حج ایک عظیم عبادت

از: مفتی محمد اختر حسین قادری خلیل آبادی (ایم۔اے)

دارالعلوم علیمیہ، جملہ اشاہی، بستی

٭٭٭٭٭٭

٭٭٭٭٭

رب کائنات نے اپنے پیارے خلیل سید ناابراہیم علیہ ا لسلام سے ارشاد فرمایا :وَأَذِّنْ فِی النَّا سِِ بِالْحَجَّ یأتُوْکَ رِجالًاوَّعَلَی کُلِِِِّ ضَامِرٍ یَّأ تِیْنَ مِن ْکُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ۔الحج/۲۷۔

اور لوگوں میں حج کی عام نداکر دے وہ تیرے پاس حاضر ہو ں گے پیادہ اور ہر دبلی اوٹنی پر کہ ہر دور کی راہ سے آتی ہے ۔

حضرت خلیل نے تعمیلِ حکم کر تے ہوئے پورے عالم بشریت میں ادائیگی حج کا علان فر مادیا،اس نوید جانفزا کو سنتے ہی رب کے وفا شعاربند ے مچل کر پکا را ٹھے لبیک اللھم لبیک ۔

اور یہی نہیں کہ جو بزم کا ئنات کے جلؤوں کا اپنے ماتھے کی آنکھوں سے مشاہدہ کر رہے تھے ۔صرف انہوں نے ہی اپنی بندگی اور اطاعت وفر مانبر داری کا اظہار کیا ہو بلکہ باپو ں کی کی صلبوں اور ماؤ ں کے پیٹوں میں قرار پکڑے نطفوں اور عالم ارواح میں پناہ گزیں سعید روحوں نے بھی اس خبر سراپا ظفر کاخیر مقدم کیا اور قَسَّام ازل نے جن جن کی قسمت میں فریضہ ٔحج کی ادائیگی مقدورفرمادی تھی ۔سب نے بیک وقت اس نداپر لبیک کہا،خلیفۂ اعلیحٰضرت صدر الا فاضل علا مہ سید محمد نعیم الدین مرادآبادی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں ۔

چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ابو قبیس پہاڑپر چڑھ کر جہاں کے لوگو ں کو نداکر دی کہ بہت اللہ کا حج کرو، جن کے مقدور میں حج ہے انہوںنے باپوں کی پشتوں اور ماؤں کے پیٹوں سے جواب دیا ۔لبیک اللھم لبیک (تفسیر خزائن حاشیہ بر آیت مذکورہ)

اللہ کے بندوں نے جس نغمۂ تو حید کو آج سے تقربیاًچارہزار سال قبل کیف وسر ور اور عشق ومستی کے جذبات میں بلند کیا تھااور حکم خدا وندی سن کر جن کلمات کے ذریعہ اپنی طاعت وفرمابرداری کا ثبوت پیش کیا تھا وہی کلمات اور نغمے آج تک کائنات عالم میں گونج رہے ہیں، صحراوبیابان، کوہ ودمن اور دشت وجبل، ہر مقام اس کی سحرطرازی سے مسحور ہے، اور دنیا بھر کے مسلما ن اسی اللھم لبیک کا ترانہ گنگنا تے مختلف اطراف وجوانب سے سفر کر کے کعبۂ کو نین میں حاضر ہو تے ہیں ،ہر مادی قوت اور دنیائی لذت سے رشتہ تو ڑکر ایک ہی لباس ایک ہی شکل وصورت ایک ہی حالت اور ایک ہی جذبہ سے سر شارہو کر اپنی سب امتیازی حیثیتوں،خصوصیتوں کو دفن کر کے ،انانیت وخودی کو قربان کر کے ذلیل وعاجز غلام اور فقیربے نوابن کر مالک کے دروازے پر عفووغفران اور بخشش ومغفرت کی بھیک مانگتے ہیں ۔جھلستے ہوئے پہاڑ وں کے دامن میںایک بے آب وگیا ہ اور خشک میدان میں اکٹھے ہو کر گر دوغبارسے اٹے ہو ئے چہروں کے ساتھ عشق و بے خودی اور کیف وسرورکے والہانہ جذبات میں اپنی حاضری کا اعلان کرتے ہیں ،اور اپنی کوتاہیوں ، ناکامیوں ، بربادیوں اور بد کاریوں پر شرم و ندامت کے آنسو بہاتے ہیں ۔ اور گڑ گڑا کر گناہوں سے توبہ کر کے قرب خداوندی کے طلبگا ہو تے اور بخشش کا پر وانہ مانگتے ہیں ۔

رب کے عصیاں شعار بندے جب ان جذبات اور اداؤں سے اپنے رب کو راضی اور خوش کر نے کی ٹھان لیتے ہیں تو ان کا رب بھی اپنے فضل وکرم اور رحمت وعنایت کی موسلادھا ربارش فرماتاہے ، عفو وکرم کے خزانے کھول دیتا ہے ،بڑے بڑے مجروںکے گناہوں کو پل بھر میں مٹا دیتا ہے اور انہیں ایسا صاف اور ستھرا،پاک اور منزہ فرمادیتا ہے جیسے وہ ابھی ماں کے پیٹ سے بے گناہ اور جر موں سے دھلے دھلائے پیداہو ئے ہوں جیسا کہ سرور عالم افرماتے ہیں ’’ جس نے اللہ تعالیٰ کے لئے حج کیا اور اس میںہوس رانی نہیں کی اور نہ کو ئی گنا ہ کیا تو وہ اس طرح لوٹے گا جیسے اس کی ماں نے اسے ابھی پیدا کیا ہو ۔‘‘ (بخاری شریف ۱؍۲۰۶)

جامع تر مذی میں ہے نبی کریم انے ارشاد فرمایا کہ حج اور عمرہ گنا ہوں کو اس طرح صاف کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے ،سونے اور چاندی کے میل اور کھوٹ کو صاف کر دیتی ہے اور جو مومن حج کر تا ہے اور گناہ سے ملوث نہیں ہو تاہے اس کے پچھلے تمام گناہ بخش دیئے جا تے ہیں ۔ (جا مع ترمذی ۱۴۰)

ان کے علاوہ اور بھی متعد دروایا ت ہیںجن سے آفتاب نیمروز کی مثل یہ حیثیت آشکار اہو جا تی ہے کہ حج محض چندار کان کی ادائیگی کا نام نہیں ہے بلکہ زندگی کی گزشتہ غلطیوں ،گناہوں ،تقصیروں اور کوتا ہیوں پر ندامت اور جرموں کے اعتراف کے ساتھ آئند ہ کی اطاعت کا اقرار ،شروفساد سے اجتناب اور خیر وصلاح کی طرف مکمل متوجہ اور منہک ہو جا نے اور ہر ممکن طریقہ سے اپنے رب کو راضی رکھنے کی جدوجہد کر تے رہنے کا عزم محکم کر لینے کا نام ہے ۔

اخلاص نیت:

اس راہ کے مسافر کے لئے سب سے پہلا اور اہم مر حلہ خلوصِ نیت ہے کہ اس کاحج صرف رب کی رضا وخوشنوی اور اپنی بخشش ومغفرت کے لئے ہو اور رضائے مولیٰ ہی اوّل وآخر منزل ہو، شہرت وناموری، نام ونمود ،ریاوفخر ،حصول مال ورز، سیر وتفریح ،مادی اغراض ومقاصد اور سیاسی مفادات ومنافع اس کے حاشیۂ ذہن میں بھی نہ ہوں کہ وادیٔ عشق ومحبت کے مسافر کے لئے یہ چیزیں زنجیرپا ہواکرتی ہیں اومزاج عشق ووفا کے بھی منافی ہیں ۔

لہذاحاجی کو چا ہئے کہ ارادۂ حج کے وقت دل میں جھانک کر خوب غور سے دیکھ لے کہیں کو ئی کھوٹ اور شیطان تو نہیں چھپا ہے اور نام ونمائش کا کو ئی جر ثومہ تو نہیں موجود ہے اگر ہے تو پہلے اسے نیست ونابود کر ے اور اس سفرکا ارادہ صرف اورصرف رضائے الہیٰ کے لئے کر ے ،ملا علی قاری علیہ رحمتہ الباری فرماتے ہیں :

فمن أتی بعبادۃٍ لغرض دنیوی بحیث لو فقد لتر کھا فلیست بعبادۃ وانما ھی معصیۃ(مر قاۃ)

آداب سفر:

رب تعالیٰ کی تو فیق سے جو حج کے مبارک سفر پر روآنہ ہو نے والاہواسے چاہئے کہ پہلے اپنے سارے گنا ہوںسے پورے خلوص کے ساتھ توبہ کر ے جن گناہوں میں مبتلا ہوانہیں فورا چھوڑدے جو گز رگیا اس پر صدق دل سے نادم وشرمندہ ہو آئندہ کے لئے پھر ان جر موں کو نہ دہر انے کا عزم کرے ،اگر کسی کو رنج وغم اور دکھ پہو نچا یا ہے تو اس سے معانی مانگے ،جن کے حقوق تلف کیا یا جن کے حقوق مار رکھا ہو ان کے حقوق اداکر دے ،کسی کا کچھ باقی ہو تو اسے دید ے یا خوشی خوشی معاف کر الے ،ہر قسم کے بغض وعناد ،عداوت ونفرت سے دل کو پاک وصاف کر لے ،لو گوں سے اپنی کو تا ہیوں اوغلطیوں کی معانی مانگ لے،روٹھوں کو منا لے اور سب سے بری الذمہ ہو جا ئے ،وقت رخصت سب سے اپنے لئے دعاء کر ائے،سفر کا لباس پہن کر گھر میںچار رکعت نفل، الحمد اور قل کے ساتھ پڑھے،گھر سے نکلنے سے پہلے اور بعد کچھ صدقہ کر ے۔ دل میں ہمیشہ خوف الٰہی رکھے اور اس سفرمیں تارک الدنیا کی طرح روانہ ہو اور خوب جی لگا کر دعامانگے ۔

دوران سفر اپنے ساتھیوں کے ساتھ عزت واحترام اور ایثارو قربانی کا سلوک کرے،ہرآرام وراحت کے موقع پر دوسروں کو مقدم رکھے۔بغض وعناد ا اور آپس میں لڑائی وفسادسے بچتا رہے ،علماء کرام اور صلحاء عظام کی مجلسوںمیں رہنے کی کو شش کرے،رب تبارک وتعالیٰ کی حمد وثناء میں اپنی ارجمندی پریوں رطب اللسان رہے۔

شکرخدا کہ آج گھڑی اس سفر کی ہے

قربان جس پہ جان فلاح وظفرکی ہے

حج توبہ واستغفارکا قیمتی موقع

نبی کریم انے ایک حاجی کو جن جن بشارتوں سے محظوظ فرمایاہے انہیں بغورملاحظہ کر یں تو معلوم ہوگا کہ حج میں در حقیقت توبہ واستغفار اور انابت الیٰ اللہ کوکلیدی حیثیت حاصل ہے کیونکہ طواف وسعی کے دوران صفا ومروہ پہاڑپر میدان عرفات میں مزدلفہ اور منی میں ہرجگہ جو دعائیں کی جاتی ہیں ان میں توبہ و استغفارکا کثرت سے ذکر ہے ۔

گویا ان دعائوں میں اس جانب اشارہ ہے کہ آدمی جس جگہ بھی رہ کررب کی بارگاہ میں سچی تو بہ کرے اس کی تو بہ قبول کی جا تی ہے اور اس کی پکار سنی جا تی ہے مگر حج کے مقدس مقامات اورارکان نوع بنوع تا ثیرات ،گوناگوں خصوصیات اور منبع فیوض وبرکات کے لحاظ سے کائنات کے تمام مقامات اور اوقات سے منفر دو ممتا ز ہیں اور ایک بندۂ مومن کے لئے اپنے گناہوں پر آنسوبہانے اور خطاؤں کے معاف ہو نے کی جوامیدیں یہاں سے وابستہ ہو تی ہیںوہ اور کہیں سے نہیں ہیں ۔

کیونکہ جن مشاہدوآثار اور مقامات ومکانات میں پتھر سے زیادہ سخت دل بھی موم ہوجا تا ہو ،آہ وبکا،گریہ وزاری ،رقت قلب اور توبہ واستغفار کے لئے وہی جگہ بہترو مناسب ہے اور جہاں شب وروزرحمت کر دگارکے جلوئوں کی بارات اترتی رہتی ہو اور فضل وکرم کی موسلادھار بارش ہو تی رہتی ہو،دعاؤں کی قبولیت کا اس سے بڑھکر اور کوئی مقام اور وقت کون سا ہوسکتا ہے اسلئے حاجی کو چا ہئے کہ ہر لمحہ اِلحاح وزاری ،توبہ واستغفا اور اپنے جرموں پرندامت کے آنسوں بہانے میں گزارے۔

نہایت ضروری تنبیہ:

امام اہلسنت اعلیٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں ۔بد نگاہی ہمیشہ حرام ہے ،نہ کہ احرام میں نہ کہ موقف میں یا مسجد الحرام میں نہ کہ کعبہ کے سامنے نہ کہ طواف بیت الحرام میں،یہ تمہارے بہت امتحان کا موقع ہے عورتوں کو حکم دیا گیا ہے کہ یہاں منھ نہ چھپاؤاور تمہیں حکم دیاگیا ہے کہ ان کی طرف نگاہ نہ کرو، یقین جانو یہ بڑے عزت والے بادشاہ کی باندیاں ہیں اور اس وقت تم اور وہ سب خاص دربار میں حاضر ہو ، بلاتشبیہ شیر کا بچہ اس کی بغل میں ہو اس وقت کون اس کی طرف نگاہ اٹھاسکتا ہے تو اللہ واحد قہار کی کنیزیں کہ اس کے خاص دربار میں حاضر ہیں ان پر بدنگاہی کس قدر سخت ہوگی وللہ المثل الاعلیٰ،۔ ہاں ہاں ہوشیار، ایمان واے بچائے ہوئے قلب و نگاہ سنبھالے ہوئے، حرم وہ جگہ ہے جہاں گناہ کے ارادے پر پکڑا جاتا ہے اور ایک گناہ لاکھ گناہ کے برابر ہوتا ہے الہی خیر کی توفیق دے۔ آمین (فتاویٰ رضویہ، ج۴، ص ۹۔۷)

چند اہم مسائل:

٭ حالت احرام میں خوشبودار مشروبات کا استعمال: آج کل پینے کی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن میں خوشبو ملی ہوئی ہوتی ہے، حج اور دوران سفر جہازوں میں حجاج کو اس طرح کے خوشبو آمیز مشروبات پیش کئے جاتے ہیں جب کہ جہازوں میں عموماً لوگ حالت احرام میں ہوتے ہیں تو اب سوال یہ ہے کہ حالت احرام میں خوشبو آمیز مشروبات کے پینے کی اجازت ہے یا نہیں اگر حاجی انہیں استعمال کرے تو ان کے لئے کیا حکم ہے؟

فقہاء کرام نے اس مسئلے میں یہ تفصیل فرمائی ہے کہ اگر مشروب میں خوشبو غالب ہوتو اس کے پینے سے دَم واجب ہے اور اگر خوشبو مغلوب ہو تو صدقہ ہے البتہ اسے متعدد بار پیا تو اس صورت میں بھی دم واجب ہے۔ فتاویٰ رضویہ عالمگیری میں ہے:

لوخلط بما یشرب فان کان غا لبا فدم والافصدقۃ الا ان یشرب مرارا فیحجب الدم ھکذا فی النھر الفائق (۱/۲۴۱)

لیکن یہ حکم اس وقت ہے جب مشروبات میں خوشبو کی آمیزش الگ سے کی جاتی ہو اور اگر مشروبات کی اجزاء سے خوشبو پکائی جاتی ہو تو ان کے پینے سے کبھی دم واجب نہیںہوگا۔

چونکہ تحقیق کے ساتھ یہ معلوم نہیں رہتا کہ مشروبات میں خوشبو کس طرح ملائی جاتی ہے اس لئے ازراہ احتیاط ایسے مشروبات سے بچنے کا حکم ہے اور حالت احرام میں ان کے استعمال سے دم یا صدقہ واجب ہوگا، حجاج کرام کو حالت احرام میں اس طرح کے مشروبات کے استعمال سے بالکلیہ پرہیز کرنا لازم ہے۔

۲۔ میدان عرفات میں جمع بین الصلاتین:

حجاج یہ حکم ہے میدان عرفات میں ظہر و عصر کو ملاکر ظہر کے وقت میں پڑھیں گے مگر جمع کرنے کے لئے سلطان اسلام یا اس کا نائب ہونا شرط ہے۔ جب وہ امامت کرے تو حجاج اس کے ساتھ جمع بین الصلاتین کریں گے ورنہ نہیں، علامہ حصکفی قدس سرہ فرماتے ہیں:

وشرط الھذا الجمع الامام الاعظم اونائبہ والاصلوا وحدانا (درمختار مع شامی ۱۷۴۲)

اور صدر الشریعہ علامہ امجد علی اعظمی قدس سرہ فرماتے ہیں:

یہ ظہر و عصر کو ملاکر پڑھنا جبھی جائز ہے کہ نماز یا سلطان پڑھائے یا وہ جو حج میں اس کا ئب ہوکر آت ہے، جس نے ظہر اکیلے یا اپنی خاص جماعت سے پڑھی اسے وقت سے پہلے عصر پڑھنا جائز نہیں، (بہار شریعت ۶/۸۶)

اس کے علاوہ تمام کتب فقہ میں یہ شرط مسطور ہے جس سے واضح ہے کہ عرفات میں جمع بین الصلاتین کی ایک شرط سلطان اسلام یا اس کے نائب کا نماز پڑھانا ہے اور اگر لوگ تنہا تنہا پڑھیں یا سلطان یا اس کے نائب کے علاوہ کوئی دوسرا جماعت سے پڑھائے تو اس صورت میں جمع کرنا ناجائز ہے اور ظاہر ہے کہ وہابی امام کے پیچھے نماز ناجائز ہے، اب تو حجاج الگ الگ اپنی نمازیں پڑھیں یا اپنی خاص جماعت سے دونوں صورتوں میں ان کے لئے یہ حکم ہے کہ ظہر و عصر کو اپنے اپنے وقت میں ادا کریں‘ وقت ظہر میں دونوں کو جمع کرکے پڑھنان ناجائز ہے کیونکہ شرائط جمع مفقود ہیں۔

۳۔ رمی میں نیابت:

حج ایک ایسی عبادت ہے کہ عجز و مجبوری اور معذوری کی صورت میں شریعت نے پوری کی پوری عبادت میں نیابت و بدل کی اجازت دی ہے تو رمی جمرات (کنکری مارنا) جو اس عبادت کا ایک حصہ ہے اس عذر کی بناء پر بدرجہ اولیٰ نیابت کی گناجئش ہوگی اس پر فقہاء کرام کا اتفاق ہے جیسا فتح القدیر ۲/۴۱۸‘ بہار شریعت ۶/۱۱۱‘ فتاویٰ رضویہ ۴/۶۶۸ پر اور ان کے علاوہ متعدد کتب فقہ میں مصرح ہے۔

بعض حضرات اپنی تساہلی اور تن آسانی کے لئے کثرت ازدہام اور جم غفیر کا بہانہ بناکر دوسروں کو کنکری مارنے کا وکیل اور نائب بنادیتے ہیں یہ درست نہیں ہے انہیں چاہئے کہ شریعت کیجانب سے رمی کے اوقات میں جو گنجائش اور سہولتیں ہیں ان پع عمل کرتے ہوئے خود رمی جمرات کریں۔

۴۔ حالت حیض میں طواف و زیارت:

اگر کسی عورت کو طواف زیارت کرنے سے پہلے حیض آنے لگا تو اب اس کو رک کر اپنے ہونے کا انتظار کرنا ہوگا اور پاکی کے بعد طواف زیارت لازم ہوگا یہ اصل حکم ہے، مگر اس وقت حجاج کے آنے جانے اور ٹھہرنے کی تاریخیں اور اوقات مقرر ہیں اور ویزے کی تاریخیں بھی محدود متعین ہوتی ہیں کسی حاجی کو اپنی مرضی سے ان اوقات اور تاریخوں کے رد و بدل کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

اب حیض والی عورتیں اپنی پاکی کے زمانہ میں طواف و زیارت نہ کرسکی ہوں اور قانونی لحاظ و دستور سے ان کے لئے پاکی کے انتظار کی راہ بھی ممکن نہ ہوتو اگر انہیں دوبارہ گھر سے واپس ہوکر طواف زیارت کرنے کا حکم دیا جائے تو اس کی دشواری اظھرمن الشمس ہے اور ادھر مسئلہ یہ ہے کہ بغیر طواف زیارت عورت احرام سے باہر نہیں ہوسکتی ہے اگرچہ اپنے وطن واپس آجائے۔

ان حالات کے پیش نظر شریعت مطھرہ کی روشنی میں کونسا راستہ اپنایا جائے جس سے ان تمام پیچیدگیوں اور دشواریوں سے بچا جاسکتا ہو اور خواتین کی مشکلات کو حل کیا جاسکتا ہو۔ کتب و فقہہ کے مطالعے سے واضح ہوتا ہے کہ ایسی عورتوں کے لئے مجبوری کی بناء پر ناپاکی کی حالت میں طواف کرلینے میں گونہ نرمی ہے کیونکہ دوبارہ ان کا وطن سے واپس آکر طواف کرنا دشوار ہے تو حالت حیض میں بوجہ عند طواف کرلینے سے بھی طواف ہوجائے گا البتہ عورت گنہگار ہوگی اور دم بدنہ واجب ہوگا جس کی ادائیگی حرم میں لازم ہوگی، خاتم المحققین علامہ ابن عابد بن شامی قدس سرہ رقمطراز ہیں:

عن منسک ابن امیر الحاج لوھم الرکب علی القفول ولم تطھر فاستفتت ھل تطوف ام الا؟ قالوا یقل لھا: لایحل لک دخول المسجد وان دخلت وطفت، أثمت وصح طوافک وعلیک ذبح بدنۃ مسئلۃ کثیرۃ الوقوع تتحیر فیھا النساء (شامی ۲/ ۲۰۲)

۵۔ قربانی کا مسئلہ:

آج کل سعودیہ حکومت حاجیوں سے قربانی کے لئے پیسہ جمع کرالیتی ہے پھر وہی خود قربانی کرتی ہے اب اگر قربانی کرنے والے ابن عبدالوہاب نجدی جیسا کفری عقیدہ رکھنے والے ہوں تو قربانی صحیح نہیں ہوتی ہے۔

اس لئے حجاج کو چاہئے کہ خود اپنے ہاتھوں سے قربانی کریں یا دوسرے صحیح العقیدہ رکھنے والے سے کرائیں قانونی طور سے ان کے لئے یہ کوئی لازم نہیں ہے کہ وہ حکومت کو ہی قربانی کے لئے پیسہ دیں (فتاویٰ برکاتیہ، ص ۳۲۱) اسی طرح یہ بھی خیال رہے کہ بڑے جانور کی قربانی میں ہرگز کسی بدعقیدہ وہابی دیوبندی وغیرہ کو قطعاً نہ شریک کریں ورنہ قربانی برباد ہوجائے گی۔

۶۔ زیارت روضۂ مطہرہ:

مالک کل باعث تخلیق کائنات محسن انسانیت سیدنا محمد عربی ا کے دربار گہریار میں حاضری درحقیقت ایک صاحب ایمان کی معراج ہے:

ان کی معراج کہ وہ اپنے خدا تک پہنچے

میری معراج کہ میں ان کے قدم تک پہنچا

ابتداء اسلام سے لے کر آج تک تمام امت مسلمہ کا یہ اجتماعی عمل ہے کہ مومنین اپنے آقا کی بارگاہ میں بپتا سنانے اور غموں کی مرہم لینے پہنچتے رہے ہیں مگر شومئیٔ قسمت سے اسلام کے نام پر ایک ایسی بھی ٹولی نکل پڑی ہے جو دن رات ہر عمل خیر پر شرک و بدعت کا فتویٰ چسپاں کرتی نظر آرہی ہے۔ دین کے یہ لٹیرے ہمیشہ اہل ایمان کے عقیدوں پر شخجوں مارنے کا منصوبہ بناتے رہتے ہیں اور نبی کونین علیہ التحیۃ والثناء کی بارگاہ میں حاضری دینے سے روکتے دکھائی دیتے ہیں:

خدارا ہرگز ہرگز ان بد عقیدوں کی بات نہ سنیں نہ مانیں بلکہ اپنے آقا کے دربار میں حاضری دے کر دارین کی سعادتیں ضرور حاصل کریں، سیدی اعلٰحضرت امام احمد رضا قدس سرہ فرماتے ہیں:

۱) زیارت اقدس قریب بواجب ہے بہت لوگ دوست بن کر طرح طرح سے ڈراتے ہیں، راہ میں خطرہ ہے، وہاں بیماری ہے، خبردار کسی کی نہ سنو اور ہرگز محرومی کا داغ لے کر نہ پلٹو جان ایک دن جانی ضرور ہے، اس سے کیا بہتر کہ ان کی راہ میں جائے اور تجربہ ہے کہ جو ان کا دامن تھام لیتا ہے اپنے سایہ میں بآرام لے جاتے ہیں، کیل کھٹکا نہیں ہوتا، والحمداللہ

۲) حاضری میں خاص زیارت اقدس کی نیت کرو، یہاں تک کہ امام ابن الھام فرماتے ہیں، اس بار مسجد شریف کی بھی نیت نہ کرے۔

۳) راستہ بھر درود شریف میں ڈوب جاؤ۔۴) جب حرم مدینہ نظر آئے بہتر ہے کہ پیادہ ہولو، روتے، سرجھکاتے، آنکھیں نیچی کئے اور ہوسکے تو ننگے پاؤں چلو بلکہ

جائے سراست اینکہ تو ہامی نہی

پائے نہ بینی کجامی نہی

حرم کی زمیں اور قدم رکھ کے چلنا

ارے سرکا موقعہ ہے اوجانے والے

(فتاویٰ رضویہ، ج۴، ص ۷۲۰)

حج اور زیارت کے حوالے سے یہ کج مج تحریر سنی دعوت اسلامی کے ارباب حل و عقد کے اصرار پر بعجلت تمام پیش کردی گئی ہے۔ رب قدیر اسے قبول فرمائے اور سب کوحج و زیارت کی توفیق بخشے۔آمین ٭٭٭