مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا کَمَثَلِ رِیۡحٍ فِیۡہَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوۡۤا اَنۡفُسَہُمْ فَاَہۡلَکَتْہُؕ وَمَا ظَلَمَہُمُ اللہُ وَلٰکِنْ اَنۡفُسَہُمْ یَظْلِمُوۡنَ﴿۱۱۷﴾ 

ترجمۂ کنزالایمان: کہاوت اس کی جو اس دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو وہ ایک ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی برا کرتے تھے تو اسے بالکل مارگئی اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: اس دنیاوی زندگی میں جو خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا جیسی ہے جس میں شدید ٹھنڈ ہو، وہ ہوا کسی ایسی قوم کی کھیتی کو جاپہنچے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو تو وہ ہوا اس کھیتی کو ہلاک کردے اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔
{ مَثَلُ مَا یُنۡفِقُوۡنَ فِیۡ ہٰذِہِ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا: اس دنیاوی زندگی میں خرچ کرنے والوں کی مثال۔}اس آیت میں کافر کے خرچ اور ریاکاری کے طور پر خرچ کرنے والے کی مثال بیان فرمائی گئی کہ ان کے خرچ کو ان کا کفر یا ریاکاری ایسے تباہ کردیتی ہے جیسے برفانی ہو اکھیتی کو برباد کردیتی ہے اور ان کے ساتھ یہ معاملہ کوئی ظلم و زیادتی نہیں بلکہ یہ ان کے کفر یا نفاق یا ریاکاری کا انجام ہے تو یہ خود اِن کا اپنی جانوں پر ظلم ہے۔ مفسرین کا قول ہے کہ اس خرچ سے یہودیوں کا وہ خرچ مراد ہے جو وہ اپنے علماء اور سرداروں پر کرتے تھے ،وہ خرچہ بے فائدہ ہے، اس کا انہیں کوئی ثواب نہ ملے گا۔ ایک قول یہ ہے کہ یہاں اس سے کفار کے تمام صدقات مراد ہیں کہ ان کا کوئی ثواب نہیں اور وہ صدقات ضائع ہیں اورایک قول یہ ہے کہ یہاں ریا کارکا خرچ کرنا مراد ہے (خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: ۱۱۷، ۱/۲۹۱-۲۹۲)
کیونکہ اس کا خرچ کرنا یا دنیاوی نفع کے لئے ہوگا یاآخرت کے نفع کے لئے۔ اگرصرف دنیاوی نفع کے لئے ہو تو آخرت میں اس سے کیا فائدہ اور ریاکار کو تو آخرت اور رضائے الٰہی مقصود ہی نہیں ہوتی بلکہ اس کا عمل تودکھاوے اور نمائش کے لئے ہوتا ہے ایسے عمل کا آخرت میں کیا نفع ہوگا جبکہ کافر کے تمام اعمال برباد ہیں ،وہ اگرچہ آخرت کی نیت سے بھی خرچ کرے تو نفع نہیں پاسکتا ،ان لوگوں کے لئے وہ مثال بالکل مطابق ہے جو اس آیت میں ذکر فرمائی جارہی ہے۔