لَتُبْلَوُنَّ فِیۡۤ اَمْوٰلِکُمْ وَاَنۡفُسِکُمْ ۟ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الْکِتٰبَ مِنۡ قَبْلِکُمْ وَمِنَ الَّذِیۡنَ اَشْرَکُوۡۤا اَذًی کَثِیۡرًا ؕ وَ اِنۡ تَصْبِرُوۡا وَتَتَّقُوۡا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الۡاُمُوۡرِ ﴿۱۸۶﴾

ترجمۂ کنزالایمان: بیشک ضرور تمہاری آزمائش ہوگی تمہارے مال اور تمہاری جانوں میں اور بیشک ضرور تم اگلے کتاب والوں اور مشرکوں سے بہت کچھ برا سنو گے اور اگر تم صبر کرو اور بچتے رہو تو یہ بڑی ہمت کا کام ہے ۔

ترجمۂ کنزُالعِرفان: بیشک تمہارے مالوں اور تمہاری جانوں کے بارے میں تمہیں ضرور آزمایا جائے گا اورتم ضرور ان لوگوں سے جنہیں تم سے پہلے کتاب دی گئی اور مشرکوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنوگے اور اگر تم صبر کرتے رہو اور پرہیز گاربنو تو یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے ۔ 

{ لَتُبْلَوُنَّ: تم ضرور آزمائے جاؤ گے ۔} مسلمانوں سے خطاب فرمایا گیا کہ تم پر فرائض مقرر ہوں گے، تمہیں حقوق کی ادائیگی کرنا پڑے گی، زندگی میں کئی معاملات میں نقصان اٹھانا پڑے گا، جان ومال کے کئی معاملات میں تکلیفیں برداشت کرنا ہوں گی ، بیماریاں ، پریشانیاں اور بہت قسم کی مصیبتیں زندگی میں پیش آئیں گی، یہ سب تمہارے امتحان کیلئے ہوگا لہٰذا اس کیلئے تیار رہنا اوراللہ کریمعَزَّوَجَلَّ کی رضا اور اس کے ثواب پر نظر رکھ کر ان تمام امتحانات میں کامیاب ہوجانا کیونکہ ان امتحانات کے ذریعے ہی تو کھرے اور کھوٹے میں فرق کیا جاتا ہے، سچے اور جھوٹے میں امتیاز ظاہر ہوتا ہے۔ دینی معاملات میں مشرکوں ، یہودیوں اور عیسائیوں سے تمہیں بہت تکالیف پہنچیں گی ۔ ان معاملات میں اور زندگی کے دیگر تمام معاملات میں اگر تم صبر کرو ، اللہ عَزَّوَجَلَّسے ڈرتے رہو اور پرہیزگاری اختیار کئے رہو تو یہ تمہارے لئے نہایت بہتر رہے گا کیونکہ یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔