أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَوۡ تَرٰٓى اِذِ الۡمُجۡرِمُوۡنَ نَاكِسُوۡا رُءُوۡسِهِمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡ رَبَّنَاۤ اَبۡصَرۡنَا وَسَمِعۡنَا فَارۡجِعۡنَا نَعۡمَلۡ صَالِحًـا اِنَّا مُوۡقِنُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور اگر آپ دیکھ لیتے جب مجرمین اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے (اور کہیں گے) اے ہمارے رب ! (اب) ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں لوٹا دے ‘ ہم نیک عمل کریں گے اور ایمان لائیں گے ( تو آپ بہت تعجب خیزامر دیکھتے)

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اگر آپ دیکھ لیتے جب مجرمین اپنے رب کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہوں گے ( اور کہیں گے) اے ہمارے رب ! (اب) ہم نے دیکھ لیا اور سن لیا تو ہمیں لوٹادے ‘ ہم نیک عمل کریں گے اور ایمان لائیں گے (تو آپ بہت تعجب خیز امر دیکھتے) اور اگر ہم چاہتے تو ہر شخص کو ہدایت فرما دیتے ‘ لیکن میری طرف سے یہ بات برحق ہے کہ میں ضرور جہنم کو جنات اور انسانوں سے بھر دوں گا تم نے جو اس دن کی حاضری کو بھلادیا تھا ‘ اب تم اس کا مزہ چکھو ‘ بیشک ہم نے (بھی) تم کو فراموش کردیا ہے ‘ اور تم جو کچھ کرتے تھے اس کی سزا میں دائمی عذاب چکھو (السجدہ : ١٤۔ ١٢)

قیامت کے دن کفار کے ایمان لانے کا ثمرآور نہ ہونا 

اس آیت کا معنی یہ ہے : یارسول اللہ ! اگر آپ منکرین حشر کا حال قیامت کے دن دیکھ لیں تو آپ بہت تعجب خیز امر دیکھیں گے۔ جب ان کا رب ان کا حساب لے گا تو وہ ندامت اور رسوائی سے اپنے رب کے سامنے سر جھکائے کھڑ ہوں گے اور اس وقت یہ کہیں گے : اے ہمارے رب ! اب ہم نے اس چیز کی صداقت کو دیکھ لیا جس کی ہم تکذیب کرتے تھے اور ہم نے تیری وعید کے صادق ہونے کو جان لی اور ہم جن باتوں کا انکار کرتے تھے ان کو سن لیا ‘ انہوں نے ان چیزوں کی صداقت کو اس وقت دیکھا جب اس کے دیکھنے کا کوئی فائدہ نہ تھا اور انہوں نے اس وقت ان چیزوں کو غور سے سنا جب ان کے سننے کا کوئی فائدہ نہ تھا ‘ پھر وہ کہیں گے اب تو ہمیں دنیا میں بھیج دیے ‘ ہم اس دین اور اس پیغام کی تصدیق کریں گے جس کو سید محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تیرے پاس سے لے کر آئے ہیں ‘ اب ہمارے تمام شوک اور شبہات زائل ہوچکے ہیں ‘ اب ہم تیرے رسول پر ایمان لے آئیں گے ‘ وہ کفار دنیا میں بھی سنتے اور دیکھتے تھے ‘ لیکن وہ اس پر تدبر اور غور فکر نہیں کرتے تھے ‘ اور اس وقت یوں لگتا تھا جیسے وہ نہ سنتے ہوں نہ دیکھتے ہوں ‘ اور جب انہیں آخرت میں متنہ کیا گیا تو ایسا لگا جیسے انہوں نے بایھ سنا ہو اور ابھی دیکھا ہو۔

اس کا ایک معنی یہ کیا گیا ہے کہ وہ کہیں گے اے ہمارے رب ! تیری حجت برحق ہے ! اب ہم نے تیرے رسولوں کی حقیقتہً معرفت حاصل کرلی ہے اور اب ہم نے ان کا کلام بھی غور سے سن لیا ہے ‘ اور اب ہمیں شرح صدر ہوگیا ہے کہ ان کی صداقت کے خلاف ہمارے پاس کوئی حجت نہ تھی اور اس طرح وہ دنیا میں اپنے کفر اور باطل پر ہونے کا اعتراف کرلیں گے ‘ لیکن اب ان کا اعتراف کوئی فائدہ نہیں دے گا ‘ کیونکہ اب وہ امور غیبیہ کا مشاہد کرلیں گے اور ایمان وہ معتبر ہے جو بن دیکھے اور غیب پر ایمان ہو۔ اللہ تعالیٰ ان کی اس پیش کش اور مطالبہ کو رد کر دے گا جیسا کہ ان آیتوں میں ہے :

ولوتری اذوقفوا علی النار فقالوا یلیتنا نرد والا نکذب بایت ربنا و نکون من المؤمنین بل بدالہم ما کانوا یخفون من قبل ط ولو ردوا لعادوا لمانھوا عنہ و انہم تکذبون (الانعام : ٢٨۔ ٢٧)

اور اگر آپ اس وقت دیکھتے جب کفار دوزخ پر کھڑے کیے جائیں گے ( تو آپ ہو لناک منظر دیکھتے) جب وہ کہیں گے اے کاش ہمیں دنیا میں واپس بھیج دیا جائے اور ( پھر) ہم اپنے رب کی آیتوں کی تکذیب نہیں کریں گے اور ہم مؤمنوں میں سے ہوجائیں گے بلکہ قرآن مجید کی وہ تصدیق ظاہر ہوجائے گی جس کو وہ پہلے (اپنے پیرؤں سے) چھپاتے تھے ‘ اور اگر (بالفرض) ان کو واپس (دنیا میں) بھیج دیا جائے تو یہ پھر وہی کام کریں گے جس سے ان کو منع کیا گیا ہے ‘ اور بیشک یہ ضرور جھوٹے ہیں۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 32 السجدة آیت نمبر 12