أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَوۡا اَنَّ اللّٰهَ سَخَّرَ لَكُمۡ مَّا فِى السَّمٰوٰتِ وَمَا فِى الۡاَرۡضِ وَاَسۡبَغَ عَلَيۡكُمۡ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّبَاطِنَةً ‌ؕ وَمِنَ النَّاسِ مَنۡ يُّجَادِلُ فِى اللّٰهِ بِغَيۡرِ عِلۡمٍ وَّلَا هُدًى وَّلَا كِتٰبٍ مُّنِيۡرٍ ۞

ترجمہ:

(اے لوگو ! ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور اس نے اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کردی ہیں ‘ اور بعض لوگ بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کسی واضح کتاب کے اللہ کے متعلق بحث کرتے ہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (اے لوگو ! ) کیا تم نے نہیں دیکھا کہ بیشک اللہ نے آسمانوں اور زمینوں کی تمام چیزوں کو تمہارے کام میں لگا رکھا ہے اور اس نے تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کردی ہیں ‘ اور بعض لوگ بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کسی واضح کتاب کے اللہ کے متعلق بحث کرتے ہیں اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ ان احکام کی پیروی کرو جن کو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ بلکہ ہم اس طریقہ کی پیروی کریں گے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے ‘ خواہ ان کو شیطان دوزخ کے عذاب کی طرف بلارہاہو (٢١۔ ٢٠ )

ظاہری اور باطنی نعمتوں کی تفصیل 

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنی توحید پر اس سے استدلال فرمایا تھا کہ : اللہ نے بغیر ستونوں کے آسمان بنائے جنہیں تم دیکھتے ہو اور زمین میں مضبوط پہاڑوں کو نصب کردیا تاکہ وہ تمہیں لرزانہ سکے اور اس زمین میں ہر قسم کے جانور پھیلا دیئے اور آسمان سے پانی نازل کیا سو ہم نے زمین میں ہر قسم کے عمدہ غلے ( اور میوے) پیدا کیے (لقمان : ١٠) اور اللہ تعالیٰ نے اپنی ان نعمتوں سے اپنی الوہیت اور توحید پر استدلال فرمایا تھا ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور توحید پر اپنی دی ہوئی مزید نعمتوں سے استدلال فرمایا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بنو آدم پر اپنی نعمتوں کا ذکر فرمایا کہ آسمانوں میں جو سورج ‘ چاند اور سارے ہیں اور ان پر فرشتے مقرر ہیں اور وہ ان ثوابت اور سیاروں کے فوائد انسانوں تک پہنچاتے ہیں ‘ اور اسی طرح زمینوں میں جو پہاڑ ‘ درخت ‘ دریا ‘ سمندر اور معدنیات ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کے منافع انسانوں تک پہنچائے ہوئے ہیں کیا یہ نعمتیں اس کی الوہیت اور اس کی توحید کی معرفت کے لیے کافی نہیں ہیں۔

پھر فرمایا اور اس نے اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتیں تم پر پوری کردی ہیں ‘ ان ظاہری اور باطنی نعمتوں کی تفصیل میں حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) مقاتل نے کہا ظاہری نعمت سے مراد اسلام ہے اور باطنی نعمت سے مراد اس کے گناہوں پر اللہ تعالیٰ کا پردہ رکھنا ہے۔

(٢) مجاہد اور وکیع نے کہا ظاہری نعمت سے مراد زبان ہے اور باطنی نعمت سے مراد دل ہے۔

(٣) نقاش نے کہا ظاہری نعمت سے مراد لباس ہے اور باطنی نعمت سے مراد گھر کا سازو سامان ہے۔

(٤) ظاہری نعمت اولاد ہے اور باطنی نعمت لذت جماع ہے۔

(٥) ظاہری نعمت دنیا کی زیب وزینت ہے اور باطنی نعمت آخرت میں جنت اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار ہے۔

(٦) ظاہری نعمت مال و دولت اور صحت و عافیت ہے اور باطنی نعمت عبادت اور ریاضت کی توفیق ہے۔

(٧) ظاہری نعمت حسن صورت ہے اور باطنی نعمت اچھے اخلاق اور نیک سیرت ہے۔

(٨) ظاہری نعمت تقویٰ اور پرہیز گاری ہے اور باطنی نعمت اس کی عبادات کو اللہ تعالیٰ کا قبول کرنا ہے۔

(٩) ظاہری نعمت علماء کی تبلیغ اور تصنیف و تالیف ہے اور باطنی نعمت وہ علم اور حکمت ہے جس کے نتیجہ میں یہ کام انجام پائے۔

(١٠) ظاہری نعمت ماں باپ ہیں اور باطنی نعمت اساتذہ اور مشائخ ہیں۔

(١١) ظاہری نعمت حکام اور سلاطین کی حکومت ہے اور باطنی نعمت اولیاء اور اتقیاء کی ولایت ہے۔

یہ چند نعمتیں ہیں اور اللہ کی نعمتیں تو غیر متناہی ہیں وہ فرماتا ہے :

وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا۔ (ابراہیم : ٣٤) اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کرسکتے۔

اس کے بعد فرمایا : اور بعض لوگ بغیر علم کے اور بغیر ہدایت کے اور بغیر کسی واضح کتاب کے اللہ کے متعلق بحث کرتے ہیں۔

اس آیت کی تفسیر الحج : ٨ میں گزر چکی ہے۔

یہ آیت ایک یہودی کے متعلق نازل ہوئی ہے جس نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس آکر کہا : محمد ! (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! آپ بتائیے آپ کا رب کس چیز سے بنا ہوا ہے ؟ پھر ایک بجلی کی کڑک آئی جس نے اس کو ہلاک کردیا ‘ اس کی تفصیل الرعد : ١٣ میں گزر چکی ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ یہ آیت النضر بن الحارث کے متعلق نازل ہوئی ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 31 لقمان آیت نمبر 20