حدیث نمبر 569

روایت ہے حضرت ابن عباس سےفرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر میں چلتے ہوتے تو ظہر اور عصر جمع کرتے اور مغرب اور عشاء جمع فرماتے ۱؎(بخاری)

شرح

۱؎ یعنی سفر کرنے کی حالت میں ظہر اور عصر اسی طرح مغرب اورعشاء یوں جمع فرماتے کہ ظہر آخری وقت میں پڑھتے اور عصر اول وقت،یوں ہی مغرب آخری وقت ادا کرتے اور عشاء اول وقت یعنی ہرنماز اپنے وقت میں ادا ہوتی صورۃً جمع ہوتیں۔اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ عصر ظہر کے وقت میں پڑھ لیتے اور عشاءمغرب کے وقت میں یعنی جمع حقیقی مراد نہیں،ورنہ یہ حدیث قرآن شریف کے بھی خلاف ہوگی،رب تعالٰی فرماتا ہے:”اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتْ عَلَی الْمُؤْمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوْقُوۡتًا”یعنی نمازمسلمانوں پر اپنے اپنے اوقات میں فرض ہے اور دیگر احادیث کے بھی مخالف۔چنانچہ طبرانی نے حضرت ابن مسعود سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں مغرب اور عشاء اس طرح جمع فرماتے کہ مغرب اس کے آخر وقت میں پڑھتے اورعشاء اول وقت میں اور بخاری نے حضرت سالم سے ایک طویل حدیث نقل کی جس میں یہ ہے کہ حضرت ابن عمر کو جب سفر میں جلدی ہوتی تو مغرب پڑھتے پھرتھوڑی دیرٹھہرکرعشاء پڑھتے،نسائی نےحضرت نافع سے طویل حدیث نقل کی کہ حضرت ابن عمر مغرب کی نماز کے لیئے جب اترے جب کہ شفق قریب غروب تھی،مغرب پڑھی تو شفق غائب ہوگئی،شفق غائب ہوتے ہی عشاء پڑھ لی۔وہ حدیثیں اس حدیث کی شرح ہیں اور احناف کے بالکل خلاف نہیں بلکہ حق میں ہیں۔اس کی پوری تحقیق “جاءالحق”حصہ دوم میں دیکھو۔