سال زندہ رہے اور گردہ دینے کی تمام تر ترغیب اور زور بیان کے باوجود موصوف نے ان کے لیے اپنے گردہ کی قربانی نہیں دی۔ اس تفصیل سے یہ معلوم ہوگیا کہ دونوں گردوں کا فیل ہوجانا بہر حال ایسا اضطرار نہیں ہے کہ اگر اس کو گردہ نہ دیا جائے تو انسان فوراً مرجائے گا۔ اس کا مریض اپنی طبعی حیات کو پورا کرتا ہے اور اپنے وقت پر مرتا ہے اور اس کی زندگی کو کوئی حطرہ نہیں ہے نہ وہ مضطر ہے ‘ ڈائی لیسز کے ذریعہ اس کا علاج ہوتا رہتا ہے۔) گرامی مولانا عبدالرزاق صاحب (رح) جو اس  عارضہ میں مبتلا تھے جن کو گردہ دینے کی ترغیب میں یہ رسالہ لکھا گیا اس عارضہ کے بعد پانچ سال تک زندہ رہے ‘ اور بغیر کسی سے گردہ لے کر لگوائے تندرست بھی ہوئے اور ہم سے ملاقات کرنے دارالعلوم میں بھی آئے ‘ اور حیرت کی بات یہ ہے کہ مؤلف مذکور ‘ جو گردہ کٹوا کر کسی کو دینے سے منع کرنے والے علماء کو ساری انسانیت کا قاتل قرار دیتے ہیں خود انہوں نے اپنے استاذ گرامی کو اس بیماری کے دوران اپنا گردہ نہیں دیا اور خود اپنے فتویٰ پر عمل نہیں کیا اور ان کے بہ قول تمام فرائض سے اہم اس فرض کو ترک کردیا اور صرف ہمیں کو سنے پر اکتفا کرلیا۔ ( ڈائی لیسز کی تشریح اس بحث کے اخیر میں آرہی ہے)

نیز مؤلف مذکور لکھتے ہیں :

میں کہتا ہوں کہ اس کا اتنا بھاری اجر اور ثواب ہے کہ کل قیامت کے دن جب نیکیوں کا پلہ ہلکا ہوگا تو اس وقت یہ ایک عمل اس کے نیکیوں کے پلہ کو بھاری کر کے اس کے لیے دوزخ سے نجات اور جنت کے حصول کا ذریعہ بن جائے گا۔(جدید طبی مسائل ص ٣٠)

کسی مخصوص عمل پر مخصوص ثواب کا اعلان یا بشارت اللہ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا کسی کو سزا وار نہیں ہے ‘ حیرت ہے کہ خود مؤلف مذکور نے اپنے بیان کردہ اجروثواب کے حصول کا موقع گنوادیا اور اپنے استاذ گرامی کو اپنا گردہ کٹوا کر نہیں دیا۔

انسان کے اعضاء کے ساتھ پیوندکاری کے جواز پر ایثار نفس سے استدلال 

مؤلف مذکور لکھتے ہیں ارشاد پروردگار ہے :

اور اپنی جانوں پر ان کو ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں شدید محتاجی ہو۔ (الحشر : ٩)

اس آیہ مبارکہ کی رو سے وہ لوگ اللہ تعالیٰ کی بار گاہ میں لائق تحسین اور قابل صد تعریف ٹھہرے جو اپنے بھائی کی تکلیف کو محسوس کرتے ہوئے اس کی زندگی کو بچاتے ہوئے اپنا گردہ جس کی ان کو شدید حاجت ہوتی ہے وہ اپنے ضرورت مند بھائی کو عطیہ یا وصیت کردیتے ہیں وہ اپنی تکلیف کی پرواہ نہیں کرتے بلکہ اپنی جانوں پر اپنے بھائی کو ترجیح دے کر اللہ کے محبوب اور پیارے بن جاتے ہیں۔ (الیٰ قولہ)

حضرت ابوبکر صدیق (رض) کے دور اقدس میں ہونے والی جنگ پر موک کا ایک واقعہ ہمارے دعوے کے ثبوت میں ایک بہت بڑی دلیل ہے واقعہ کچھ یوں ہے کہ جنگ کے اختتام پر حضرت شرجیل (رض) میدان جنگ میں زخمیوں کو پانی پلاتے پھر رہے تھے کہ آپ نے حضرت حارث بن ہشام کو دیکھا کہ وہ زخموں سے چور ہیں اور جان بلب ہیں آپ نے ان کو پینے کے لیے پانی دیا تاکہ ان کی جان بچ جائے ابھی انہوں نے پانی پینے کے لیے منہ کھولا ہی تھا کہ قریب سے دوسرے زخمی کے کر اہنے کی آواز آئی انہوں نے اسی وقت پانی منہ سے ہٹا دیا حالانکہ وہ پانی پی کر اپنی جان بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے فرمایا کہ پہلے میرے اس بھائی کو جا کر پانی پلائو یہ زخمی حضرت عکرمہ بن ابی جہل (رض) حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیارے صحابی تھے جو زخموں سے چور اس جہاں میں چند لمحوں کے مہمان تھے حضرت شرجیل نے پانی کی طرف آگے بڑھایا تاکہ یہ پی کر اپنی جان بچا لیں ابھی انہوں نے پانی پینا ہی چاہا تھا کہ قریب سے ایک اور زخمی حضرت سہیل بن عمر و (رض) کے کر اہنے کی آواز آگئی اس آواز کے آتے ہی حضرت عکرمہ نے پانی پی کر اپنی جان نہیں بچائی بلکہ بغیر پئے پانی اپنے منہ سے ہٹا دیا اور فرمایا پہلے میرے بھائی کو پلائو تاکہ اس کی جان بچ جائے چناچہ جب حضرت شرجیل وہ پانی لے کر حضرت سہیل کے پاس گئے تو وہ اس وقت جام شہادت نوش فرماچکے تھے پھر وہ اس پانی کو لے کر واپس حضرت عکرمہ کے پاس آئے تو وہ بھی جاں بحق ہوچکے تھے پھر وہ اسی پانی کو لے پہلے والے زخمی حضرت حارث کے پاس آئے تو دیکھا کہ ان کی روح بھی قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ (سیرت ابن ہشام)

الغرض اسلام کے ان تین عظیم سپوتوں نے ایک دوسرے کی خاطر اپنی جانیں قربان کر کے یہ سبق دے دیا کہ اپنے بھائی کی زندگی کی خاطر اپنی زندگی کو قربان کردینا یہ ایثار کا بڑا بلند مقام اور محبوبیت کا نہایت اعلیٰ مرتبہ ہے اور اسلام کا زریں سبق ہے۔ (الیٰ قولہ)

ان مفتیان کرام کے فتوے کی رو سے اپنی جان بچانے کا فرض ادانہ کر کے اپنے بھائی کے لیے اپنی جان دینے کے ” حرام فعل “ کا ارتکاب کر کے معاذ اللہ کیا یہ صحابہ کرام حرام کی موت مرے ؟ معاذاللہ استغفر اللہ۔ (جدید طبی مسائل ص ٣٨۔ ٠ ٣ ملخصا)

استدلال مذکورکا ابطال 

قرآن مجید کی آیت حشر : ٩ میں جو ایثار کا ذکر کیا ہے اس سے مراد ہے اپنی ضرورت کی جائز اور حلال چیزوں میں اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی ضرورت کو ترجیح دینا مثلاً کھانے پینے کی چیزوں ‘ کپڑوں اور مکان وغیرہ میں اپنی ضرورت پر اپنے دوسرے مسلمان بھائیوں کی ضرورت کو مقدم رکھنا ‘ اس سے یہ مراد نہیں ہے کہ اپنے جسم کے اعضاء کو کٹوا کر دوسرے انسانوں کو دے دے ‘ کیونکہ اپنے اعضاء کو کٹوانا اللہ کی تخلیق کو متغیر کرنا ہے اور النساء : ١١٩ میں اللہ تعالیٰ نے اس کو شیطان کی اطاعت قرار دیا ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انسان کے اجزاء کے ساتھ پیوند کاری پر لعنت فرمائی ہے ‘ اور یہ فعل حرام ہے اور حرام چیز دینے کو ایثار نفس کی تفسیر میں داخل کرنا خالص تفسیر بالرائے ہے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے :

جس نے اپنی رائے سے قرآن مجید میں کوئی بات کہی وہ اپنا ٹھکانا دوزخ میں بنا لے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٥٩١)

مہاجرین پر انصار مدینہ کے ایثار کی تفصیل 

اب ہم اس پوری آیت کا ترجمہ اور اس کی معتمد تفسیر پیش کررہے ہیں جس سے اس آیت کا مطلب واضح ہوجائے گا اور یہ آفتاب سے زیادہ روشن ہوجائے گا کہ مؤلف مذکور نے اس آیت سے جو مطلب کشید کیا ہے وہ قطعاً باطل اور مردود ہے۔

پوری آیت اس طرح ہے : اور جو لوگ مہاجرین کے آنے سے پہلے ہی دارالھجرت اور دارالایمان (مدینہ منورہ) میں مقیم ہوگئے تھے وہ اپنی طرف ہجرت کرنے والوں سے محبت رکھتے ہیں اور مہاجروں کو جو کچھ (مال فے سے) دیا گیا ہے اس کی اپنی دلوں میں کوئی طلب نہیں پاتے ‘ اور وہ دوسروں کو اپنے نفسوں پر مقدم رکھتے ہیں خواہ ان کو شدید ضرورت کیوں نہ ہو اور جو لوگ اپنے نفس کے بخل سے بچائے جاتے ہیں سو وہی لوگ کامیاب ہیں۔ (الحشر : ٩)

امام ابو جعفر محمد بن جریز طبری متوفی ٣١٠ ھ ایثار نفس کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

اللہ تعالیٰ انصار کی تعریف کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ انہوں نے مہاجرین کو اپنے مکانوں میں جگہ دی ‘ اور اپنے نفسوں پر ایثار کرتے ہوئے ان کو اپنے اموال دیئے خواہ ان کو خود ان مکانوں اور اموال کی ضرورت کیوں نہ ہو۔ (جامع البیان : جز ٢٨ ص ٥٥‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں اس کی تفسیر میں دوروایتیں ہیں :

(١) مجاہد اور ابن حیان نے بیان کیا کہ انصار نے مال فے (کفار کا چھوڑا ہوا مال) اور مال غنیمت (میدان جنگ میں سے کفار سے حاصل کیا ہوا مال) میں اپنے اوپر مہاجرین کو ترجیح دی حتی کہ وہ مال مہاجرین کو دیا گیا اور ان کو نہیں دیا گیا۔ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنوالنضیر کا مال فے مہاجرین میں تقسیم کیا ‘ اور بنو قریظہ سے حاصل شدہ مال مہاجرین کو دے کر فرمایا انصار نے اپنے اموال جو تم کو دیئے تھے تم ان کے اموال واپس کردو ‘ انصار نے کہا نہیں ہم ان کو ان اموال پر برقرار رکھیں گے اور اموال فے میں ان کو اپے اوپر ترجیح دیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کردی۔ پر برقرار رکھیں گے اور اموال فے میں ان کو اپنے اوپر ترجی دیں گے۔ تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل کردی۔

(٢) ابن زید بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار سے فرمایا تمہارے بھائی (مکہ میں) اپنے اموال اور اولاد کو چھوڑ کر تمہارے پاس آئے ہیں۔ انہوں نے کہا ہم اپنے اموال میں ان کو شریک کرلیں گے ‘ آپ نے فرمایا اس کے علاوہ کچھ اور ! انہوں نے پوچھا یارسول اللہ ! وہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا ان لوگوں کو کھیتی باڑی نہیں آتی ‘ تم ان کی جگہ کام کرو اور پیدا شدہ کھجوریں آپس میں تقسیم کرلینا ‘ یعنی بنو نضیر سے حاصل شدہ کھجوروں کو ‘ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! ٹھیک ہے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ٥٠٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

صرف اصحاب صبر کے لیے تنگی میں اپنے اوپر ایثار کی اجازت ہے ‘ ہر شخص کے لیے نہیں۔

حافظ اسماعیل بن عمر بن کثیر الد مشقی المتوفی ٧٤ ئھ لکھتے ہیں :

صحیح حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ثابت ہے تنگ دست ضرورت مند کا صدقہ سب سے افضل ہے (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٦٧٧) اور یہ مقام سب سے بلند ہے ‘ کیونکہ ان صحابہ نے اس چیز کو خرچ کیا جس کی ان کو خود سخت ضرورت تھی اور یہی مقام حضرت صدیق اکبر (رض) کا ہے جنہوں نے اپنے تمام مال کا صدقہ کردیا تھا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے پوچھا آپ نے اپنے گھر والوں کے لیے کیا باقی رکھا ہے انہوں نے کہا میں نے ان کے لیے اللہ اور رسول کو باقی رکھا ہے۔(سنن ابو دائو درقم الحدیث : ١٦٧٨‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٦٧٥) (تفسیر ابن کثیر ج ٤ ص ٣٧٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ١٤١٩ ھ)

قاضی ابوبکر محمد بن عبداللہ ابن العربی المالکی المتوفی ٥٤٣ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت ابوبکر (رض) کا تمام مال قبول فرمالیا ‘ اور حضرت عمر (رض) کا نصف مال قبول فرما لیا ‘ اور جب حضرت ابولبابہ (رض) نے اپنے تمام مال کو صدقہ کرنے کا ارادہ کیا تو ان سے فرمایا تمہارے لیے تہائی مال کو صدقہ کرنا کافی ہے ‘ آپ نے ہر ایک سے اتنا مال لیا جتنے مال کی سخاوت کو اس کا دل برداشت کرسکتا تھا اور آپ کو علم تھا کہ حضرت ابو لبابہ اپنے تمام مال کے خرچ ہونے پر صبر نہیں کرسکیں گے جس طرح حضرت ابوبکر اپنے تمام مال کے راہ خدا میں صرف ہونے پر صبر کرلیں گے اور جس طرح حضرت عمر اپنے نصف مال کے خرچ ہونے پر صبر کرلیں گے ‘ اس لیے آپ نے حضرت ابولبابہ کو صرف تہائی مال کے صدقہ کرنے کی اجازت دی۔ (عارضہ الا حوذی ج ١٣ ص ١١٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ لکھتے ہیں :

جس شخص نے اس حال میں صدقہ کیا وہ خود ضرورت مند تھا ‘ یا سا کے اہل و عیال ضرورت مند تھے ‘ یا اس پر قرض تو صدقہ کرنے ‘ غلام کو آزاد کرنے یا ہبہ کرنے کی بہ نسبت قرض کی ادائیگی کا استحقاق ہے ‘ اور اس نے جو صدقہ کیا ہے یا غلام آزاد کیا ہے یا ہدیہ دیا ہے وہ واپس لیا جائے گا ‘ اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ لوگوں کے اموال کو ضائع کردے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے ضائع کرنے کے لیے لوگوں کے اموال لیے اللہ اس کو ضائع کر دے گا ‘ ماسوا اس شخص کے جس کا صبر کرنا معروف اور مشہور ہو جو اپنے اوپر دوسروں کو ترجیح دیتاہو ‘ خواہ وہ کتنا ہی ضرورت مند ہو ‘ جیسے حضرت ابوبکر (رض) نے اپنے تمام مال کو صدقہ کردیا تھا اور جس طرح انصار نے اپنے اوپر مہاجرین کو ترجیح دی تھی ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مال ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے اور کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ صدقہ کرنے کے بہانے سے لوگوں کے اموال کو ضائع کرنے سے منع فرمایا ہے اور کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ وہ صدقہ کرنے کے بہانے سے لوگوں کے اموال کو ضائع کردے ‘ اور حضرت کعب بن مالک (رض) نے کہا یا رسول اللہ ! میری توبہ میں سے یہ ہے کہ میں اپنے تمام مال کو اللہ اور رسول کی طرف صدقہ کردوں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم اپنے مال میں سے کچھ اپنے پاس رکھ لو تو وہ تمہارے لیے بہتر ہے تو میں نے ہا کہ خیبر میں جو میرا حصہ ہے میں اس کو اپنے پاس رکھ لیتا ہوں۔ (صحیح البخاری کتاب الزکوۃ باب : ١٨‘ لاصدقۃ الاعن ظھر غنی ‘ اسی وقت صدقہ کرنے کے بعد اس کا پاس خوش حالی رہے) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد خوش حالی رہے اور اپنے عیال سے ابتدا کرو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٤٢٦ ذ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٧٢٧ )

تنگی میں دوسروں کے لیے ایثار کرنے کا ضابطہ 

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں : امام طبری وغیرہ نے کہا ہے کہ جس شخص کا بدن تدرست ہو ‘ اس کی عقل صحیح ہو ‘ اس پر کسی کا قرض نہ ہو اور وہ شخص فقرو فاقہ پر صبر کرسکتا ہو اور اس کے عیال نہ ہوں ‘ یا عیال ہوں اور وہ بھی مال نہ ہونے پر صبر کرسکتے ہوں ‘ تو جمہور کے نزدیک اس کے لیے اپنے تمام مال کو صدقہ کرنا جائز ہے ‘ اور اگر ان میں سے کوئی ایک شرط بھی نہ پائی جائے تو اس کے لیے اپنے تمام مال کو صدقہ کرنا جائز نہیں ہے اور بعض علماء نے کہا اس کا وہ صدقہ واپس لیا جائے گا ‘ حضرت عمر (رض) کے زمانہ میں ایک شخص نے اپنی بیویوں کو طلاق (رجعی) دے کر اپنا تمام مال اپنے بیٹوں میں صدقہ کردیا تو حضرت عمر نے حکم دیا کہ تم یہ طلاق واپس لو ‘ اور تقسیم کیا ہوا مال بھی واپس لو ورنہ میں حکم دوں گا کہ تمہاری قبر پر بھی رجم کیا جائے جیسا کہ ابو رغال کی قبر کو رجم کیا گیا تھا (مسند احمد ج ٢ ص ١٤‘ ملخصا) اور ایک محتاج شخص نے اپنے غلام کو مدبر کردیاص یعنی اس کے مرنے کے بعد وہ آزاد ہوگا) تو آپ نے اس غلام کو فروخت کر کے اس کی قیمت اس محتاج شخص کو واپس کردی ‘ امام طبری نے کہا ہمارے نزدیک صحیح یہ ہے کہ مذکور الصدر شرائط کے ساتھ اپنے تمام مال کو صدقہ کرنا جائز ہے لیکن مختار اور مستحب یہ ہے کہ صرف تہائی مال کو صدقہ کرے ‘ تاکہ حضرت ابوبکر کے فعل اور حضرت کعب بن مالک کے فعل میں تطبیق رہے۔ (علامہ عینی حنفی نے بھی اسی طرح لکھا ہے عمدۃ القاری ج ٨ ص ٤٢٢‘ دارالکتب العملیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ) اور جس حدیث میں ہے کہ افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد خوش حالی رہے اس کا معنی یہ ہے کہ اتنا زیادہ صدقہ نہ کرے کہ صدقہ کے بعد وہ خود اور اس کیا ہل و عیال محتاج ہوجائیں اور اس کے پاس اتنا مال رہے کہ جس سے وہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کے حقوق ادا کرسکے ‘ یعنی وہ بھوک دور کرنے کے لیے کھانا کھاسکیں ‘ کیونکہ بھوک پر صبر نہیں ہوسکتا ‘ اور اپنی ستر پوشی کرسکیں ‘ اور ان کو کوئی اذیت پہنچے تو اس کو دور کرسکیں ‘ اور اگر صدقہ کرنے کے بعد اس کے پاس ان ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مال نہ بچے تو پھر اپنی ضروریات پر کس یکے لیے ایثار کرنا جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے ‘ کیونکہ اس صورت میں اگر وہ دوسروں کو ترجیح دے گا تو لازم آئے گا کہ وہ بھوک سے اپنے آپ کو ہلاک کر دے یا اپنے آپ کو ضرر میں مبتلا کرے یا اپنے آپ کو برہنہ کرے ‘ اور اپنے حقوق کی رعایت کرنا ہرحال میں راجح ہے اور جب یہ واجبات ساقط ہوجائیں تو پھر ایثار کرنا جائز ہے اور اس وقت اس کا صدقہ کرنا افضل ہوگا کیونکہ وہ فقر اور مشقت کی شدت کو برداشت کرے گا ‘ اور اس طرح دلائل میں جو تعارض ہے وہ دور ہوجائے گا۔ ( فتح الباری ج ٤ ص ٤٨۔ ٤٧ ملخصا مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ٩ ١٤١ ھ)

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں : انسان کا اپنا حق دوسروں پر مقدم ہے ‘ اولاد اور بیوی کا خرچ بالا تفاق فرض ہے اور خادم کا خرچ بھی واجب ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٢١ ص ٢٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

اپنے اوپر اپنے عیال پر اور دروسروں پر خرچ کرنے کی ترتیب

نیز علامہ بدرالدین عینی حنفی ‘ اپنے عیال سے ابتدا کرو “ کی شرح میں لکھتے ہیں : امام النسائی نے طارق محاربی کی سند سے روایت کیا ہے : ہم جب مدینہ منورہ میں آئے تو اس وقت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) منبر پر کھڑے ہوئے لوگوں کو خطبہ دے رہے تھے ‘ آپ فرما رہے تھے دیے والے کا ہاتھ اوپر ہے ‘ اپنے عیال سے (دینے کی) ابتدا کرو ‘ تمہاری ماں ‘ تمہارا باپ ‘ تمہاری بہن اور تمہارا بھائی پھر جو تمہارے زیادہ قریب ہو ‘ جو تمہارے زیادہ قریب ہو۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٣١)

اور امام نسائی نے حضرت ابو رہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا صدقہ کرو ‘ ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ میرے پاس ایک دینا رہے ‘ آپ نے فرمایا اس کو اپنے نفس پر خرچ کر ‘ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہ ‘ آپ نے فرمایا اس کو اپنی بیوی پر خرچ کرو ‘ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینا رہے آپ نے فرمایا اس کو اپنی اولاد پر خرچ کرو ‘ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ نے فرمایا اس کو اپنے خادم پر خرچ کرو ‘ اس نے کہا میرے پاس ایک اور دینار ہے آپ نے فرمایا تم اس کے مصرف کو خود بہتر جانتے ہو۔ ( سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٣٤‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٢٣٥‘ اس حدیث کی سند حسن ہے)

امام ابن حبان نے اس حدیث کو اسی طرح روایت کیا ہے اور امام ابو دائود اور حاکم نے اولاد کو بیوی پر مقدم کیا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٦٩١‘ المسدرک ج ١ ص ٤١٥ قدیم ‘ المستدرک رقمالحدیث : ١٥١٤ جدید ‘ تلخیص الحبیر رقم الحدیث : ١٦٦٦ )

علامہ خطابی نے کہا ہے کہ جب تم اس ترتیب پر غور کرو گے تو جان لو گے ‘ کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے الاولیٰ فالاولیٰ اور الاقرب فالاقرب کو مقدم کیا ہے ‘ اور آپ نے یہ حکم دیا ہے کہ انسان پہلے اپنیاوپر خرچ کرے پھر اپنی اولاد پر کیونکہ اولاد اسی کے جز کی طرح ہے اور جب وہ اس پر خرچ نہ کرے اور کوئی اور بھی ان پر خرچ کرنے میں اس کے قائم مقام نہ ہو تو وہ ہلاک ہوجائیں گے ‘ پھر تیسرے درجہ میں بیوی کا ذکر فرمایا اور اس کو اولاد سیکم درجہ میں رکھا ‘ کیونکہ جب کوئی شخص اپنی بیوی کو خرچ نہیں دے گا تو ان میں تفریق کردی جائے گی اور اس کو اس کے شوہر کی طرف سے یا اس کے محرم کی طرف سے اس کا خرچ دیا جائے گا ‘ چوتھ درجہ میں اس کے خادم کا ذکر کیا ‘ کیونکہ اگر وہ اس کو خرچ نہیں دے گا تو اس کو فروخت کردیا جائے گا ‘(یہ غلام ہونے کی صورت میں ہے اور اگر وہ آزاد ہو تو کہیں اور نوکری کرلے گا) علامہ خطابی کا کلام ختم ہوا۔

ہمارے شیخ زین الدین نے کہا ہمارے اصحاب کا یہی مختار ہے کہ نابالغ اولاد کا خرچ بیوی کے خرچ پر مقدم ہے ‘ علامہ نووی شافعی نے بیوی کے خرچ کو اولاد کے خرچ پر مقدم کیا ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ اولاد اس کا جز اور اس کا حصہ ہیں اور بیوی اجتبیہ ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٨ ص ٤٢٥۔ ٤٢٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

بچوں ور بیوی کے بعد ماں باپ اور اجداد کا خرچ بھی واجب ہے بہ شرطی کہ وہ محتاج ہوں (لقمان : ١٥) دنیا میں ان کے ساتھ نیکی سے رہنا۔ (ہدایہ اولین ص ٤٤٥ )

ترتیب مذکور کے متعلق مزید احادیث 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سب سے افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد خوش حالی ہو ‘ اور اوپر والا ہاتھ نچلے ہاتھ سے بہتر ہے اور اپنے عیال سے دینے کی ابتداکرو ‘ عورت کہے گی مجھے کھلائو یا مجھے طلاق دے دو ‘ اور غلام کہے گا مجھے کھلائو اور مجھے سے کام لو اور (نابالغ) بیٹا کہے گا مجھے کھلائو ‘ تم مجھے کس پر چھوڑ رہے ہو ! (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٥٣٥٥‘ مسند احمد رقم الحدیث : ٧٧٢٧‘ عالم الکتب)

حضرت جابر بن سمرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب اللہ تم میں سے کسی کو خیر عطا فرمائے تو وہ اپنے نفس سے اور اپنے گھر والوں سے ابتدا کرے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث ١٨٢٢) حضرت جابر بن عبداللہ انصاری (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مجلس میں تھے ‘ اس وقت ایک شخص انڈے کے برابر سونا لے کر آیا ‘ اس نے کہا یا رسول اللہ ! مجھے یہ معدن (کان) سے ملا ہے ‘ آپ اس کو لے لیں ‘ یہ صدقہ ہے ‘ میرے پاس اس کے سوا اور مال نہیں ہے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کیا ‘ وہ پھر دائیں جانب سے آیا ‘ اپ نے اس سے اعراض کیا وہ پھر بائیں جانب سے آیارسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس سے اعراض کیا وہ پھر پیچھے سے آیا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو لے کر پھینک دیا اگر وہ اس کو لگ جاتا تو وہ زخمی ہوجاتا ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم میں سے ایک شخص کوئی چیز لے کر آتا ہے جس کا وہ مالک ہے اور کہتا ہے کہ یہ صدقہ ہے ‘ پھر بیٹھ کر لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتا ہے ‘ بہترین صدقہ وہ ہے جس کے بعد محتاجی نہ ہو۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ١٦٧٣)

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے اپنے غلام سے کہا کہ وہ اس کے مرنے کے بعد آزاد ہوگا ‘ اس کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی مال نہیں تھا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس غلام کو فروخت کرنے کا حکم دیا اور فرمایا تم اس کی قیمت کے زیادہ حق دار ہو اور اللہ اس سے غنی ہے۔ (صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٢٣٤‘ اس کی سند امام بخاری کی شرط کے مطابق صحیح ہے)

جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ کے جاں بلب اور پیا سے ہونے۔

کے باوجو پانی دوسروں کو دے کر مرجانے کا جواب

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے (النساء ٢٩) اور تم اپنی جانوں کو قتل نہ کرو ‘ اس حکم کی وجہ سے انسان کے لیے کوئی ایسا فعل کرنا جائز نہیں ہے جو اس کی موت پر منتج ہو ‘ حضرت عمرو بن العاص (رض) ایک سردرات میں جنسی ہوگئے انہوں نے تیمم کیا اور یہ آیت پڑھی ‘ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس کا ذکر کیا تو آپ نے ان کو ملامت نہیں کی (صحیح البخاری کتاب التیمم باب : ٧) اس لیے یہ سوال ہوگا کو مؤلف مذکور نے جو بیان کیا ہے کہ جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ اور چند دوسرے زخمی اور جاں بلب صحابہ کے سامنے جب پانی لایا گیا تو انہوں نے خود پانی پینے کے بجائے دوسرے ساتھی کو کیوں دیا ‘ جب کہ اپنی جان بچانا فرض ہے تو انہوں نے اس فرض کو ترک کیوں کیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مؤلف مذکور نے اس واقعہ کو سیرت ابن ہشام کے مہمل حوالہ سے ذکر کیا ہے ( جلد اور صفحہ کا ذکر نہیں کیا) سیرت ابن ہشام نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سیرت میں ہے اور آپ کی وفات اور تکفین اور تدفین کے ذکر کے بعد وہ ختم ہوگئی اور یہ واقعہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے وصال کے تین سال بعد ١٣ ھ کا ہے ‘ حافظ ابن کثیر نے اس واقعہ کو بغیر سند کے امام واقدی کے حوالہ سے ذکر کیا ہے ( البدایہ و لنہایہ ج ٥ ص ٧٦‘ دارالفکر بیروت ‘ ١٤١٨ ھ) اور امام واقدی کی کتاب المغازی میں اس کا ذکر نہیں ہے سو یہ حافظ ابن کثیر کا وہم ہے اور نہ ہی سیرت ابن ہشام میں اس کا ذکر ہے۔

حافظ ابو عمر یوسف بن عبد اللہ ابن عبدالبر المتوفی ٤٦٣ ھ اس واقعہ کے متعلق لکھتے ہیں :

امام محمد بن سعد نے کہا میں نے اس کا محمد بن عمر سے ذکر کیا تو انہوں نے اس کا انکار کیا اور کہا یہ وہم ہے ‘ ہم نے اہل علم اور اہل سیرت سے روایت کیا ہے کہ حضرت عکمرمہ بن ابی جہل حضرت ابوبکر (رض) کی خلافت میں جنگ اجنادین میں شہید ہوئے تھے اور اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ (الاستیعاب ج ٣ ص ١٩٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

امام محمد بن سعد متوفی ٢٣٠ ھ نے لکھا ہے حضرت عکرمہ بن ابی جہل ‘ حضرت ابوبکر (رض) کی خلاف میں شام گئے اور وہاں اجنا دین کی جنگ میں شہید ہوگئے۔ ( الطبقات الکبریٰ ج ٦ ص ٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٨ ھ)

امام ابن الاثیر متوفی ٦٣٠ ھ نے جزم کے ساتھ لکھا ہے کہ حضرت عکرمہ (رض) اجنادین میں شہید ہوئے ‘ پھر تمریض کے صیغہ کے ساتھ یرموک اور صفر کے دو قول بھی نقل کیے ہیں۔ ( اسد الغابہ ج ٤ ص ٦٩‘ دارالکتب العلمیہ بیروت)

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ نے لکھا کہ امام طبری نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عکمرمہ اجنادین کے دن شہیدہو گئے جمہور کا قول اسی طرح ہے ‘ حتی کہ امام واقدی نے کہا ہمارے اصحاب کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔

(الاصابہ ج ٤ ص ٤٤٣‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥‘ تہذیب التبذیب ج ٧ ص ٢٢٣‘ مطبوعہ دارالکتب العمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ)

اس سے معلوم ہوا کہ حافظ ابن کثیر نے جنگ یرموک میں حضرت عکرمہ کے پیاسے شہید ہونے کی روایت کی جو امام واقدی کی طرف نسبت کی ہے یہ ان کا وہم ہے کیونکہ امام واقدی نے کہا ہمارے اصحاب کے درمیان اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ حضرت عکرمہ جنگ اجنادین میں شہید ہوئے ہیں۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ لکھتے ہیں :

موسی بن عقبہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت عکرمہ بن ابی جہل القرشی المخزومی یوم اجنادین میں شہید ہوئے ‘ اور یہ حضرت عمر کے عہد کا واقعہ ہے۔ (التاریخ الکبیر ج ٦ ص ٣٥٨‘ رقم الحدیث : ٩٥٥٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤٢٢ ھ)

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ لکھتے ہیں : حضرت عکرمہ بن ابی جہل القرشی صحابی ہیں ‘ حضرت عمر (رض) کے عہد میں جنگ اجنادین میں شہید ہوئے۔ (الجرح والتعدیل ج ٧ ص ٧۔ ٦‘ رقم : ٣١‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٣٧٢ ھ)

امام ابوالقاسم علی بن الحسن ابن عسا کر متوفی ٥٧١ ھ لکھتے ہیں : حضرت عکرمہ بن ابی جہل ١٣ ھ میں اجنا دین میں شہید ہوئے۔(تاریخ دمشق ج ٣ ص ١٩٨‘ رقم : ٤٨٣٨‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

حافظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ لکھتے ہیں : اجنا دین واقعہ جمادی الاولیٰ ١٣ ھ میں ہوا اور اسی جنگ میں حضرت عکرمہ بن ابی جہل شہید ہوئے۔(تاریخ الخلفاء ص ٧٦‘ مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی)

خلاصہ یہ ہے کہ صرف حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ نے یہ لکھا ہے کہ عکرمہ جنگ پر موک میں اپنے اصحاب کے ساتھ پیاسے شہید ہوئے ‘ اور یہ ان کا وہم ہے کیونکہ امام محمد بن سعد متوفی ٠ ٢٣ ھ ‘ امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ ‘ امام ابن ابی حاتم رازی متوفی ٣٢٧ ھ ‘ امام ابن عبدالبر متوفی ٤٦٣ ھ ‘ امام ابن عسا کر متوفی ٥٧١ ھ ‘ امام ابن اثیر متوفی ٦٣٠ ھ ‘ حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ اور احفظ جلال الدین سیوطی متوفی ٩١١ ھ سب نے یہ لکھا ہے کہ حضرت عکرمہ اجنادین کی جنگ میں شہید ہوئے ‘ اور امام محمد بن سعد نے یہ تصریح کی ہے کہ جس نے یہ کہا کہ حضرت عکرمہ جنگ یرموک میں شہید ہوئے یہ اس کا وہم ہے ‘ پس واضح ہوگیا کہ یہ کہنا کہ حضرت عکرمہ جنگ یرموک میں زخمی جان بلب اور پیاسے تھے پھر بھی جب ان کو پانی پیش کیا گیا توہ انہوں نے اپنے ساتھی کو دے دیا اور خود پیاسے شہید ہوگئے محض ایک افسانہ ہے جس کو وضاعین نے گھڑ لیا ہے ‘ اور حضرت عکرمہ اور ان کے اصحاب کی طرف ولاتقتلو انفسکم کے حک کی مخالفت کی نسبت کی اور اس جھوٹے افسانے کے بل بوتے پر مؤلف مذکور نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ انسان اپنا گردہ نکلوا کر دوسرے کو دے سکتا ہے اور اعضاء کی پیوندکاری جائز ہے ‘ خواہ شیطان کی اتباع کر کے اللہ کی تخلیق کو بدلنا پڑے اور انسانی اجزاء کی پیوند کاری کی وجہ سے لعنت کا طوق گلے میں لٹکانا پڑے ‘ اور ہم کو جی بھر کے کو سا اور کہا یہ شخص آیت کریمہ ویؤثرون علی انفسھم کا منکر ہے اور ان عظیم صحابہ کو حرام موت پر مرنے والا کہتا ہے اور ساری انسانیت کا قاتل ہے فالی اللہ المشتکی۔

ایک کتے کو پانی پلانے سے مغفرت کے حصول سے پیوندکاری پر استدلال اور اس کا جواب۔

مؤلف مذکور لکھتے ہیں :

ترجمہ : ایک بدکار عورت صرف اس لیے بخش دی گئی کہ وہ ایک کتے کے پاس سیگزری تھی جو ایک کنوئیں کے پاس کھڑا پیاس کی وجہ سے اپنی زبان نکال رہا تھا اور بالکل مرنے کے قریب تھا ‘ اس عورت نے اپنا موزا اتارا اور اس کو اپنے ڈوپٹہ سے باندھ کر اس کے لیے اس سے پانی نکالا بس اس کی وجہ سے وہ بخش دی گئی ‘ صحابہ نے عرض کیا کہ کیا جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرنے پر ہمیں ا جر ملے گا ؟ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر تر جگر رکھنے والے (یعنی جاندار) کے ساتھ اچھا سلوک کرنے پر ثواب ہے۔

غور فرمائیے ایک کتا جو مرنے کے قریب ہو اس کی اگر کوئی جان بچا لے تو جنت میں چلا جائے تو جو اشرف المخلوقات میں سے کسی کی جان بچائے گا وہ کیوں نہ جنت کا اعلیٰ مرتبہ پائے گا ؟ پھر صحابہ کرام کے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال و جواب نے اس کی مزید وضاحت کردی کہ جانوروں کے ساتھ حسن سلوک کا ثواب ہے تو آدمی کے ساتھ حسن سلوک اور اس کے مشکل وقت میں گردہ یا آنکھ وغیرہ کی وصیت کر کے اس کی مدد کنے کا کتنا بڑا ثواب ہوگا وہ بیان سے باہر ہے۔ (جدید طبی مسائل ص ٤٠۔ ٣٩)

کتے کو پانی پلانے سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کسی حکم کی مخالفت لازم نہیں آتی اور اپنا گردہ کٹوانے سے اللہ کی تخلیق کو تبدیل کرنا اور اللہ تعالیٰ کے بجائے شیطان کے حکم کی اطاعت لازم آتی ہے اور انسانی اجزاء کے ساتھ پیوند کرنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم کی مخالفت لازم آتی ہے کیونکہ آپ نے اس فعل پر اللہ کی لعنت کی ہے۔ لہٰذا کتے کو پانی پلانے پر اعضاء کی پیوند کاری کو قیاس کرنا صحیح نہی ہے ‘ نیز اپنی طرف سے کسی فعل پر جنت کی بشارت دینا بھی بہت سنگین بات ہے ‘ کسی مخصوص فعل پر جنت کی بشارت دینا صرف اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا حق اور ان کا منصب ہے ‘ اور جس فعل کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کردیا ہو اس پر جنت کی بشارت دینا اور حرام قطعی کو حلال کرنا ‘ اس کا کیا حکم ہے ؟ مؤلف مذکور خود مفتی ہیں اس پر غور کریں ‘ اور یہ سوال بہر حال قائم ہے کہ مؤلف مذکور نے اپنے ضرورت مند استاذ محترم کو خود گردہ دے کر جنت کیوں نہ حاصل کی وہ اس رسالہ کی تالیف کے بعد تقریباً چار سال تک زندہ رہے تھے۔


مردہ عورت کے پیٹ سے بچہ نکالنے اور اضطرار کی بنیاد پر پیوندکاری سے استدلال کا جواب 

عام طور پر انسانی اعضاء کی پیوندکاری کے مجوزین اضطرار سے استدلال کرتے ہیں ہم نے اس کے متعلق لکھا تھا : باقی یہ جو کہا گیا ہے کہ ضرورت سے ممنوع چیز مباح ہوجاتی ہے اس سے پیوندکاری کا جواز لازم نہیں آتا کیونکہ جو شخص اعضاء کٹوا رہا ہے اسے کوئی ضرورت ہے نہ اضطرار ‘ تو کس بناء پر ایک ممنوع چیز اس کے لیے مباح ہوگی۔ (شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٨٦٦ )

مؤلف مذکور اس کے جواب میں لکھتے ہیں :

اس کا جواب یہ ہے کہ مثلاً بیمار جس کو گردہ کی ضرورت ہے تو مضطر ہے اور اس کو ضرورت ہے اسی کے اضطرار اور ضرورت کی وجہ سے دوسرے کا عضو لینا اس کو جائز ہوگیا اس مجبور و لاچار آدمی کے اضطرار اور ضرورت کی وجہ سے جس آدمی کا یہ عضو لے رہا ہے اس کی حرمت ختم ہوجائے گی جو شخص عضو دے رہا ہے اس کے لیے علیحدہ کسی دوسرے اضطرار کا ہونا کوئی ضروری نہیں ہے۔

دیکھئے امام اعظم ابوحنیفہ ‘ امام شافعی اور امام مالک رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہم کا یہ قول ہے کہ کوئی حاملہ فوت ہوجائے اور اس کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو تو ماں کا پیٹ چاک رک کے بچہ کو نکال لینا جائز ہے ‘ اب یہاں اضطرار کی حالت بچہ کی ہے نہ کہ ماں کی ‘ ضرورت بچہکو ہے نہ کہ ماں کو لیکنچون کہ بچہ کی ضرورت ماں کے ساتھ متعلق ہے لہٰذا ماں کا پیٹ چاک کرنا اس کی لاش کی ہے حرمتی جو کہ اشد حرام فعل تھا وہ جائز ہوگیا حالانکہ ماں حالت اضطرار میں نہیں بلکہ وہ تو مردہ ہے جہاں اضطرار اور عدم اضطرر کی بحث ہی نہیں کی جاسکتی تو ضرورت اور ضطرار ماں کو نہیں بلکہ صرف بچہ کو ہے اور اس کی وجہ سے پیٹ چاک ماں کا کیا جارہا ہے ” یعنی ضرورت یہاں ہے اور حرمت وہاں ختم ہو رہی ہے ‘ اب میں معترضین سے کہتا ہوں جو جانبین میں اضطرار اور عد اضطرار کی بحث ہی نہیں کی جاسکتی تو ضرورت اور اضطرار ماں کو نہیں بلکہ صرف بچہ کو ہے اور اس کی وجہ سے پیٹ چاک ماں کا کیا جارہا ہے ‘ بحث ہی نہی کی جاسکتی تو ضرورت اور اضطرار ماں کو نہیں بلکہ صرف بچہ کو ہے اور اس کی وجہ سے پیٹ چاک ماں کا کیا جارہا ہے ‘ یعنی ضرورت یہاں ہے اور حرمت وہاں ختم ہورہی ہے “ اب میں معترضین سے کہتا ہوں جو جانبین میں اضطرار لازمی قرار دیتے ہیں وہ پہلے ماں میں اضطرار ثابت کریں پھر اس کے پیٹ کو چاک کرنے کی اجازت دیں حالانکہ اس کے تو وہ بھی قائل نہیں ! لہٰذا یہاں بھی ان کو عضو دینے والے کے اضطرار پر اصرار نہیں کرنا چاہیے جو آدمی بیمار ہے وہ مضطر ہے اور ضرورت مند ہے اور اس کی ضرورت جس دوسرے شخص کے ساتھ متعلق ہے اس کا عضو لینا اور اس کو اپنا عضو کاٹ کر اسے دینا جائز ہوجائے گا اس جان بلب مریض کی ضرورت جس دوسرے شخص کے ساتھ متعلق ہے اس کا عضو لینا اور اس کو اپنا عضوکاٹ کر اسے دینا جائز ہوجائے گا اس جان بلب مریض کی ضرورت اور اضطرار کی وجہ سے دینے والی کی حرمت ختم ہوجائے گی جس طرح بچہ کی ضرورت اور اضطرار کی وجہ سے اس کی ماں کی لاش کی حرمت ختم ہوگئی تھی۔ (جدید طبی مسائل ص ٢٧۔ ٢٦ )

فقہاء کرام کا یہ جزئیہ دراصل پوسٹ مارٹم کی اصل ہے کہ جس طرح کسی ضرورت کی بناء پر زندہ کے جسم کی سرجری اور اس کا آپریشن کرنا جائز ہے اسی طرح ضرورت کی بناء پر مردہ کے جسم کی سرجری اور اس کا آپریشن کرنا بھی جائز ہے کیونکہ فقہاء نے لکھا ہے حاملہ عورت مرجائے اور اس کے پیٹ میں بچہ زندہ ہو اور حرکت کررہا ہو تو اس مردہ عورت کا پیٹ چاک کر کے اس زندہ بچے کو نکال لیا جائے گا ‘ لیکن فقہاء کرام کا یہجزئیہ انسانی اعضاء کے ساتھ پیوندکاری کی اساس اور اصل نہیں بن سکتا اور اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

(١) مردہ حاملہ کے پیٹ سے زندہ بچہ کو جو نکالا جاتا ہے اس میں صرف سرجری کا عمل کیا جاتا ہے ‘ بچہ نکالنے کے بعد عورت کے پیٹ کو سی دیا جاتا ہے اس عمل سے عورت کی جسمانی ساخت اور اس کی صورت میں کوئی تغیر اور تبدیلی نہیں ہوتی اس کے کسی عضو کو کاٹ کر نکالا نہیں جاتا ‘ نہ اس کے کسی جز کو دوسرے جسم کے ساتھ پیوند کیا جاتا ہے ‘ اس کے برخلاف انسانی اعضاء کی پیوند کاری کے عمل میں ‘ ایک شخص اپنے جسم سے گردہ کٹوا کر یا آنکھیں نکلوا کر اللہ کی تخلیق میں تغیر اور تبدیلی کرتا ہے اور یہ شیطان کے حکم پر عم ل ہے ‘ اور دوسرے شخص کے جسم میں پیوند کرنے کے لیے دیتا ہے اور انسان کے اجزء کے ساتھ پیوند کاری پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعنت فرمائی ہے ‘ مردہ حاملہ کے پیٹ کو چاک کرنے کی طرح یہ صرف سرجری کا عمل نہیں ہے۔

(٢) حاملہ مردہ عورت اور اس کے پیٹ میں جو زندہ بچہ ہے یہ دو الگ الگ شخص نہیں ہیں ‘ اول تو اس لیے کہ کسی شخص کی اولاد اس کے اجزاء کے بہ منزلہ ہے اور خصوصاً اس صورت میں تو وہ بچہ صورۃ اور حسا بھی اس حاملہ عورت کا جز ہے اور سرجری کا یہ عمل ایک ہی شخص میں ہورہا ہے ‘ اور اعضاء کی پیوندکاری کی صورت میں اپنا گردہ کٹوا کردینے والا اور اس گردہ کو اپنے جسم میں لگوانے والا حقیقۃ ‘ صورۃ اور حسا دو الگ الگ اور مغائر شخص ہیں۔

(٣) سرجری کے عمل سے اس بچہ کی زندگی کا حصول یقینی ہے جب کہ پیوند کاری کے ذریعہ مریض کی صحت کا حصول یقینی نہیں ہے۔

(٤) مردہ عورت اب احکام شرعیہ کی مکلفہ نہیں ہے ‘ اس کے پیٹ کو چاک کیے جانے پر اس سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی اور جو شخص اپنا گردہ کٹوارہا ہے اس سے بہر حل وہ آخرت میں باز پرس کا مستحق ہے کہ اس نے اللہ کی تخلیق کو کیوں تبدیل کیا اور اللہ تعالیٰ کے مقابلہ میں شیطان کی کیوں اطاعت کی اور انسان کے اجزا کیسا تھے پیوندکاری پر لعنت ہونے کے باوجود پیوندکاری کیوں کروائی۔

(٥) جس طرح اس عورت کے بدن کی اصلاح اور منعت کے لیے اس کے پیٹ کی سرجری کر کے اس بچہ کو زندہ نکال لینا جائز ہے اور بچہ کو زندہ نکال لینے میں اس عورت کو منفعت ظاہر ہے ‘ کیونکہ اغلب یہ ہے کہ وہ بچہ بڑا ہو کر نیک کام کرے گا اور اپنی ماں کے لیے دعا کرے گا تو اس سے آخرت میں ماں کو ثواب پہنچے گا ‘ اس کے بر خلاف جو شخص پیوندکاری کے لیے اپنا گردہ کٹوا رہا ہے یا آنکھیں نکلوا رہا ہے اس کو اس عمل سے کوئی منفعت نہیں ہوگی ‘ بلکہ دنیا اور آخرت میں اس کو نقصان ہوگا ‘ آخرت میں اس لیے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نافرمانی کی وجہ سے عذاب اور لعنت کا مستحق ہے اور دنیا میں اس لیے کہ جب اس کے جسم میں دو گردے ہیں تو اگر کسی حادثہ یا مرض کی وجہ سے اس کا ایک گردہ فیل ہوجائے تو دوسرے گردہ سے اس کا جسمانی نظام کام کرتا رہے گا ‘ اور جب اس نے ایک گردہ نکلوا دیا اور بالفرض کسی مرض یا حادثہ کی وجہ سے وہ گردہ فیل ہوگیا تو اس کو ساری عمر ڈائی لیسز پر گقزارہ کرنا پڑے گا ‘ اور یہ پیش گوئی کرنا کہ اس کا گردہ کبھی خراب نہیں ہوگا غیب کا دعویٰ کرنا ہے ‘ خلاصہ یہ ہے کہ حاملہ عورت کا پیٹ چاک کرکے اس کے زندہ بچے کو نکالنے میں اس کی سراسر منفعت ہے اور پیوندکاری کے لیے گردہ کٹوانے والا خسرالدنیا والا خرۃ کا مصداق ہے۔

(٦) ہم کہتے ہیں کہ مردہ حاملہ عورت کے پیٹ کو چاک کر کے اس کے پیٹ سے زندہ بچہ کو نکالنا علی التعیین فرض ہے کیونکہ اگر زندہ بچے کو نکالے بغیر اس عورت کو یوں ہی بچے سمیت دفن کردیا جائے تو اس بچہ کو زندہ درگور کرنا لازم آئے گا ‘ اور بچہ کو زندہ درگور کرنا حرام ہے اور حرام کو ترک کرنا فرض ہے تو مردہ عورت کے پیٹ سے زندہ بچے کو نکالنا فرض ہوا ‘ اور پیوند کاری کے مجوزین کے نزدیک بھی کسی شخص پر گردہ کٹوانا علی التعیین فرض نہیں ہے۔

(٧) مردہ حاملہ عورت کے پیٹ سے اگر زندہ نہ نکالا جائے یونہی دفن کردیا جائے تو بچہ مرجائے گا لہٰذا یہاں اضطرار ہے ‘ لیکن جو شخص نابینا ہے اگر اس کے لیے آنکھوں کا عطیہ نہ کیا جائے تو وہ مر نہیں جائے گا ‘ زندہ ہی رہے گا ‘ اسی طرح جس کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہیں وہ اس سے مر نہیں جائیگا زندہ ہی رہے گا ‘ بس ہرہ ہفتہ ڈائی لیسز کرانا پڑے گا ‘ لہذا یہ اضطرار نہیں ہے اور اس فقہی جزئیہ کی مثل نہیں ہے اور اعضاء کی پیوندکاری کے لیے اساس ‘ اصل اور مقیس علیہ نہیں بن سکتا ‘ خود مؤلف نے پیوندکاری کے لیے اس بےتابی اور بےقراری کے باوجود اپنے استاذ محترم کو گردہ نہیں دیا اور وہ اس کتاب کی اشاعت کے بعد بھی چار سال تک زندہ رہے اور ہر ہفتہ ڈائی لیسز کراکر ٹھیک ٹھاک زندہ رہے اور یہاں ہم سے ملنے آئے۔ ہم نے جس طرح اس فقہی جزئیہ اور پیوندکاری میں سات وجوہ سے فرق بیان کیے ہیں شاید کسی اور جگہ یہ نہ مل سکیں۔ وہ اللہ الحمد۔

ہم نے شرح صحیح مسلم میں لکھا تھا کہ حالت اضطرار میں بھی کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ دوسرے شخص سے یہ کہے کہ تم اپنی جان بچانے کے لیی میرے گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر کھالو ‘ تو وہ کسی مریض کیعلاج کے لیے اسے گردہ دینے کی شرعاً پیش کش کب کرسکتا ہے ! اور اس پر حسب ذیل مذاہب اربعہ کے فقہاء کی عبارات سے استدلال کیا تھا :

علامہ قاضی خاں فرماتے ہیں :

مضطر لم یجد میتۃ وخاف الھلاک فقال لہ رجل اقطع یدی وکلھا اوقال اقطع منی قطعہ فکلھا لا یسعہ ان یفعل ذلک ولا یصح امرہ بہ کما لا یصح للمضطر ان یقطع قطعۃ من لحم نفسہ فیا کل۔ کسی شخص کو حالت اضطرار میں کھانے کے لیے مردار بھی نہیں ملا اور اسے اپنی جان کے ہلاک ہونے کا خوف ہو اور اس سے ایک شخص کہے میرے گوشت کا ٹکڑا کاٹ کر کھا لوتو مضطر کے لیے ایسا کرنا جائز نہیں ہے اور نہ اس کا امر کرنا صحیح ہے جیسا کہ مضطر کے لیے یہ صحیح نہیں ہے کہ وہ خود اپنا گوشت کاٹ کر کھالے۔ (فتاویٰ قاضی خان علی ہامش الہندیہ ج ٣ ص ٤٠٤‘ مطبوعہ مصر ‘ ١٣١٠ ھ)

علامہ ابن بزاز کردری حنفی فرماتے ہیں :

خاف الھلاک جو عافقال لہ اخر اقطع یدی وکلۃ لیس لہ ذلک لان لحم الانسان لایباح حال الا ضطرار لکرامتہ۔ کسی شخص کو بھوک کی بناء پر موت کا خوف ہو اس سے دوسرا شخص کہے کہ میرا ہاتھ کاٹ کر کھالو تو اس کے لیے یہ جائز نہیں ہے کیونکہ انسان کے گوشت کو کھانا اس کی تکریم کی وجہ سے حالت اضطرار میں بھی جائز نہیں ہے۔

اسی طرح عالمگیری میں ہے۔

(فتاویٰ بزاز یہ علی ہامش الہندیہ ج ٦ ص ٣٦٦‘ عالم گیری ٥ ص ٣٣٨‘ مطبوعہ مصر ١٣١٠ ھ ‘ شرح المہذب ج ٩ ص ٤٥ (فقہ شافعی) المغنی ج ٩ ص ٣٣٥ ‘(فقہ جنبلی) الشرح الکبیر ج ٢ ص ١١٦‘ حاثیۃ الدسوقی علی اشرح الکبیر ج ٢ ص ١١٦ (فقہ مالکی) میں بھی اسی طرح مذکور ہے) ۔

مذاہب اربعہ کی ان صاف اور صریح عبارت کا مؤلف سے کوئی جواب نہیں بن پڑا پہلے انہوں نے لکھا کہ عرف اور عادات کے بدلنے میں حسن اور قبح کی علامات بدلتی رہتی ہیں جیسے مشرقی ممالک میں ننگے سر پھرنا معیوب ہے اور مغربی ممالک میں معیوب نہیں ہے ‘ اسی طرح انسانی اعضاء کی قطع و برید پہلے انسانیت کی توہین شمار ہوتی تھی ‘ اور اب یہ انسانیت کی تکریم کہلاتی ہے چناچہ کہا جاتا ہے کہ فلاں وزیر نے اپنی آنکھ کا عطیہ کردیا تو لوگ اس کی تعریف اور تحسین کرتے ہیں (جدید طبی مسائل ص ٤٩۔ ٤٨ ملخصا) گویا اب حلت اور حرمت کا مدار عام لوگوں کی تحسین اور تقبح پر ہے ‘ اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ پہلے عورتوں کے پردہ کی تحسین ہوتی تھی اور اب عورتوں کے پردہ کو معیوب سمجھا جاتا ہے ‘ پہلے عام مسلمان ڈاڑھی رکھنے کی تحسین کرتے تھے اب عام لوگ ڈاڑھی منڈانے کو حسن سمجھتے ہیں اور اکثر وزراء اور سرکاری افسران ڈاڑھی منڈاتے ہیں ‘ لہٰذا عورتوں کا بےپردہ پھرنا اور مردوں کا ڈاڑھی منڈانا نہ صرف جائز بلکہ شرعاً قابل تحسین ہوگیا کیونکہ آپ کے بقول شرعی احکام اب لوگوں کی تحسین اور تقبح کے تابع ہوگئے۔

دوسرا جواب یہ دیا ہے کہ پہلے آپ ایک انسان کو بچا کر ساری انسانیت کو بچانے کی بات کیجئے پھر اس کی تکریم کی بات آپ کو زیب دے گی (جدید طبنی مسائل ص ٥٠ ملنصا) اس کا جواب ” احیاء نفس سے اعضاء کی پیوندکاری کے جواز پر استدلال اور اس کا جواب “ کے زیر عنوان آچکا ہے ‘ اس جواب کی شق ثانی میں مردہ عورت کیپ یٹ کو چاک کر کے بچہ نکالنے کے فقہی جزئیہ سے معارضہ کیا ہے ‘ اس کا جواب ابھی گزر چکا ہے ‘ تیسرے جواب میں لکھا ہے :۔

ایک اور فقہی جزئیہ ہے کہ کوئی مضطر انسان کسی مردہ آدمی کو کھا کر اپنی جان بچا سکتا ہے یا نہیں ؟ مالکی اور حنبلی فقہاء کی رائے ہے کہ نہیں کھا سکتا جب کہ شوافع اور بعض احناف کی رائے یہ ہے کہ یہ کھا سکتا ہے کیونکہ زندہ کی حرمت مردہ سے زیادہ ہے۔ (المغنی ج ٩ ص ٣٣٥)

احترام آدمیت اور احترام میت سے متعلق تمام آیات اور احادیث کے باوجو علماء کا ایک جان بچانے کی خاطر مردہ آدمی کو کھانے کی اجازت دینا اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ شریعت میں آدمی کی تحریم و تکریم سے زیادہ انسانی جان کی اہمیت ہے لہٰذا اعضاء کی پیوندکاری کے مسئلہ میں بھی اس اصول کو پیش نظر رکھ کر اس کے جواز کا فیصلہ کیا جائے گا۔ (جدید طبی مسائل ص ٥٢ )

اور چوتھے جواب میں لکھا ہے : فقہاء نے یہ بھی ایک مسئلہ تحریر فرمایا ہے کہ اگر کسی مضطر کو کوئی ایسا شخص مل جائے جس کو کسی جرجم کی وجہ سے شرعی طور پر قتل کی سزا سنائی گئی ہو تو وہ مضطر ایسے شخص کو قتل کرکے اس کا گوشت کھا کر اپنی جان بچا سکتا ہے۔ (المغنی ج ٩ ص ٣٣٥)

یہ جزئیہ بھی ہمارے اس دعوے کی واضح دلیل ہے کہ کسی کی جان بچانے کو سب سے زیادہ اہمیت دی جائے گی اس کے مقابلہ میں ” حرمت آدمیت “ کا خیال نہیں کیا جائے گا حرمت آدمیت کا مرتبہ بعد میں ہے پہلا مرتبہ انسانی زندگی کے بچانے کا ہے۔ (جدید طبی مسائل ص ٥٣ )

یہ بعض فقہاء کے اقوال ہیں جمہور کا نظر یہ نہیں ہے ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ ہم نے مذاہباربعہ کے مسلم فقہاء کے حوالہ سے لکھا تھا کہ کسی شخص کے لیے یہ جائز نہیں ہے کو وہ کسی ایسے شخص سے جو بھوک سے مررہا ہو یہ کہے تم میرا گوشت کاٹ کر کھائو ‘ اور مؤلف بعض فقہا کی ان عبارات سے معارضہ کررہے ہیں جن میں مردہ انسان کے گوشت کھانے کی اجازت دی ہے ‘ واضح رہے کہ عموماً زندہ آدمی کے اعضاء سے پیوندکاری ہوتی ہے اور مردہ کے اعضاء سے نہیں ہوتی ‘ تیسرا جواب یہ ہے کہ مؤلف بار بار لکھتے ہیں یہ انسانی زندگی بچانے کا مسئلہ ہے اور ہم کئی بار وضاحت کرچکے ہیں کہ جس کے دونوں گردے فیل ہوجائیں وہ اس سے مر نہیں جاتا ‘ مرے گا تو اپنے وقت پر ‘ وہ ڈائی لیسز کے ذریعہ زندگی گزار سکتا ہے۔

پانچویں جواب میں انہوں نے لکھا ہے کہ جو شخص کسی کا موتی نگل لے اور مرجائے تو اس کا پیٹ چاک کر کے اس موتی کو نکال لیا جائے گا ‘ لکھتے ہیں :

ذرا غور فرمائیے کہ فقہاء کی نظر میں احترام آدمیت اور احترام میت کے مقابلہ میں ایک انسان کے مالی حق کو زیادہ اہمیت حاصل ہے تو پھر جہاں احترام آدمیت کے مقابلہ میں انسانی جان جیسی چیز آجائے جس کی دنیا میں کوئی قیمت نہیں لگائی جاسکتی بھلا ایسی قیمتی اور اہم چیز کو کیسے نظر انداز کیا جائے گا ‘ ماننا پڑے گا کہ انسان جان کی اہمیت ‘ احترام آدمیت اور احترام میت وغیرہ سے کہیں زیادہ ہے۔ (جدید طبی مسائل ص ٥٤۔ ٥٣) اس کا مفصل جواب تو ہم تکریم انسانیت سے اعضاء کی پیوندکاری کی ممانعت پر استدلال کے زیر عنوان لکھ چکے ہیں ‘ یہاں پر صرف یہ بتانا چاہتے کہ مصنف نے یہاں پھر جان بچانے اور زندگی بچانے کا ذکر کیا ہے حالانکہ ہم بتا چکے ہیں کہ جس کے دونوں گردے فیل ہوجائیں وہ فوراً نہیں مرجاتا ‘ اس کا علاج ہوتا رہتا ہے اور ڈائی لیسز کی ذریعہ زندہ رہتا ہے۔

گردوں کے کام کی توضیح 

انسان کے جسم میں دو گردے جن کا حجم عام طور پر اس کی مٹھی کے برابر ہوتا ہے ریڑھ کی ہڈی کے دونوں جانب پسلیوں سے ذرا نیچے واقع ہوتے ہیں۔ ان کو خون کی فراہمی شریان اعظم کے ذریعے ہوتی ہے اور ایک منٹ میں ١٢٠٠ سی سی یعنی سوالیٹر خون ان سے گذرتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہر گھنٹے تقریباً ٧٢ لیٹر خون اور چوبیس گھنٹوں میں ایک ہزار سات سو پچیس لیٹر خون کا دوران گردوں سے ہوتا ہے۔ گردوں کا کام انتہائی پیچیدہ ہے۔ حقیقتاً گردوں کے کام کی پیچیدگی دل کے کام سے کہیں زیادہ ہے۔ ہر منٹ گردے اس گذرتے ہوئے خون سے ١٢٠ سی سی رقیق مادہ کو چھان لیتے ہیں۔ جن میں نہ صرف فاسد اور زہر یلے مادے ہوتے ہیں بلکہ بہت سے کار آمد اور زندگی کے لیے انتہائی ضروری مادے بھی ہوتے ہیں۔ یہ رقیق مادہ مختلف اور انتہائی پیچیدہ اور نازک نالیوں سے گذرتا ہے۔ جس کے دوران اچھے اور کار آمد مادے دوبارہ خون میں جذب ہوجاتے ہیں اور صرف فاسد ماندے اور وہ اجزاء پانی کی اس مقدار کے ساتھ جس کی ہمارے جسم کو ضرورت نہیں ہوتی پیشاب کی صورت میں خارج ہوتے ہیں۔

گردوں کا دوسرا اہم کام تولید خون ہے۔ اگرچہ براہ راست گردے خون بنانے میں حصہ نہیں لیتے مگر خون کی پیداوار جس خاص کیمیائی مدے کے زیر اثر ہوتی ہے وہ صرف گردے ہی تیار کرتے ہیں۔ اگر یہ مادہ موجود نہ ہو تو ہڈیوں کا گوداخون کی پیدائش میں کام آنے والے تمام تراجزاء کی موجودگی کی باوجود خن نہیں بنا سکتا اور اس طرح خون کی کمی ہوجائے گی۔

گردوں کا تیسرا اہم کام ہڈیوں کی ساخت کو بہتر حالت میں رکھنا ہے۔ وٹامن ڈی کو کیمیائی عمل کے ذریعے کار آمد بناتے ہیں اور اس طرح وہ جسم میں نہ صرف کیلشیم کی مقدار کو نارملرکھنے میں مدد دیتے ہیں بلکہ بالواسطہۃ طور پر ہڈیوں کی مضبوطی اور نشو و نما کے بھی ذمہ دار ہیں۔

انسانی جسم میں گردوں کے فعل کی وضاحت کا مقصد اس کی اہمیت کا احساس دلانا ہے۔ کیونکہ ہمارے معاشرے کے ٨٠ فیصد افراد کے ذہن میں گردوں کی اہمیت پیشاب کے اخراج سے زیادہ نہیں جب کہ گردے ہی وہ واحد عضلات ہیں جو انسانی جسم کے تمام کیمیائی مرکبات کو نہ صرف کنٹرول کرتے ہیں بلکہ ان کا تناسب بھی برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں حتی کہ خونکا دبائو بھی گردے ہی کنٹرول کرتے ہیں۔

اس ساری تمہید کا لب لباب یہ ہے کہ گردوں کا کام فاسد مادوں کا اخراج ‘ جسم کی کیمیائی ہیئت کو برقرار رکھنا ‘ تیزابیت سے بچائو ‘ خون کی تولید اور ہڈیوں کو اچھی حالت میں رکھنا ہے اس لیے اگر گردے ناکارہ ہوجائیں تو انسانی جسم کے ہر ریشے اور ہر عضو کا کام متاثر ہوتا ہے اور کسی مصنوعی طریقے سے گردوں کے ام کا نعم البدل تلاش نہ کیا جائے تو انسانی زندگی ممکن نہیں رہتی۔ گردوں کے مکمل طور پر ناکارہ ہوجانے کے بعد موت یقینی ہوجاتی ہے۔ زہریلے اور فاسد مادے دماغ پر اثر کرتے ہیں جس سے غشی طاری ہوجاتی ہے۔ جسم میں تیزابیت کی زادتی خون میں مل کر زندگی کے لیے خطرناک ہوجاتی ہے۔ وہ پانی جو پیشاب کے ذریعے نہیں نکل سکتا پھیپھڑوں میں جمع ہوجاتا ہے۔ خون کا دابئو بڑھتا جاتا ہے ‘ خون کی شدید کمی ہوجاتی ہے اور ہڈیوں کا چونا کم ہوجاتا ہے۔ جس سے ہڈیاں نرم ہوجاتی ہے۔ ایسی حالت میں انسانی زندگی کو بچانے کے لیے ” تطہیر خون “ یعنی خون کی صفائی کی جاتی ہے۔

ساری دنیا میں مکمل طور پر ناکارہ اور وقتی طور پر خراب گردوں کی صورت میں پیدا ہونے والی پیچیدگیوں کو دور کرنے کے لیے جو طریقہ کار رائج ہیں۔ طبی زبان میں اسے ” ڈائیلسیس “ (DIALYSIS) کہتے ہیں۔

خون سے فاسد مادوں کی صفائی ‘ دھلائی یا چھان پھٹک کے تین مروجہ طریقہ کار ہیں۔

(١) پیری ٹونیل ڈائیلیسس (PERITONEAL DIALYSIS)

(٢) سی اے پی ڈی (C.A.P.D.) (٣) ہیمو ڈائیلیسس (HEMODIALYSIS)

(۳) پیری ٹونیل ڈائیلیسس 

گردوں کی صفائی کا یہ طریقہ کار فی الوقت سب سے سہل گردانا جاتا ہے لیکن اس کا استعمال انتہائی ایمرجنسی کے وقت یا بالفاظ دیگر موت کے منہ سے نکالنے کے لیے کیا جاتا ہے۔

اس طریقہ کار کو شروع کرنے میں محض چند منٹ لگتے ہیں جبکہ دوسرے طریقہ ڈائیلیسس کو آزمانے میں وقت لگتا ہے۔ خرابی گردہ کے ایسے مریض جن کا یوریا اچانک بہت بڑھ جاتا ہے یا وہ افراد جن کے گردے جسم سے زیادہ مقدار میں پانی یاخون نکل جانے کی صورت میں کام کرنا بند کردیتے ہیں۔ مثلاً بچے کی پیدائش یا حمل ضائع ہونے کی صورت میں خون کا زیادہ بہہ جانا۔ کسی حادثے کیدوران خون کا ضائع ہوجانا۔

انسانی جسم کا تیسرے درجے تک جل جانا ‘ پانی کی کمی اور ادویات بھی گردوں کا فعل متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ یہی نہیں بہت زیادہ مقدار میں قے اور دست ہونے کے باعث انسانی جسم میں پانی کی کمی ہوجاتی ہے۔ وہ بھی وقتی طور پر گردے خراب ہونے کا سبب ہوسکتی ہے۔

ایسی تمام صورتوں میں گردوں کا فعل کار گر بنانے کے لیے اور اس سے پیدا شدہ پیچیدگیوں کو ختم کرنے کے لیے یہ طریقہ کا راستعمال کیا جاتا ہے۔

ایک عام طور آدمی گردوں کی صفائی کے اس طریقہ کار کے بارے میں یہ ضرور جاننا چاہتا ہے کہ یہ عمل کس طرح ظہور پذیر ہوتا ہے اور کیا کام کرتا ہے ؟

جیسا کہ شروع میں آپ کو بتایا گیا ہے کہ گردوں کے افعال میں سب اہم فعل خون سے فاسد مادوں کا اخراج اور تازہ خون بنانے میں مدد دینا ہے۔ اس فعل کے متاثر ہونے کی صورت میں بحثیت متبادل کے جب پیری ٹونیل ڈائیلیسس کا طریقہ کار استعمال کیا جاتا ہے تو ڈاکٹر مریض کے پیٹ میں زیر ناف حصے کو سن کر کے پلاسٹک کی ٹیوب ڈال دیتا ہے۔ اس ٹیوب کا تعلق پیٹ کی اس اندورنی جھلی سے ہوتا ہے جو تمام اندرونی اعضاء کو لپیٹے ہوتی ہے اس جھلی یا تھیلی میں خون جسم کے دیگر حصوں کی نسبت زیادہمقدار میں گردش کرتا ہے۔ اس خوبی کی باعث اس جگہ کو گردوں کی خرابی کی صورت میں خون کی صفائی کے لیے سب سے بہتر مانا جاتا ہے اس عمل کے لیے بذریعہ ٹیوب محلول داخل کیا جاتا ہے۔ جسے پیری ٹونیل ڈائیلیسسس سلوشن کہتے ہیں۔ یہ محلول انسانی جسم میں پائے جانے والے تمام نمکیات کا مرکب ہوتا ہے اس کی تشریح یوں بھی کرسکتے ہیں کہ اس محلول کا فارمولا خون کے فار مولے ہی سے اخذ کیا گیا ہے۔

اس محلول کو پیٹ میں کم از کم ٢٥ منٹ کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس دوران محلول اور خون کے درمیان نمکیات کا تبادلہ عمل پذیر ہوتا ہے۔ خون میں جن اجزاء کی زیادتی ہوتی ہے وہ محلول جذب کرلیتا ہے۔ اس طرح جو اجزاء خون میں کم ہوتے ہیں انہیں خون محلول سے جذب کرلیتا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق خون جس حساب سیگردش کرتا ہے۔ ٢٠ منٹ کے دورانیہ میں داخل شدہ محلول کی افادیت مکمل ہوجاتی ہے اور بذریعہ ٹیوب اسے واپس نکال لیا جاتا ہے ‘ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ پیٹ میں داخل کی گئی ٹیوب کا جو حصہ جسم سے باہر ہوتا ہے ‘ اس کا تعلق دو مزید ٹیوب سے ہوتا ہے۔ انمیں سے ایک محلول کے داخلی اور دوسری اخراج کے لیے ہوتی ہے۔

صفائی کا یہ سلسلہ مریض کی حالت پر منحصر ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں یہ سلسلہ بلا کسی توقف کے کئی کئی دن جاری رہتا ہے لیکن جوں ہی مریض کی حالت سنبھلنے لگتی ہے صفائی کا دورانیہ کم ہوتا جاتا ہے۔ مریض کی حالت بہتر ہوتے ہی ٹیوب نکال دی جاتی ہے۔ مریض کی بہتری کا اندازہ اس عمل کے دوران ہونے والے خون ٹیستٹ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔

جن افراد کے گردے وقتی یا حادثاتی طور پر متاثر ہوتے ہیں وہ اس عمل کے بعد دو سے چھ ہفتے کیدروان دوبارہ معمول کے مطابق کام کرنے لگتے ہیں لیکن ایسا نہ ہونے کی صورت میں گردوں کے دوسرے متابادل طریقہ علاج کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ اس تمام کارروائی کے دوران مریض کا داخل ہسپتال رہنا لازمی ہوتا ہے۔ بعض صورتوں میں مریض کو حالت سنبھلنے کے بعد گھر بھیجدیا جاتا ہے اور ہدایت کی جاتی ہے کہ ہفتے میں کم از کم دو بار ڈاکٹر سے ملاقات کرے۔

سی۔ اے۔ پی۔ ڈی 

ڈائیلیسس کے اس طریقہ کار کی آسانالفاظ میں تشریح کچھ یوں بنتی ہے۔ لگاتار ڈائیلیسس۔ چلتے پھرتے ڈائیلیسس ‘ اس طریقہکار کی بنیاد تو پیری ٹونیل ڈائیلیسسس ہی ہے البتہ یہ اس کی بہتر شکل ہے۔ اس میں مریض کو ہسپتال میں داخل نہیں رہنا پڑتا۔ وہ دفتر ‘ اسکول ‘ کالج ‘ گھر ‘ چلتے پھرتے جہاں وقت اور موقع میسر ہو اپنا ڈائیلیسس خود کرسکتا ہے۔

اس طریقہ کار میں بذریعہ آپریشن تقریباً نو انچ لمبی ربڑ کی ٹیوب زیر ناف پیٹ کی اندرونی جھلی سے مستقل طور پر منسلیک کردی جاتی ہے۔ تاکہ مریض کو چلنے پھرنے میں کم سے کم تکلیف ہو۔ یہ پیٹ کا وہی حصہ ہوتا ہے جس کا استعمال پیری ٹونیل ڈائیلیسس میں بھی کیا جاتا ہے۔

اس ٹیوب کا ایک حصہ پیٹ سے باہر ہوتا ہے جسے استعمال کرنے کے بعد والو سے بند کردیا جاتا ہے۔ ٹیوب میں دو فلٹر ہوتے ہیں۔ اس طریقہ صفائی میں بھی پیری ٹونیل ڈائیلیسس سلوشن کا استعمال کیا جاتا ہے۔ البتہ سلوشن کا پیٹ میں رہنے کا دورانیہ ٤ سے ٦ گھنٹے تک کا ہوتا ہے۔ مقررہ وقت کی تکمیل کے بعد پیٹ کا سلوشن نکال کرنیاڈال دیا جاتا ہے۔

بیرون ملک بلکہ یہ کہا جائے کہ ہندو پاک کے علاوہ ان تمام ممالک میں جہاں ڈائلیسس کی سہولت میسر ہے ‘ یہ طریقہ کار بہت مقبول اور فائدے مند ہے۔

اس طریقہ کار کا اطلاق خرابی گردہ کے ان مریضوں پر کیا جاتا ہے جن کے گردے مستقل طور پر خراب ہوجاتے ہیں اور زندہ رہنے کے لیے تبدیلی گردہ یا ڈائیلیسس میں سے کسی ایک کا اطلاق لازمی ہوجاتا ہے۔ یہ طریقہ علاج خرابی گردہ کے مریض بچوں ‘ بوڑھوں یا افراد جن کی نسیں (VESSELS) کسی وجہ سے صحیح نہ ہوں ان کے لیے آئیڈیل سمجھا جاتا ہے کیوں کہ بچوں کی نسیں چھوٹی اور باریک ہوتی ہیں۔ بوڑھے افراد میں عموماً نسیں سکڑ جانے یا چربی کی مقدار بڑھ جانے کے سبب طربقہ کار بہتر رہتا ہے۔

مشینی صفائی یا ہیمو ڈائیلیسس 

گردوں کی خرابی سے پیچیدگیوں کو دور کرنے کے طریقہ کار میں سے ایک ہیمو ڈائیلیسسس ہے۔ اس طریقہ کار میں خون میں جمع ہونے والے فاسد مادوں ‘ نمکیات بوجہ پیشاب کی کمی جمع شدہ پانی کو خون سے بذریعہ مشین علیحدہ کیا جاتا ہے۔ اسی سبب کو عام فہم زبان میں صفائی کے اس طریقہ کار کو ” مشینی صفائی “ بھی کہا جاتا ہے۔ مقصد اس کا بھی وہی ہے یعنی ” تطہیر خون “ یا ” خون کی صفائی “۔

یہ طریقہ کار خرابی گردہ کے ان مریضوں کے لیے آئیڈیل سمجھا جاتا ہے جن کے گردے مستقل طور پر خراب ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ اتفاقی یا حدثاتی طور پر خراب ہونے والے گردوں اور ایمرجنسی میں بھی کار گررہتا ہے۔ گذشتہ سالوں کے دوران پاکستان میں بھی اس طریقہ کار کا استعمال ایمرجنسی کی صورت میں کافی بڑھ گیا ہے۔

گردوں کی صفائی کا یہ عمل ابھی تک ساری دنیا میں سب سے زیادہ کامیاب ہے۔ خون کی صفائی کے اس فعل کا اطلاق عملی طور پر کچھ یوں ہوتا ہے کہ ہر ڈاکٹر اپنے زیر علاج مریضوں کے وقتاً فوقتاً معائنہ کے دورانگردوں کی کارکردگی کا اندازہ بذریعہ ٹیسٹ کرتے رہتے ہیں۔ اس دوران جب گردوں کا فعل کم ہوتے ہوتے ٨/١ حصہ رہ جاتا ہے تو مذکورہ مریض کو فسچولا (FISTULA) بنوانے کا مشورہ دیتے ہیں یہاں ہر طرح سے متاثرہ مریض کا حق میں حفاظتی اقدام ہوتا ہے۔

مریض کے بائیں یا دائیں بازو میں جلد کے بالکل نیچے آپریشن کے ذریعے خون کی شریانوں اور دریدوں کو ملا کرسی دیا جاتا ہے۔ طبی زبان میں اسے فسچولا (FISTULA) کہا جاتا ہے۔

یہ اقدام خون کا دابائو برھانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ اس خاص مقام پر خون کی گردش بڑھ جاتی ہے۔ اس سے خاص مقام پر خون کی گردش بڑھ جاتی ہے۔ خون کی نالیاں بڑی اور موٹی ہوجاتی ہیں۔ ہاتھ گرم اور تھوڑا موٹا معلوم ہوتا ہے۔

اس مقام پر ڈائیلیسس کے وقت دو سوئیاں لگادی جاتی ہیں۔ ان کے ذریعے خون پلاسٹک کی نالیوں سے ہوتا ہوا مشین سے منسلک مصنوعی گردے یا ڈائیلائزر (DIALYSER) میں آتا ہے اور واپس چلا جاتا ہے۔ مصنوعی ردہ پلاسٹک کے خول میں بند باریک ‘ کھوکھلے ریشوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یہ ریشے ایک خاص عنصر سیلی لوز (CELLULOSE) سے بنے ہوتے ہیں۔ اسے ڈائیلائزر (DIALYSER) یا مصنوعی گردہ کہا جاتا ہے۔ اس کا نظام ایک مشین سے کنٹرول ہوتا ہے۔ اسے ڈائیلیسس مشین کہا جاتا ہے۔ مشین کا کنٹرول ہر مریض کی ضرورت کے مطابق منظم کیا جاتا ہے۔ اس میں مختلف بٹن لگے ہوتے ہیں جو بوقت ضرورت الارم بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح مصنوعی گردوں کا سائز بھی متاثرہ افراد کے وزن اور جسمانی مناسبت سے الگ الگ ہوتا ہے۔ خون کی صفائی کا یہ عمل ٤ گھٹنے کا ہوتا ہے۔ البتہ جدید مشینوں میں اس کا دورانیہ ٢ گھنٹے کم ہوگیا ہے لیکناس میں خون کی روانی بڑھنے کے سبب فسچولا پر کافی دبائو پڑسکتا ہے۔ ڈائیلیسس کے دوران مریض آرام سے بستر پر لیٹا رہتا ہے ‘ اخبار پڑھتا ہے ‘ میوزک ‘ ٹیوی کی سہولت ہو تو اس سے مستفید ہوتا ہے۔

ڈاکٹر یا طبی عملے کے دیگر افراد اس دوران اس کا بلڈ پریشر اور ایسی ہی دیگر علامات پر خاص نظر رکھتے ہیں۔ ٤ گھنٹے کا دورانیہ مکمل ہونے کے بعد خون کی گردش کا سلسلہ مصنوعی گردہ سے منقطع کردیا جاتا ہے۔ تمام خون واپس جسم میں چلا جاتا ہے۔ سوئیاں نکال دی جاتی ہیں۔ اس مقام پر چند منٹ تک دبائو کیساتھ روئی رکھی جاتی ہے ‘ پھر ٹیپ سے بند کردیا جاتا ہے ‘ مذکورہ فرد کو اگلے ٢٤ گھنٹے تک روئی اور ٹیپ نہ ہٹانے کی ہدایت کردی جاتی ہے۔

اس عمل کی تکمیل کے بعد مریض کے خون کا دبائو اور وزن چیک کیا جاتا ہے اور گھر جانے کی اجازت دے دی جاتی ہے۔ گھر جانے کی اجازت خرابی گردہ کے ان افراد کو دی جاتی ہے جن کی زندگی کا انحصار ہیمو ڈائیلیسس کے مستقل پروگرام پر ہوتا ہے۔ کسی بھی ایمرجنسی کے باعث ہیمو ڈائیلیسس کے مرحلے سے گذرنے والے فرد کو طبیعت کی مکمل بہتری تک ہسپتال میں مقیم رہنا پڑتا ہے۔ ایمرجنسی میں ہیمو ڈائیلیسس کے جو طریقہ کار استعمال ہوتے ہیں انہیں شنٹ (SHUNT) سب کلوین (SUBCLAVIAN) ‘ فیمورول (FEMORAL) کہا جاتا ہے۔

شنٹ

مریض کے بائیں ٹخنہ سے اوپر آپریشن کے ذریعے ٹیوب ڈال دی جاتی ہے۔ اس کے ذریعے مریض کا خون صاف کیا جاتا ہے۔ سب کلوین (SUBCLAVIAN) اس میں مریض کی گردن کے نچلے حصے میں بذریعہ آپریش شریان میں ٹیوب ڈال دی جاتی ہے اور خون کی صفائی کا کام کیا جاتا ہے۔ یہ عموماً دو ہفتہ سے چھ ہفتہ تک استعمال کی جاسکتی ہے۔ اس آپریشن سے پھپھڑوں میں ہوا بھرسکتی ہے۔ لہٰذا احتیاط ضروری ہے۔

فیمورل (FAMORAL)

انسانی جسم کے اوپری حصے اور ٹانگ کے ملاپ کے مقام پر بذریعہ آپریشن شریان میں ٹیوب ڈال کر صفائی کرنے کے اس طریقے کو فیمورل کہتے ہیں۔ ( ڈائیلیسس ‘ دی کڈنی سنٹر ‘ کراچی)

خون اور پیشاب سے قرآن مجید کو لکھنے سے اعضاء کی پیوندکاری پر استدلال اور اس کا جواب

پانچویں جواب میں مؤلف مذکور لکھتے ہیں :

شریعت اسلامیہ ” انسانی جان “ کی کتنی قدرو قیمت اور کس قدر اس کو اہمیت حاصل ہے ؟ اس کا انداز اس سے لگائیے کہ کلام اللہ یعنی قرآن پاک کی عظمت و حرمت عام آدمی کی عظمت و حرمت سے کہیں زیادہ ہے ‘ جس کی عظمت کا یہ عالم ہے کہ جنبی کو اس کا پڑھنا اور بےوضو آدمی کو اس کا ہاتھ لگانا بھی جائز نہیں لیکن اگر اس کے مقابلہ میں انسانی جان کے بچانے کی بات آجائے تو ترجیح انسانی جان ہی کو دی جائے گی اس سلسلہ میں فقہاء کے بیان کردہ اس مسئلہ کو ملاحظہ فرمائیے :

ترجمہ : اور جس کو نکسیر آئے اور خون بند نہ ہوتا ہو تو اگر وہ اپنے خون سے اپنی پیشانی پر قرآن سے کچھ لکھنا چاہے تو ابوبکر کہتے ہیں کہ یہ جائز ہے ‘ ان سے پوچھا گیا کہ اگر پیشاب سے قرآن کا کچھ حصہ لکھا جائے تو اس کا کیا حکم ہے آپنے فرمایا اگر اس میں اس کی شفاء ہے تو ایسا کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں۔

اللہ اکبر ! فقہاء نے اس جزئیہ کے ذریعہ بتادیا کہ دین اسلام میں ایک جان کے بچانے کی بڑی اہمیت ہے اس کے سامنے آدمی کی حرمت تو کیا اگر قرآن جیسی عظیم اللہ کی کتاب کی عظمت و حرمت کو بھی نظر انداز کرنا پڑا تو کرلیں گے لیکن انسانی جان کو ضائع نہیں ہونے دیں گے انسانی جان کو ہرحال میں بچانے کی کوشش کریں گے۔ (جدید طبی مسائل ص ٥٥۔ ٥٤ )

بعض فقہاء نے یہ جزئیہ انسان کی جان بچانے کے لیے نہیں بلکہ مرض سے شفاء کے متعلق لکھا ہے اور فقیہ ابوبکر کا یہ لکھنا صحیح نہیں ہے اور جن فقہاء نے اس کو نقل کر کے اس پر اعتماد کیا ہے وہ بھی صحیح نہیں ہے ‘ ہمارے نزدیک قرآن مجید کی عزت اور حرمت بہت زیادہ ہے مرض سے شفاء کی کیا حیثیت ہے اگر مریض کو سو فی صد یقین ہو کہ اس کی پیشانی پر خون یا پیشاب سے کلام اللہ کی آیات لکھنے سے اس کی جان بچ جائے گی تو اس کا سو بار مرجانا اس سے بہتر ہے کہ وہ خون یا پیشاب سے قرآن مجید لکھنے کی جسارت کرے اور اس کی توہین کا مرتکب ہو۔ ہمیں یہ پڑھ کر بہت رنج اور افسوس ہوا کہ مؤلف پیوندکاری ثابت کرنے کے جوش میں کلام اللہ کی توہین کے جواز تک اتر آئے : انا للہ وانا الیہ راجعون۔

مؤلف نے یہاں پھر انسان کی جان بچانے اور اس کو ضائع نہ ہونے دینے کو لکھا ہے اور ہم کئی بار واضح کرچکے ہیں کہ گردہ مریض کو اگر گردہ نہ دیا جائے تو وہ اس سے فوراً مرتا نہیں ہے۔ قرآن مجید کو توہین کے جواز کا فتویٰ دینے کے بعد مؤلف مزید لکھتے ہیں :

قرآن و حدیث اور اقوال فقہاء تو انسانی جان کو اتنی اہمیت اور وقعت دیں لیکن آج کل کے بعض مفتیوں کی نظر میں یہ بچانے کی قدرت رکھنے کے باوجود صرف احترام آدمیت اور احترام میت کے باعث کسی کو اس کی مدد کی اجازت نہیں ‘ اس تڑپتے ہوئے انسان کی بیکسی اور بےبسی کا کھڑ ہو کر تماشا دیتکھے رہو لیکن قدرت رکھنے کے باوجود اس کی مدد نہ کرو اس کی زندگی نہ بچائو اس کو اسی طرح ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرنے دو یہ کون سا اسلام ہے اور کہاں کی شریعت ہے ؟ یہ انتہائی سنگدلی ‘ بےرحمی اور سفا کی ہے اس کو اسلامی حکم کہنا اسلام کی توہین اور دین کی حرمت کی پامالی ‘ یہ احترام انسانیت نہیں بلکہ تذلیل انسانیت ہے یہ تحریم آدمیت نہیں بلکہ تحقیر آدمیت ہے۔ (جدید مسائل ص ٥٥ )

انداز بیان دیکھئے ! کیا علمی اور تحقیقی مسائل میں اسی طرح کی زبان استعمال کی جاتی ہے ‘ اور گرہیں اسی طرح جوش اور جذباتیت سے کھولی جاتی ہیں۔

سرجری کی تعلیم اور مشق کے لیے غیر مسلم اموات کے پوسٹ مارٹم کے جواز اور مسلم اموات کے پوسٹ مارٹم کے عدم جواز کی تحقیق 

اس بحث میں ہم نے لکھا ہے : سرجری کی مشق کے لیے جانوروں اور غیر مسلم اموات کو حاصل کرنا چاہیے اور مسلم اموات پر سرجری کی مشق کرنا جائز نہیں ہے اور غیر مسلم اموات کا حصول اس قدر دشوار نہیں ہوتا جس کی بناء پر مسلمان میت کی چیر پھاڑ کر کے اس کی بےحرمتی کی جائے۔ (شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٨٢٦‘ مطبوعہ فرید بک سٹال ‘ لاہور)

مؤلف مذکور نے اس عبارت پر اعتراض کرتے ہوئے لکھا ہے :

اس کے متعلق عرض یہ ہے کہ اول تو تکریم آدمیت کے لحاظ سے مسلم اور غیر مسلم دونوں برابر ہیں چناچہ اس پر فقہ کا جزیہ شاہد ہے : اور انسان کے بالوں کی بیع ناجائز ہے بوجہ آدمی کی عزت اور کرامت کے اگرچہ کافر ہی ہو۔ (اس جزئیہ کا کوئی حوالہ مذکور نہیں ہے۔ سعیدی غفرلہ) اس کے بعد لکھتے ہیں :

اس سے واضح طور پر ثابت ہوگیا کہ آدمی مسلمان ہو یا کافر اسلام کی نظر میں دونوں کی جان قیمتی ہے ‘ انسانی تکریم و حر مت کی حیثیت سے دونوں برابر ہیں ‘ جو مسلمان کی جان کا حکم ہوگا وہی کافر کی جان کا حکم ہوگا ‘ اگر مسلمان کے جسم کی ایذاء اور بےحرمتی حرام ہے تو اسلام کی نظر میں کافر کے جسم کی بھی ایذاء اور بےحرمتی حرام ہے ‘ لہٰذا عدم القائل بالفصل کی بناء پر جب آپ نے غیر مسلم کی اموات کے پوسٹ مارٹم کی طلباء کو اجازت دے دی تو مسلم اموات کے پوسٹ مارٹم کی اجازت خود بخود ثابت ہوجائے گی (الیٰ قولہ) لہٰذا ماننا پرے گا کہ ” غیر مسلم اموات “ کی قید لگانا درست نہیں اس عظیم فائدہ کی خاطر مسلم اموات کا بھی پوسٹ مارٹم درست ہوگا۔ (جدید طبی مسائل ص ٧٨۔ ٧٦ ملخصا ‘ حیدر آباد ‘ ١٤١٦ ھ)

مؤلف مذکور کا یہ فتوی یا ان کا یہ نظریہ صحیح نہیں ہے ‘ دلائل شرعیہ سے ثابت ہے کہ مسلم اموات اور غیر مسلم اموات کی حرمت میں فرق ہے اور غیر مسلم اموات کی توہین شرعاً جائز ہے اس پر احادیث صحیحہ موجود ہیں اور فقہاء کا بھی یہی مختار ہے ‘ جیسا کہ انشاء اللہ العزیز ہم ابھی وہ احادیث اور عبارات پیش کریں گے ‘ بنابریں طبی ضرورت اور سرجری کی مشق کے لیے غیر مسلم کو حاصل کرنا لازم ہے اور مسلم اموات پر سرجری کی مشق کرنا جائز نہیں ہے۔ اب ہم اس سلسلہ میں احادیث اور عبارات فقہا پیش کررہے ہیں۔ فنقول وباللہ التوفیق وبہ الا ستعا ئۃ یلیق۔

غیر مسلم اموات کے احترام لازم نہ ہونے اور ان کی اہانت کے جواز میں احادیث 

مسجد نبوی بنانے کے متعلق حضرت انس (رض) سے ایک طویل حدیث مروی ہیجس جگہ مسجد نبوی بنائی گئی تھی اس جگہ کے متعلق حضرت انس (رض) فرماتے ہیں : اس میں کچھ کھجوروں کے درخت ‘ مشرکین کی قبریں اور کھنڈرات تھے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کھجور کے درختوں کو کاٹنے کا حکم دیا وہ کاٹ دیئے گئے اور مشرکین کی قبریں کھود کر ان مردوں کو نکال کر پھینک دیا گیا۔الحدیث (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٢٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٥٢٤‘ سنن ابودائود رقم الحدیث : ٤٥٣‘ سنن نسائی رقم الحدیث : ٧٠٢‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٧٤٢ )

حافظ ابن حجر عسقلانی شافعی متوفی ٨٥٢ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

رہے کافر تو ان کی قبروں کو کھود نے اور ان کی اہانت کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔(فتح الباری ج ٢ ص ٨٩‘ مطبوعہ دارافکر بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)

نیز حافظ ابن حجر لکھتے ہیں :

اس حدیث کے فوائد میں سے یہ ہے کہ مشرکین کی قبروں کو کھود کر اور ان کی لاشوں کے بقایا جات کو قبروں سے نکال کر وہاں مسجد بنانا اور نماز پڑھنا جائز ہے۔ (فتح الباری ج ٢ ص ٩٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٤٢٠ ھ)

اس سلسلہ میں دوسری حدیث یہ ہے :

حضرت عبداللہ بن عمر و بن العاص (رض) بیان کتے ہیں کہ جب ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ طائف میں گئے تو ہم ایک قبر کے پاس سے گزرے اس موقع پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ ابور غال کی قبر ہے ‘ وہ اس حرم میں پناہ لیے ہوئے تھا جو اس سے عذاب دور کررہا تھا جب وہ حرم سے نکلا تو اس کو اس عذاب نے پکڑ لیا جو اس کی قوم پر آیا تھا ‘ پھر اس کو اس جگہ دفن کردیا گیا۔ اس کی علامت یہ ہے کہ اس کے ساتھ سونے کی ایک شا بھی دفن گئی تھی اگر تم اس کی قبر کھودو گے تو تمکو وہ شاخ مل جائے گی ‘ مسلمان اس کی قبر کھودنے کی طرف جھپٹے اور وہ شاخ قبر سے نکال لی۔

(سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٣٠٨٨‘ المسند الجامع رقم الحدیث ‘ ٨٧٥٠ )

علامہ حمد بن محمد خطابی شافعی متوفی ٣٨٨ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

ابورغال قوم عاد کا ایک فرد تھا ‘ اللہ تعالیٰ نے عاد کو ہلاک کردیا تھا ‘ ان کی کوئی نسل جاری نہیں ہوئی ‘ اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ مشرکین کی قبروں کو کھودنا جائز ہے ‘ جب کہ اس کی کوئی ضرورت ہو اور مسلمانوں کے لیے کوئی نفع ہو اور یہ کہ مشرکین کے مردوں اور ان کے اموات کی حرمت مسلمانوں کی طرح نہیں ہے۔ (معالم السنن مع مختصر المنذری ج ٤ ص ٢٧٢‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ‘ ١٤٠٠ ھ)

اس سلسلہ میں تیسری حدیث یہ ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ مردہ مومن کی ہڈی کو توڑنا ‘ زندہ مومن کی ہڈی توڑنے کی مثل ہے۔

(مسند احمد ج ٦ ص ٥٨ طبع قدیم ‘ حافظ زین نے کہا اس حدیث کی سند صحیح ہے ‘ حاثیہ مسند احمد رقم الحدیث : ٢٤١٨٩‘ موطا امام مالک رقم الحدیث ٥٧٢‘ الفتح الربانی ج ٨ ص ٨٠‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت)

اس سے پہلی احادیث سے یہ واضح ہوگیا تھا کہ مردہ کافروں کا کوئی احترام نہیں ہے ‘ اور ضرورت کی بنا پر اور مسلمانوں کے نفع کے لیے مردہ مشرکوں کو اہانت کرنا جائز ہے اور اس حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ مردہ مسلمانوں کا احترام لازم ہے اس لیے غیر مسلم اموات کی سرجری کرنا اور ان کا پوسٹ مارٹم کرنا جائز ہے اور مسلم اموات کی سرجری اور ان کا پوسٹ مارٹم کرنا جائز نہیں ہے۔ اس سلسلہ میں فقہاء اسلام کی حسب ذیل عبارات ہیں :

غیر مسلم اموات کے احترام لازم نہ ہونے اور ان کی اہانت کے جواز میں فقہاء اسلام کی عبارات 

صحیح بخاری وغیرہ کی جس حدیث میں ہے کہ جس جگہ مسجد نبوی بنائی جارہی تھی وہاں کفار کی قبریں تھیں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حکم دیا کہ کفار کی قبروں کو کھود کر ان کی لاشوں اور ہڈیوں کو نکال کر پھینک دیا جائے ‘ اس حدیث کی شرح میں علامہ حمد بن محمد ابوسلیمان خطابی شافی متوفی ٣٨٨ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث میں یہ علم ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ضرورت کے وقت کفار کی قبروں کو کھود کر ان کے مردوں کو نکال کر پھینکنے کو مباح قرار دیا ہے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ابور غال کی قبر کو کھود نے کا حکم دیا تھا۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٠٨٨)

اور اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ جس شخص کا خون اس کی زندگی میں محترم نہ ہو اس کے مرنے کے بعد اس کی ہڈیاں بھی محترم نہیں ہیں ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا یہ بھی ارشاد ہے کہ مردہ مسلمانوں کی ہڈیوں کو توڑنا زندہ مسلمانوں کی ہڈیوں کو توڑنے کی مثل ہے۔ (مسند احمد ج ٦ ص ٥٨‘ موطا امام مالک رقم الحدیث : ٥٧٢) اور اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ کفار کی ہڈیوں کا حکم اس کے خلاف ہے۔ (معالم السنن ج ١ ص ٢٥٨۔ ٢٥٧ ملخصا دارالمعرفتہ بیروت)

علامہ ابوالحسن علی بن خلف المعروف ببن بطال مالکی متوفی ٤٤٩ ھ لکھتے ہیں :

اکثر فقہاء نے مال کی طلب کے لیے مشرکین کی قبروں کے کھودنے کو جائز کہا ہے ‘ اشہب نے کہا مرنے کے بعد ان کی حرمت ان کی زندگی سے زیادہ نہیں ہے۔ (شرح صحیح البخاری لابن بطال ج ٢ ص ٨١‘ مطبوعہ مکتبہ الرشید ریاض ‘ ١٤٢٠ ھ)

قاضی عیاض بن موسیٰ مالکی متوفی ٥٤٤ ھ لکھتے ہیں :

علامہ خطابی نے کہا اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ جس کی زندگی میں اس کی حرمت نہیں ہے اس کے مرنے کے بعد بھی اس کی حرمت نہیں ہے ‘ اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہے مردہ مسلمانوں کی ہڈیوں کو توڑنا زندہ مسلمانوں کی ہڈیوں کو توڑنے کی مثل ہے۔(اکمال المعلم بفوائد مسلم ج ٢ ص ٤٤٣۔ ٤٤٢‘ دارالوفاء بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

علامہ ابو العباس احمد بن عمر بن ابراہیم المالکی القرطبی المتوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں :

آپ نے مشرکین کی قبروں کو کھودنے کا اسی لیے حکم دیا کہ ان کی کوئی حرمت نہیں ہے۔(المفہم ج ٢ ص ١٢٢ ذ دارابن کثیر بیروت ‘ ١٤١٧ ھ)

علامہ ابی مالکی متوفی ٨٢٨ ھ اور علامہ سنوسی مالکی متوفی ٨٩٥ ھ نے بھی قاضی عیاض اور علامہ خطابی کے اقوال سے استدلال کیا ہے۔ (اکمال اکمال المعلم ج ٢ ص ٤١٧‘ مکمل اکمال ج ٢ ص ٤١٧‘ دارالباز ‘ ١٤١٥ ھ)

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں :

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ مشرکین کی قبروں کو کھودنا اور ان کی ہڈیوں کو نکال کر پھینکنا جائز ہے کیونکہ اموات مشرکین کا کوئی احترام نہیں ہے ‘ اگر تم یہ سوال کرو کہ کیا اس زمانہ میں بھی مشرکین کی قبروں کو کھود کر اس جگہ مسجد بنانا جائز ہے تو میں کہوں گا کہ سنن ابو دائود میں جو ابور غال کی حدیث ہے اس کی بناء پر فقہا نے اس کی اجازت دی ہے کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے مسلمانوں نے ابورغال کی قبر کو کھود کر اس سے سونے کی شاخ نکال لی تھی ‘ فقہاء نے کہا جب مشرک قبر کو مال کی طلب کے لیے کھودنا جائز ہے تو کسی نفع کو حاصل کرنے کے لیے یا کسی ضرورت کی وجہ سے اس کی قبر کو کھودنا بہ طریق اولیٰ جائز ہے اور مرنے کے بعد مشرکین کا احترام ان کی زندگی سے زیادہ نہیں ہے ‘ اور ان کی قبر کھودنے والے کو اس کام میں اجر ملے گا ‘ فقہا احناف ‘ امام شافعی اور اشہب مالکی نے اس کے جواز کی تصریح کی ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٤ ص ٢٦٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلیمیہ بیروت ‘ ١٤٢١ ھ)

ان تمام فقہاء اسلام کی عبارات میں یہ تصریح ہے کہ غیر مسلماموات کا کوئی احترام نہیں ہے کسی ضرورت کی بناء پر یا کسی فائدے کے حصول کے لیے ان کی قبروں سے ان کی ہڈیوں کو نکال کر پھینکا جاسکتا ہے بنا بریں سرجری کی تعلیم کی مشق کے لیے غیر مسلم اموات کا پوسٹ مارٹم کرنا بلاشبہ جائز ہے۔ وللہ الحمد 

مسلم اموات میں سرجری کے عدم جواز اور غیر مسلم اموات میں اس کے جواز کی اصل 

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ١٠٥٢ ھ مسلم اموات کے متعلق لکھتے ہیں :

بعض جاہل قبر کھودنے والے غیر بوسیدہ اموات کی قبروں کو کھود کر ان میں اجنبیوں کو دفن کردیتے ہیں یہ صراحۃً ناجائز ہے ‘ خواہ کسی میت سے تبرک حاصل کرنے کے قصد سے اس کی قبر کھود کر اس میں دوسرے کو دفن کیا جائے ‘ اس میں پہلی میت کی توہین ہے اور اس کے اعضاء کو متفرق کرنا ہے اس سے احتراز کرنا لازم ہے ‘ علامہ زیلعی نے لکھا ہے کہ جب میت قبر میں مٹی ہوجائے تب بھی اس کی قبر میں دوسرے مردہ کو دفن کرنا جائز ہے ‘ اس کے برخلاف تاتارخانیہ میں مذکور ہے جب میت قبر میں مٹی ہوجائے تب بھی اس کی قبر میں دوسرے مردہ کو دفن کرنا مکروہ ہے کو ین کہ اس کا احترام باقی ہے ‘ اور اگر اس کی ہڈیاں ایک طرف کر کے صالحین کے قرب کا تبرک حاصل کرنے کے قصد سے اس میں دوسرے مردہ کو دفن کیا جائے پھر بھی مکروہ ہے کیونکہ اس کا احترام باقی ہے۔

(علامہ عالم بن العلاء الانصاری الدبلو المتوفی ٧٨٦ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے ‘ فتاویٰ تاتارخانیہ ج ٢ ص ١٧٢‘ مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی ‘ ١٤١١ ھ)

اور علامہ شامی غیر مسلم اموات کے متعلق لکھتے ہیں :

” الاحکام “ میں مذکور ہے کہ مشرکین کے قبرستان میں مسلمان کو دفن کرنا جائز ہے بہ شرطی کہ ان کی قبروں میں کوئی علامت باقی نہ رہے اس طرح خزانۃ الفتاویٰ میں ہے ‘ اور اگر ان کی ہڈیوں میں سے کوئی چیز باقی ہو تو اس کو نکال کر پھینک دیا جائے اور اس کے آثار مٹادیئے جائیں اور اس جگہ مسجد نبوی بنادی گئی۔ (ردالمختار ج ٣ ص ١٢٩‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤١٩ ھ)

علامہ شامی اور صاحب تاتارخانیہ کی عبارت سے یہ واضح ہوگیا کہ مسلم اموات کی ہڈیوں کا احترام باقی رہتا ہے لہٰذا ان کا پوسٹ مارٹم کرنا اور ان پر سرجری کی مشق کرنا اور ان کا پوسٹ مارٹم کرنا بلا کراہت جائز ہے اور یہی بات ہم نے شرح صحیح مسلم میں کہی تھی اور احادیث صحیحہ اور فقہاء اسلام اور خصوصاً فقہاء احناف کی عبارات سے اس کا برحق ہونا واضح ہوگیا وللہ الحمد۔

واضح رہے کہ ہم نے تعلیم کی مشق کے لیے اموات کی سرجری کو ناجائز کہا ہے لیکن اگر اس کی کوئی ناگزیر ضرورت ہو مثلاً کسی بےقصور شخص کا سزائے موت سے بچنا مسلم مردہ کے پوسٹ مارٹم پر موقوف ہو تو یہ بھی جائز ہے اس کی تفصیل اور دلائل شرح صحیح مسلم ج ٢ ص ٨٢٧۔ ٨٢٦ میں مذکور ہیں۔

مطلقاً مردے کی ہڈی توڑنے کی ممانعت اور مسلمان مردے کی ہڈی توڑنے کی حدیثوں میں تعارض کا جواب 

ہم نے مسند احمد اور موطا امام کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے :” مردہ مومن کی ہڈی کو توڑنا زندہ مومن کی ہڈی توڑنے کی مثل ہے “ اس پر یہ اعتراض کیا جاسکتا ہے کہ دوسری کتب حدیث میں یہ حدیث مطلق ہے ‘ مردہ کی ہڈی کو توڑنا زادہ کی ہڈی توڑنے کی مثل ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٢٠٧‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦١٦) اور اس حدیث میں مردہ کے ساتھ مسلم کی قید نہیں ہے اور آپ کی اس تقریر سے یہ لازم آتا ہے کہ مطلق کو مقید پر محمول کردیا جائے اور یہ احناف کے نزدیک جائز نہیں ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ جب مطلق اور مقید میں تعارض ہو اور کسی تیسری دلیل کی بناء پر مقید کی ترجیح ہوجائے تو پھر فقہاء احناف کے نزدیک مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے ‘ اصولیین نے اس کی دونظریں ذکر کی ہیں۔

فقہاء احناف کے نزدیک مطلق کو مقید پر محمول کرنے کا ضابطہ 

ملا احمد جون پوری متوفی ١١٣٠ ھ لکھتے ہیں :

ایک حدیث میں ہے فی خمس من الابل شاۃ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥٦٨) پانچ اونٹوں میں ایک بکری زکوۃ ہے ‘ اس حدیث میں اونٹوں کے ساتھ کوئی قید نہیں ہے اور یہ حدیث مطلق ہے اور ایک اور حدیث میں ہے فی کل خمس من الابل السائمۃ شاہ (المستدرک ج ١ ص ٣٩٦ قدیم ‘ المسدرک رقم الحدیث : ١٤٤٧ جدید) ہر پانچ ایسے اونٹ جو قدرتی چراگاہ میں چرتے ہوں ان میں ایک بکری زکوۃ ہے اور یہ حدیث مقید ہے اور حدیث مطلق کو ایک تیسری حدیث کی بنا پر مقید کردیا گیا ہے وہ یہ ہے : ہل چلانے والے بوجھ اٹھانے والے اور (خریدا ہوا) چارہ کھانے والے جانوروں میں زکوۃ نہیں ہے (ہدایہ اولین ص ١٩٢ میں بھی اسی طرح ہے تاہم حدیث میں صرف یہ ہے : لیس فی البقر العوامل صدقہ ‘ سنن الدارقطنی ج ٢ ص ١٠٣) اور اس تیسری حدیث سے حدیث مقید کی تائید ہوتی ہے ‘ نیز سنت معروفہ بھی یہی ہے کہ ان جانوروں سے زکوۃ وصول کی جاتی ہے جو قدرتی چراگاہ میں چرتے ہوں سو اس حدیث اور سنت معروفہ کی بنا پر مطلق کو مقید پر محمول کردیا گیا۔

(علامہ عبدالعزیز بخاری متوفی ٧٣٠ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے ‘ کشف الاسرارج ٢ ص ٥٣٣‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ‘ ١٤١١ ھ)

اس کی دوسری نظیر یہ ہے کہ قرآن مجید کی ایک آیت میں بغیر کسی قید کے گواہ بنانے کا ذکر ہے اور وہ آیت مطلق ہے :

تم اپنے مردوں میں سے دو گواہ بنائو۔ (البقرہ : ٢٨٢)

اور دوسری آیت میں دو نیک گواہوں کو بنانے کا حکم دیا ہے اور یہ آیت مقید ہے :

اور تم اپنوں میں سے دو نیک آدمیوں کو گواہ بنائو۔ (الطلاق : ٢)

فقہاء احناف نے یہ جواب دیا ہے کہ ہم نے ایک تیسری آیت کی بناء پر مطلق کو مقید پر محمول کردیا ہے ‘ اور وہ آیت یہ ہے :

اے ایمان والو ! اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو اس کی تحقیق کرلیا کرو۔ (الحجرات : ٦)

اور جب فاسق کی خبر بھی واجب التوقف ہے تو پھر دو نیک آدمیوں کو گواہ بنانا واجب ہے ‘ اور اس تیسری دلیل کی بناء پر مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے۔ (نورالانوراص ١٦٥‘ موضحاً ومخر جاً ‘ میر محمد کتب خانہ کراچی)

اسی طرح ہم کہتے ہیں کہ ایک حدیث میں مطلقاً مردے کی ہڈی توڑنے کی ممانعت ہے اور دوسری حدیث میں مسلمان مردے کی ہڈی توڑنے کی ممانعت ہے ‘ لیکن جب دوسری حدیث میں کافر مردوں کی ہڈیوں کو قبروں سے نکالنے کی تصریح ہے تو ہم نے مطلقاً مردے کی ہڈی توڑنے کی ممانعت کو مسلمان مردے کی ہڈی توڑنے پر محمول کردیا ‘ اور اس قاعدہ کی بنا پر یہاں بھی مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے۔

مطلق کو مقید پر محمول کرنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیت میں مطلقاً خون کو حرام فرمایا ہے : انما حرم علیکم امیتۃ والدم (البقرہ : ١٧٣) اور دوسری آیت میں بہنے والے (مقید) خون کو حرام فرمایا ہے الا ان یکون میتۃ او دما مسفو حا (الانعام : ١٤٥) اور فقہاء احناف نے یہاں بھی مطلق کو مقید پر محمول کیا ہے ‘ امام ابوبکر جصاص متوفی ٣٧٠ ھ نے اس کی توجیہ میں لکھا ہے کہ ہمیں یہ نہیں معلوم کہ مطلق اور مقید ان میں سے کون سی آیت پہلے نازل ہوئی ہے اور ایسی صورت میں مطلق کو مقید پر محمول کرنا واجب ہے۔ (احکام القرآن ج ١ ص ١٢٣‘ مطبوعہ سہییل اکیڈمی لاہور ‘ ١٤٠٠ ھ)

اسی طرح ہم کو معلوم نہیں کہ مطلقاً مردے کی کی ہڈی توڑنے کی ممانعت اور مسلمان مردے کی ہڈی توڑنے کی ممانعت میں کون سی حدیث مقدم ہے اس لیے ہم نے یہاں مطلق حدیث کو مقید حیدث محمول کردیا۔

بہ طور جملہ معترضہ کے پوسٹ مارٹم کی تفصیل کے بعدہم پھر اصل مبحث کی طرف رجوع کررہے ہیں۔

حرف آخر 

صاحب زادہ ابو الخیر محمد زبیر صاحب کا یہ رسالہ ١٩٩٦ ھ میں شائع ہوا تھا ‘ اس کی زبان وبیان کو دیکھ کر اور اس کے دلائل کی نا پختگی کو پڑھ کر اور اس کی غیر اہم سمجھ کر میں نے اس کو نظر اندازکر دیا تھا ‘ نیز میرا طریقہ ہے کہ میں اپنے کام اور مشن کی طرف متوجہ رہتا ہوں اور جو لوگ میرے خلاف لکھتے ہیں ان کی طرف التفات نہیں کرتا۔ تاہم بعض احباب (مولانا مفتی محمد اسماعیل نورانی زید علمہ وحبہ) نے اصرار کیا کہ آپ اس کا جواب تفسیر تبیان القرآن میں کہیں لکھ دیں تاکہ آنے والی نسلیں انسانی اعضاء کے ساتھ پیوندکاری کو جائز نہ سمجھ لیں اور اس رسالہ کی وجہ سے لوگ گمراہ نہ ہوجائیں ‘ ہرچند کہ اس رسالہ کی اتنی اشاعت اور وقعت نہیں تھی کہ اس کا خطرہ ہوتا اور خود مؤلف پر اپنی تحریر کا اثر نہیں ہوا تھا اور انہوں نے اپنے استاذ محترم مولانا عبدالرزاق صاحب (رح) کو اپنا گردہ کٹوا کر نہیں دیا تھا جب کہ وہ اس رسالہ کی اشات کے بعد چار سال تک زندہ رہے۔ لیکن بہر حال میں نے حق کو واضح سے واضح تر کرنے کے لیے انسانی اعضاء کے ساتھ پیوندکاری کے حرام اور ممنوع ہونے پر مزید دلائل رقم کیے اور مؤلف مذکور کے شبہات کے جوابات لکھے ‘ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ ہرچند کہ مؤلف کا مرکزی اور بنیادی شبہ صرف ایک ہے کہ جس شخص کے دونوں گردے فیل ہوگئے ہیں اگر اس کو کوئی دوسرا شخص اپنا گردہ کٹوا کر نہ دے تو وہ مرجائے گا لہٰذا اس کی زندگی بچانے کے لیے ضروری ہے کہ کوئی دوسرا شخص اپنا گردہ کٹواکر اس کو دے ‘ اور ہم نے واضح کردیا ہے کہ جس کے دونوں گردے فیل ہوچکے ہوں اس کو فوری موت کا کوئی خطرہ نہیں ہے وہ اپنی عمر طبعی پوری کرتا ہے ڈائی لیسز کے ذریعہ علاج کرا کر زندگی گزارتا ہے۔ دراصل اس ایک بات سے ہی ان کے پورے رسالہ کا رد ہوجاتا ہے اور باقی شبہات کے ازالہ کی ضرورت نہیں رہتی تاہم ‘ ہم نے تبرعاً اور احساناً ان کے تمام شبہات کا ازالہ کردیا۔ وللہ الحمد

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 30 الروم آیت نمبر 30