أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اُدۡعُوۡهُمۡ لِاٰبَآئِهِمۡ هُوَ اَقۡسَطُ عِنۡدَ اللّٰهِ‌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ تَعۡلَمُوۡۤا اٰبَآءَهُمۡ فَاِخۡوَانُكُمۡ فِى الدِّيۡنِ وَمَوَالِيۡكُمۡ‌ؕ وَ لَيۡسَ عَلَيۡكُمۡ جُنَاحٌ فِيۡمَاۤ اَخۡطَاۡ تُمۡ بِهٖۙ وَلٰكِنۡ مَّا تَعَمَّدَتۡ قُلُوۡبُكُمۡ‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ غَفُوۡرًا رَّحِيۡمًا ۞

ترجمہ:

منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کرکے پکارو ‘ یہ اللہ کے نزدیک بہت انصاف کی بات ہے ‘ پس اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم نہ ہو ‘ تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں ‘ اور اگر تم نے غلطی سے بلا ارادہ کہا ہے تو اس میں تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اگر تم نے عمداً کہا ہے ( تو اس پر گرفت ہوگی) اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربانی کرنے والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : منہ بولے بیٹوں کو ان کے حقیقی باپوں کی طرف منسوب کر کے پکارو ‘ یہ اللہ کے نزدیک بہت انصاف کی بات ہے ‘ پس اگر تمہیں ان کے حقیقی باپوں کا علم نہ ہو تو وہ دین میں تمہارے بھائی اور دوست ہیں ‘ اور اگر تم نے غلطی سے بلا ارادہ کہا ہے تو اس میں تم پر کوئی گرفت نہیں ہے لیکن اگر تم نے عمداً کہا ہے (تو اس پر گرفت ہوگی) اور اللہ بہت بخشنے والا بہت مہربان ہے۔ (الاحزاب : ٥)

اقسط ‘ خطأ اور مغفرت اور رحمت کے معانی اور ان کی وضاحت 

اقسط کا معنی ہے عدل ‘ یعنی زیادہ عدل و انصاف والی بات ‘ اور کسی شخص کا خود کو اپے بات کی طرف منسوب کرنا ‘ باپ کے غیر کی طرف منسوب کرنے سے زیادہ عدل اور انصاف والی بات ہے ‘ اس پر یہ اعتراض ہوگا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ غیر باپ کی طرف خود کو منسوب کرنا بھی انصاف کی بات ہے لیکن زیادہ انصاف کی بات یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو اصل باپ کی طرف منسوب کرے ‘ حالانکہ خود کو باپ کے غیر کی طرف منسوب کرنا منصفانہ بات نہیں ہے ‘ بلکہ ظلم اور گناہ ہے ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اسم تفضیل مجازاً صفت مشبہ کے معنی میں ہے اور یہاں زیادتی کا معنی مراد نہیں ہے بلکہ اس سے صرف عادلانہ فیصلہ مراد ہے۔

نیز فرمایا : اگر تم نے غلطی سے بلا ارادہ کہا ہے تو تم پر کوئی گرفت نہیں ہے ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ جیسے کوئی شخص کسی بزرگ آدمی ‘ یا استاذ یا اپنے مرشد کو تعظیم کے قصد سے اپنا باپ کہے اور اس کا یہ مقصد نہ ہو کہ وہ اس کے نسب اور اس کے نطفہ سے ہے ‘ یا کوئی بڑا اور بزرگ آدمی کسی بچے کو شفقت سے کہے اے بیٹے یا استاذ شاگرد کو یا پیر اپنے مرید کو شفقت سے کہے اے بیٹے ! تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ کیونکہ ان کا یہ مقصد نہیں ہوتا کہ وہ اس کو اپنا صلبی بیٹا کہہ رہے ہیں۔

اس آیت میں مغفرت اور رحمت کا بھی ذکر ہے ‘ مغفرت کا معنی ہے کسی کے جرم کو معاف کردینا اور رحمت کا معنی ہے کسی پر فضل اور احسان کرنا ‘ اللہ تعالیٰ کا مومنوں کو عذاب نہ دینا اس کی مغفرت ہے اور ان کو جنت عطا فرمانا اس کی رحمت ہے۔

خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کرنے پر وعید 

زمانہ جاہلیت میں یہ معمول تھا کہ جب کسی شخص کو ‘ کوئی لڑکا پسند آتا وہ اس کو اپنا بیٹا قرار دیتا ‘ اور اس کو اپنے مال کا وارث قرار دیتا ‘ اور لوگ اس لڑکے کو اس شخص کا بیٹا کہا کرتے تھے ‘ اسلام نے اس رواج کو منسوخ کردیا اور یہ ہدایت دی کہ ہر شخص کی نسبت اس کے اصل باپ کی طرف کی جائے اور ایسا نہ کرنے پر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سخت عذاب کی وعید فرمائی ہے :

حضرت سعد بن ابی وقاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے سنا ہے : جس شخص نے خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا حالانکہ اس کو علم تھا کہ وہ اس کا باپ نہیں ہے ‘ تو اس پر جنت حرام ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٧٦٦‘ سنن ابوداوئد رقم الحدیث : ٥١١٣‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٦١٠‘ مسند احمد رقم الحدیث : ١٥٩٦‘ عالم الکتب ‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث : ١٩٩‘ سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٥٣٣‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٢ )

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنے باپوں سے اعراض نہ کرو ‘ سو جس شخص نے اپنے باپ سے اعراض کیا تو یہ کفر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٧٦٨‘ صحیح مسلم رقم الحدیث : ٦٣ )

حضرت علی بن ابی طالب (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس شخص نے خود کو اپنے باپ کے غیر کی طرف منسوب کیا یا جس غلام نے اپنے آپ کو اپنے مولیٰ کے غیر کی طرف منسوب کیا ‘ اس پر اللہ کی ‘ فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہو ‘ قیامت کے دن اللہ اس کا کوئی فرض قبول فرمائے گا نہ نفل۔صحیح مسلم رق الحدیث : ١٣٧٠‘ سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢١٢٠‘ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٧١٢‘ مسند احمد ج ١ ص ٨١‘ سنن دار قطنی ج ٣ ص ٤١‘ مصنف ابن ابی شیبہ ج ٨ ص ٥٣٧‘ مجمع الزوائد ج ١ ص ٩٨‘ کزالعمال رقم الحدیث : ١٢٩١٦)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 33 الأحزاب آیت نمبر 5